قانون و انصاف کی حکمرانی یا حکمرانوں کا قانون و انصاف؟
ہم اپنے لکھے کو دہرانے کے عادی نہیں، لیکن اسٹیبلشمنٹ، شریفوں، زرداریوں اور عمران خانوں کے پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ چنانچہ آپ کو 28 ستمبر 2018ء کے فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہونے والے ہمارے کالم کا ابتدائیہ ایک بار پھر پڑھنا ہوگا۔ اس کالم کا عنوان تھا: ’’ پسِ پردہ ڈیل یا ڈھیل، اور شریفوں کو ملنے والے رہائی‘‘۔ ہم نے عرض کیا تھا:
’’ایک بار پھر قوم پر یہ تلخ حقیقت آشکار ہوگئی کہ پاکستان کی سیاست کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، شریف خاندان، ملک کا پورا نظامِ انصاف، عمران خان اور ان کی جماعت، ذرائع ابلاغ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ گزشتہ قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ اپنے طاقتور لوگوںکو اُن کے جرائم کی سزا سے محفوظ رکھتی تھیں اور اپنے معاشرے کے کمزور لوگوں پر سزائیں مسلط کرتی تھیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا۔ اسی لیے حضرت علیؓ نے کہا ہے کہ معاشرے کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں مگر انصاف کے بغیر نہیں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی فوجی اور سول اشرافیہ کے لیے ان باتوں کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ ان کے لیے ان کے مفادات ہی ان کا مذہب ہیں۔ ان کی فکری گمراہیاں ہی ان کا الہام ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ انصاف کرو کیوں کہ انصاف ’’تقویٰ‘‘ کے قریب ہے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کے نزدیک انصاف وہ ہے جو ’’بٹوے‘‘ اور ’’ڈنڈے‘‘ کے قریب ہے۔
ان تمام حقائق کا تازہ ترین مظہر میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی رہائی ہے۔ اس رہائی نے معاشرے میں عدل، انصاف، قانون، حُسن، خیر، صداقت، اخلاق، کردار غرض یہ کہ ہر اُس قدر کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے جس سے معاشرہ، معاشرہ بنتا ہے۔ لوگ قانون شکنی دیکھتے ہیں تو اسے جنگل کا قانون قرار دیتے ہیں، لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے جنگل کے قانون کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستانی معاشرہ جنگل کے قانون کے نہیں، جرنیلوں اور اُن کے باج گزار سیاست دانوں کے قانون کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ مگر ان باتوں کا مفہوم کیا ہے؟
تاریخ میں ایسا ہوتا رہتا ہے کہ کسی ایک واقعے، کسی ایک حادثے اور کسی ایک سانحے کی وجہ سے حکمران طبقات کا ’’اجتماعی باطن‘‘ ایک ’’اشتہار‘‘ بن کر سامنے آجاتا ہے۔ ’’شریفوں‘‘ کی رہائی ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔‘‘
ان خیالات کو دہرانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے میاں شہبازشریف کی دو مقدمات میں ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ججوں نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ شہبازشریف رمضان شوگر ملز میں کبھی چیف ایگزیکٹو نہیں رہے۔ آئندہ کوئی ترقیاتی کام نہیں کرائے گا۔ لگتا ہے معاملہ کچھ اور ہے۔ بیٹے کو نہیں پکڑنا، باپ کو پکڑ لو۔ اس کے ساتھ ہی میاں نوازشریف نے بھی فرما دیا ہے کہ انہیں آئندہ جمعہ تک رہائی کی امید ہے۔ اطلاعات کے مطابق نیب نے میاں شہبازشریف کی رہائی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان کے نفسِ امارہ فواد چودھری نے فرمایا ہے کہ قوم میاں شہبازشریف کی رہائی کے فیصلے پر مایوس ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کو بڑے لوگوں کے خلاف ثبوت نہیں ملتے۔ ایک خبر کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ ’’نیا پاکستان‘‘ ہے جس کی طرف دنیا دیکھ رہی ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 15 فروری2019ء)
