پلوامہ کے واقعے کے پس منظر میں پاکستان اور بھارت کے مابین جنم لینے والی کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے، خطے پر جنگ کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں، اور اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ پاک فضائیہ کے طیاروں نے پاکستانی حدود میں داخل ہوکر کارروائی کے لیے آنے والے دو بھارتی جنگی جہاز مار گرائے ہیں، جن میں سے ایک کا ملبہ پاکستان کے اندر اور دوسرے کا ملبہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام میں گرا۔ ان طیاروں کے پائلٹس کے بارے میں بھارتی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا کہ ہلاک ہوگئے ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ پاک فوج کم از کم ایک، اور بعض اطلاعات کے مطابق تین پائلٹس کو گرفتار کرچکی ہے۔ اس کارروائی سے ایک روز قبل پاکستانی حدود میں گھس آنے والے طیاروں کے کسی نقصان کے بغیر صحیح سلامت واپس چلے جانے سے جنم لینے والی تشنگی اور قدرے پریشانی و مایوسی کی کیفیت کا نہ صرف ازالہ ہوگیا ہے بلکہ اس سے پوری قوم کو ایک نیا جذبہ ملا ہے جس سے عوام کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔
14 فروری کو جب پلوامہ کا واقعہ پیش آیا جس میں بھارت کے کم و بیش چوالیس فوجی ہلاک ہوگئے تو بھارت نے حسبِ معمول آئو دیکھا نہ تائو، اس کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر عائد کردی، جب کہ پاکستان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ یہ پیشکش بھی کی کہ بھارتی حکومت کے پاس اگر کوئی ثبوت ہوں تو وہ پاکستان سے ان کا تبادلہ کرے، پاکستانی حکومت پلوامہ واقعے کی تحقیقات کے ضمن میں ہر طرح کا تعاون کرے گی۔ تاہم بھارت نے اس پیشکش کا مثبت جواب دینے کے بجائے دھونس اور دھمکی کا راستہ اپنایا۔ اس کے باوجود پاکستان نے بھارتی حکمرانوں اور عالمی رائے عامہ کے اطمینان کی خاطر ایک جانب تو ’’جماعۃ الدعوۃ‘‘ اور اس کی فلاحی سرگرمیوں، اور سماجی خدمت کے لیے معروف تنظیم ’’فلاح انسانیت فائونڈیشن‘‘ پر پابندی عائد کردی اور ان تنظیموں کے تمام اثاثے اور بینک کھاتے منجمد، جب کہ ان کے دفاتر سربمہر کردیئے گئے۔ دوسری جانب بھارت کی طرف سے پلوامہ واقعے کا ذمہ دار قرار دیئے جانے والے ’’جیشِ محمد‘‘ سے منسوب بہاولپور کے مدرسے کو بھی پنجاب حکومت نے سرکاری تحویل میں لے لیا۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے ہندو رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کو بھی بھارت روانہ کیا گیا، جنہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج سمیت اہم بھارتی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں اور واپس آکر توقع ظاہر کی کہ ان کی ملاقاتوں کے مثبت اثرات چند دنوں میں سامنے آئیں گے۔
پاکستان کی جانب سے ان تمام اقدامات کا مقصد صورتِ حال کو بگڑنے سے بچانا اور کشیدگی کو کم سے کم کرنا تھا، مگر بھارت نے خیرسگالی کے جذبے کے تحت گئے ان اقدامات کو پاکستان کی کمزوری تصور کیا، اور پاکستان کے اندر سرجیکل اسٹرائیکس کی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رکھا، اور آخر پاگل پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگی جنون میں مبتلا بھارت کے جنگی جہاز پیر اور منگل کی درمیانی شب واقعی پاکستانی حدود میں گھس آئے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے بقول بھارتی طیارے تین مقامات پر پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی کوشش کرتے ہوئے ریڈار پر دکھائی دیئے، جب کہ مظفر آباد کرن دینی سیکٹر میں انہوں نے واقعی سرحد عبور کی، جسے پہلے سے فضا میں موجود پاکستانی ایئر ڈیفنس پیٹرولنگ مشن کے طیاروں نے بروقت چیلنج کیا، جس پر بھارتی لڑاکا طیارے کنٹرول لائن کے قریب بالاکوٹ کے علاقے حبہ میں اپنا گولہ بارود اور فاضل ایندھن وغیرہ گرا کر واپس فرار ہوگئے۔ اس ناکام کارروائی پر بھارت اور اُس کے ذرائع ابلاغ نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ گویا انہوں نے بہت بڑا معرکہ سر کرلیا ہے۔
