بھارت نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی اور پاکستانی حدود میں آکر حملہ کرکے جارحیت کی پہل کردی ہے۔ یہ سب خلافِ توقع نہیں تھا، کیونکہ مودی کے عزائم بتارہے تھے کہ وہ کچھ نہ کچھ کرکے ماحول میں مزید کشیدگی پیدا کریں گے تاکہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھا سکیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس وقت جنگی جارحیت کون کررہا ہے اور اس کے پیچھے کس کے کیا مقاصد ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان آگے بڑھ کر بھارت کو مسلسل تعلقات کی بہتری کی پیش کش کررہا ہے مگر اس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آرہے۔ پاکستان نے حالیہ حملے میں بھی فہم وفراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر کا دامن پکڑا ہوا ہے اور کوشش کررہا ہے کہ وہ دوٹوک مؤقف اختیار کرے، اور اگر بھارت اپنی جارحیت سے باز نہیں آتا تو اس کا جواب بھی دیا جائے، لیکن پہلی کوشش یہی ہے کہ سفارتی محاذ پر کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ بھارت کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ وہ جو کھیل کھیل رہا ہے اگر یہ بگڑ گیا تو اس کو سنبھالنا ناممکن ہوجائے گا۔
اگرچہ بھارت کا جنگی جنون ماضی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے، مگر بی جے پی اور بالخصوص نریندر مودی کی سیاست صرف اور صرف پاکستان اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ پلوامہ کے واقعے کے بعد فوری طور پر بھارت اور مودی حکومت کے شدت پسندی پر مبنی رویّے نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں پہلے سے موجود فاصلوں کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی مجموعی سیاست اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کرکے کچھ سیاسی فوائد حاصل کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جان بوجھ کر ماحول کو کشیدہ بنایا جارہا ہے اوراس میں بھارت کے وہ تمام انتہا پسند عناصر شامل ہیں جو پاکستان اور مسلم دشمنی کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
بنیادی طور پر بھارت اور مودی حکومت کو پاکستان کے تناظر میں چار بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
اوّل: حالیہ برسوں میں مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتِ حال اور بالخصوص انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں نے بھارت کی کشمیر پالیسی پر بنیادی نوعیت کے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ یو این او کی 2018ء رپورٹ برائے کشمیر اور انسانی حقوق کی پاسداری نے بھارتی چہرے کو بری طرح مسخ کیا ہے۔ اسی طرح یورپی پارلیمنٹ کے 19فروری کو ہونے والے اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا سوال شدت سے اٹھایا گیا ہے۔ مودی کے حالیہ دورۂ کشمیر میں وہاں اُن کیخلاف ہونے والے مظاہرے بھی صورتِ حال کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت حالیہ بحران پیدا کرکے اصل صورتِ حال سے سب کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔
دوئم: حالیہ مہینوں میں پانچ ریاستوں کے انتخابات میں مودی سرکار کی بدترین شکست نے مودی کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان دشمنی اور مسلم دشمنی کو بنیاد بناکر ووٹروں پر سیاسی طور پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں تاکہ مطلوبہ نتائج مل سکیں۔
سوئم: پاکستان اپنی معاشی صورتِ حال میں بہتری پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے جبکہ بھارت پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے ایجنڈے کو اہمیت دے رہا ہے ۔سعودی ولی عہد کے دورۂ پاکستان سے قبل پلوامہ کے واقعے کو بنیاد بناکر اس دورے کو ناکام بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔
چہارم: افغانستان کے بحران کے حل کیلیے ہونے والی پیش رفت میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار اور علاقائی سطح پر اس کی اہمیت میں اضافے نے بھی بھارت کو جھنجھوڑا ہے، کیونکہ بھارت نے افغان انٹیلی جنس ایجنسی کی مدد سے پاکستان کو عملی طور پر عدم استحکام سے دوچار کیا ہوا ہے اور وہ اس کھیل کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔
پلوامہ واقعے کے بعد جو صورتِ حال بن رہی ہے وہ پاکستان کے تناظر میں غیر متوقع نہیں۔ اگرچہ پلوامہ واقعے سے قبل بھی عملی طور پر دونوں ملکوں میں مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار اور بداعتمادی موجود تھی، لیکن اب حالیہ صورتِ حال نے بداعتمادی کی اس کیفیت کو مزید پختہ کردیا ہے۔ بھارت کی موجودہ قیادت ہندوتوا کی سخت گیر سیاست کرنے والے افراد اورجماعتوں سمیت میڈیا پر جنگی جنون پیدا کرکے یہ ثابت کرنا چاہ رہی ہے کہ بھارت کا حالیہ بحران پاکستان کا پیدا کردہ ہے۔ یہ آوازیں کہ ہم اسلا م آباد کو سیاسی طور پر تنہا کردیں گے، ختم کردیں گے، سبق سکھا دیں گے، اوقات یاد دلادیں گے، یا اب کوئی رعایت نہیں ہوگی، اور فوج کو حکم دے دیا گیا ہے کہ شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے… بھارتی حکومت کی شدت پسندی کا عملی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے مختلف شہروں میں جنونی ہندو، کشمیری اور مسلمان افراد یا خاندانوں کے خلاف سڑکوں پر آگئے ہیں اور ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھارت کے میڈیا میں تو جیسے جنگ کا سماں ہے، اور ایک خاص شدت پسندی کو ابھار کر نفرت اور لاشوں کی سیاست کو طاقت دی جارہی ہے۔
یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب سعودی ولی عہد کا دورۂ پاکستان ہو، معاشی بحران سے نمٹنے اور علاقائی صورتِ حال خاص طور پر افغان حل میں پیش رفت ہو تو پاکستان پلوامہ کا واقعہ کیوں پلان کرے گا! پاکستان کی سیاسی اور بالخصوص عسکری قیادت بار بار یہ پیغام بھارت کو دینے کی کوشش کررہے تھی کہ سفارتی اورڈپلومیسی کے محاذ پر ہم بھارت سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے انتخاب جیتنے کے بعد فوری طو رپر بھارت کو پیغام دیا کہ اگر وہ تعلقات کی بہتری میں ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے، اور پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری کھولنا تعلقات کی بہتری کی عکاسی کرتا ہے۔جبکہ اس کے برعکس بھارت کا مجموعی رویہ پاکستان مخالفت پر مبنی ہے اور موجود تعطل بھی بھارت ہی کا پیدا کردہ ہے۔
بھارت کی مجموعی قیادت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کشمیر کی حالیہ صورتِ حال کا بہتر طور پر ادراک کرنے، یا اس کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ طاقت کے نشے میں سرشار ہے لیکن مقبوضہ کشمیر عملی طور پر بدلا ہوا ہے اور وہ لوگ بھی جو کل تک بھار ت کے مؤقف کے حامی تھے اب برملا کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کی حالیہ صورتِ حال نے بھارت کو داخلی محاذ پر تنہا کردیا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بھارت کے حالیہ بحران کے پیچھے اس کی انتخابی سیاست بھی ہے۔
بھارت کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ پاکستان کی امن کی کوششوں کو قبول کرنے کے بجائے جنگی جنون میں مبتلا رہے گاتو اس کا نقصان محض پاکستان کو ہی نہیں ہوگا بلکہ خود بھارت کی داخلی سیاست بھی کمزوری کا شکار بن سکتی ہے۔ اس لیے بھارت کو سوچنا ہوگا کہ اس طرز کا جارحانہ رویہ اس کے مفاد میں نہیں ہوگا۔