ذرائع ابلاغ کا مالیاتی “بحران”۔

پاکستانی میڈیا ملکی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ میڈیا پر بُرا وقت ہر دور میں آتا رہا ہے، لیکن اِس بار اِس بُرے وقت کا دورانیہ بھی طویل ہے اور اس کے مضمرات بھی شدید ہیں۔ یہ بحران اگرچہ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد شروع ہوا جو تاحال جاری ہے، لیکن حقیقت میں اس تباہی کی بنیاد پچھلے کئی ادوار میں رکھ دی گئی تھی، اور ہر دور میں مسئلے کو حل کرنے کے بجائے وقت گزاری سے کام لیا گیا۔ موجودہ بحران کا آغاز سپریم کورٹ کے اس حکم سے ہوا کہ سرکاری ترقیاتی اشتہارات میں حکمرانوں کی تصاویر اور اُن کی شخصی تشہیر کا سلسلہ بند کیا جائے۔ سپریم کورٹ اور دیگر کورٹس کے اس طرح کے فیصلے نوازشریف کے آخری دور میں آئے تھے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکمرانوں نے ترقیاتی اشتہارات ہی کم کردیے، کیونکہ اس سے قبل وہ ان اشتہارات کو اپنی تشہیر کے لیے لیور کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ جب اشتہارات میں کمی آئی تو اخبارات اور چینلز نے حکمرانوں کی پبلسٹی بھی اسی تناسب سے کردی۔ یہ سلسلہ انتخابات تک جاری رہا۔ تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو اس کا بیانیہ یہی تھا کہ حکمران اپنی ذاتی تشہیر کے لیے سرکاری وسائل استعمال کرتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں سے اُن کے بیانیہ کو تقویت ملی۔ پھر بعض میڈیا گروپس کے ساتھ تحریک انصاف کی پہلے سے لڑائی چل رہی تھی۔ چنانچہ ہر حکومت کی طرح انہوں نے بھی اخبارات اور چینلز کے سابقہ واجبات ادا کرنے سے گریز شروع کردیا۔ یہ کام ہر حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد کرتی ہے۔ نواز حکومت نے بھی پیپلز پارٹی کے دور کے اشتہارات کی ادائیگی روک دی تھی، اور لاہور میں اے پی این ایس کی ایک تقریب میں وزیر اطلاعات پرویز رشید نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان میں سے بیشتر اشتہارات تو نشر یا شائع ہی نہیں ہوئے، جو نشر ہوئے اُن میں گھپلے ہیں جن کے آڈٹ کی ضرورت ہے۔ اُس وقت اِن واجبات کا حجم 4 ارب روپے تھا۔ تاہم انہوں نے ہمدردانہ غور کی یقین دہانی کرائی اور بعد میں مالکانِ اخبارات اور چینلز کے دبائو پر کسی آڈٹ کے بغیر یہ ادائیگی کر بھی دی۔ اِس بار بھی حکومت نے پہلے دبائو بڑھایا اور پھر کچھ ادائیگی بھی کردی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق حکومت نے اشتہارات کے نرخ بھی بڑھا دیے ہیں۔ تحریک انصاف کی نئی حکومت چونکہ ایک بیانیہ کو لے کر چل رہی تھی، اوپر سے ملکی معیشت کا حال بھی پتلا تھا اس لیے حکومت نے نئے سرکاری اشتہارات میں بھی بہت زیادہ کمی کردی، اور سرکاری اشتہارات کے نرخ بھی کم کردیے (زیادہ تر ٹی وی چینلز میں ایسا ہوا)۔ واویلا ہوا تو وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت اخبارات اور چینلز کو چلانے کے لیے اشتہارات کیوں دے؟ میڈیا اپنا ماڈل تبدیل کرے اور حکومتی اشتہارات پر انحصار کرنے کے بجائے مارکیٹ سے اشتہارات لے اور اپنی آزادی کو مشروط (اشتہارات سے) کرنے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ مالکانِ اخبارات کی تنظیم اے پی این ایس اور چینلز مالکان کی تنظیم پی بی اے نے اس پر احتجاج کیا، دبائو ڈالا، لیکن حکومت اپنے مؤقف پر جمی رہی۔ چنانچہ مالکان نے پہلے اپنے اداروں میں چھانٹیاں شروع کیں۔ حکومت مزید خاموش رہی تو انہوں نے بعض اخبارات اور چینل بند کردیے۔ پھر مزید چھانٹیاں کیں اور آخر میں رہ جانے والے اسٹاف کی تنخواہوں میں کٹوتیوں کا آغاز کردیا۔ تنخواہیں پہلے ہی تاخیر سے ادا کی جارہی تھیں، پھر اس تاخیر میں مزید اضافہ کردیا، لیکن جب سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے تحت کارروائی کی تو مالکان کو مجبوراً کارکنوں کی تنخواہیں ادا کرنا پڑیں۔ اس مالی دبائو میں انہوں نے مشتعل ہوکر مزید چھانٹیاں شروع کردیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جنگ، نوائے وقت، دنیا اور ڈان جیسے مستحکم میڈیا گروپس نے کٹوتیاں، چھانٹیاں کیں اور اپنے اپنے گروپ کے بعض اخبارات اور چینل بھی بند کردیے۔ اس کا وہی اثر ہوا جو ہونا تھا۔ کارکنان سڑکوں پر آگئے، کچھ گالیاں مالکان کو دیں، زیادہ حکومت کے حصے میں آئیں، کئی وزرا کا پریس کلبوں میں داخلہ بند کردیا گیا۔ مالکان نے اپنے ایجنٹ صحافیوں اور کارکنوں کی صفوں میں داخل کردیے، انہوں نے تحریک کا رُخ مالکان سے موڑ کر حکومت کی طرف کردیا۔ جبکہ سمجھدار صحافی اور کارکن حکومت اور مالکان دونوں کو اس بحران میں برابر کا ذمہ دار سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں۔ اس وقت میڈیا معاشی بدحالی کا شکار ہے، اُس کی آمدنی کے ذرائع محدود ہورہے ہیں، میڈیا کارکنوں کا معاشی قتل ہورہا ہے، صحافی اور کارکن مل کر حکومت اور مالکان کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، لیکن اندرونِ خانہ مالکان اور حکومت کا گٹھ جوڑ ہوتا نظر آرہا ہے۔ دوسری جانب صحافی اور میڈیا کارکن منتشر ہیں، اُن کی صفوں میں اتحاد نہیں، اور متفق علیہ قیادت انہیں میسر ہے نہ اُن کا وہ سیاسی اور اخلاقی وزن ہے کہ حکومت اور مالکان انہیں آن بورڈ لیں۔ اس صورتِ حال میں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل کا اجلاس 22، 23 اور 24 فروری کو رحیم یار خان میں منعقد ہوا۔ کسی چھوٹے شہر اور میڈیا مرکز کا اسٹیٹس نہ رکھنے والے شہروں میں ایف ای سی کے اجلاس کی نظیریں بہت کم ملتی ہیں۔ لیکن رحیم یار خان کے صحافی دوستوں کا ایک عرصے سے اصرار تھا۔ چنانچہ صحافیوں کی مرکزی قیادت نے انہیں یہ موقع فراہم کردیا، اور مقامی دوستوں نے بھی اس کا حق ادا کردیا۔ ملک بھر سے آنے والے صحافی نمائندوں کے لیے اس شہر کے صحافیوں نے رہائش، خوراک، استقبالیوں اور ملاقاتوں کا بہترین پروگرام تشکیل دیا۔ ہر شہر سے آنے والے وفد کو اسٹیشن، ائرپورٹ اور بس اڈے سے ریسیو کرکے ہوٹل اور ریسٹ ہائوس پہنچانے کا بندوبست تھا، جہاں اُن کے آرام کا تمام سہولتوں کے ساتھ اہتمام کیا گیا تھا۔ رحیم یار خان یونین آف جرنلسٹس دستور کے صدر جاوید عباس چودھری نے اپنے ساتھیوں ڈاکٹر ممتاز مونس، جاوید اقبال، عمران مقصود جام، ایم ڈی گانگا اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر بہت بھرپور پروگرام بنایا ہوا تھا۔ ملک بھر کے بیشتر حصوں سے صحافی جمعہ 22 فروری کی صبح ہی رحیم یار خان پہنچ چکے تھے، جن کے اعزاز میں نمازِ جمعہ کے بعد پریس کلب رحیم یار خان کی جانب سے ظہرانے کا اہتمام تھا، جہاں مقامی صحافی اپنے ہم پیشہ بھائیوں کے ساتھ ملے اور اُن کے معاملات اور مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ بعد نمازِ مغرب ایف ای سی کا افتتاحی اجلاس ہوٹل فاران میں منعقد ہوا، جس کی صدارت صدر پی ایف یو جے حاجی نواز رضا نے کی۔ اس اجلاس میں راولپنڈی، اسلام آباد، آزاد کشمیر، فیصل آباد، لاہور (پی یو جے)، بہاولپور، ملتان، حیدرآباد، ٹنڈو جام، کراچی، ہزارہ، سرگودھا کے صحافی نمائندوں اور میزبان یونین کے عہدیداروں اور صحافیوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں مختلف علاقوں نے اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کی، جبکہ ایف ای سی کے سابقہ اجلاس منعقدہ اسلام آباد کی کارروائی کی کونسل نے توثیق بھی کی۔ رات کو انجمن تاجران رحیم یار خان کی جانب سے ایک فیکٹری کے خوبصورت اور سرسبز لان میں عشائیہ کا اہتمام تھا، جہاں تاجر رہنمائوں نے ملکی معیشت میں رحیم یار خان کے حصے، یہاں کے پُرامن ماحول اور تجارتی و علمی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ رحیم یار خان میں تقسیم ہند سے قبل کی یونی لیور ملٹی نیشنل کمپنی موجود ہے جو یہاں ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔ یہاں سیکڑوں جننگ فیکٹریاں، پانچ بڑی شوگر ملز، درجنوں دیگر فیکٹریاں موجود ہیں۔ اردگرد کے علاقوں کے لیے یہ بڑی منڈی ہے، ترقی کا عمل بھی ٹھیک ہے، لیکن چونکہ چنی گوٹھ سے شروع ہوکر کوٹ سبزل تک پھیلا ہوا یہ پنجاب کا چوتھا بڑا حصہ آج کل پانی کی قلت کا شکار ہے، ٹیل پر ہونے کی وجہ سے یہاں کے کاشت کاروں کو اپنے حصے کا پانی نہیں مل رہا جس کی وجہ سے یہاں کپاس اور گنے کی فصل متاثر ہورہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رحیم یار خان کا گنا چینی بنانے کے لیے سب سے اچھا گنا ہے۔ عشائیہ کے بعد فاران ہوٹل میں ایف ای سی کا دوسرا اجلاس شروع ہوا، جس میں باقی صحافی نمائندوں نے اپنے اپنے علاقوں کی کارکردگی رپورٹ پیش کی اور مسائل سے آگاہ کیا۔ رات کے اجلاس میں پی یو جے کے صدر رحمان بھٹہ اور راولپنڈی اسلام آباد یونین کے صدر مظہر اقبال نے صحافیوں کو درپیش مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ تاہم سیکریٹری جنرل سہیل افضل نے بتایا کہ اگلے دن کے اجلاس کا واحد ایجنڈا موجودہ میڈیا کرائسز اور اس پر تجاویز ہی ہیں۔ چنانچہ رات گئے یہ اجلاس ختم کرکے شرکاء آرام کے لیے چلے گئے۔
