The Clash of Civilizations In Traditional Islamic Discourse

کتاب : The Clash of Civilizations
In Traditional Islamic Discourse
مصنف : شاہنواز فاروقی
مترجم : عمر جاوید
صفحات : 168،قیمت:750 روپے،26 امریکی ڈالر
ناشر : زیک بک پبلشر
ویب سائٹ : www.zak.com.pk

’تہذیبوں کے تصادم‘ کی حقیقی وجامع تعریف و تشریح اور خیر و شر کی تاریخی کشمکش کا احوال… علم کا دریا جیسے کوزے میں سمٹ آیا ہو۔ جہدِ مسلسل کی آگہی سے معمور دانشِ فاروقی لائقِ ستائش ہے اُس کاوش کے لیے، جسے اسلامی روایتی بیانیے پر مبنی تحقیقی مضامین میں یوں پیش کیا گیا ہے کہ ہر مضمون کی انفرادیت بھی قائم ہے اور اجتماعیت بھی مربوط ومتاثر کن ہے۔ پہلے اردو اور اب انگریزی ترجمے میں یہ گراں قدرکتاب Clash of Civilizations In Traditional Islamic Discourse کے مانوس عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ اس عنوان سے مانوسیت کا تناظر ہارورڈ یونیورسٹی کے آنجہانی پروفیسر سیموئل ہن ٹنگٹن کی مشہورکتاب ہے، جس کا مرکزی عنوان یہی ہے، مگر ذیلی عنوان ’مختلف‘ ہے۔ سیموئل ہن ٹنگٹن کے ہاں ’تہذیبوں کا تصادم‘ جدید مغربی تناظر میں ہے، یہ مغربی بیانیہ ہے، جیسا کہ ذیلی عنوان The Remaking of World Order میں واضح ہے: اس ’تصادم‘ کی نوعیت مادی و معاشی، اور دائرہ نہ صرف دنیائے حاضر تک محدود ہے بلکہ ترمیم واضافے کا ضرورت مند بھی ہے۔ یہ سیموئل ہن ٹنگٹن یا کسی بھی مغربی دانشور کی دسترس سے باہر ہے کہ نظریہ یا تصور کی آفاقی، ابدی اور مطلق نوعیت پر جامع تحقیق پیش کرسکے، کیونکہ کسی بھی انسانی تصور یا نظریے میں یہ جوہر ہے ہی نہیں۔ مغرب کا کوئی بھی نظریہ یا فلسفہ اٹھا لیجیے، قطعیت اور درجۂ کمال ملنا محال نظرآئے گا۔ جبکہ شاہنواز فاروقی صاحب کے ہاں ’تہذیبوں کا تصادم‘ اسلامی آفاقی تناظر میں ہے: یہاں تہذیب کی تعریف، تصادم کی نوعیت، کامیابی کا تصور، اور تاریخی تعلق اُس تعریف و نوعیت و تصور سے متصادم ہے، جو سیموئل ہن ٹنگٹن نے پیش کیا ہے۔ یہ نہ صرف مغربی تصور ’تہذیب‘ اور تصور ’تصادم‘ کی درست توضیح ہے، بلکہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ پر اسلامی نکتہ نظر بھی ہے۔ اس تاثر کا اظہار دیباچہ میں محترم پروفیسر ڈاکٹر وہاب سوری نے یوں کیا ہے: ’’اب جبکہ یہ قیاس کرلیا گیا ہے کہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ کا قضیہ پرانا ہوچکا ہے، شاہنواز فاروقی صاحب نے یہ مقالہ مختلف، اچھوتے، بے مثل اور گہرے جمالیاتی شعور کے ساتھ لکھا ہے۔ میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ یہ مقالہ قاری کو ’تہذیبوں کے تصادم‘ کا نیا انقلابی تناظر فراہم کرے گا۔‘‘