جب کہ دوسری جانب پاکستان میں بھی بھارت کی اس کارروائی اور بخیر و عافیت بھارتی جنگی طیاروں کے واپس چلے جانے سے یقیناً اضطراب کی کیفیت نے جنم لیا… تاہم یہ کیفیت الحمدللہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکی… بھارتی طیارے اگلے روز ایسی ہی کسی کارروائی کے لیے پھر سے پاکستانی فضا میں آن پہنچے۔ مگر پاکستانی فضائیہ گزشتہ روز کی صورتِ حال کا ازالہ کرنے کے لیے پہلے سے ہوشیار اور تیار تھی، چنانچہ موقع اور وقت ضائع کیے بغیر پاک فضائیہ کے شاہین دشمن پر جھپٹے اور ایک طیارے کو آزاد کشمیر کے گائوں ’بوڑھا‘ میں دبوچ لیا، جب کہ دوسرا مقبوضہ کشمیر کے علاقے بڈگام میں اپنے انجام کو پہنچا۔ اس پوری کارروائی کا سب سے حوصلہ افزا پہلو یہ تھا کہ بھارتی ہواباز زندہ گرفتار کرلیا گیا تھا، جس کے بعد بھارت کے لیے اپنے طیاروں کی تباہی کا اعتراف کرنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا تھا، چنانچہ بھارتی فوجی ترجمان نے یہ اعتراف کرلیا، تاہم اس ضمن میں اٹھنے والے بہت سے بنیادی سوالات کے جواب دینے سے صاف انکار کردیا۔
پاک فوج کی طرف سے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیئے جانے، بھارتی جنگی طیارے زمین بوس کیے جانے، اور بھارتی پائلٹ کی زندہ گرفتاری سے پوری قوم کے جذبات کو تسکین اور ایک عزم و حوصلہ ملا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ امر بھی نہایت اطمینان بخش ہے کہ پوری قوم اپنے تمام سیاسی، علاقائی اور لسانی اختلافات بھلا کر پوری یکجہتی اور یکسوئی کے ساتھ اپنی مسلح افواج کی پشت پر کھڑی ہوگئی ہے، اورملک کے گوشے گوشے میں ’’جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ کی خوش کن کیفیت ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے دفاعِ وطن کی خاطر یک جان ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ حزبِ اختلاف کی تجویز پر حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا ہے، جب کہ سندھ، پنجاب اور صوبہ خیبر کی صوبائی اسمبلیوں نے اتفاقِ رائے سے بھارتی جارحیت کے خلاف قراردادیں منظور کی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں حکمران جماعت کے سابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں بھارتی طیاروں کی پاکستانی حدود میں مداخلت اور جارحیت کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس یک طرفہ اشتعال انگیزی کا مؤثر جواب دینے اور تمام متعلقہ بین الاقوامی اداروں میں اس معاملے کو اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔
جیسا کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو پاک فضائیہ کی بروقت، بھرپور، مؤثر اور کامیاب کارروائی کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو اس کو کنٹرول کرنا میرے بس میں ہوگا اور نہ مودی کے بس میں، اس لیے عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکا جائے اور اسے کسی بھی صورت جنگ کی شکل اختیار کرنے نہ دی جائے۔ جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں، مگر جب ایک فریق کی جانب سے اسے زبردستی مسلط کردیا جائے تو دوسرا فریق جواب دینے پر مجبور ہوتا ہے، جیسا کہ بھارتی طیاروں کی دراندازی پر دو بھارتی جنگی طیاروں کی تباہی کی صورت میں نتیجہ سامنے آیا ہے، بہتر ہوگا کہ بھارت کے حکمران اپنے انتخابی مقاصد کی خاطر اپنی پوری قوم کو جنگی جنون میں مبتلا کرنے سے گریز کا راستہ اپنائیں اور پورے خطے کو جنگ کی تباہی کی لپیٹ میں آنے سے بچائیں… ورنہ اگر ایک بار جنگ شروع ہوگئی تو اسے محدود رکھنا اور اس کے نتیجے میں تباہی و بربادی کی حدیں متعین کرنا ممکن نہیں رہے گا… امید کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں عالمی طاقتیں اور دوست ممالک بھی دو جوہری قوتوں کے مابین جنگ کی ہولناکیوں کا احساس کرتے ہوئے اپنا مؤثر کردار ادا کرنے میں کسی تساہل سے کام نہیں لیں گے، کہ اُن کے اپنے مادی مفادات اور سرمایہ کاری بھی دونوں ممالک میں تصادم کی صورت میں محفوظ نہیں رہے گی…!!!