مذکورہ بالا اطلاعات کو دیکھا جائے تو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں سب کچھ ’’قانون‘‘ کے تحت ہورہا ہے، ’’آئین‘‘ کے تحت ہورہا ہے، ’’انصاف‘‘ کے تحت ہورہا ہے، ’’اصولوں‘‘ کے تحت ہورہا ہے، ’’ضابطوں‘‘ کے تحت ہورہا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ ملک میں کوئی قانون ہے، نہ کوئی آئین ہے، نہ کوئی انصاف ہے، نہ کوئی اصول ہے، نہ کوئی ضابطہ ہے۔ ملک میں جو بھی کچھ ہے اسٹیبلشمنٹ اور شریفوں کی طاقت کا پھیلائو ہے۔ شریفوں کی رہائی کے حوالے سے اصل تماشا کیا ہے اس پر ہم خود بھی بات کرسکتے ہیں، لیکن اصل تماشے کو اگر صحافت میں موجود شریفوں کے عاشقوں، وکیلوں اور ہمدردوں کی تحریروں کے ذریعے آشکار کیا جائے تو اس کا ’’لطف‘‘ ہی کچھ اور ہے۔
شہبارشریف کی رہائی کا حکم 14 فروری 2019ء کو جاری ہوا، اور میاں نوازشریف کے اپنے دعوے کے مطابق انہیں 22 فروری 2019ء کو رہائی مل سکتی ہے۔ لیکن دیکھیے تو، ایک ماہ قبل روزنامہ جنگ کے کالم نگار محمد بلال غوری جو شریفوں کے ’’عاشقِ زار‘‘ ہیں، اپنے کالم میں کیا لکھ رہے تھے۔ ’’پانسہ پلٹ رہا ہے‘‘ کے عنوان کے تحت محمد بلال غوری نے لکھا:
’’نوازشریف کی مشکلات دور ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اب نہ صرف عدالتی جنگ کا پانسہ اُن کے حق میں پلٹ رہا ہے بلکہ لگتا ہے کہ کھوئے ہوئے مال بردار جہاز بھی بعض نئی شرائط پر واپس دلانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ مجھے تو امریکہ کے سابق صدر روزویلٹ کے الفاظ یاد آرہے ہیں، سیاست میں کچھ بھی حادثاتی طور پر نہیں ہوتا، اگر کوئی حادثہ بھی ہو تو آپ شرطیہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔‘‘ (روزنامہ جنگ۔ 17 جنوری 2019ء)
شہبازشریف کو لاہور ہائی کورٹ نے 14 فروری 2019ء کے روز رہا کرنے کا فیصلہ کیا، اور میاں نوازشریف کو ’’امید‘‘ ہے کہ وہ 22 فروری 2019ء کو رہا ہوجائیں گے، مگر شریفوں کے صحافتی وکیل محمد بلال غوری کو 17 جنوری 2019ء سے پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا کہ ’’عدالتی جنگ‘‘ کا پانسہ نوازشریف کے حق میں پلٹ رہا ہے بلکہ ان کے ’’کھوئے ہوئے جہاز‘‘ بھی بعض ’’شرائط‘‘ کے ساتھ واپس ملنے والے ہیں۔ بلال غوری نے یہاں یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ سیاست میں کوئی چیز بھی ’’حادثاتی‘‘ طور پر نہیں ہوتی بلکہ ’’منصوبہ بندی‘‘ کے تحت ہوتی ہے۔ آئیے نعرہ لگائیں: اسٹیبلشمنٹ زندہ باد… شریفوں کا خاندان اور اُن کی طاقت زندہ باد۔ ملک کا نظامِ انصاف پائندہ باد۔
لیکن یہ تو محض ابتدا ہے۔ جنگ کے محمد بلال غوری نے 17 جنوری 2019ء کو میاں صاحب کے لیے پانسے کو پلٹتے ہوئے دیکھا تو روزنامہ دنیا کے سلمان غنی بھی اسی روز معلومات سے بھری ہوئی زنبیل لیے سامنے آکھڑے ہوئے۔ انہوں نے روزنامہ دنیا کراچی کے صفحہ اول پر شائع ہونے والے اپنے تجزیے کو ’’ن لیگ، مزاحمت سے مفاہمت کی جانب؟‘‘ کا عنوان دیا۔ سلمان غنی نے لکھا:
