۔20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے تو ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے ارکان کے ساتھ نورخان ایئربیس پر شاہی مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ ولی عہد کو اکیس توپوں کی سلامی دی گئی اور ایوانِ وزیراعظم میں پاک افواج کے دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی استقبالیہ تقریب میں شریک ہوئے۔ ولی عہد کے دورے کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت میں سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے۔ سعودی ولی عہد کی تصاویر پر مبنی خیرمقدمی بینر اسلام آباد کی اہم شاہراہ پر آویزاں کیے گئے تھے۔ محمد بن سلمان اور اُن کے وفد کی سیکورٹی کا انتظام پاک فوج کے ذمے تھا۔ دو روزہ دورہ مکمل ہونے پر وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان نے انہیں پُرتپاک انداز میں رخصت کیا۔ امریکہ کے دورے کے بعد یہ ان کا دوسرا بڑا غیر ملکی دورہ ہے جس میں وہ سعودی عرب میں اپنی اصلاحات کے بارے میں اپنا ویژن شیئر کررہے ہیں۔ پاکستان کے دورے میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا، مفاہمت کی آٹھ یادداشتوں پر دستخط ہوئے جن میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر اتفاق ہوا۔ یہ سرمایہ کاری تین مراحل میں ہے، جس میں قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی منصوبے شامل ہیں۔ قلیل مدتی منصوبوں میں آر ایل این جی پلانٹس، اکوا پاور، اور سعودی فنڈ فار پاکستان کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ یہ سرمایہ کاری ایک سے دو سال میں پاکستان آئے گی۔ قلیل مدتی سرمایہ کاری کا حجم 7 ارب ڈالر ہے۔ وسط مدتی سرمایہ کاری میں پیٹروکیمیکلز، خوراک اور زراعت کے منصوبے شامل ہیں، جس کا انوسٹمنٹ پلان دو سے تین سال پر محیط ہے، وسط مدتی سرمایہ کاری کا حجم 2 ارب ڈالر ہے۔ تیسرا مرحلہ طویل مدتی سرمایہ کاری کا ہے جس میں آرامکو آئل ریفائنری اور منرل ڈویلپمنٹ بھی شامل ہے، ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کا حجم 12 ارب ڈالر ہے۔ سعودی ولی عہد نے خیبر پختون خوا میں پاکستانی ہیرو فرمان علی خان کے نام سے منسوب ہیلتھ سینٹر قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ فرمان علی خان نے 2009ء میں جدہ میں سیلاب میں اپنی جان دے کر 14 لوگوں کی جان بچائی تھی۔ معاشی تعاون کے آٹھ سمجھوتوں پر دستخط ہوئے، ان میں بلوچستان میں آئل ریفائنری کی تعمیر سمیت پاکستان میں سرمایہ کاری کے سمجھوتے شامل ہیں۔ سعودی عرب سے تیل مؤخر ادائیگی پر لینے کے تمام انتظامات مکمل ہوگئے ہیں، پاکستان کو 3 ارب ڈالر کا، ماہانہ 25 کروڑ ڈالر کا تیل مؤخر ادائیگیوں پر ملے گا۔ وزیراعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، سائنس، انفارمیشن اور میڈیا سمیت مختلف جوائنٹ گروپس کے اجلاس کی مشترکہ صدارت بھی کی۔
وزیراعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد کی کونسل کی مشترکہ صدارت ایک اہم پیش رفت ہے۔ سپریم کونسل دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اور معاشی ترقی کے اہداف طے کرے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی، دفاعی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون کے لیے 3 پلرز قائم کیے گئے ہیں۔ تینوں پلرز کی اسٹیرنگ کمیٹیاں بھی تشکیل دے دی گئیں، پہلا پلر پولیٹکل اور سیکورٹی کا ہے۔ سعودی وزراء خارجہ، دفاع، داخلہ کی وزارتیں سیکورٹی پلر میں شامل ہیں۔ سعودی ہوم لینڈ سیکورٹی اور جنرل انٹیلی جنس کے حکام بھی اس میں شامل ہیں۔ پاکستان کی جانب سے خارجہ، دفاع اور داخلہ کے وزراء نمائندگی کریں گے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کا ادارہ بھی سیکورٹی پلر میں شامل ہے۔
