قائداعظم کا ایک نایاب مضمون

1942ء میں مسلم لیگ کی جانب سے دو کتابیں شائع کی گئی تھیں۔ ان دونوں کتابوں پر قائداعظم نے ایک یادگار مضمون بطور دیباچہ لکھا تھا، جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے:
’’موجودہ نام نہاد جغرافیائی وحدت کے ساتھ ہندوستان کا جدید تصورِ ملک برطانیہ کا پیدا کردہ ہے اور وہ نوکر شاہی کے نظام حکومت کے تحت اسے ایک انتظامی یونٹ بناکر اس پر قابض ہے۔ اس حکومت کے پیچھے عوامی رائے اور مرضی کی طاقت نہیں بلکہ تلوار کی طاقت ہے۔ اس صورتِ حال سے ہندو کانگریس اور ایک اور ہندو جماعت ہندومہاسبھا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ہندوستان ایک بہت بڑا برصغیر ہے۔ یہ نہ تو ایک ملک ہے اور نہ ایک قوم ہے۔ یہ بہت سی قومیتوں اور نسلوں کا مجموعہ ہے، لیکن مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ اس وسیع برصغیر میں ایک مرکزی آئینی حکومت کے بطور ہندوستانی وحدت کی بات صرف خام خیالی ہے۔
ہندوستان میں موجود دوبڑی قوموں یعنی ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف براعظم یورپ کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہیں۔ درحقیقت اس کی نسلوں، مذہبوں، ثقافتوں اور زبانوں میں تنوع اور اختلافات کی نظیر دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں مل سکتی، لیکن خوش قسمتی سے مسلمانوں کے وطنی علاقے برصغیر کے شمال مغربی اور مشرقی منطقوں میں واقع ہیں، جہاں ان کی واضح اور پختہ اکثریت ہے، اور ان کی تعداد تقریباً سات کروڑ ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ علاقے بقیہ ہندوستان سے الگ کردیے جائیں اور ان کی خودمختار آزاد ریاستیں بنادی جائیں۔ مسلمان بالکل بدیہی طور پر اپنی آزادی چاہتے ہیں اور ساتھ ہی برصغیر کے ہندوئوں اور ہندو بصارت کی بھی آزادی چاہتے ہیں۔ ہندوئوں کی تمام چالوں، تجویزوں اور منصوبوں کا مقصد یہ ہے کہ پورے برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں کو ہندو راج کی غلامی میں مبتلا کیا جائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنی گردنوں سے برطانوی راج کا پھندا نکال کر ہندو راج کی غلامی کا پھندا ڈال لیں۔ آج کل محض ناواقفیت کی بنا پر یا پھر جان بوجھ کر غیر ملکی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مسائل بھی ایسے ہی ہیں جیسے کہ چین، سوویت روس یا پھر امریکہ کے مسائل ہیں، اور انہیں بھی ان تجربات کی روشنی میں حل کیا جا سکتا ہے جو ان قوموں نے حاصل کیے ہیں۔ ایسی دلیل کا سرکاری جائزہ بھی ایک عام ذہین آدمی کو قائل کردے گا کہ ہندوستان کے مسائل کا ان ممالک سے مقابلہ کرنے کا گلہ مغالطے میں ڈالنے اور گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ ان کتابوں میں وہ مختلف مضامین جمع کیے گئے ہیں جو مختلف اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں اور ہندوستان کے مسلمانوںکے مطالبۂ پاکستان پر بہت روشنی ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اس بات سے اتفاق کرلیا کہ انہیں جمع کرکے دو کتابوں کی صورت میں شائع کیا جائے۔
ان مضامین سے ان موجودہ مسائل پر روشنی پڑتی ہے جو مسلمانوں کی ذہنی پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ مصنف ایم آرٹی نے اس امر کی اجازت دے دی ہے کہ یہ کتابیں ’’ہوم اسٹڈی سرکل‘‘ کی جانب سے جاری کی جائیں۔ انہوں نے حقائق اور اعدادوشمار یکجا کردیے ہیں جو بہت قیمتی ہیں۔ مصنف ان مضامین کو متعدد اخبارات میں وقتاً فوقتاً شائع کرا کر پہلے ہی قابلِ قدر خدمت انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے پہلی کتاب میں جس کا عنوان ’’پاکستان اور مسلم انڈیا‘‘ ہے، نہایت غیر جانب دارانہ طریقے سے ان متعدد اسباب کی نشان دہی کی ہے جن سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے آئینی مسئلے کا حل یہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی قراردادِ لاہور منظور شدہ مارچ 1940ء میں پاکستان اسکیم کے جو اصول متعین کیے گئے ہیں، انہیں تسلیم کرلیا جائے اور ہندوستان کو تقسیم کردیا جائے۔
دوسری کتاب کا عنوان ’’نیشنلزم ان کنفلکٹ اِن انڈیا‘‘ (Nationalism in Conflict in India)ہے، جس میں اسی مصنف کی تحریریں جمع کی گئی ہیں۔ اس کتاب سے ظاہر ہوگا کہ ہندوستان ایک قومی مملکت نہیں ہے، اور یہ کہ ہندوستان ایک ملک نہیں ہے۔ یہ ایک برصغیر (Sub-continent) ہے جس میں متعدد قومیتیں ہیں۔ ان میں دو بڑی قومیں ہندوئوں اور مسلمانوں کی ہیں جن کی نہ صرف ثقافت، تہذیب، زبان، ادب، آرٹ، تعمیر، نام، اقدار، قوانین، سماجی اور اخلاقی ضوابط، رسوم، تاریخ و روایات، ذوق اور خواہشات، زندگی اور اس کے نظریے میں بنیادی فرق ہے، بلکہ کئی اعتبار سے یہ سب باتیں ایک دوسرے کے بالکل خلاف اور برعکس ہیں۔ درحقیقت جن خیالات کا اظہار ان کتابوں میں کیا گیا ہے وہ مصنف کے اپنے ہیں۔ مسلم لیگ کے سرکاری خیالات یا میرے نہیں۔ میں نے یہ دیباچہ اس لیے لکھنا اپنے ذمے لیا ہے کہ ان دو کتابوں کی ان تمام قارئین سے سفارش کروں جو ہندوستان کے مستقبل کے متعلق آئینی مسئلے کو سمجھنے اور اس کے حل میں دلچسپی رکھتے ہیں، اور مجھے پورا بھروسا ہے کہ جو شخص بھی انہیں جذبات سے بے نیاز ہوکر پڑھے گا، وہ حقائق، اعداد وشمار، تاریخی اور سیاسی دلائل سے اس بات کا قائل ہوجائے گا کہ ہندوستان کی تقسیم دونوں بڑی قوموں ہندوئوں اور مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔‘‘
(ایم۔ اے جناح، 24 دسمبر 1942ء۔ 10 اورنگ زیب روڈ نئی دہلی)
[ماہنامہ اخبار اردو۔ اسلام آباد۔ ستمبر 2017ء]

