یوں تو سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے گہرے اور باہمی اعتماد پر مبنی تھے، لیکن گزشتہ پندرہ سال سے کچھ سردمہری سی محسوس کی جارہی تھی، اور یہی حال متحدہ عرب امارات کا تھا جس کے وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ نے تو برملا نواز حکومت کو سبق سکھانے کی دھمکی دی تھی، کیونکہ سعودی عرب کے حکمران پُروقار خاموشی رکھتے ہیں لیکن متحدہ عرب امارات کے رہنما ان کی چشمِ ابرو کے منتظر رہتے ہیں اور ان کے دل کی بات اپنی زبان سے کہہ دیتے ہیں۔ نیز سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر کی قطر سے سرد جنگ جاری تھی جس کا سبب قطر کے مبینہ طور پر اسلامی جمہوریہ ایران سے معمول کے تعلقات بتائے جاتے ہیں۔ اس منظرنامے میں عمران خان نے روایتی سفارت کاروں کی سی منافقت سے کام نہیں لیا، بلکہ ایک جرأت مندانہ مؤقف اختیار کیا کہ اسلامی ممالک میں باہمی تنازعات اور تلخی نہیں ہونی چاہیے بلکہ انہیں مل بیٹھ کر مصالحت کے ساتھ معاملات کو سلجھانا چاہے۔ عمران خان نے یمن کی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے متحاربین کو براہِ راست مصالحت کی پیشکش کی، جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس بہتان کی تردید کی کہ پاکستان کی افواج جو سابق سپہ سالار پاکستان جنرل راحیل شریف کی زیر کمان ہیں وہ یمن کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کی جانب سے مداخلت کریں گی۔ یہ تاثر پاکستان دشمن عناصر نے بدنیتی کی بنا پر دیا، تاکہ افواجِ پاکستان اور پاکستان کی منتخب حکومت کے بارے میں اندرونِ ملک عوام بدظن ہوں اور بیرونِ ملک عرب برادری پاکستان سے ناراض ہوجائے۔
اس پس منظر میں قارئین ملاحظہ کریں کہ کسی نئی حکومت کو پاکستان کا تاثر (امیج) بہتر کرنے میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ باَلفاظِ دیگر تحریک انصاف کی حکومت کو نہ صرف دیوالیہ معیشت ورثے میں ملی بلکہ ایک بانجھ خارجہ پالیسی بھی ملی۔ بانجھ اس لیے کہ نون لیگ کی حکومت میں سرے سے وزیر خارجہ ہی نہیں تھا، جبکہ اس کے پیشرو زرداری ٹولے کا یہ عالم تھا کہ اس نے حسین حقانی جیسے خارجہ پالیسی سے نابلد، نوجوان کو سفیر برائے امریکہ بنایا، جس نے مبینہ طور پر اُس وقت کے حکمرانوں کا ایک خفیہ پیغام امریکی جنرل جیمز جونز کو دیا جس میں مبینہ طور پر امریکہ سے درخواست کی گئی تھی کہ اگر افواجِ پاکستان اس وقت کی حکومت کا تختہ الٹیں تو امریکی فوج انہیں باز رکھنے کے لیے پاکستان میں مداخلت کرے۔ اس نے آئی ایس آئی کو نظرانداز کرکے نجانے کتنے امریکی ایجنٹوں کو پاکستان میں داخلے کے لیے کھیپ کی کھیپ ویزے دیئے، جن میں سے کچھ دندناتے ہوئے پاکستان کی عسکری اور اقتصادی نوعیت کی تنصیبات کی تصویریں اتارکر امریکی دفاعی ادارے اور امریکی ایجنٹوں کو ارسال کرتے تھے۔ انہی دنوں کرائے کے امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں پاکستانی شہریوں کو دن دہاڑے شاہراہ پر گولی مار کر ہلاک کردیا اور منافقوں کے ایما سے فرار ہوگیا، جبکہ حسین حقانی پر سنگین الزام کے تحت مقدمہ چل رہا تھا تو وہ عدالت سے وعدہ کرکے امریکہ گیا اور وہاں پہنچ کر حسب توقع آنے سے انکار کردیا۔ اُس وقت میڈیا کے اصرار پر اس کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات شروع ہوئیں جو میموگیٹ اسکینڈل کے نام سے موسوم ہوئیں، لیکن آج تک اس کی تفتیشی رپورٹ شائع نہیں کی گئی۔ عوام عمران خان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اس دفن راز کو افشا کریں گے تاکہ عوام کو ملک میں بچھے ہوئے سازشی جال کا علم ہو۔ بظاہر طویل اور قدرے تھکا دینے والی اس تمہید سے نہ کسی کی ہتک عزت مقصود ہے اور نہ ہی کسی کی کردارکُشی، یعنی جس طرح سے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جگہ جگہ کچرے اور غلاظت کا انبار لگا ہوا ہے اسی طرح (بلکہ اس سے بھی زیادہ) تعفن زدہ سابقہ حکمران ٹولوں کے کرتوتوں کے باعث سیاسی فضا آلودہ اور مکدر ہوگئی ہے، کچرے کے ساتھ ساتھ جس کی فوری صفائی کی ضرورت ہے۔ جو ناپسندیدہ لیکن ناگزیر ہے۔
