حقوق اللہ،عبادت وبندگی

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

نبی کریم ﷺ نے حضرت حمزہؓ کی بیٹی کے متعلق فرمایا: ’’وہ مجھ کو حلال نہیں۔ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہی دودھ (رضاعت) سے بھی حرام ہوتے ہیں، وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے‘‘۔
(بخاری۔ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ)
(وضاحت: حضرت حمزہؓ اور نبی ﷺنے حضرت ثویبہ کا دودھ پیا تھا۔)

پروفیسر عبدالجبار شاکر
اسلام نے حقوق کی جو درجہ بندی کی ہے یہ کسی ذی فہم اور باشعور انسان کے دماغ کا کرشمہ یا کارنامہ نہیں بلکہ خداوندِ رحمان و رحیم کا عطا کردہ نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے جن حقوق کا قرآن مجید میں تذکرہ فرمایا ہے وہ دراصل وہ بنیادی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں جن کی ادائیگی سے ایمان کی حفاظت نصیب ہوتی ہے۔ عبادت بندگی اور شکرگزاری کی مظہر ہوتی ہے۔ عبادت و عبودیت اللہ تعالیٰ کا وہ حق ہے جس کی ادائیگی سے ایک بندۂ مومن شانِ عبدیت حاصل کرتا ہے۔ مقام بندگی کی عظمتوں کو دیکھنا ہو تو سیرتِ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کے ہزاروں نمونے اور سیکڑوں آداب دکھائی دیتے ہیں۔ عبادت یا بندگی حقیقت میں ایک جذبۂ شکر گزاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے جن انعامات سے نوازا ہے، اس پر غور کیا جائے تو دل و دماغ میں شکر و احسان مندی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ خود انسانی وجود اور اس کے اعضا و جوارح میں معنویات کا جو جہاں آباد کیا گیا ہے، ان کا شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں۔ مگر اس حضرتِ انسان کے لیے کائنات میں رزق کے جو رنگا رنگ اور متنوع وسائل اور خزانے پیدا کیے گئے ہیں ان کو دیکھیے، استعمال کیجیے تو ان کی شکرگزاری کا احساس پیدا ہونا ضروری ہے۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے:
(ترجمہ)’’اگر تم شکر گزار بنو گے تو میں تمہیں مزید بھی دوں گا، اور اگر ناشکرے بنے تو پھر یاد رکھو میرا عذاب اور پکڑ بہت سخت ہے‘‘۔ (ابراہیم:7)
عبادت درحقیقت جذبۂ شکر گزاری ہے، جس کا اظہار کبھی عبادات سے ہوتا ہے اور کبھی مالی انفاق سے۔ عبادت و عبودیت کا حق ادا کرنے کے لیے اتباعِ سنت کا شعور اور ادراک بہت ضروری ہے۔ عبادت کے لیے پاکیزگی اور طہارت بہت ضروری ہے۔ پھر عبادت کو مسنون طریق پر ادا کرنے کا نبوی منہج اور طریق بھی ہمارے پیش نظر ہونا چاہیے۔ عبادت گزاری کا منہج اگر سنتِ نبوی کے مطابق نہ ہو تو اس میں قبولیت کا عنصر پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا یہ حق انسانوں میں عجز، اخلاق اور محبت واخوت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ شریعت کے عطا کردہ عبادات کے پیکیج پر غور کریں تو اس میں ایک اجتماعیت کا شعور ملے گا اور بھرپور اجتماعی مفاد کا احساس ملے گا۔ بظاہر ہم عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی تمام تر نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں، مگر اس میں بھی مقصود خلقِ خدا کی بھلائی ہے۔
آئیے اب ذرا اللہ تعالیٰ کے حقِ عبادت کی نوعیت پر توجہ کریں تو اس میں عجیب روحانی اسرار اور حکمت آموز پہلو دکھائی دیں گے۔ نماز اجتماعیت کا درس دینے میں مؤثر عامل ہے۔ دن میں پانچ وقت بندگانِ خدا پائوں سے پائوں اور کندھے سے کندھا ملائے صف بندی کے ذریعے سے باہمی اخوت کا عملی درس حاصل کرتے ہیں۔ ماہِ صیام کے روزے سحری اور افطاری کے حوالے سے اجتماعی منظر پیدا کرتے ہیں اور اس سے دوسروں کے حقوق کا احساس جنم لیتا ہے۔ اسے ہمدردی اور غم گساری کا مہینہ قرار دیا گیا۔ اس عبادت کے ذریعے سے بندہ اپنے مالک سے قربت کے زینے طے کرتا ہے۔ حج کا فریضۂ عبادت تو ایک عالم گیر منظرنامے کا مسلسل ادراک ہے۔ اس کے مختلف مناسک کی ادائیگی میں ان برگزیدہ شخصیات کے حسنِ عمل کو دوام بخشا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حقِ عبادت کی ادائیگی میں سراپا خود سپردگی اور عاجزی کی علامت بن گئے تھے۔ اس عبادت میں تو جانی اور بدنی دونوں طرح کے احسانات کا شکر وابستہ ہے۔ اور یہ عبادت عالم گیر روحانی جذبات پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ زکوٰۃ بظاہر صاحبِ ثروت حضرات مفلوک الحال اور نادار لوگوں کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، مگر یہ عجیب حکمت ہے کہ مدد ہم مجبور اور معذور انسانوں کی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے حق کی ادائیگی کا ثمرہ قرار دیتے ہیں۔ یہی کیفیت جہاد فی سبیل اللہ کی ہے جس کے ذریعے اعلائے کلمۃ الحق، مستضعفین فی الارض کی مدد اور فتنوں کی سرکوبی کے لیے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرکے عبادت کے بلند ترین معیار کو حاصل کیا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عباد ت کو جہاں اپنا حق قرار دیا ہے وہاں اسے انسانی زندگی کا نصب العین بھی ٹھیرایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ)’’میں نے جن اور انسانوں کی تخلیق صرف اس لیے کی ہے کہ وہ میری عبادت و بندگی کریں‘‘۔ (الذاریات:56)
عبادت و بندگی حقوقِ الٰہیہ میں وہ بنیادی حق ہے جو ایک عملی اظہار کا تقاضا کرتا ہے۔ عبادات کے تمام طریقے مسنون ہونے چاہئیں اور ان میں خشوع و خضوع کو اختیار کرنا چاہیے۔ انسان جس قدر احساسِِ عبودیت سے اس حق کو ادا کرتا ہے، حق تعالیٰ اس عابد وساجد کے مراتب کو اسی قدر بلند کرتا ہے۔
[ماہنامہ دعوۃ، اسلام آباد/ اکتوبر 2007ء]