اسلامی قیادت،قرآن اور سیرتِ پاک کا منفرد مطالعہ

کتاب : اسلامی قیادت،قرآن اور سیرتِ پاک کا منفرد مطالعہ
مصنف : خرم مراد
صفحات : 80، قیمت:90 روپے
ناشر : منشورات، منصورہ ملتان روڈ لاہور 54790
فون : 042-35252210-11
0320-5434909
ای میل : manshurat@gmail.com

منشورات عظیم اسلامی ادارہ ہے جو 1993ء سے ملک میں تعمیری لٹریچر کی اشاعت میں سرگرم عمل ہے۔ اس کی شائع کردہ 500 سے زیادہ چھوٹی بڑی سستی کتابوں نے قبولِ عام حاصل کیا ہے۔ بعض مختصر کتابیں تین لاکھ سے زائد فروخت ہوچکی ہیں۔ دین کے وسیع تصور کے مطابق زندگی کے ہر گوشے سے متعلق ادب کی ہر صنف منشورات شائع کرتا ہے۔
جناب خرم مراد (1932ء۔ 1996ء) پیشے کے لحاظ سے ایک انجینئر تھے۔ انہوں نے زندگی کے آغاز میں ہی قرآن کے پیغام کو سمجھا، اس کی دعوت کو قبول کیا اور ساری زندگی اس پیغام کو پھیلانے اور اس کی دعوت کی طرف بندگانِ خدا کو بلانے میں لگے رہے۔ پاکستان ، بنگلہ دیش، ایران، سعودی عرب، برطانیہ، امریکہ جہاں بھی رہے، جہاں بھی گئے، اپنے مخاطبین کو تیار کیا کہ زندگی، وقت، صلاحیت، مال و جان سب کچھ اللہ کی راہ میں لگا کر، اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کا راستہ اختیار کریں۔ یہی مسلمانوں کے لیے کامیابی اور عروج کا راستہ ہے۔ اس راستے پر چلنے کے لیے قرآن سے تعلق قائم کریں جس کے لیے یہ کتاب رہنما ہے۔
اس مختصر لیکن نہایت ہی اہم کتاب کے پیش لفظ میں خرم صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’آج دنیا بھر میں انسانوں کے بے شمار قافلے اس عزم کے ساتھ چل رہے ہیں کہ وہ زندگی کا سفر اسی راہ پر طے کریں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائی ہے، اور اپنی شخصیت اور معاشرے کی تعمیر اسی ہدایت کے مطابق کریں گے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔
آج کی دنیا میں جب کہ انسانیت کا قافلہ کئی سو سال سے ایک ایسی راہ پر جارہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ سے مختلف اور متضاد ہے، تو اس سے ہٹ کر چلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ رکاوٹیں لاتعداد ہیں اور مشکلات بے پناہ۔ چلنے والے بھی کمزور وناتواں ہیں، راہ بھی ریشم کی مانند ہے۔ اس لیے ساری مشکلات کے باوجود قافلوں کی تعداد میں برابر اضافہ ہورہا ہے اور سفر برابر جاری ہے۔
ان قافلوں کا نام آج کی زبان میں تحریک اسلامی ہے۔
ہر وہ قافلہ جو انسان کے لیے اور اپنے لیے زندگی کی نئی شاہراہ کھولنا چاہتا ہو، اپنی کامیابی کے لیے ایمان اور یقین، عزم اور ارادہ، عمل اور کردار، اخلاق اور قربانی کے ساتھ ایک اچھے سالارِ قافلہ کا محتاج ہوتا ہے۔ جس طرح قافلے کے ہر قدم کے لیے ایک ہی نقشِ پا رہنما ہے اور وہ نقشِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اسی طرح قافلے کے سردار کے لیے بھی انہی نقوشِ پا کی پیروی میں سعادت اور کامیابی کی ضمانت ہے جو سالارِ اوّل نے چھوڑے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قافلے کا ہر فرد کسی نہ کسی درجے میں اور کسی نہ کسی مقام پر امام ہے، اور اس ہدایت و رہنمائی کا محتاج ہے جو اس کو ان نقوشِ پا سے مل سکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر کچھ کہنا اور لکھنا ویسے بھی آفتاب کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ کس انسان کے بس میں یہ ہے کہ وہ اس کی جرأت کرے!… تاہم، ایک بار کراچی جانا ہوا تو جمعیت الفلاح کے زیر اہتمام ایک تقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسوہ پر بحیثیت معلم اور قائد چند باتیں عرض کرنے کا موقع عطا ہوا، اور کچھ عرصے کے بعد وہ باتیں ایک مسودے کی صورت میں میرے حوالے کردی گئیں۔
مجھے موضوع کی اہمیت کا اندازہ ہے، اس لیے کچھ ہمت کی اور اس تقریر کو بنیاد بناکر یہ کتابچہ مرتب کردیا۔ اب یہ تحریر اپنی نوعیت اور حجم دونوں لحاظ سے اُس تقریر سے بالکل مختلف چیز ہے جو جمعیت الفلاح کے اجتماع میں کی گئی تھی، اگرچہ تحریک اور بنیادی خاکہ اس تقریر نے فراہم کیا ہے۔ اللہ کرے کہ اس سے قافلۂ تحریکِ اسلامی کی کوئی ضرورت پوری ہوسکے۔
اس میں کوئی بات شاید نئی نہ ہو۔ سیرت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، لیکن حکایت اتنی لذیذ ہے کہ جتنی دراز تر ہو، کم ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جو کچھ لکھا جانا چاہیے، اس کے تناسب سے ابھی کچھ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔ اسی احساس نے یہ لکھنے پر آمادہ کردیا کہ اس خزانے کا ایک موتی اور اس کتاب کی ایک کرن بھی کسی کو میرے ذریعے پہنچ کر مالامال کرسکتی ہو تو میں کیوں اس ثواب سے محروم رہوں۔ ساتھ ہی یہ یقین بھی میرے لیے مہمیز کا کام کرتا رہا کہ ساری بلندیاں اور ساری دولتیں اسی اسوے کی پیروی میں مستور ہیں۔