ہندی مسلمان

غدارِ وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن
انگریز سمجھتا ہے مسلماں کو گداگر!
پنجاب کے اربابِ نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومن پارینہ ہے کافر!
آوازۂ حق اٹھتا ہے کب اور کدھر سے
’’مسکیں و لکم ماندہ دریں کشمکش اندر‘‘

پارینہ: پرانا
1۔ ہندوستان کے مسلمان کی حالت عجیب ہے۔ غیر مسلم اس بنا پر اسے وطن کا غدار قرار دیتے ہیں کہ اول وہ آزادی کی تحریک میں غیر مسلموں کا ساتھ نہیں دیتا اور اپنے حقوق کی بحث کھڑی کردیتا ہے۔ دوم اس کی توجہ باہر کے اسلامی ملکوں پر جمی رہتی ہے اور ان کی خاطر وہ زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ انگریز سمجھتا ہے کہ مسلمان بھکاری ہے۔ یہ کبھی انگریزوں سے ملازمتیں مانگتا ہے، کبھی اسمبلیوں میں اپنی نشستیں بڑھانے کا سوال پیش کردیتا ہے۔
2۔ پنجاب میں ایک ’’نبی‘‘ بھی گزرے ہیں۔ یعنی مرزا غلام احمد قادیانی۔ ان کے پیروں کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ پرانا صاحبِ ایمان مومن نہیں، کافر ہے۔ اس شعر میں اشارہ اس عقیدے کی طرف ہے جو قادیانیوں سے منسوب ہے کہ جو شخص مرزا غلام احمد کو نبی نہ مانے، وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔
3۔ میرا مسکن دل اس کشمکش میں الجھا ہوا ہے کہ کچھ معلوم نہیں، حق کی آواز بلند ہوگی یا نہیں، اور ہوگی تو کب اور کدھر سے ہوگی؟