کابل کے شور بازار کے معروف علمی و روحانی حضرات گھرانے کے صبغت اللہ مجددی 11 فروری2019ء کو 93 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِِ رحمت میں جگہ دے، خطاؤں و لغزشوں سے درگزر فرمائے۔
افغان سرکردہ جہادی رہنماؤں سے تعارف اپنے قبلہ محترم مولانا نیاز محمد درانی مرحوم کے طفیل ہوا، جنہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ مفلوک الحال افغان مہاجرین کی خدمت میں بسر کیا۔ والد محترم کے انجینئر گلبدین حکمت یار، مولوی یونس خالص، برہان الدین ربانی سمیت سبھی قائدین سے اچھے تعلقات تھے۔ محاذِ ملّی کے سربراہ پیر سید احمد گیلانی، حرکت انقلابِ اسلامی کے امیر محمد نبی محمدی، اور نجاتِ ملّی کے صبغت اللہ مجددی سے تعلق محبت اور دوستی کا تھا۔ والد کے ہمراہ مولوی محمد نبی کی دعوت میں شریک ہوا ہوں۔ پیر سید احمد گیلانی اور صبغت اللہ مجددی کو دیکھنے کا شرف اپنی رہائش گاہ پر حاصل ہوا ہے، کہ والد کی دعوت پر عشائیہ میں شریک ہوئے تھے۔
گو کہ صبغت اللہ مجددی کی جماعت چھوٹی تھی لیکن وہ افغانستان کی سیاست اور جہاد میں روسی قبضے کے خلاف نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ روسی افواج کے نکلنے کے بعد پشاور معاہدے کی رو سے مجددی مرحوم 24 اپریل 1992ء کو دو ماہ کے لیے افغانستان کے عبوری صدر بنائے گئے۔ بے اختیار قسم کے صدر تھے۔ سابق کمیونسٹ رجیم اور شمال کی قوتوں کے مکمل حصار میں تھے۔ کابل ایئرپورٹ پر ان کا طیارہ راکٹوں سے نشانہ بھی بنایا گیا۔ انہوں نے کمیونسٹ دور کے جنرلوں کو ترقیاں دیں، رشید دوستم کو جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔ انہیں اقتدار کی خواہش بہت زیادہ تھی، اس غرض کے لیے دانستہ و نادانستہ طور پر اس سازش کا حصہ بن گئے جس کا مقصد افغانستان میں خودمختار حکومت نہ بننے دینا اور بالخصوص حزبِ اسلامی کو کسی بھی صورت اقتدار سے دور رکھنا تھا۔واضح رہے کہ یہ وہی کمیونسٹ عناصرتھے جنہوں نے اپریل 1978 ء میں اقتدار پر قبضے کے بعد مجددی خاندان پر خونیں وار کیا تھا، خاندان کے معزز و بزرگ قتل کردیے گئے۔ صبغت اللہ مجددی شور بازار کے حضرات خاندان کے فرد تھے۔ یہ خاندان اپنا سلسلہ نسب خلیفہ دوئم حضرت عمرؓ بن خطاب کی نسل سے بتاتا ہے۔ اس خاندان کا افغانستان کی سیاست میں طویل عرصہ عمل دخل رہا۔ کابل کے شور بازار میں رہائش کی بنا پر انہیں شور بازار کے حضرات کہتے ہیں۔ وقت کی وہ معروف شخصیات احتراماً شاہ آغا، شیر آغا اور گل آغا کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔ شاہ آغا (فضل عمر مجددی) کے بڑے بھائی تھے۔ دوسرے نمبر پر شیر آغا (فضل محد مجددی) اور تیسرے نمبر پر گل آغا تھے۔ حکومت نے اول الذکر کو نُورالمشائخ اور ثانی الذکر کو شمس المشائخ کا خطاب دیا تھا۔ ان کے والد بھی اسی طرح کے مقام و مر تبے کی حامل شخصیت تھے۔ امیر افغانستان حبیب اللہ خان کے لغمان میں تفریح کے دوران پُراسرار قتل کے بعد شاہی خاندان میں اقتدار کے لیے تگ و دو شروع ہوئی۔ مختصر کھینچا تانی کے بعد امان اللہ خان کی امارت پر اتفاق ہوا۔ کابل کی عید گاہ مسجد میں شاہ آغا نے ایک ریشمی پگڑی قندھاری ٹوپی پر باندھ کر امان اللہ خان کی تاج پوشی کی۔ شاہ آغا اور شیر آغا 1919ء کی تیسری اینگلو افغان جنگ میں جو جنرل نادر خان کی قیادت میں لڑی گئی تھی، عملاً شریک تھے جس میں اپنی خطابت کے حوالے سے مشہور’’ بابڑہ ملا‘‘ بھی شامل تھے۔ ان علماء و عظام کی تقریروں، شرکت اوردعوت کے طفیل ہزاروں افغان انگریز کے خلاف لشکر میں شامل ہوگئے۔ یوں افغانستان فتح مند ہوا۔ شاہ آغا نے 19 نومبر 1920ء کو کابل کی جامع مسجد میں بڑے اجتماع سے خطاب میں امان اللہ خان کو مسلمانوں کا سربراہ قرار دیا کہ وہ اب مسلم دنیا میں واحد آزاد حکمران رہ گئے ہیں اور انہیں خلیفہ کی حیثیت حاصل ہے، اور کہا کہ ہر مسجد میں امان اللہ خان کے نام کا خطبہ پڑھا جانا چاہیے۔ شاہ آغا 1923ء میں انتقال کر گئے، جس کے بعد خاندان کے سربراہ شیر آغا ٹھیرے۔ امان اللہ خان کے نئے ’’نظام نامہ‘‘ کے خلاف ملک میں شور اُٹھا۔ شیر آغا اعتراض کرنے والوں میں شامل تھے، جو امان اللہ خان کی پالیسیوں سے نالاں ہوکر افغانستان چھوڑنا چاہتے تھے۔ گل آغا پابندِ سلاسل کردیے گئے۔ چناں چہ معاہدے کے تحت شیر آغا حج کی ادائیگی کے لیے چلے گئے۔ حج کرنے کے بعد افغانستان کے بجائے وہ ہندوستان چلے گئے۔ رفتہ رفتہ امان اللہ کے ہاتھوں سے اقتدار کی باگیں نکلتی گئیں۔ یوں انہیں اقتدار چھوڑ کر عافیت ڈھونڈنی پڑی۔ انہوں نے اقتدار اپنے بھائی عنایت اللہ کے حوالے کردیا۔ حضرات خاندان کے گل آغا نے جو بدستور کابل میں مقیم تھے، 4 جنوری 1929ء کو اس کی تاج پوشی کی۔ چوں کہ اس خاندان پر لرزہ طاری تھا، چناں چہ حبیب اللہ عرف بچہ سقہ نے جو راہزن کے طور پر شہرت رکھتے تھے، اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ نادر خان اپنی خودساختہ جلا وطنی ترک کرکے افغانستان پہنچ گئے، اور اپریل 1929ء میں بچہ سقہ کو اقتدار سے بے دخل کرکے چند دن بعد سرِ عام پھانسی پر لٹکایا۔ شیر آغا بھی آگئے، جنہوں نے کہا کہ بچہ سقہ افغانستان پر حکومت کرنے کا قطعی لائق نہیں، اور کہا کہ امان اللہ خان اپنے انجام کے خود ذمہ دار ہیں۔ نادر خان کی بادشاہت میں شیر آغا وزیر عدل بنائے گئے، مگر وہ عہدہ چھوڑ کر گوشہ نشین ہوگئے۔ چھوٹے بھائی گل آغا کو قاہرہ میں سفیر بناکر بھیجا گیا۔ گویا اس خاندان کا سیاسی اثررسوخ شاہ نادر خان کے دور میں رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ لمبے عرصے بعد خاندان میں صبغت اللہ مجددی سیاسی طور پر نمایاں ہوئے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد صبغت اللہ مجددی کابل پہنچ گئے اور امریکی چھتری تلے بننے والی حکومت کا حصہ بن گئے۔ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی بنے۔ مگر اس پورے منظرنامے میں وہ پس منظر میں دکھائی دیئے۔ قابض امریکہ کا ساتھ دینے پر انہیں تاریخ میں اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا جائے گا۔ الغرض صبغت اللہ مجددی کے بعد اس خاندان میں اس سطح کا سیاسی و روحانی رہنما نہیں رہا۔