چنانچہ، اس بات کا واضح احساس ہوتا ہے کہ اس موضوع پر کتاب کا انگریزی ورژن بروقت اور منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں ترجمہ بھی ’ترجمہ برائے ترجمہ‘ نہیں ہے بلکہ موضوع کی اہمیت اور قاری کی نوعیت کا بھرپور ادراک مترجم کے پیش نظر رہا ہے۔ جن حضرات نے اردو ورژن پڑھا ہے، وہ بھی انگریزی ورژن میں ایسی کشش محسوس کریں گے کہ جیسے پہلی بار پڑھ رہے ہوں۔ ابواب کی ترتیب اور درجہ بندی میں ایسا ربط وضبط پیدا کیا گیا ہے کہ موضوع کی اہمیت وافادیت میں تازگی سی آگئی ہے۔ مترجم کے نوٹ میں عمر جاوید صاحب نے عمدہ پیرائے میں کتاب کا مدعا جس خوبی سے سمیٹا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ مغربی اور اسلامی ’تہذیبوں کے تصادمات‘ میں تصورِ ’کامیابی‘ کا بنیادی فرق واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’عہدِ حاضر میں اس بات کی ضرورت اہمیت اختیار کررہی ہے کہ حقیقی اسلامی فکر ازسرنو متعارف کروائی جائے، دورِ جدید کے مرد اور عورت کے لیے ایک ایسی جائے قرار مہیا کی جائے جہاں نفس کے اطمینان کا سامان ہوسکے، اور وہ معنویت میسر آجائے جس کی خواہش اس کی روح کررہی ہے، وہ معنویت جو تمام جدید اور مابعد جدید نظریات مہیا کرنے میں ناکام ہیں۔ اس بات کی شاید بہت زیادہ ضرورت ہے کہ جدید طرزِ زندگی کے حامل مسلمانوں کو نجات کی طرف دعوت دی جائے، وہ جنہیں مغربی فکر کی تعلیم دی جاتی ہے، وہ جو مغربی تصورِ کامیابی کے شیطانی چکر میں بری طرح پھنس چکے ہیں… یہ کام (کتاب) اس راہ میں اٹھنے والا ایک اہم قدم ہے‘‘۔ عمر جاوید کے لیے اس کاوش پر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ان شاء اللہ باعثِ جزا ہوگی۔
انگریزی ورژن میں مصنف کا نوٹ انگریزی دانوں کے لیے ’تہذیب فہمی‘ کی وہ سمت مہیا کرتا ہے جوکتاب کے آغاز میں ہی ’غلط فہمی‘ اور’کج فہمی‘ کا خدشہ دور کردیتی ہے۔ اردو سے ناواقف اور پہلی بار پڑھنے والوں کے لیے یہ علمی نعمت سے کم نہیں۔ صاحبِ کتاب لکھتے ہیں: ’’کچھ لوگ ’مغرب‘ کو محض جغرافیہ سمجھتے ہیں۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہے۔ درحقیقت ’مغرب‘ محض جغرافیائی وجود نہیں ہے، یہ ایک بھرپور نقطہ نظر ہے۔ یہ ایک تصورِ زندگی ہے۔ یہ ایک تصورِ کائنات ہے۔ یہ ایک تصورِ انسان ہے۔ یہ ایک تصورِ علم ہے۔ مثالیوں کا پورا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’تہذیبوں کے تصادم‘ کا تصور کسی خاص دور تک محدود نہیں، جیسا کہ سیموئل ہن ٹنگٹن اور اُن جیسے کچھ لوگوں کا خیال ہے‘‘۔ اس کے بعد وہ دوسو سالہ صلیبی جنگوں، یونانی فلسفے کی یلغار اور برطانوی نوآبادیاتی جارحیت بطور مثال پیش کرتے ہیں، جس سے تہذیبی کشمکش کا بھرپور تاریخی شعور سامنے آتا ہے۔ حال کی ساری صورتِ حال طشت ازبام ہوجاتی ہے۔