اگلے روز صبح جماعت اسلامی کی جانب سے ہوٹل ہی میں ناشتے کا اہتمام تھا، جہاں ضلعی امیر جماعت ڈاکٹر انوارالحق نے اپنی ٹیم کے ہمراہ جماعت اسلامی کی دعوت اور خدمت پر بریفنگ دی۔ ناشتے کے بعد ایف ای سی کا تیسرا اجلاس شروع ہوا، جس میں صحافی رہنمائوں حاجی نواز رضا، سہیل افضل، خواجہ فرخ سید، جاوید عباس چودھری، ڈاکٹر ممتاز مونس، ارمان صابر، سیکریٹری کراچی پریس کلب اور دیگر رہنمائوں نے حالیہ بحران پر تفصیل سے اظہار خیال کیا اور اس کے حل کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کیں۔ اس موقع پر شرکاء نے اس بحران کی ذمہ داری مالکان اور حکومت پر یکساں طور پر ڈالی اور دیگر صحافی تنظیموں کو ساتھ لے کر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کا عزم کیا۔ اجلاس کے بعد شرکاء بھونگ کی تاریخی مسجد دیکھنے گئے جہاں ہمارے میزبان پیپلز پارٹی کے رہنما رئیس منیر اور رئیس نبیل ایک انتہائی مجبوری کے باعث موجود نہیں تھے، تاہم اُن کی نمائندگی مسلم لیگ کی رہنما اور ممبر ضلع کونسل خالدہ پروین اور تحریک انصاف ویمن ونگ کی ضلعی صدر نے کی، جس سے اندازہ ہوا کہ اس شہر میں سیاسی رواداری بہترین شکل میں موجود ہے۔ یہاں سے واپسی پر شرکاء نے ’زیتون کا پاکستان‘ کے نعرے کے تحت کام کرنے والے سماجی کارکن میاں شریف ارشد کے عصرانہ میں شرکت کی اور وہاں زیتون کے پودے لگائے۔ طویل سفر اور تھکان کے باعث رات کا اجلاس نہ ہوسکا۔
اتوار کی صبح اور اجلاس کے آخری دن شیخ زید اسپتال میں برنچ تھا جہاں ایم ایس اور شیخ زید میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر مبارک علی چودھری نے بتایا کہ ضلع کے اس واحد اسپتال پر مقامی مریضوں کے علاوہ بلوچستان اور ڈیرہ غازی خان کے مریضوں کا بھی رش ہے۔ محدود وسائل کے باوجود ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں۔ یہاں مریضوں کے لیے مفت ادویہ کے علاوہ مفت ڈائیلائسز کی سہولت بھی موجود ہے۔ یہاں مہمانوں کو میڈیکل کالج کی جانب سے وسیب اجرک اور مقامی ٹوپیوں کا تحفہ دیا گیا۔ جبکہ رحیم یار خان یونین آف جرنلسٹس نے مہمانوں کو ایک خوبصورت سفری بیگ انتہائی محبت کے ساتھ پیش کیا۔ ایف ای سی کا آخری اجلاس میڈیکل کالج کے آڈیٹوریم ہی میں ہوا، جہاں قرارداد کمیٹی کے چیئرمین اور وفاقی یونین کے سینئر نائب صدر افسر عمران کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے مختلف قراردادیں پیش کیں، جنہیں شرکاء نے ترمیم و اضافے کے ساتھ منظور کرلیا۔ اس مسئلے پر یونین کے انتہائی سینئر رہنما میاں منیر احمد کا تیار کردہ مشترکہ اعلامیہ بھی شرکاء نے منظور کیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں میڈیا بحران کے خاتمے کے لیے جدوجہد جاری رکھنے، مالکان اور حکومت پر دبائو بڑھانے، اور مذاکرات کے راستے کھلے رکھنے کے علاوہ صحافی یونینوں میں اتحاد کی ہر کوشش کا خیرمقدم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اپنے اختتامی خطاب میں صدر پی ایف یو جے حاجی نواز رضا نے مہمان یونین کا بہترین انتظامات کرنے اور اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل محمد شعیب کا اجلاس کے دوران بہترین خدمات انجام دینے پر شکریہ ادا کیا، جس کے ساتھ ہی اجلاس اس اعلان کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ ایف ای سی کا اگلا اجلاس ان شاء اللہ جون میں آزاد کشمیر میں ہوگا، جبکہ دو سالہ مندوبین کا اجلاس ستمبر/ اکتوبر میں کراچی میں ہوگا جس میں اگلے دو سال کے لیے مرکزی عہدیداران کا چنائو کیا جائے گا۔