سعودی ولی عہد کا یہ دورہ کئی لحاظ سے بہت اہم تھا، لیکن حکومت نے ملک میں یک جہتی کے ماحول کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اپوزیشن کو اس لیے نہیں بلایا کہ اس پر الزامات ہیں، ملک بھر کے تاجروں کی فیڈریشن کے نمائندوں کو بھی سعودی وفد سے ملاقات کے لیے نہیں بلایا گیا۔ چیمبرز کے مرکزی عہدیدار دوسرے شہروں سے اسلام آباد پہنچ کر دو روز انتظار کرتے رہے کہ حکومت انہیں سعودی کاروباری شخصیات سے ملاقات کے لیے بلائے گی، لیکن انہیں نہیں بلایا گیا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایوانِ صدر میں ولی عہد کے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔ ولی عہد محمد بن سلمان کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ’نشانِ پاکستان‘ عطا کیا گیا۔ اس ظہرانہ کے موقع پر ولی عہد نے دورۂ پاکستان کے سلسلے میں پاکستانی عوام کے نام پیغام بھی دیا۔ ایوانِ صدر کے ظہرانہ میں مسلح افواج کے سربراہ، کابینہ کے ارکان اور اہم شخصیات مدعو تھیں۔ ایوانِ وزیراعظم میں وزیراعظم عمران خان نے انہیں عشائیہ دیا، اسی عشائیہ میں وزیراعظم نے اُن سے سعودی عرب کی جیلوں میں قید تین ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لیے ہمدردانہ غور کی درخواست کی۔ ان کی درخواست پر ولی عہد نے 2107 قیدیوں کی فوری رہائی کا حکم جاری کیا۔ سعودی عرب کی جیلوں میں قید لوگوں کی رہائی کا مطالبہ حکومت سے جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کیا تھا۔ ولی عہد کے دورے کے اختتام پر حکومت نے اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے کرتار پور بارڈرکھولنے کے فیصلے کو سراہا گیا، سعودی عرب نے پاکستان کی بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کو سراہا، دونوں ممالک نے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی۔ اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم نے سعودی ولی عہد کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا اور کہا کہ مسئلہ کشمیرکا حل یو این قرارداد اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کا خطے میں امن و امان اور سیکورٹی پر واضح مؤقف ہے۔
پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے بھی دورہ مکمل ہونے پر بیان جاری کیاکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کا دورۂ پاکستان دونوں ممالک کے تاریخی روابط اور مشترکہ تعاون سے عبارت ہے۔ سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے اس امر کو اجاگر کیا کہ سیاسی، معاشی، سلامتی اور دفاعی شعبہ جات میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی سربراہی میں سینیٹ کے وفد نے ولی عہد سے ملاقات کی۔ وفد میں قائدِ ایوان سینیٹر شبلی فراز، قائدِ حزبِ اختلاف سینیٹر راجا محمد ظفر الحق، سینیٹر مشاہداللہ خان، سینیٹر محمد اعظم خان سواتی اور سینیٹر اورنگ زیب خان اورکزئی شامل تھے۔ اس ملاقات میں راجا ظفرالحق نے ولی عہد کو پاکستان کا دورہ کرنے پر خوش آمدید پر مبنی نوازشریف اور شہبازشریف کا پیغام پہنچایا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے درخواست کی گئی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم روکنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں۔ ایوانِ صدر میں ہی قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی زیر قیادت 4 رکنی پارلیمانی وفد نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ وفد میں ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری، چیف وہپ عامر ڈوگر اور وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان شامل تھے۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہبازشریف نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے جذبۂ خیرسگالی کی تعریف کی اور سعودی جیلوں میں قید 2107 پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا خیرمقدم کیا۔ پیپلز پارٹی نے سعودی ولی عہد کے دورے کے دوران قومی اسمبلی سے اپوزیشن ارکان کو دعوت نہ دینے پر تشویش کا اظہار کیا۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ اپوزیشن کو مدعو نہ کرکے حکومت نے کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کہا کہ ان کی ذاتی رائے میں حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کو ولی عہد سے ملاقات کے لیے مدعو کرنا چاہیے تھا۔