پہلے باب Naked History and our Historical Slumber کی بابت، جیسا کہ عنوان میں واضح ہے، کہا جاسکتا ہے کہ صاحبِ کتاب ’تہذیبوں کے تصادم‘ کا تاریخی شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ، سوئی ہوئی مسلم دنیا کو بیدار کرنے کی بھرپور سعی فرما رہے ہیں۔ صفحہ نمبر 12 پر رقمطراز ہیں: ’’تاریخ چیخ چیخ کر بتارہی ہے، گو ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کہ مسلمانوں پر1096ء میں بھی صلیبی جنگیں مسلط کی گئی تھیں، جو دو سو سال جاری رہیں۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے آج تک نظرانداز کیا جارہا ہے، جبکہ دوسری طرف حال یہ ہے کہ یورپیوں کے سر پر صلیبی جنگوں کا بھوت آج بھی سوار ہے، وہ اپنے درمیان مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی سے بے چینی محسوس کررہے ہیں‘‘۔ آگے چل کر وہ صلیبی جنگوں اور دیگر مماثل واقعات کی ضروری باتوں کا چیدہ چیدہ ذکر کرتے ہیں، جن سے انکار ممکن نہیں۔ یہ حالیہ تاریخ کے وہ زندہ مظاہر ہیں، جن کا مشاہدہ عام ہے۔ اسلام سے مغرب کا تصادم اس قدر واضح ہے کہ اس حوالے سے شک وشبہ کا اظہار کرنے والے بلاشبہ ’مغربی کیمپ‘ میں نظر آتے ہیں، خواہ اُن کی یہ حیثیت شعوری ہو یا غفلت کا نتیجہ۔ جیسا کہ جارج ولیم بش نے صلیبی جنگ کا اعلان کرنے کے بعد دوٹوک واضح کیا تھا کہ حمایت اور مخالفت کے سوا کوئی تیسرا آپشن نہیں ہے، یعنی جو اتحادی نہیں وہ بہرصورت دشمن ہے۔ بالکل اسی طرح ہر مسلمان پر یہ واضح رہنا چاہیے، خواہ وہ نمازی نہ ہو یا نیک اطوار نہ ہو، یا دنیا دار ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ کلمہ گو ہے، اللہ کو معبود لاشریک اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی الخاتم مانتا ہے، وہ دو کشتیوں پر سوار نہیں ہوسکتا جب کہ وہ دونو ںمخالف سمتوں میں سفر بھی کررہی ہوں۔ وہ یا تو اسلامی تہذیب کی وحدانیت اور حقانیت پر ایمان رکھے، یا مغرب کی تہذیب پرایمان لائے، یعنی مال وزر اور انسانی طاقت کی خدائی تسلیم کرلے، اسلام کو بدلنے کے بجائے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرأت پیدا کرے کہ وہ خود بدل چکا ہے، درمیان کی کوئی راہ نہیں۔ سوائے اس کے کہ سب رب ذوالجلال کی حاکمیت اعلیٰ کے آگے سرِ تسلیم خم کردیں۔ بصورتِ دیگر خدا کو کسی انسان کی کوئی حاجت نہیں، اس کے نزدیک دنیا کی حقیقت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں۔
انگریزی ترجمے میں بھی شاہنوا فاروقی صاحب کا مخصوص طرزِ استدلال برقرار ہے۔ کچھ لوگوں کو اُن سے شدت کی شکایت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’مغرب زدگان‘ کے طوفانِ بدتمیزی میں یہ تکرار اور زورِ بیان نہ ہو تو سچ کا سانس لینا بھی دشوار ہوجائے، اس لیے بہت کُھل کر آزاد فضا میں سچ کا سانس لینے کی ضرورت ہے۔ شاہنواز فاروقی قاری کے لیے یہ فضا بھرپور فراہم کرتے ہیں۔
دوسرے باب کی جانب چلتے ہیں، جہاں ’تہذیبوں کے تصادم‘ سمجھانے کے لیے صاحبِ کتاب نے گائے سے لوٹے کی سطح تک، مثالوں سے کام لینے میں کسی تردد سے کام نہیں لیا، اور یہی اسلوب قاری کی دلچسپی اور توجہ کے لیے کارگر ہے۔ The Cow, Lota, & Clash of Civilizations کا مرکزی خیال تہذیب اور نظریے کا تعلق واضح کرنا ہے۔ کیونکہ عموماً مغربی اصطلاحوں میں گم راہ ہونے والے ’تہذیب‘ کو’ثقافت‘ کی بیڑیاں پہنا دیتے ہیں۔ اس طرح یہ جغرافیائی، لسانی، فنونِ لطیفہ، اور رہن سہن اور مقامی طرزِ زندگی میں جکڑ دی جاتی ہے۔ ’تہذیب‘ اور ’ثقافت‘ کا جوہری فرق، گہرا تفاوت اور بنیادی بُعد بھاری اکثریت پر بالکل واضح نہیں ہے۔ جیسا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’اسلامی تہذیب کے اصول و مبادی‘ میں سمجھایا: ’’اس سوال کا تصفیہ ہونا ضروری ہے کہ تہذیب کس چیز کو کہتے ہیں؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب نام ہے اُس کے علوم وآداب، فنونِ لطیفہ، صنائع وبدائع، اطوارِ معاشرت، اندازِ تمدن اور طرزِ سیاست کا۔ مگر حقیقت میں یہ نفسِ تہذیب نہیں ہیں، تہذیب کے نتائج و مظاہر ہیں۔ تہذیب کی اصل نہیں ہیں، شجرِ تہذیب کے برگ وبار ہیں۔ کسی تہذیب کی قدر و قیمت ان ظاہری صورتوں اور نمائشی ملبوسات کی بنیاد پر متعین نہیں کی جاسکتی۔ سب سے پہلی چیز جس کا کسی تہذیب میں کھوج لگانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے متعلق اس کا تصور کیا ہے؟ وہ اِس دنیا میں انسان کی کیا حیثیت قرار دیتی ہے؟ اس کی نگاہ میں دنیا کیا ہے؟ انسان کا اِس دنیا سے تعلق کیا ہے؟ اور انسان اِس دنیا کو برتے تو کیا سمجھ کر برتے؟ یہ تصورِ حیات کا سوال ایسا اہم سوال ہے کہ انسانی زندگی کے تمام اعمال پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے، اور اس تصور کے بدل جانے سے تہذیب کی نوعیت بنیادی طور پر بدل جاتی ہے‘‘۔
شاہنواز فاروقی لکھتے ہیں: ’’نظریہ اور تہذیب کے تعلق پر بحث ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے موضوع پر بنیادی اہمیت کی حامل ہے… ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس قضیے کو ہر قاری کے لیے قابلِ فہم بناسکیں۔ ہمیں یقین ہے کہ پڑھنے والوں میں درخت اور بیج کا تعلق واضح ہے۔ تہذیب اور نظریے کا تعلق سمجھنے کے لیے یہ حوالہ آسان ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ درخت کا تخلیقی جوہر بیج میں ہے، درخت کی نشوونما اور برگ وبار کا سارا انحصار بیج پر ہے، جب ہم زرخیز زمین میں بیج کی آبیاری کرتے ہیں، تو وہ پودے اور پھر تناور درخت کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہاں بیج ایک تصور، ایک نظریہ، ایک فلسفہ، ایک اسکیم ہے… درخت اور اس کے پھل اس کا اظہار ہیں‘‘۔ اس سے زیادہ سہل اس تعلق کی وضاحت شاید ممکن نہ ہو۔ لہٰذا اس مقام پر قاری آسانی سے اس حقیقت تک رسائی پاتا ہے کہ ’تہذیب نظریۂ زندگی کا اظہار‘ ہے، اور یہ اظہار انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام اعمال میں ایک وحدت کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔ اگر اس اظہار میں وحدت نہ پائی جاتی ہو تو تہذیبی معیار متاثر ہوتا ہے۔ نظریہ سازی میں سہل نگاری ایک ایسی خوبی ہے جو ابلاغ کی ضرورت پوری کرتی ہے، اور ایک ایسے وقت میں کہ جب ابلاغ کی افادیت اور ضرورت خودنمائی کے خدشے پر بھی غالب آرہی ہو، یہ کام کمالِ کلام سے کم نہیں۔ وہ نئے پڑھنے والوں کے لیے نہ صرف سہل نگاری سے کام لیتے ہیں، بلکہ ایک ایسا نصاب بھی تجویز کرتے ہیں، جو بلاشبہ کسی علمی خزانے سے کم نہیں۔