’’ملکی حالات اور نئے پیدا شدہ سیاسی رجحانات میں ’’شریف خاندان‘‘ کے لیے ریلیف کا عمل شروع ہوتا نظر آرہا ہے۔ اور اس میں حکمت عملی شہبازشریف کی ہے کہ ہمیں محض مزاحمت اور محاذ آرائی بڑھانے کے بجائے قانونی عمل کی پیروی اور سیاسی عمل کے تسلسل کے ذریعے ہی اپنے لیے راستہ بنانا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف، مریم نواز اور ان کے حامیوں کی خاموشی کے بعد مسلم لیگ (ن) ایوانوں میں بھی لیڈ کرتی دکھائی دے رہی ہے اور سیاسی محاذ پر ان کا اثر رسوخ بڑھ رہا ہے۔ یہ اس جماعت کی کامیاب حکمت عملی ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نیب کے احتسابی کٹہرے میں بھی موجود ہیں اور پارلیمنٹ کے سب سے بڑے احتسابی فورم کے چیئرمین بھی ہیں۔ یہ وہی فورم ہے جہاں حکومتِ وقت اور بڑے تحقیقاتی ادارے ان کے سامنے پیش بھی ہورہے ہیں اور جواب دہ بھی ہوتے ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے ہوا جسے خود قائدِ ایوان اور ان کی حکومت نے اپنی اَنا کا مسئلہ بناتے ہوئے اس عہدے پر شہبازشریف کی نامزدگی کو ناممکن قرار دیا تھا اور باقاعدہ اس کے خلاف میڈیا کے محاذ پر مہم چلائی تھی۔ وہ کون سے پراسرار اشارے تھے جس پر حکومت نے راتوں رات یوٹرن لیا اور شہبازشریف کو بطور چیئرمین پی اے سی قبول کرلیا گیا، اور بیچارے شیخ رشید کو بھی کانوں کان خبر نہ ہوئی اور وہ پھر اپنی شرمندگی کو مٹانے کے لیے بار بار سپریم کورٹ جانے کی دھمکیاں دیتے نظر آئے، مگر بعد ازاں جب انہیں پتا چلا کہ یہ فیصلہ اُن راہداریوں میں ہوا ہے جن کی خاک خود شیخ رشید بھی چھانتے رہے ہیں تو پھر انہوں نے اس پی اے سی کی رکنیت کے لیے رجوع پر اکتفا کرلیا۔ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ اور مسلم لیگ (ن) جیسی جماعت بالآخر اداروں سے مفاہمتی عمل پر کیوں کر مجبور ہوئی؟ اور کیا یہ سب کچھ اس خاموش مفاہمتی عمل کا نتیجہ ہے جس کے ایک جانب مسلم لیگ (ن) کو ریلیف مل رہا ہے تو دوسری جانب ن لیگ کی صفوں میں پراسرار خاموشی طاری ہے اور اپنے یوم تاسیس پر بھی خاموش رہنے والی جماعت اب پارلیمنٹ میں مرکزِ نگاہ بنی ہوئی ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کا چیمبر نواب زادہ نصر اللہ خان کی نکلسن روڈ والی رہائش گاہ کی یاد دلا رہا ہے جہاں شیر اور بکری ایک ہی جمہوری تالاب سے پانی پیتے نظر آرہے تھے۔ وہ عدالتیں جہاں سے فیصلوں کی ابتدا گاڈ فادر اور مافیاز جیسے ریمارکس سے ہوئی تھی وہاں اب شفاف ٹرائل کا بنیادی حق محفوظ ہوتا نظر آرہا ہے۔ نیب کی اپیل یکے بعد دیگرے اعلیٰ عدالتی ایوانوں سے مسترد ہورہی ہے۔ یقینا یہ ایک بہتر قانونی حکمت عملی کا بھی نتیجہ ہوگا اور بہتر سیاسی حکمت عملی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر شہبازشریف فیملی کو ریلیف روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آرہا ہے۔ شہبازشریف کے پروڈکشن آرڈرز کے بعد ان کی چیئرمین پی اے سی اور پھر اسلام آباد میں منسٹر انکلیو میں ان کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کے عمل سے بہت کچھ واضح ہوچکا ہے، اور اب ان کے صاحبزادے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈری بھی چمکا رہے ہیں۔ ایک وقت تھا وہ اپنی ضمانتیں کراتے پھر رہے تھے، اب وہ 10 دن کی خصوصی اجازت پر لندن کے سفر کی تیاری میں ہیں۔ جو کام اور جو ہدف یا ریلیف نوازشریف ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ سے نہ لے سکے، وہ کام اب جیل کی بند سلاخوں کے پیچھے بیٹھے وہ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ شاید پاکستانی تاریخ میں اس وقت خاموش این آراو کا کوئی ثبوت نہ ملے گا مگر اثرات ہمیشہ نظر آتے رہیں گے۔ حکومتی و سیاسی ایوانوں میں شہبازشریف کے بڑھتے ہوئے سیاسی کردار پر چہ میگوئیوں کا عمل جاری ہے اور ان کے قریبی حلقے یہ کہتے نظر آرہے ہیںکہ شہبازشریف ٹھیک ہی کہتے تھے کہ مجھے یقین ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا اور راستہ بنتا نظر آرہا ہے۔ مگر یہ پتا لگانا مشکل ہوگا کہ راستہ بنا کیسے اور بنایا کیسے، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ شریف خاندان خصوصاً شہبازشریف اور ان کے اہلِ خانہ سے مشکل وقت ٹل رہا ہے۔‘‘ (روزنامہ دنیا کراچی۔ 17 جنوری 2019ء)
روزنامہ جنگ اور روزنامہ دنیا میں کچھ بھی مشترک نہیں مگر روزنامہ جنگ کے محمد بلال غوری کے پاس شریفوں کو حاصل ہونے والی ’’ڈیل اور ڈھیل‘‘ کی جو اطلاعات تھیں، ویسی ہی اطلاعات روزنامہ دنیا کے سلمان غنی کے پاس بھی تھیں۔ لیکن ڈیل اور ڈھیل کے تماشے کا بیان صرف بلال غوری اور سلمان غنی کی تحریروں تک محدود نہ رہا۔ بلال غوری کا کالم اور سلمان غنی کا تجزیہ 17 جنوری 2019ء کو شائع ہوا۔ دو روز بعد اعزاز سید نے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں تحریر کیا:
’’شہبازشریف نیب کی گرفتاری کے بعد پہلی بار پارلیمنٹ ہائوس آئے تو لیڈرآف دی اپوزیشن کے چیمبر میں بیٹھ کر لیگی رہنمائوں سے مشاورت کرنے لگے کہ قومی اسمبلی کے خطاب میں کیا کہا جائے؟ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ایم این اے نے مشورہ دیا کہ جناب انتخابات کے دوران کی جانے والی دھاندلی اور اپنے کیس کے پیچھے اصل کرداروں کو بے نقاب کیا جائے۔ شہبازشریف نے فوری انگلی ہوا میں لہراتے ہوئے جواب دیا،’’تسی جو مرضی کرلو، میں عمران خان توں اگے اک لفظ نہیں بولنڑا‘‘۔ ترجمہ: آپ جو مرضی کرلیں میں عمران خان کے آگے ایک لفظ نہیں بولوں گا۔ اسی روز ہم میڈیا کے نمائندوں کے سامنے بات چیت کے لیے آئے تو سب نے کرید کرید کر پوچھا کہ جناب آپ کے ساتھ ایسا سب کچھ آخر ہو کیوں رہا ہے اور کرکون رہا ہے ؟ شہبازشریف نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ میرے سوال کے جواب میں گلہ کرنے لگے کہ میں ہر بار دونوں بھائیوں کے مختلف بیانیے کے بارے میں ایسی منفی باتیں کیوں کرتا ہوں؟ اس سے قبل لاہور میں پارٹی اجلاس کے دوران سابق وزیردفاع خرم دستگیر نے بھی انہیں شیر بننے کی صلاح دی تو وزیراعلیٰ کی طاقت کے ساتھ بیوروکریسی کے سامنے شیر بننے والے شہبازشریف نے سابق وزیردفاع کی بات پر کوئی توجہ نہ دی۔
ان واقعات اور دیگر بہت سے واقعات کو ذہن میں لاکر میں اکثر سوچتا تھا کہ شہبازشریف آخر چاہتے کیا ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ حالات واضح ہوتے گئے اور شہبازشریف کی چالیں بھی سمجھ میں آنے لگیں۔ جلد ہی شہبازشریف کو پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ مل گیا۔ یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر کا عہدہ ہے۔ یعنی پورا پروٹوکول اور طاقت کے مزے الگ۔ شہبازشریف چونکہ فرماں بردار بھی بہت ہیں اور رات کو ملاقاتوں کے شوقین بھی، اسی لیے 23 اور 24 دسمبر کی درمیانی شب دو افسروں نے ان سے ملاقات کی اور خوب راز و نیاز کی باتیں کیں۔ میں نے دو تین سینئرلیگی رہنمائوں سے پوچھا کہ جناب کیا آپ کو شہبازشریف صاحب نے اپنی حالیہ ملاقاتوں کے بارے میں اعتماد میں لیا ہے؟ تو ان میں سے ایک نے کہا: جناب یہ ہمیں ایسی ملاقاتوں کا کب بتاتے ہیں۔ ملاقاتیں کی ہیں تو ٹھیک ہی کیا ہوگا۔ تاہم مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ شہباز جتنی مرضی ملاقاتیں کرلیں، کوئی بھی فیصلہ بہرحال نوازشریف ہی کریں گے۔‘‘(روزنامہ جنگ 19 جنوری 2019ء)
