جوڈو کا ایک داؤ

ایک دس سالہ لڑکے نے ایک بوڑھے جاپانی ماسٹر سے جوڈو کراٹے سیکھنے کا فیصلہ کیا، اس کے باوجود کہ اس کا بایاں بازو کار کے حادثے میں ضائع ہوچکا تھا، وہ اچھا جارہا تھالیکن یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ تین ماہ بعد بھی ماسٹر نے اسے صرف ایک ہی دائو کیوں سکھایا ہے۔ آخر اس سے نہ رہا گیا۔ اس نے ماسٹر سے کہا: ’’کیا مجھے اب نئے دائو پیچ نہیں سیکھنے چاہئیں؟‘‘
’’یہ ایک ہی دائو تم جانتے ہو اور یہ ایک ہی دائو ہے، جسے تمہیں جاننے کی ضرورت ہے۔ ‘‘ ماسٹر نے جواب دیا۔
لڑکے کو بات سمجھ میں نہیں آئی، لیکن اسے چونکہ استاد پر یقین تھا، اس نے ٹریننگ جاری رکھی۔ چند ماہ بعد ماسٹر اسے پہلے ٹورنامنٹ میں لے گیا۔ حیرت انگیز طور پر لڑکے نے پہلے دو میچ جیت لیے۔ اس پر لڑکے کو خود حیرت ہوئی، تیسرا میچ مشکل تھا، لیکن تھوڑی دیر بعد اس کا مخالف بے صبر ہوگیا۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکے نے اسے بھی ہرادیا۔ لڑکے کو میچ جیتنے پر خوشی اور حیرت ہوئی اور وہ فائنل میں پہنچ گیا۔
اس دفعہ اس کا مدمقابل قد میں بڑا، مضبوط اور زیادہ تجربہ کار تھا۔ مقابلہ شروع ہوا، لگتا تھا کہ اس کا مخالف غالب آجائے گا۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں لڑکے کو نقصان نہ پہنچے، ریفری نے میچ روک دیا۔ لڑکے کے استاد نے جھٹ سے ریفری کو کہاکہ میچ جاری رکھا جائے۔
جیسے ہی میچ دوبارہ شروع ہوا، مخالف نے ایک سنگین غلطی کی۔ وہ اپنے دفاع سے غافل ہوگیا تھا۔ فوری طور پر لڑکے نے اپنا دائو استعمال کیا اور مدمقابل کو چت گرا دیا۔ لڑکا میچ اور ٹورنامنٹ جیت کر چیمپئن بن چکا تھا۔ واپسی پر لڑکے اور استاد نے ہر میچ کا ہر پہلو سے جائزہ لیا۔ لڑکے نے حوصلہ کرکے استاد سے پوچھا: ’’ماسٹر، میں نے صرف ایک دائو سے سارے میچ کیسے جیت لیے؟‘‘
’’تم نے دو وجوہات کی بنا پر ٹورنامنٹ جیتا‘‘ ماسٹر نے بتایا: ’’پہلی وجہ یہ تھی کہ تم نے سب سے خطرناک دائو پر مہارت حاصل کرلی تھی، اور دوسری وجہ اس دائو کے خلاف تمہارے مخالف کا دفاع یہ تھا کہ تمہارے بائیں بازو کو پکڑنے کی کوشش کرے‘‘۔ لڑکے کی سب سے بڑی کمزوری اس کی سب سے بڑی طاقت بن گئی تھی۔ (بشکریہ: اقدار ملت)

محاسنِ اخلاق

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب دس ہزار کا لشکرِ جرار لے کر8ھ میں ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپؐ کی تواضع و خاکساری کا یہ عالم تھا کہ آپؐ نے اپنا سرِ مبارک اس قدر جھکا رکھا تھا کہ کجاوہ سے آکر لگ گیا تھا۔ (تاریخ اسلام)

حکایت

ایک گدھا اور بن مانس دونوں آپس میں بیٹھے ہوئے خدا کی ناشکری کررہے تھے۔ گدھے کو یہ شکایت تھی کہ: ’’ہائے میرے سر پر سینگ نہیں‘‘۔ اور بن مانس اس سے ناخوش تھا کہ: ’’افسوس میں دُم سے محروم ہوں‘‘۔
چھچھوندر یہ باتیں سن کر بولی: ’’چپ ہو۔ کم بختو مت کفر بکو، مجھ کو دیکھو کہ سینگ اور دُم کے علاوہ آنکھیں بھی نہیں‘‘۔
حاصل: خدا نے ہم کو جس حال میں رکھا ہے قابلِ شکر ہے۔ حریص خوش نہیں رہ سکتا۔
(’’منتخب الحکایات‘‘۔نذیر احمد دہلوی)