Syed Ahmed Khan & Two Nation Theory کے باب میں واضح کیا گیا ہے کہ برصغیر میں ’تہذیبوں کے تصادم‘ کا تاریخی پس منظرکیا ہے۔ سید احمد خان کی محکومانہ سوچ اور برطانوی حاکمیتِ اعلیٰ کے لیے دیانت دارانہ غلامی پرکڑی تنقید کی گئی ہے۔ ظاہر ہے برصغیر میں ’مغرب زدگان‘ کی نسلیں تیار کرنے میں جو ’حصہ‘ سید احمد خان نے ڈالا ہے، اور اسلامی فکرکی تباہی میں جو کردار اس’حصے‘ نے ادا کیا ہے، اس کی زہرناکی صاحبِ کتاب سے زیادہ کون سمجھے گا، جو اس کتاب سے باہر بھی علیگیوں سے چومکھی لڑائی لڑچکے ہیں۔ یہاں فاروقی صاحب بجا طور پر’دو قومی نظریے‘ کو دو تہذیبی نظریہ کہہ رہے ہیں۔ مسلمان ہندو تہذیب کا یہ تصادم ہی تھا جو تحریکِ پاکستان میں ڈھلا اور پھر اسلامی ریاست پاکستان بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
چوتھے باب Confusionمیں سب سے پہلے ایک عام غلط فہمی کو دور کرکے واضح کردیا گیا ہے کہ سیموئل ہن ٹنگٹن ’تہذیبوں کے تصادم‘ کا کلیہ پیش کرنے والے پہلے آدمی نہیں ہیں، نہ مشرق میں نہ مغرب میں۔ ان سے پہلے معروف صہیونی مؤرخ برنرڈ لوئیس، اور ان سے پہلے مشہور برطانوی مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی اور دیگر دانشور اسلام اور مغرب کی اس کشمکش کو ان ہی معنوں میں مختلف اصطلاحوں سے پیش کرچکے تھے۔
پانچویں باب Traditional Thinkers & and Philosophers on Clash of Civilizations میں مصنف مسلم علما و دانشوروں کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں۔ تہذیبوں کے تصادم پر قدیم وجدید دونوں حوالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ اس موضوع کی اسلامی تعلیمات میں کس قدر بنیادی اہمیت ہے۔ سب سے پہلے امام غزالیؒ: تقریباً ایک ہزار سال پہلے جب یونان کا فلسفہ عرب مسلمان دنیا پہنچا، یہ مشرقی یورپ سے ہونے والا وہ پہلا مغربی تصادم تھا جس نے بڑے بڑے مسلمان حکماء کو فلسفیانہ گتھیوں میں الجھا دیا تھا، حالانکہ یہ مسلمانوں کے عروج کا وہ زمانہ تھا جب مغربی یورپ غلاظتوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ دورِ عروج میں غفلت اور تساہل پسندی کے خدشات بھرپور ہوتے ہیں، مگر امام غزالیؒ نے یونانی تہذیب کی نظری یلغار پربھی وہ کاری ضرب لگائی کہ جب تک مسلمان حکما اور علما اوریونانی علوم کا ساتھ رہا، یونانی فلسفہ باادب ہی رہا، یہاں تک کہ مغربی یورپ میں جب عربی سے لاطینی میں ترجمے ہوئے، اور یونانی فلسفے نے سراٹھایا اور مسیحی تہذیب کی شان و شوکت پارہ پارہ کردی۔ یہ تھا تہذیبوں کے تصادم کا شعور، جس نے امام غزالیؒ سے وہ کام تن تنہا کروایا، جو کیتھولک تہذیب اجتماعی طور پر نہ کرسکی، کیونکہ وہ یونانی علوم کے منہاج پر مسیحی مرادیں پوری کرنا چاہتی تھی۔ جیسا کہ آج ہمارے اعتدال پسند، لبرل اور پتا نہیں کون کون سے اصلاح پسند جدیدیت کے منہاج پر اسلام کی اصلاح چاہتے ہیں اور اسلام کا وہی حشر کرنا چاہتے ہیں جو پروٹسٹنٹ اور سائنس پرست دہریوں نے عیسائیت کے ساتھ کیا، یعنی معاذاللہ بے حقیقت و بے توقیر۔ شاہنواز فاروقی صاحب بنیادی طور پر ادب سے متعلق ہیں، اچھے شاعر ہیں اور اچھی شاعری کا ذوق رکھتے ہیں، اور اس میں بھی نظریاتی تعلق کو عزیز تر رکھتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی کی شاعری میں تہذیبی تصادم کی روح جس طرح انہوں نے پائی ہے، اور پھر جس طرح یہ روح عام کی ہے، شاید کوئی دوسری مثال نہیں۔ اس کے بعد علامہ محمد اقبال کا حوالہ ہے، جو یقیناً اسلام اور مغربی تہذیب کی کشمکش میں تفصیلی تعارف کا محتاج نہیں۔ اقبال کی شاعری کی بنیاد ہی اُس روحِ امم کی حیات ہے جو کشمکشِ انقلاب میں گزرے۔ اقبالؒ اور سید مودودیؒ، یہ وہ دو حوالے ہیں، جنھوں نے صدیوں سے قائم مغربی فکر کے غلبے کو چند دہائیوں میں بے اثر کردیا۔ تہذیبوں کے تصادم پرضربِ کلیم شاعرانہ شاہکار ہے، اور نثر میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ’تنقیحات‘، ’پردہ‘، ’تجدیدواحیائے دین‘ وغیرہ بہترین کاوشیں ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے تہذیبِ مغرب کی وضاحت میں ’جاہلیتِ خالصہ‘ جیسی چند معروف اصطلاحات پیش کی ہیں، ان کا ذکر بھی یہاں موضوع کے تناظر میں بھرپور اور برمحل ہے۔ مولانا کی ان اصطلاحوں نے بلاشبہ مغرب میں خاصی بے چینی پیدا کی ہے۔ اس کے بعد مصر کے عالم سید قطب شہید ہیں، جو نہ صرف مولانا مودودی کے روحانی و فکری شاگرد ہیں، بلکہ بے شمار شاگردوں کے روحانی استاد بھی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے صاحبِ کتاب نے اسلامی بیانیے میں وہ توانائیاں بھردی ہیں، جو آج اس موضوع پر سب سے قابلِ ذکر زمینی حقیقت بن چکی ہیں۔ جبکہ تہذیبِ مغرب کی حالت انسانی ناکامیوں سے مایوس کن ہوچکی ہے، یہ اب غیر انسانی بحرانات میں گھرتی جارہی ہے۔
چھٹا باب اسی بابت ہے، The Radical Islam and The West میں شاہنوازفاروقی نے ’اسلام سے تصادم‘ میں مغرب کی نفسیاتی حالت کا تجزیہ کیا ہے۔ سیاسی اسلام، مُلّاازم، وہابیت، سلفی اسلام، انتہا پسند اسلام اور انقلابی اسلام جیسی اصطلاحوں میں مسلمانوں کی تقسیم کا مغربی ایجنڈا خوبی سے بے نقاب کیا ہے۔ واضح کیا ہے کہ مغرب اسلام کو عیسائیت کے تاریخی تناظر میں پیش کرتا ہے اور یہ طریقۂ واردات وہاں کارگر بھی ہوتا ہے جہاں مخاطب اسلامی تاریخ اور تعلیمات سے ناواقف ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ درحقیقت مغرب اُس احساسِ کمتری کا شکار ہے جو متواتر اُس کے احساسِ برتری میں ظاہر ہوتا ہے۔ جو علمِ نفسیات جانتا ہے، وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ متواتر اظہارِ برتری کا مطلب زوال پذیری ہے۔ اس زوال پذیری پر وہ مغرب سے قدآور شخصیات کی گواہیاں بھی پیش کرتے ہیں، جیسے اوسولڈ اسپینگلر، آرنلڈ ٹوائن بی، نٹشے، ایلون ٹوفلروغیرہ۔
