بھارتی طیاروں کو مار گرانے والے پاکستانی پائلٹ پاک فضائیہ کے ہیرو اسکواڈرن لیڈر حسن علی صدیقی ہیں‘جنہوں نے بھارتی جنگی طیارے کو نشانہ بناکر مار گرایا اور عظیم ہوا باز ایم ایم عالم کی یاد تازہ کردی ، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی کے ایک معروف اسکول سسٹم، عثمان پبلک اسکول سے حاصل کی ہے۔اسکول کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور حسن کے سابق پرنسپل سید معین الدین نیر کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’وہ شرو ع ہی سے بہادر ہے اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتا تھا ور اپنے ساتھیوں کو لیڈ کرتا تھا ،قائدانہ صلاحیت کا مالک حسن دوران تعلیم ڈپٹی ہیڈ پرفیکٹ بھی رہا ۔اس کا تعلق ایک دین دار گھرانے سے ہے۔ اس کے والدین نے اس کی کردار سازی و تربیت میں قابل ستائش کردار اد اکیا ہے ،وہ نہ صرف ہمارے اسکول سسٹم کا فخر ہے،بلکہ پوری پاکستانی قوم کا ہیرو ہے ، اس کے کارنامے کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا ۔
جنگ ہوگی…؟
امریکیوں کا مسئلہ کچھ اور ہے۔ پاکستان کی امداد واشنگٹن نے بند کر رکھی ہے۔ اس کے باوجود کہ افغانستان سے با عزت پسپائی کے لیے پاکستان کی امریکیوں کو ضرورت ہے ، کسی طرح انکل سام کو گوارا نہیں کہ سی پیک کے ذریعے ممکنہ اقتصادی بحالی کے ساتھ ، پاکستان رفتہ رفتہ ایک خودمختار ریاست ہو جائے۔ یہ وسطی ایشیا کا دروازہ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے پہلو میں کھڑا ہے۔ ایران ، چین اور بھارت ایسے اہم ممالک کا ہمسایہ۔ اسلام آباد کی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی بالادستی قائم نہ ہو سکے۔ افغانستان پھر سے ایک بفر سٹیٹ بن جائے۔ ایران پر دبائو کم ہو جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ علاقے میں چینی اثر و رسوخ میں اضافہ ہو۔ چین ہی امریکہ کا سب سے بڑا دردِ سر ہے۔ ہزاروں برس کے بعد جو پھر سے ایک عالمی طاقت بن کے ابھر رہا ہے۔ ہزاروں برس کے بعد جو اپنی سرحدوں سے باہر نکلا ہے اور پانچوں برّاعظموں میں جس کا رسوخ پھیل رہا ہے۔
امریکیوں کی خواہش یہ دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان کو ایک بڑا جھٹکا لگے۔ اس کی معیشت زمیں بوس ہو جائے اور وہ پھر سے ان کی گود میں جا گرے۔
یہ نہیں ہو سکتا، اب یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ تاریخ کے تیور یہ لگتے ہیں کہ پاکستان کاوجود تحلیل ہو جائے گا یا وہ ایک مکمل طور پر خودمختار ریاست بنے گا۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں۔تمام قرائن یہ ہیں کہ آزمائش وقتی ہے۔ پاکستان ایک طاقتور ریاست بن کے ابھرے گا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ معاشی اعتبار سے بھارت اب ایک بڑی طاقت ہے۔ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی۔ دنیا کی ایک بہت بڑی منڈی۔تیس پینتیس کروڑ کی نئی مڈل کلاس اور 7فیصد شرح ِ ترقی۔ مقابلے میں پاکستان ایک مقروض اور مجبور ملک ہے۔ ٹیکس وصولی کی شرح جو جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں سولہ فیصد تھی ، گرتے گرتے آٹھ فیصد کو آن پہنچی ہے۔ دس بلین ڈالر ہر سال ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔ ٹیکس وصول کرنے والا ادارہ مالداروں کے مفادات کا نگہبان ہے اور اپنے افسروں کی بہیمانہ بے حسی کا شکار۔
عسکری محاذ پر اصل حقیقت مگر یہ ہے کہ چھ لاکھ کی چھ لاکھ پاکستانی فوج جنگی تجربات سے گزر کر صیقل ہو چکی۔ دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ اس نے جیت لی ہے۔کراچی میں بھارتی ایجنٹوں کا صفایا ہو چکا یا وہ تاریک تہہ خانوں میں چھپے ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی سرپرستی میں بروئے کار تخریب کار تھک چکے۔ پختون خوا کی قبائلی پٹی میں بھی ، جہاں افغان خفیہ ایجنسی خاد ، بھارتی ’’را ‘‘ کی مددگار ہے۔
اتنی ہی بڑی حقیقت یہ ہے کہ امریکی افغانستان میں نڈھال ہو کر واپس جا رہے ہیں۔ آبرومندانہ واپسی کے لیے انہیں پاکستان کی مدد درکار ہے۔
ایک سنگین حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت کی تقریباً پوری فوج مقبوضہ کشمیر کے سردمیدانوں میں بے نقاب ہو چکی۔ حوصلے اس کے پست ہیں اورانڈیا ٹوڈے کے مطابق سو سے زیادہ خودکشی کے واقعات ہر سال ہوتے ہیں۔وہ کوئی بڑی یا طویل جنگ لڑنے کے قابل نہیں۔
(ہارون رشید۔دنیا27فروری 2018)