تعصبات کے خلاف جنگ

متحدہ علماء بورڈ کے ارکان نے ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں، اس میں یہ طے پایا ہے کہ صحابہ کرام بالخصوص خلفائے راشدین، امہات المومنین، اہلِ بیت اور ائمہ اطہار کی اہانت کرنے، کسی مسلمان کو کافر قرار دینے یا منافرت کے نعرے لگانے والے شخص کو چودہ سال قید اور جرمانے کی سزا دی جائے۔ یہ جو کچھ طے ہوا ہے اس کی ابھی قانونی حیثیت نہیں ہے، یہ متحدہ علماء بورڈ اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے آپس میں طے کیا ہے، اور متحدہ علماء بورڈ میں مختلف مسالک اور مکاتبِ فکر کے علماء شامل ہیں۔ اسے جلد قانون کے طور پر منظور ہونا چاہیے، لیکن یہ سمجھنا بھی غلط ہوگا کہ محض قانون کی منظوری سے فرقہ وارانہ منافرت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ باہمی منافرت پھیلانے سے روکنے کے لیے کئی قوانین پہلے بھی موجود ہیں اور انتظامیہ کے پاس اس سلسلے میں پکڑ دھکڑ کے اختیارات ہیں، مگر اس نے نہ فرقہ وارانہ منافرت کو ختم کیا، نہ لسانی منافرت کو۔ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اور قانون سازی کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنا دینی شعور صحیح کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے واعظوں،خطیبوں اور لیڈروں نے قوم کا مثبت ذہن بنانے کی کوشش کم کی ہے اور زیادہ تر نفرت کی شراب دی گئی ہے، اور یہ شراب پی کر جو غل غپاڑہ ہمارے سیاسی اور مذہبی پلیٹ فارموں پر ہوتا رہا ہے اس نے ایک منفی ذہن بنایا ہے، اور اس سے ہم نے ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ اپنے مخالف سے نفرت کرو۔ فرقہ واریت کا فساد بھی اس درسِ نفرت کا شاخسانہ ہے۔ تحریکِ آزادی کے زمانے میں پہلے ہماری نفرت کا ہدف فرنگی تھا، اس نے 1857ء کا ہنگامہ برپا کیا جو بے نتیجہ رہا، اس سے فرنگی کی گرفت اور بھی مضبوط ہوگئی۔ ہماری اصل ضرورت کسی سے نفرت کی نہیں تھی بلکہ اس بات کی تھی کہ ہم اپنے زوال کی حقیقی وجوہات کو سمجھ کر اسے دور کریں اور فرنگی کے عروجِ اقتدار کی نوعیت کو سمجھیں۔ اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ ایک گروہ نے جس میں ہمارے اکابر علماء شامل تھے، انگریز سے نفرت کو اپنا دین بنالیا، اور اس نفرت کی رو میں بہہ کر گاندھی اور نہرو کے ساتھ اس طرح چلے گئے کہ خود اپنی قوم سے کٹ گئے۔ دوسرے گروہ نے دیکھا کہ ہم فرنگی سے نفرت کے متحمل نہیں ہوسکتے تو اس نے نفرت کا رخ ہندو کی جانب پھیر دیا۔ ہندوئوں میں بھی مسلمانوں سے کچھ کم نفرت نہیں تھی، اس لیے یہ نفرتوں کا ٹکرائو بڑھتا چلا گیا اور دو علیحدہ ملک بن جانے کے باوجود قائم و دائم ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لیڈروں میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ملک نفرت کی بنیاد پر نہیں چلاکرتے۔ انہیں چلانے کے لیے عقیدہ، ایمان، نظریہ، اخلاق، کردار چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دونوں ملک ایمانیات اور اخلاقیات کے نقطہ نظر سے کھوکھلے ہیں، اور باہمی دشمنی کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ لیکن دشمنی اور نفرت کے جذبات پائیدار بنیادیں فراہم نہیں کرتے۔ ان جذبات کی بنیاد پر ملک کو کھڑا کرنے اور چلانے کا نتیجہ یہ ہے کہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ شروع ہوچکی ہے۔ پرانے تعصبات سے اکتاکر لوگ نئے نئے تعصب تلاش کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کا اقتدار یا تو مذہبی تعصب کے علَم برداروں کے ہاتھوں میں ہے یا علاقائی تعصبات کی جماعتوں نے ہندوستان کے مرکزی اقتدار کو یرغمال بنالیا ہے، اور اب جو بھی ہندوستان میں حکومت بنانا چاہے گا وہ علاقائی، لسانی تعصبات کی حامل جماعتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، اور اس طرح علاقائی، لسانی تعصب اور بڑھے گا۔ آگے چل کر یہی ہندو تعصب کی جگہ لے گا اور ہندوستان میں انتشار کا نیا منظر ہوگا۔ اس میں علاقائی و لسانی تعصبات نیا گل کھلائیں گے۔ ان تعصبات کو دبانے کے لیے ہی پاکستان دشمنی کا سہارا لیا جارہا ہے، لیکن یہ سہارا کام نہیں آئے گا۔ ہندوستان جس راہ پر جارہاہے ہم اُس راہ پر بہت پہلے ہی چل پڑے ہیں۔ ہندوستانیوں میں ابھی علاقائی، لسانی تعصبات کے باوجود ایک رہنے کی ضرورت کا احساس اور ملک سے وفاداری موجود ہے۔ پاکستان دشمنی منظر پر حاوی ہے لیکن یہ زیادہ عرصہ جاری نہیں رہے گی، مگر ہم تو اُن سے پہلے اور اُن سے کہیں زیادہ ابھی سے تعصبات کے گرداب میں پھنس چکے ہیں۔ علاقائی، لسانی، قبائلی تعصبات الگ ہیں اور فرقہ وارانہ عداوت الگ۔ یہ نفرت تمام حدوں کو پھلانگتی نظر آرہی ہے۔ ایک تو سارے ملک میں پنجاب کے خلاف جذبات ہیں جو ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں نے اپنی غلط سیاست کے ذریعے پیدا کردیے ہیں۔ دوسری طرف کسی صوبے میں بھی فکری وحدت نہیں پائی جاتی۔ بلوچی، پٹھان، سندھی، مہاجر سب الگ الگ قوم بن گئے ہیں اور الگ الگ سوچ رکھتے ہیں۔ اس سوچ کی اساس نفرت پر ہے جو روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، اس پر مستزاد فرقہ وارانہ منافرت ہے، جو اس حد تک ہے کہ مسجدوں میں نمازی محفوظ نہیں۔ وہ سجدے میں جاتے ہیں تو سجدے سے سر اٹھانے کے بعد لہولہان نظر آتے ہیں یا وہیں ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ یہ فرقہ واریت اب ایک منظم طاقت ہے، اس سے انتظامیہ بھی لرزہ براندام ہے، حالانکہ اس کی پرورش ابتدا میں انتظامیہ نے ہی اپنی وقتی سیاسی ضرورتوں کے تحت کی تھی، اور سیاست دانوں نے اپنی دکان چمکانے کے لیے انہیں اپنے پلیٹ فارموں پر جگہ دی تھی۔ کہاں تو یہ حالت تھی کہ جب علامہ رشید ترابی مرحوم خالقدیناہال میں عشرہ محرم کے ایام میں تقریریں کرتے تھے تو ٹھٹ کے ٹھٹ سنّیوں کے اُن کی تقریر سننے کے شوق میں جمع ہوتے تھے، اور علامہ ابن حسن جارچوی تھے جو شیعوں سے زیادہ سنّیوں کو عزیز تھے اور کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ قائداعظم کس فرقہ سے تھے، بہادر یار جنگ مہدوی فرقہ کے کیوں تھے، مفتی شفیع دیوبندی اور حامد بدایونی بریلوی کس لیے تھے۔ جو بھی تھا، سب کی نظروں میں محترم تھا۔ مولانا مودودی کی تصانیف کا مطالعہ ذوق و شوق سے شیعوں میں بھی ہوتا تھا۔ مگر اب حالت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھائے جارہے ہیں اور معصوم لوگوں کی جان لے کر فرقہ واریت کے شیطان کو خوش کیا جاتا ہے۔ یہ فرقہ وارانہ تعصب ہو یا لسانی تعصب، اس سب کی جڑ ایک ہے کہ ہم اسلام کے احترامِ آدمیت کے درس کو بھول گئے۔ اس کی رواداری کی تعلیم کو بھول گئے۔ اس لیے ہمارے رہنما خواہ مذہبی ہوں یا سیاسی، سب کی طبیعتوں میں تشدد آگیا ہے، اور تشدد کے اس مزاج نے قوم میں مختلف طرح کی خوں آشامیاں پیدا کی ہیں۔ تعصب کے ذہن کی جڑ کاٹنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ انسان خواہ وہ کسی مذہب، مسلک، فرقہ، نسل، زبان اور علاقے کا ہو، اس بنیاد پر اس سے نفرت گناہِ عظیم ہے، اور ہمیں جو بھی انسان دُکھی نظر آئے اُس کی خدمت کرنی چاہیے اور احترامِ آدمیت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ہمیں حکم یہ ہے کہ ہم دوسرے مذہب کے بزرگوں بلکہ ان کے بتوں کو بھی برا نہ کہیں تاکہ ان کی دل آزاری نہ ہو۔ اﷲ کی شریعت میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ زمین پر فساد برپا کیا جائے۔ اور فساد جب ہوتا ہے جاہلانہ عصبیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے دلوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس میں کسی قوم، گروہ یا فرقہ کے خلاف عناد تو نہیں ہے؟ اگر ہے تو اپنے دل کو اس سے پاک کریں، اور جو لوگ یہ پاکیزگی حاصل کرلیں صرف وہی معاشرے میں تعصبات کے خلاف جنگ کی اہلیت رکھتے ہیں اور وہی جنگ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
(18تا24 جون1999ء)