بلال غوری اور سلمان غنی کو جو باتیںمعلوم تھیں وہ باتیں اعزاز سید کے بھی علم میں تھیں، انہیں معلوم تھاکہ میاں شہبازشریف رات کے اندھیروں میں ’’افسروں‘‘کے ساتھ ’’ملاقاتیں‘‘ فرما رہے ہیں۔ اعزاز سید کے کالم سے جہاں میاں شہبازشریف کا ’’تحرک‘‘ ظاہر ہے، وہیں یہ بھی عیاں ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے ’’انقلابی‘‘ اور ’’نظریاتی‘‘ میاں نوازشریف کی رضامندی سے ہورہا ہے۔ وہ نہ چاہتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ جیسا کہ ظاہر ہے اعزاز سید کا کالم بھی لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے ایک ماہ قبل کا ہے جس کے تحت میاں شہبازشریف کو رہا کیا گیا ہے۔ آئیے ایک بار پھر نعرہ لگائیں: اسٹیبلشمنٹ زندہ باد۔ شریف خاندان کی ’’طاقت‘‘ زندہ باد۔ ملک کا نظامِ انصاف پائندہ باد۔
روزنامہ دنیا میں زیربحث موضوع کے حوالے سے طارق عزیز کا بھی ایک تجزیہ صفحۂ اوّل پر شائع ہوا۔ طارق عزیز نے لکھا:
’’ن لیگ کے اندر ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ مقتدر حلقوں سے کیا بات چیت ہورہی ہے، اس بارے میں پارٹی کے سینئر ترین رہنما بھی لاعلم ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اس پر پورا خاندان (نوازشریف، شہبازشریف، مریم نواز، حمزہ شہباز) متفق ہے۔ مریم نواز نے بھی والد، چچا اور دادی کی رائے کے سامنے سرنڈر کردیا ہے، پوری فیملی کا اتفاق ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے خاندان اور ن لیگ کے لیے اس سے بہتر آپشن اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ رپورٹ کے مطابق پارٹی کے اندر یہ رائے موجود ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیہ پر ہی ن لیگ کو ایک کروڑ 28 لاکھ ووٹ ملے ہیں تو پھر اس بیانیہ پر خاموشی کیوں ہے، بیانیہ کیوں تبدیل ہوا؟ جارحانہ طرزِ سیاست والے ہارڈ لائنرز کا خیال ہے کہ بیانیہ کو جاری رکھا جاتا تو زیادہ بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔ یہ دھڑا جاننا چاہتا ہے کہ اگر بیانیہ تبدیل ہوا اور طرز سیاست بدلی تو ہمیں اعتماد میں لیا جاتا اور بتایا جاتا کہ اس سے کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ اپنے طور پر بیانیہ میں تبدیلی اور خاموشی پر کئی سینئر رہنما بھی سوال اٹھاتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس ایک مؤثر دھڑا بیانیہ کی تبدیلی اور خاموشی پر اتفاق کرتا ہے اور اس کے حق میں دلائل رکھتا ہے۔ تاہم یہ دھڑا ابھی اندر کی کہانی سے لاعلم ہے، پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی کئی ارکان اسمبلی نے اس پر صدر شہبازشریف سے استفسار کیا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب حاصل نہ کرسکے۔ گومگو کی صورتِ حال نے ن لیگ کے اندر وسوسوں اور اندیشوں کو جنم دیا ہے، مزید برآں فیصلوں کا اختیار نواز، شہباز کس کے پاس ہے؟ بیانیہ کی تبدیلی کا فیصلہ کیونکر ہوا؟ ن لیگ مزاحمتی اور احتجاجی سیاست سے کیوں گریز کررہی ہے؟ اور بار بار کہا جاتا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں گے نہ حکومت گرائیں گے بلکہ اس قسم کی کوشش میں شامل نہیں ہوں گے، حالانکہ وزیراعظم عمران خان کی تبدیلی کے لیے صرف آدھا درجن ارکانِ اسمبلی کی حمایت درکار ہے جو کہ متحدہ اپوزیشن کے لیے ناممکن ٹاسک نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے باخبر حلقے کھلے عام یہ کہتے ہیں کہ نوازشریف جلد جیل سے باہر ہوں گے اور کچھ عرصہ کے لیے بیٹی مریم کو لے کر لندن عازم سفر ہوجائیں گے، جب کہ شہبازشریف پارلیمان کی سیاست کریں گے، انہیں بھی ریلیف ملناشروع ہوجائے گا، شریف خاندان کو ریلیف کی فراہمی اس بات سے مشروط ہوگی کہ وہ عمران خان حکومت کو چلنے میں کس حد تک تعاون و مدد کرتے ہیں یا رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔‘‘ (روزنامہ دنیا۔ 22 جنوری 2019ء)
جیسا کہ ظاہر ہے طارق عزیز بھی ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ اور ’’شریفوں‘‘ میں ڈیل اور ڈھیل ہی کی اطلاع دے رہے ہیں، حالانکہ ابھی میاں شہبازشریف کی رہائی میں 22 روز باقی تھے۔
میاں شہبازشریف کی رہائی 14 فروری 2019ء کو عمل میں آئی۔ اس سے تین روز قبل میاں نوازشریف کے عاشق اور صحافتی وکیل محمد بلال غوری ایک بار پھر متحرک ہوئے اور انہوں نے ایک کالم تحریر فرما دیا۔ کالم کا عنوان ان کے پہلے کالم سے بھی زیادہ معنی خیز تھا یعنی ’’این آر او ہو نہیں رہا، ہوگیا ہے‘‘۔ اس عنوان کے تحت محمد بلال غوری نے کیا فرمایا، انہی کے الفاظ میںملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں:
’’آپ نے وہ جملہ تو سنا ہوگا جو خلیل جبران سے منسوب ہے، لیکن درحقیقت کسی نامعلوم دانشور کا قول ہے ’’اس نے کہا، میں نے مان لیا۔ اس نے اصرار کیا، مجھے شک ہوا۔ اس نے قسم کھائی، مجھے اس کے جھوٹا ہونے کا یقین ہوگیا‘‘۔ عمران خان نے وزیراعظم کا حلف اٹھاتے ہی جب پہلی بار دوٹوک انداز میں اعلان کیا کہ کسی کرپٹ شخص کو کوئی رعایت نہیں ملے گی تو ان کی بات پر فوراً یقین کرلیا گیا، لیکن 6 ماہ پر محیط دورِ حکومت میں عمران خان کم از کم چھے مرتبہ اپنے اس عزم کو دہرا چکے ہیں کہ کسی شخص یا سیاسی جماعت کو این آر او نہیں ملے گا۔ پنجاب کے علاقے بلوکی میں شجرکاری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تو وزیراعظم اس قدر جذباتی ہوگئے کہ این آر او دینے کو ملک سے غداری قرار دے دیا۔
تحریک انصاف کی حکومت کا سب سے بڑا ناقد ہونے کے باوجود مجھے عمران خان کی اس بات پر یقین ہے کہ اگر اُن کے بس میں ہوا تو وہ کسی کو این آر او نہیں لینے دیں گے، لیکن وزیراعظم، ان کی کابینہ اور ترجمان جس شدومد کے ساتھ اس بات کی ترویج و تبلیغ کرتے پھر رہے ہیں کہ این آر او نہیں دیا جائے گا، اس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی انداز میں نہ صرف این آر او دینے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ دھن کے پکے کپتان کو نظر آرہا ہے کہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور مستقبل قریب میں کوئی نیا یوٹرن لینا پڑ سکتا ہے، کیونکہ ہمارے ہاں رائج سیاست کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انکار سے متعلق اصرار میں ضرورت سے زیادہ شدت ہو تو سمجھ لیں کہ دال میں کچھ کالا ہے، گویا کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