بہرحال اب یہ دورہ مکمل ہوچکا ہے، امید کی جارہی ہے کہ سعودی ولی عہد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے خاتمے اور دونوں ملکوں پر اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیں گے۔ پاکستان نے دہلی میں اپنے ہائی کمشنر سہیل محمود کو مشاورت کے لیے اسلام آباد طلب کیا اور انہیں ولی عہد کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا گیا۔ اس دورے کے حوالے سے اسلام آباد کے اہم حلقے یہ باور کررہے ہیں کہ یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ سعودی عرب نے یمن میں پاکستان سے کسی قسم کی فوجی کمک کا تقاضا کیا، نہ ایران کے حوالے سے کسی قسم کے تحفظات سامنے آئے ہیں۔ پاک سعودی تعلقات یقیناً اپنی معراج پر ہیں۔ پاک سعودی تعلقات میں گہرائی کا احاطہ تین الفاظ میں کیا جاسکتا ہے کہ یہ منفرد، گہرے اور پائیدار ہیں۔ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ پاکستان نے انتہائی کامیابی سے دہشت گردی کا سامنا کیا، اور یہ بات سعودی عرب نے اپنی اقتصادی ترقی کے لیے پلے باندھ لی ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی، جنوبی تجارتی کوریڈورزکے جغرافیائی محلِ وقوع میں پاکستان کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبہ سی پیک نے اہمیت مزید اجاگر کردی ہے۔ سعودی عرب چین، وسطی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ اپنے عالمی اقتصادی تعلقات میں بھی تبدیلی لا رہا ہے، تبھی انہیں بحیرہ عرب میں پاکستان کے گوادر پورٹ کی اسٹرے ٹیجک اہمیت سمجھ میں آئی۔ لہٰذا انہیں ادراک ہوا کہ جنوب مغربی ایشیائی اقتصادی جغرافیائی محل وقوع پر سی پیک ایک ایسا موقع ہے جس سے مستقبل میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرکے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اسی لیے سعودی عرب اب پاک اقتصادی راہداری قائم کرنے کا فیصلہ کررہا ہے۔ ماضی میں پاکستان نے سعودی عرب کو ضرورت کے وقت سیکورٹی امداد فراہم کی۔ سعودی عرب نے مشکل وقت میں پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے میں تعاون کیا۔ تعلقات کو برقرار رکھنے کا یہ عمل یونہی جاری رہے گا۔ خواہ حکومتی قیادت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی رونما ہو، سعودی حمایت ہمیشہ غیر مشروط ہی رہے گی۔ پاکستان کو اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے لیے سعودی حکومت نے حال ہی میں 6 ارب ڈالرکی امداد دی جس میں سال بھر کے برآمدی تیل پر 3 ارب ڈالر کی چھوٹ بھی دی گئی، اب سعودی عرب پاکستان کے اقتصادی شعبوں میں طویل مدتی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے۔ اس اقدام کو سعودی ریاست اور نجی کاروباری ادارے قابلِ تعمیل خیال کررہے ہیں۔ یہ سعودی عرب کی ایشیائی ممالک خاص طور پر پاکستان میں اقتصادی رابطوں کو متنوع کرنے کی کاوشوں کا حصہ ہے۔ اس مقصد کے لیے سعودی ریاستی حکام اور تاجروں کے اعلیٰ سطحی وفد نے توانائی کے وزیر خالد بن عبدالعزیز کی قیادت میں گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ کیا، جس میں پاکستان کے ساتھ آئل ریفائننگ، پیٹرو کیمیکل، کان کنی اور قابلِ تجدید انرجی کے شعبوں میں مختلف معاہدوں اور طریقہ کار پر دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کو حتمی شکل دی گئی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان گوادر میں10ارب ڈالر مالیت کی آئل ریفائنری، پیٹرو کیمیکل کمپلیکس، کان کنی اور قابلِ تجدید توانائی اور دیگر شعبوں پر مزید سرمایہ کاری کے معاہدے کو انجام دیں گے۔ دونوں ممالک میں دو طرفہ تجارت کی سطح کو بڑھانے اور سالانہ 3 بلین ڈالر کا حجم برقرار رکھنے کے لیے ایک آزادانہ تجارتی معاہدے پر بات چیت پر بھی اتفاق ہوا تھا۔ ولی عہد محمد بن سلمان کی لیڈرشپ میں سعودی عرب ترقی کے لیے ویژن2030ء پر کام کررہا ہے جو پاکستان کے آئی ٹی کے شعبے کو سعودی صنعت اور مستقبل کے پراجیکٹس میں کام کرنے کے مواقع فراہم کرے گا۔