مغرب کے احساسِ کمتری کی تصریح میں وہ حجاب کا مقدمہ بطور کلاسیکی مثال پیش کرتے ہیں۔ ساتویں باب The Case of Hijab میں وہ اسلامی حجاب پر پابندی کو تہذیبوں کے تصادم کا بھرپور اظہار قرار دیتے ہیں، ظاہر ہے اس بات سے علمی اور تحقیقی بنیادوں پراختلاف ممکن نہیں۔
Tales of Modern Crusades کے باب میں صاحبِ کتاب نے بش کی صلیبی مہم جوئی کی ضروری تفصیل شامل کی ہے۔ آگے بریکنگ نیوز کے عنوان سے موازنہ پیش کیا ہے کہ افغان مجاہدین کے ہاتھوںکمیونسٹ سوویت یونین کی شکست ہوئی تو دنیا نے کہا کہ افغان امریکی مدد سے جنگ جیتے، مگر آج کیا ہورہا ہے؟ جب وہی بے سروسامان امریکہ کو گھٹنوں پر لے آئے ہیں؟ یہ سب روحِ جہاد کا اعجاز ہے جس کے آگے ٹیکنالوجی کی حیثیت خاک ہے۔ یہ اتنی عظیم بریکنگ نیوز ہے کہ اگر مغرب کو ایسی خبر ملی ہوتی توکوریج کے تمام ذرائع تعریفوں کا طوفان اٹھادیتے۔ اسی طرح وہ سب کچھ جومغرب نے مسلمان ملکوں کے ساتھ کیا ہے، اگر اس کا عشر عشیر بھی مغربی دنیا کے ساتھ مسلمانوں نے کیا ہوتا تو مغرب اور مغرب زدگان کے ذرائع ابلاغ پر وہ طوفان اٹھتا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ مگر مسلمان دنیا کی حکومتیں اور ذرائع ابلاغ ’چور مچائے شور‘ پر بھی چور کے آگے سرجھکائے شرمندہ شرمندہ وضاحتیں پیش کررہے ہیں۔
کتاب کا Epilogue نالہ اقبال سے شروع ہوتا ہے کہ ’مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے‘۔ اور کچھ دور چل کر شاہنواز فاروقی اسے ’مسلماں نہیں جلوۂ طور ہے‘ میں ڈھال دیتے ہیں، کیسے اور کیوں؟ اس کے لیے ایک ایسی کتاب کا مطالعہ کیجیے، جسے عموماً ہر لائبریری اور شیلف کی زینت ہونا چاہیے، اور بالخصوص اس موضوع پر ہونے والی ہر تحقیق کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کتاب کا جہاں اختتام ہوا ہے، وہاں امریکہ سے آنے والا ایک بیان تصدیق کررہا ہے کہ صاحبِ کتاب کی نگاہ اس ’تصادم‘ پر کتنی سچی ہے۔ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہے۔ حال ہی میں اسٹیٹ آف یونین خطاب میں کہا:
“I have also accelerated our negotiations to reach a political settlement in Afghanistan. The opposing side (Taliban) is also very happy to be negotiating,”
(آج ٹرمپ خوشی خوشی اعلان کررہے ہیں کہ طالبان امن مذاکرات کے لیے خوشی خوشی تیار ہوگئے ہیں)۔کہاں گئے وہ آج، جو دہائیوں سے یہ کہتے رہے ہیں کہ سوویت یونین کی شکست امریکہ کی مدد سے ہوئی؟ کہاں گئے وہ آج، جو بتاسکیں کہ آج کا فاتح کون ہے؟ کس کے سر جائے گا یہ سہرا؟ تاریخ بہت سفاک ہے، جھوٹ جلد یا بدیر اٹھاکر جھوٹے کے منہ پر کھینچ مارتی ہے۔ سچ سے شروع ہونے والی یہ کتاب سچ پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
یہ کتاب ہر صحافی اور طالب علم کے مطالعے میں ضرور آنی چاہیے۔ اس کا سرورق خوشنما ہے، زیک بک پبلشر نے پہلا ایڈیشن دسمبر 2018 ء میں شائع کیا ہے۔