جب وزیراعظم اور ان کی ٹیم بار بار کہتی ہے ’’نوڈیل‘‘، یا پھر ’’نو این آر او‘‘، تو میں اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہوجاتا ہوں۔ بالخصوص وزیراعظم نے این آر او دینے کو ملک سے غداری قرار دے کر تو گویا رہی سہی امیدیں بھی خاک میں ملا دی ہیں اور مجھے یہ یقین ہوگیا ہے کہ این آر او ہو نہیں رہا، این آر او ہوگیا ہے۔ وزیراعظم چاہتے تو این آر او کے خدشات دور کرنے کے لیے کوئی اور مثال بھی دے سکتے تھے، مگر انہوں نے اسے غداری سے تشبیہ دی، کیونکہ اس ملک میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مرتکب کسی شخص کو آج تک سزا نہیں ہوئی۔ مجھے عمران خان پر یقین ہے اور ان کی اس بات سے اتفاق بھی کہ این آر او دینا واقعی ملک سے غداری ہے، لیکن کیا اِس بار غداری کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا ہوگی؟‘‘
(روزنامہ جنگ۔ 11 فروری 2019ء)
جیسا کہ عیاں ہے بلال غوری کا یہ کالم 11 فروری 2019ء کے روز شائع ہوا۔ ابھی لاہور ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ آنے میں 3 دن تھے جس کے تحت میاں شہبازشریف رہا ہوئے، مگر بلال غوری کو معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ آئیے نعرہ لگائیں: اسٹیبلشمنٹ زندہ باد۔ شریفوں کی طاقت زندہ باد۔ ہماری اعلیٰ عدالتیں پائندہ باد۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان میں اسلام کو مذاق بنا دیا ہے۔ پاکستان کے قیام کے لیے لاکھوں انسانوں نے اپنی جان، مال اور عزت و آبرو کی قربانی دی۔ پاکستان کا حکمران طبقہ مدتوں سے ان تمام قربانیوں کا مذاق اڑا رہا ہے۔ پاکستان کے روحانی باپ اقبال نے کہا تھا ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے اقبال کے دیس میں شاہینوں اور کرگسوں کو ہم معنی بنادیا ہے اور شاہینوں کو بھی کرگسوں کی طرح مُردار کھانے پر مائل کررہے ہیں۔ پاکستان کے بانی قائداعظم ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کا آئین قرآن ہوگا اور پاکستان کو عہد جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جائے گا۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے ایسا معاشرہ اور ایسا نظامِ انصاف کھڑا کیا ہوا ہے جس میں ’’الکتاب‘‘ کیا، صرف ’’کتاب‘‘ کی بھی کوئی وقعت نہیں۔ ہوتی، تو عدلیہ کے فیصلے سے ایک ماہ قبل کئی صحافیوں کو معلوم نہ ہوتا کہ اب عدالتیں کیا فیصلے کرنے والی ہیں؟ عمران خان ملک میں ’’تبدیلی‘‘ کی علامت بن کر ابھرے تھے اور اب بھی وہ یہی فرما رہے ہیں کہ ان کے ’’نئے پاکستان‘‘ کو ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ مگر ڈیل اور ڈھیل کی سیاست اور این آر او سے برآمد ہونے والا انصاف بتارہا ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے جس طرح اسلام اور سوشلزم کو مذاق بنایا ہے، اسی طرح اب وہ ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے کو بھی مذاق بنارہے ہیں۔ تبدیلی انقلاب کا دوسرا نام ہے، اور انقلاب اب پاکستان میں ایک نعرہ تک نہیں رہا۔ پاکستان کے حکمران طبقے کا انتخابی نشان دائمی طور پر ’’کولہو کے بیل‘‘ ہے۔ اس نشان کے تحت پاکستان کے حکمرانوں نے قوم ہی کو نہیں، تاریخ اور انصاف تک کو کولہو کا بیل بنادیا ہے۔ مثل مشہور ہے ’بندر کو ہلدی کی گانٹھ مل گئی، اُس نے سمجھا میں پنساری بن گیا‘۔ پاکستان کے بالادست طبقے کے ہاتھ پاکستان لگ گیا، اس نے سمجھا وہ حکمران بن گیا۔