اگر سعودی ولی عہد کے دورے کو اس خطہ اور عالمی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقائق ہمارے سامنے ہیں کہ اس وقت دنیا میں چار ایسے خطے ہیں جہاں کشیدگی کا ماحول ہے، اور یہ کشیدگی پاکستان اور سعودی عرب دونوں کو متاثر کررہی ہے، ان میں ایک مسئلہ یوریشیا کا ہے جہاں یوکرائن کے معاملے پر روس اور امریکہ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں، دوسرا معاملہ چین کا ہے، بعض عالمی طاقتوں کی جانب سے چین کا محاصرہ کرنے کی کوششیںجاری ہیں، تیسرا مسئلہ 17 برس سے جاری افغانستان کی صورت حال ہے جہاں انسانیت امریکہ اور نیٹو فورسز کے ہاتھوں ذبح ہورہی ہے۔ اسی خطہ میں مقبوضہ کشمیر بھی ہے جہاں بھارت کی فوج انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں میں مصروف ہے۔ یہی صورتِ حال مشرقِ وسطیٰ کی ہے، شام کی خانہ جنگی انسانی تاریخ کے ایک بہت بڑے سانحہ کا روپ دھار چکی ہے، یمن میں8.4 ملین لوگ اس وقت فاقہ کشی کی دہلیز پر کھڑے ہیں، اور تباہ حال عراق استحکام اور امن کو ترس رہا ہے۔ ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کا انکار، سعودی عرب کی جانب سے قطر کا بائیکاٹ، حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر میزائل حملے، اور غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے مظالم کی صورت سعودی قیادت کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سیاسی افق تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ان حالات میں جہاں سعودی عرب اور پاکستان کے سامنے بہت سے چیلنج آئے ہیں، وہیں تعمیر و ترقی کے بہت سے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان اور سعودی عرب کی قیادت کو باہمی تجارت، اقتصادی تعاون اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کو او آئی سی کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے امتِ مسلمہ کے اتحاد کو مضبوط بنانے اور غیر مسلم ممالک امریکہ، چین، روس اور یورپی یونین کے ساتھ مسلم دنیا کے تعلقات بہتر اور مستحکم بنانے کے ضمن میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ اسلام مخالف پروپیگنڈے کا سدِباب کیا جا سکے۔ پاکستان کو تکنیکی شعبے میں بڑے پیمانے پر افرادی قوت تیار کرنے کی ضرورت ہے جو جی سی سی ممالک میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے سعودی ویژن2030ء پر عمل درآمد کی راہ ہموار کرے۔ اس سے پاکستان کی بیرونی ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوگا جو ہمارے معاشی استحکام کا باعث بنے گا۔ سعودی عرب کی فوج جدید ترین ہتھیاروں اور جنگی ٹیکنالوجی سے لیس ہے، تاہم انہیں مزید پیشہ ورانہ تربیت کی ضرورت ہے، اور اس شعبے میں پاکستان سعودی عرب کی مدد کرسکتا ہے۔ سعودی عرب کے 33 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں کئی اصلاحات شروع کی ہیں۔ سعودی عرب اپنی معیشت کا انحصار تیل پر سے ختم کرنے کے لیے اقتصادی اصلاحات کا پروگرام شروع کرچکا ہے۔ سعودی عرب کو صرف تیل برآمد کرنے والے ملک سے بدل کر صنعت اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ایک جدید ملک بنانے کے لیے ویژن 2030ء کا اعلان کیا گیا ہے۔ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے اندر اصلاحات کا بھی آغاز کیا، خواتین کے لیے معاشی اور سماجی ترقی میں کھیلوں میں شرکت سمیت فعال کردار ادا کرنے کے لیے مواقع پیدا کیے، ملک کے اندر کرپشن کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے۔ حکومتِ پاکستان بھی ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ انہوں نے اہم شخصیات سے ناجائز طور پر حاصل کی گئی دولت سے 107 ارب ڈالر واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے۔ اس سب کے باوجود سعودی ولی عہد کو خود کو عالم اسلام میں قابل قبول بنانے کے لیے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ وہ ان چیلنجز سے کیسے نمٹتے ہیں، یہی ان کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہے-۔