عجب کیا گر مہ و پرویں میرے نخچیر ہو جائیں
کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سر خود را
وہ دانائے سبل ختم الرسلؐ مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا

کاش آج کے قافلے اسی چوکھٹ پر آکر بیٹھ جائیں۔
بپائے خواجہ چشماں رابمالیم
آئو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں سے اپنی آنکھیں ملیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس حقیر سی نذر کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور سب سے پہلے خود مجھے ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔
آپ اس کتاب کو جب بھی پڑھیں گے نہایت غیر معمولی پائیں گے، نوجوانوں، بزرگوں، قائدین اور کارکنوں کے لیے، سب کے لیے جو اللہ کا کلمہ بلند کرنے کا کام کررہے ہیں، وہ اسوۂ رسولؐ سے کس طرح بے نیاز ہوسکتے ہیں! لیکن روایتی طریقے سے ہٹ کر جس انداز سے جناب خرم مراد نے سیرت کی رہنمائی کو قرآن سے اخذ کیا ہے وہ وہی کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور اپنے قرب سے نوازے۔
کتاب مختلف حصوں میں منقسم ہے۔
٭ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم:
بحیثیت قائدو معلم، قرآن اور سیرتؐ کا تعلق، قرآن میں سیرتؐ کیسے پڑھی جائے؟
٭دعوتِ حق اور مقاصد ِدعوت:
دعوت کی نسبت رب کے ساتھ،ا للہ کی بندگی کی اوّلیت، جھوٹے خدائوں کے خلاف جہاد، دعوت کا تحفظ، اجزائے دعوت کا لحاظ، انذار، استغفار، تبشیر، ترتیب اور تقدیم و تاخیر۔
٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حق کی دعوت:
احساسِ عظمت اور دل کی لگن، اللہ کا کام سمجھنے کی کیفیت، مالک کی نگاہوں میں، عظمت اور ذمہ داری کا احساس، دل کی لگن، اپنی تیاری، قرآن سے تعلق، حصولِ علم کا شوق، قیام اللیل اور ترتیلِ قرآن، ذکرِ الٰہی کا نظام۔
٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین:
قومی مخالفتیں، صبر کی نوعیتیں، مقابلہ اور جہاد، حسنِ اخلاق، برائی کے بدلے بھلائی، طائف کا واقعہ۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور رفقائے دعوت:
رئوف و رحیم، قدر و قیمت کا احساس اور ربط، تعلیم اور تزکیہ، نگرانی اور احتساب، استعداد اور صلاحیت کے مطابق معاملہ، نرم دلی، نرم خوئی، عفوودرگزر، مشاورت، تواضع۔
٭آرزوئے دل۔
کتاب بہت حسین و جمیل طبع کی گئی ہے۔ یہ اس کا نواں ایڈیشن ہے جو اس کی مقبولیت کی نشانی ہے۔