قومی زبان کی اہمیت

جب 1949ء میں مائوزے تنگ کی قیادت میں انقلاب آیا تو غیر ملکی سامراجی اثرات کے حامل تمام تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔ اُس زمانے میں اشتمالی دنیا میں روسی زبان کا ڈنکا بج رہا تھا، لیکن مائوزے تنگ نے روسی زبان کو چین کی قومی زبان بنانے سے انکار کردیا اور مقابلتاً پس ماندہ اور مشکل ترین زبان چینی کو ذریعہ تعلیم بنایا۔
ان سے زیادہ سبق آموز مثال اسرائیل کی ہے، جس نے ایک مُردہ اور محدود مذہبی زبان کو پرائمری سے یونیورسٹی تک ذریعۂ تعلیم قرار دیا اور اسی عبرانی ذریعۂ تعلیم کی بدولت اسرائیل علمی اور سائنسی میدانوں میں کئی عالمی ایوارڈ حاصل کرچکا ہے۔
ظہورِ اسلام کے وقت عربی میں شعرا کے قصیدوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن ساتویں سے تیرہویں صدی عیسوی تک مسلمانوں نے یونانی اور دیگر زبانوں سے سارا علم اپنی زبان میں ترجمہ کیا اور سائنس کو نظریے کے خول سے نکال کر تجربے کی لذت سے آشنا کیا۔ اسی طرح انگریزی میں شیکسپیئر کے ڈراموں اور شاعری کے سوا فلسفہ تھا نہ سائنس۔ انگریزوں نے اپنی نشاۃ ثانیہ کے دور میں عربی، لاطینی و یونانی علوم کا ترجمہ کرکے اپنی زبان کا دامن بھردیا اور اسے صفِ اول کی سائنسی زبان بنادیا۔
(’’اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم‘‘۔ ڈاکٹر عبدالستار ملک)

نواب مرزا خاں داغؔ دہلوی

نواب مرزا خاں داغؔ دہلوی25 مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور 14 فروری1905ء کو انتقال کیا۔ اپنے کلام میں شوخی، بانکپن، معاملہ بندی، الفاظ کی تراش خراش اور زبان و محاورہ کے صحیح استعمال کی بنا پر غزل گو شعرا کے امام مانے جاتے تھے۔ شاعری میں ذوقؔ کے شاگرد اور خطاطی میرپنجہ کش سے سیکھی۔ رام پور کے دربار سے منسلک رہے۔ ان کے سیکڑوں شاگرد تھے، جن میں سے ایک اقبال بھی ہیں۔ ’’بانگِ درا‘‘ میں داغؔ کی وفات پر اقبال کا مرثیہ ان کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ ’’گلزارِ داغ‘‘، ’’آفتابِ داغ‘‘، ’’مہتابِ داغ‘‘ اور ’’یادگارِ داغ‘‘ چار دیوان اور ایک مثنوی ’’فریادِ داغ‘‘ ان کی متاع ِسخن ہے۔ حیدرآباد (دکن) میں مدفون ہیں۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)

گلیلیو

گلیلیو(1642ء) فلورنس (اٹلی) کا وہ مشہور ہیئت دان ہے جس نے دوربین ایجاد کی تھی۔ جب اس نے کاپرنیکی (1543ء) کے نظام شمسی کی تائید کی تو پوپ نے اسے گرفتار کرکے مذہبی عدالت کے سامنے پیش کردیا۔ اس نے وہاں ڈر سے توبہ کرلی لیکن 1632ء میں اپنی کتاب ’’نظام عالم‘‘ شائع کردی جس پر اسے جیل میں پھینک دیا گیا، جہاں وہ دس سال تک انتہائی دکھ اٹھانے کے بعد 1642ء میں فوت ہوگیا۔
(ماہنامہ ’’چشم بیدار‘‘۔ مئی2011ء)

ایک گناہ

ایک نوجوان چوری میں گرفتار ہوکر مامون (813۔ 833ء) کے سامنے پیش ہوا۔ شہادت سننے کے بعد خلیفہ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ اس کی ماں نے آہ و فریاد کی تو مامون نے کہا: ’’میں مجبور ہوں کہ یہ ایک شرعی حد ہے اور ترکِ حد گناہ ہے۔‘‘ اس نے کہا: ’’اے امیرالمومنین، تم ہر روز بیسیوں گناہ کرتے ہو اور اللہ سے معافی مانگ لیتے ہو، اس ایک گناہ کی بھی معافی مانگ لینا۔‘‘ خلیفہ کو رحم آگیا اور نوجوان کو رہا کردیا۔
(ماہنامہ چشم بیدار لاہور۔ فروری 2019ء)