محمد اسعد الدین
چلیے…… مسئلے کو سمجھنے، الجھن کو حل کرنے کے لیے بات اس مثال سے شروع کرتے ہیں:
مسافر اسٹاپ پر کھڑے ہیں۔ منزل کا معلوم ہے، گاڑی کا لیکن کوئی پتا نہیں۔ خاصے انتظار کے بعد سواریوں سے لدی پھندی مسافر بس آتی ہے۔ ایک شور سا بلند ہوا۔ اسٹاپ پر کھڑے ہوئے لوگ بس کی طرف لپکے۔ کچھ جیسے تیسے بس میں سوار ہوئے، باقی پیچھے رہ گئے۔ بس میں گنجائش پہلے ہی کم تھی، اب تو بالکل نہیں، اور عالم یہ کہ سانس لینا دوبھر… ایسے میں کنڈیکٹر کمالِ مہارت سے سب کو ٹھونس ٹھانس کر دیوار کی طرح ترتیب دیتا ہے۔ کچھ بخوشی، اور کچھ مریل سے احتجاج کے بعد کنڈیکٹر کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔ بس چلی، اب ذرا ہوا کا گزر ہوا، دم میں دم آیا، مسافروں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ چلو کچھ گنجائش تو ہوئی اور ’’ایڈجسٹ‘‘ ہوگئے… اگر یہ مشقت، دھکم پیل برداشت نہ کرتے تو ابھی تک اسٹاپ پر ہی کھڑے رہتے۔
یہ ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟ محض ایک لفظ یا کچھ اور…؟ زندگی کے کسی موڑ پر، صبح و شام کے الٹ پھیر میں کسی موقع پر صورتِ حال توقع کے الٹ ہو… حالات سوچ و مزاج کے خلاف ہوں، اصول کچھ ہو اور تقاضا کچھ اور ’’ایڈجسٹ‘‘ ہونے، ایڈجسٹ کرنے کا ذکر بار بار سننے کو ملتا ہے۔ ایسے میں سوچے سمجھے اصول، ضابطے، قاعدے، قرینے کو مصلحت کی کسی دیوار سے لگاکر اٹھایا گیا قدم، فیصلہ ’’ایڈجسٹمنٹ‘‘ ہے۔ یہ ایک عارضی انتظام اور وقتی حکمت عملی کا دوسرا نام ہے۔ کہنے کو تو یہ کام چلانے کا ایک ہنگامی طریقہ کار ہے، لیکن سیاست کے میدان میں ایڈجسٹمنٹ نے وہ گل کھلائے کہ کیا کہنے۔ کل کے دشمن آج کے دوست بن گئے، ماضی کے حریف لمحۂ موجود میں حلیف۔ گزرے وقتوں میں مخالفین کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے والے ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ایک دوسرے کے لیے دامن اور پلکیں بچھانے لگے۔ اس کے بعد کوئی اصول، اصول نہیں رہا۔ کوئی قاعدہ، کوئی ضابطہ، قرینہ، روایات کچھ سلامت نہ رہا۔ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر قدم قدم پر سمجھوتے ہوتے ہوئے آنکھیں دیکھتی رہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو زیادہ دور نہیں صرف 2018ء میں ہونے والے انتخابات سے قبل سیاسی لیڈروں، پارٹی رہنمائوں کے بیانات اٹھائیے، پڑھیے اور پھر انتخابات کے کچھ عرصے بعد انہی لیڈروں کی وضاحتیں، دلائل سن لیجیے اور سر دھنیے۔ پہلے مخالفین کو لٹکانے کی باتیں، سڑکوں پر گھسیٹنے کے چرچے، جیل میں سڑانے کے قصے، خودکشی کے وعدے اور پھر… جن پتوں پہ تکیہ تھا وہی ہوا دینے لگے۔ ایڈجسٹمنٹ کی تکنیک نے شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر آرام سے رہنے کا سلیقہ سکھا دیا۔ ایک دوسرے کے ساتھ گزارہ کرنے کے آداب بتادیے۔
سیاست کی حد تک تو یہ باتیں سمجھ میں آتی ہیں کہ حکومت، سیاست کی دکان چلانے کے لیے دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھنے پڑتے ہیں۔ لیکن ایک سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ ایڈجسٹمنٹ کا عام آدمی اور روزمرہ زندگی سے کیا واسطہ، کیا لینا دینا؟ کہاوت ہے اور معمول کا مشاہدہ بھی کہ پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف گرتا ہے۔ مچھلی سر کی جانب سے سڑنا شروع ہوتی ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کا پورا جسم متاثر ہوتا ہے۔ حقیقت ہے کہ یہ مثالیں محاوروں کی حد تک نہیں بلکہ صبح و شام کی مصروفیات، چھوٹی سے چھوٹی سرگرمی، بڑے سے بڑے اقدامات میں صاف کارفرما نظر آتی ہیں۔ یہ انداز پوری آب و تاب کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے، ہر مرحلے میں دکھائی دیتا ہے۔ سوسائٹی کا عام فرد جب اپنے سے اوپر والوں کو، پارلیمنٹ میں سیاست دانوں کو، معاشرے کے سدھار کے دعویدار علما کو، زندگیاں سنوارنے والے استاد کو، مسجد کے امام سمیت اثرانداز ہونے والے دیگر افراد کو اوروں کے لیے ڈٹنے، جمنے، سینہ تان کر ’قدم بڑھائو… ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ کی باتیں کرتا اور مشورہ دیتا ہوا، اور اپنے ذاتی معاملے میں قدم قدم پر ایڈجسٹمنٹ، مفاہمت، اعتدال کا راستہ، رخصت تلاش کرتا ہوا دیکھتا ہے تو ایک بات مضبوطی سے گرہ میں باندھ لیتا ہے کہ مشورہ اور نصیحت وہی اچھی جو دوسروں کو کی جائے، جب اپنے اوپر آئے تو… ایڈجسٹمنٹ سب سے سازگار حکمت عملی ہے۔
ذرا اردگرد دیکھیے، کاغذ قلم اٹھایئے، چھوٹے بڑے، اہم، غیر اہم کی بحث کو فی الحال رہنے دیجیے اور سرسری نگاہ میں آنے والے مسائل کی فہرست بنانا شروع کیجیے… پانی کا مسئلہ، سیوریج، صفائی کا مسئلہ، مہنگائی کی مصیبت، ڈھنگ کی تعلیم کی کمی کا رونا، ٹرانسپورٹ کی قلت کے دکھڑے، بے روزگاری کے نوحے، جرم میں اضافے کی ہائے ہائے، بے حیائی کے طوفان کی دہائیاں… یوں لگتا ہے کہ پیر کے انگوٹھے سے سر کے بالوں تک دائیں بائیں، آگے پیچھے بس مسائل ہی مسائل ہیں، جو جگہ جگہ ہونے والے تبصروں، تجزیوں کے مطابق حالات ہوں یا لوگ جینے نہیں دیتے، مرنے بھی نہیں دیتے… رکنے نہیں دیتے، چلنے بھی نہیں دیتے… رونے نہیں دیتے، ہنسنے سے بھی منع کرتے ہیں… صحت مند نہیں رہنے دیتے، بیماری برداشت کرنے بھی نہیں دیتے… کھانے نہیں دیتے، کھاتے ہوئے دیکھ بھی نہیں سکتے… صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں… ایسے میں کیا ہونا چاہیے؟ عقل کیا کہتی ہے؟ یہی کہ لوگ نکلیں اور مل کر جو جو مسائل ہیں ان کے خلاف احتجاج کریں، ایشوز حل کرنے کی بات کریں، کوشش کریں، ایک دوسرے سے بات چیت کرکے سمجھائیں کہ مسئلہ سب کا ہے۔ کشتی میں سب ہی سوار ہیں اس لیے جدوجہد بھی اکٹھے کرنا چاہیے، اسی میں خیریت ہے اور عافیت بھی۔ مگر ہوتا اس کے الٹ ہے… محلے میں پانی کا بحران پیدا ہوا تو حاجی صاحب نے اپنے گھر میں ٹینکر ڈلوالیا، قریشی صاحب نے کچھ دن اِدھر اُدھر سے کام چلانے کے بعد بورنگ کروالی، دیگر لوگوں نے بھی حسبِ استطاعت، حسبِ ضرورت کچھ نہ کچھ متبادل تلاش کرہی لیا، اور مسئلے کے ساتھ ’’ایڈجسٹمنٹ‘‘ کرلی۔ لوڈشیڈنگ نے جب جینا مشکل کیا تو خان صاحب نے الیکٹریشن بلواکر پڑوسی محلے سے جہاں لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تھی، کنکشن جوڑ لیا۔ پھر بھی بات نہیں بنی تو جنریٹر لے آئے۔ شاہ صاحب نے مسئلے کی سنگینی اور لوگوں کے رویّے کا اندازہ لگایا۔ ان کا دل راضی تھا لیکن جیب نہیں، تو نقد کے بجائے قسطوں کی سہولت سے فائدہ اٹھاکر گھر روشن اور کمرے ٹھنڈے کرنے کا انتظام کرلیا۔ باقی محلے، بستی والوں نے بھی اپنے اپنے انداز سے حالات، صورت حال کے ساتھ انڈر اسٹیڈنگ کرلی۔ ذرا اور آگے چلیے… کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر کہا جاتا ہے کہ بلدیہ کے عملے نے 6 ہزار دکانیں مسمار کرکے ہزاروں لوگوں کے روزگار کی چولیں ہلادیں۔ ان ہزاروں افراد سے وابستہ ایک لاکھ سے زائد متعلقین معاشی تنگ دستی اور فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے، لیکن اس پہلو پر بھی کسی نے غور کیا کہ 6 ہزار دکانوں کو ملیامیٹ کرنے کے خلاف مظاہرے کتنے ہوئے اور ہونے کتنے چاہیے تھے؟ اس سے بڑھ کر ان مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کتنی تھی؟ لاکھوں، ہزاروں؟ بمشکل سیکڑوں متاثرین ہی تھے جو اپنے حق کے لیے سڑکوں پر آئے۔ کسی کے منہ کا نوالہ چھین لیا جائے، اور وہ خاموش تماشائی بن کر صورت حال کا جائزہ لیتا رہے، کیا یہ ممکن ہے؟ حقیقت کچھ اور ہے، واقفانِ حال کہتے ہیں کہ آپریشن کے متاثرین کی اکثریت اس کوشش میں تھی اور ہے کہ کسی طرح حکام بالا سے وزارت، سفارت کے ذریعے کسی طرح ایڈجسٹمنٹ کی کوئی صورت نکال لی جائے۔ ایک کے بعد ایک مسئلہ… ایک کے بعد ایک رکاوٹ… ہر مشکل کا حل، ہر درد کا درماں ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں سامنے آتا گیا۔ یہ بڑوں سے سیکھا ہوا سبق، ذاتی مشاہدہ تسلی، دلاسے دلاتا رہتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم ہر مشکل، ہر الجھن، ہر رکاوٹ کو دور کرنے، مسئلہ حل کرنے کے بجائے خاموشی اور سادگی سے صورتِ حال سے ہم آہنگ ہونے کا راستہ تلاش کرلیتے ہیں؟ کسی نہ کسی طرح ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں؟
انسان اپنی سوچ، خیال کا قیدی ہے بلکہ بڑی حد تک غلام بھی ہے۔ یہ حقیقت اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان۔ انسان کا ہر ہر تصور اُس کی سوچ اور خیال کے تابع ہوتا ہے۔ زندگی کیسی ہونی چاہیے؟ گھر کہاں اور کیسا ہونا چاہیے؟ کون سی تعلیم کہاں تک حاصل کرنا اس کے لیے مفید ہے؟ لائف پارٹنر کیسا ہو؟ مختصر یہ کہ ہر مرحلے، ہر موڑ پر پہلے سے ذہن میں بنائے ہوئے ایک خاص ’’تصور‘‘ کے مطابق قدم اٹھاتا ہے، فیصلہ کرتا ہے… اور اسی سے جڑی ہوئی حقیقت جو پہلی حقیقت سے زیادہ گہری ہے کہ اُس کی سوچ، خیال اور تصور ’’اوروں کی دیکھا دیکھی‘‘ کی پوٹلی سے برآمد ہوتی ہے۔ انسان آنکھ کھولتا ہے ہوش سنبھالتا ہے اور اردگرد کے حالات، ماحول، لوگوں کے طرزِ عمل کو دیکھتا ہے اور تصور کر لیتا ہے کہ ’’شاید ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی یہ سب کچھ یوں ہی رہے گا‘‘۔ پھر بہت خاموشی اور غیر شعوری طور پر پانی جس طرف بہتا ہے خود بھی بہنا شروع کردیتا ہے۔ اسے یہ خیال ہی نہیں آتا کہ پانی کا رخ گزرے وقتوں میںکچھ لوگوں نے صورتِ حال کامقابلہ کرکے موڑا تھا جو آج اس انداز سے بہہ رہا ہے۔ یہ صبح و شام کی جو زندگی اور اس کے رنگ ڈھنگ ہیں یہ بھی کسی کے معین کیے ہوئے ہیں۔ یہ نہ پہلے ایسے تھے اور نہ آج حرفِ آخر ہیں۔ انسان ظاہر بین نگاہ سے دیکھتا ہے، عقل کا دروازہ بند کرکے سوچنے، غوروفکر کرنے کی مشقت سے دست بردار ہوجاتا ہے، اور پھر … موجودہ حال اور چال کے ساتھ ایڈجسٹ ہوجاتا ہے۔