تحریک انصاف کو انتخاب لڑنے میں حکومت کی طرف سے بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اسی لیے عمران خان کو اپنے جاں نثار ساتھیوں کے ساتھ کنٹینر پر آنا پڑا، تاکہ ایک طرف تو حکمران ٹولے کا گھیرائو کیا جائے اور دوسری طرف عوام کو متحرک کیا جائے۔ ان دونوں اہداف میں انہیں بڑی کامیابی ہوئی۔ کنٹینر کا طعنہ دینے والوں کو عمران خان کا یہ جواب تھا کہ آپ بھی اپنا شوق پورا کرلیں جس کے لیے ہم آپ کو کنٹینر فراہم کردیں گے اور ساتھ ہی کھانا پانی بھی۔ لیکن کنٹینر پر آنا تو کجا، خود نوازشریف کا سمدھی اور اسحاق ڈار خزانے کی کنجی لے کر بھاگ گیا اور اشتہاری مجرم کی شہرت پائی، جبکہ خادم اعلیٰ شہبازشریف فلیٹ ہیٹ لگا کر اچھل اچھل کر سابق صدر آصف علی زرداری کو سرعام الٹا لٹکا کر پیٹ پھاڑ کر ساری غبن شدہ دولت نکالنے کی دھمکی دے چکے ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو شائستہ اور شستہ زبان بولنے کی تاکید (تلقین) فرماتے ہیں۔ ادھر بلاول زرداری (بھٹو نہیں، کیونکہ برصغیر میں ولدیت والد سے ہوتی ہے نہ کہ والدہ سے) عمران خان کو Selected Prime Minister کہتے ہیں، اور ان کے والد سرِعام عمران خان کو جعلی خان کہتے ہیں۔ اگر سننے والا انہی الفاظ میں ان کا جواب دیتا ہے تو وہ بدتمیز، بدزبان اور پارلیمانی آداب سے نابلد گردانا جاتا ہے۔ نون لیگ کی صوبائی حکومت نے لاہور کے محلہ ماڈل ٹائون میں منہاج القرآن کے کارکنوں کو جن میں خواتین بھی شامل تھیں، گھسیٹ گھسیٹ کر لاٹھیوں اور گولیوں سے ہلاک کردیا اور ہنوز ملزمان (شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ) سانڈ کی طرح پھنکارتے ہوئے چل رہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، اور الٹا ساہیوال کے سانحہ کا چرچا کرکے اپنے گناہوں سے عوام کی توجہ ہٹا رہے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے قابلِ اعتراض کام نہیں کیے، بلکہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ ماڈل ٹائون اور ساہیوال کے گھنائونے جرائم میں ملوث کرداروں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں، اسی وقت انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔ اس میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ عمران خان نے انصاف کے بجائے سیاسی مصلحت سے کام لیتے ہوئے بروقت کارروائی نہیں کی جو ایک منصف مزاج حکمران کو کرنا چاہیے تھی۔ اگر انہیں نون لیگ اور پی پی پی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہے تو یہ اقدام اپنی جماعت سے شروع کرنا چاہیے۔ ابھی تو قوم انہیں شاید معاف کرسکتی ہے لیکن اگر یہی رویہ مستقبل میں بھی رہا تو ان کا حشر بھی سابق حکمرانوں کی طرح عبرت ناک ہوسکتا ہے۔
فی الوقت ان کے سامنے بڑے بڑے اہم مسائل کھڑے ہیں جن سے انہیں اپنی پوری توانائی سے نپٹنا ہے۔ انہوں نے اپنی بین الاقوامی شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے تو روٹھے ہوئے عرب بھائیوں کو منایا، جس سے ان کی فراست اور دیانت ظاہر ہوتی ہے۔ جیسا کہ میں نے مندرجہ بالا سطور میں عرض کیا ہے کہ یہ آسان مرحلہ نہ تھا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کو بھی رام کریں اور ساتھ ہی امیرِ قطر کو بھی دوست بناکر رکھیں۔ اسی طرح وہ یمن کے معاملے میں مصالحت کار بن گئے ہیں، نہ کہ جانب دار۔
ہم سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی فراست کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے، جنہوں نے خود کو اپنے ہی ملک میں پاکستان کا سفیر بنانے کا اعلان کیا اور اس کے ثبوت میں انہوں نے عمران خان کی درخواست پر جزیرۃ العرب میں قید 2107 قیدیوں کی فوری رہائی کا فرمان صادر کردیا، اور حاجیوں کی سہولت کے لیے پاکستان میں ایک متعلقہ دفتر قائم کرنے کا حکم دیا۔ مزید برآں انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے کرتارپور کی راہداری کھولنے اور بھارت کو تصفیہ طلب تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کی دعوت پر عمران خان کے اقدام کو سراہا (پی ٹی وی۔ پیر 18فروری 2019ء)۔ یہاں پہ ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جب پاکستان نے معزز مہمانوں سے بھارت کے خلاف کچھ کہنے پر اصرار نہیں کیا تو مہذب سفارت کاری کا تقاضا تھا کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ کو پاکستان کی سرزمین پر ایران کے خلاف بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ اطلاعات مظہر ہیں کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے پاکستان میں قیام کے دوران ایران کو دہشت گردوں کا سرپرست کہا (نوائے وقت 19 فروری 2019ء)۔ یہ بات ایران حکومت کی دل آزاری کا سبب بن سکتی ہے، کیونکہ 14 فروری 2019ء کو جیش العدل کے چھاپہ ماروں نے خودکش حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے 27 اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔ اس واردات کے بعد ایران کی وزارتِ خارجہ نے پاکستان کے سفیر برائے ایران کو طلب کرکے اس واردات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، بصورتِ دیگر ملزمان کے خلاف خود کارروائی کا حق محفوظ کرلیا۔
(Arab News/The News international 19 Feb,2019)
اسی طرح ایران کو بھی محتاط رہنا چاہیے کیونکہ ماضی میں اُس کی سرزمین سے بھارت کا حاضر سروس بحریہ کا افسر کلبھوشن یادیو پاکستان میں دراندازی کرکے دہشت گردی کا ارتکاب کرتا رہا ہے جس پر پاکستان نے ایران کے خلاف کوئی واویلا نہیں مچایا۔ نیز پاکستان کو یہ دکھ ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھارت کی مسلم کُش بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے لیے جنوبی افغانستان سے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار تک سڑک اور ریل کا جال بچھا رہا ہے تاکہ اُسے ایران سے درآمد وبرآمد کے لیے پاکستان کی سرزمین سے گزرنا نہ پڑے۔ ایران کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے مسلمان بھائیوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ایک فرقہ پرست جنونی مودی حکومت سے موالات نہ رکھیں۔
قصہ کوتاہ، ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد سرکاری اور عوامی دونوں سطحوں پر بڑی نتیجہ خیز رہی، اور بقول مبصرین پاک سعودی تعلقات میں تزویراتی، اقتصادی شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہوا، جب کہ تین معاہدوں اور مفاہمت کی چار یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ ان میں گوادر میں تیل صاف کرنے کا کارخانہ، اور اس کے ساتھ ہی تیل اور کیمیاوی کارخانہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کو ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کی سالانہ بچت ہوسکتی ہے۔ یہ ایک کثیرالمقاصد منصوبہ ہے کہ جس میں چین بھی دلچسپی لیتا ہے، کیونکہ اُسے گوادر میں خصوصی اقتصادی منطقہ (زون) کی مراعات حاصل ہوں گی جہاں وہ اپنی مصنوعات تیار کرکے افریقہ، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں برآمد کرسکے گا۔ اس سے عوامی جمہوریہ چین کو معتدبہ آمدن ہوگی، جب کہ پاکستان کی افرادی قوت کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے، ساتھ ہی ان کی ہنرمندی اور فنی مہارت میں اضافہ ہوگا۔ یہاں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اس سلسلے میں اوّلین ترجیح بلوچستان کی مقامی آبادی کو ہونی چاہیے جو پہلے ہی پاکستان کی وفاقی حکومتوں سے بدظن رہی ہے۔ اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی نے سعودی عرب کی گوادر میں سرمایہ کاری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اُسے بجا طور پر شکایت ہے کہ اس ضمن میں اسے کسی نے منہ نہیں لگایا۔ اس احساسِ محرومی کا اظہار پنجگور میں فرنٹیئر کور پر دہشت گردانہ حملے میں پانچ فوجیوں کی شہادت ہے (ڈان 18 فروری 2019ء)۔ کیوں ناں ہم اسے بلوچ قوم پرستوں (علیحدگی پسندوں) کی جانب سے عزت مآب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو ایک سخت پیغام سمجھیں۔ ہم اس وجہ سے ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں کہ کہیں بیش قیمت تنصیبات حکمرانوں کی کوتاہ اندیشی سے متنازع نہ بن جائیں، جس کے نتیجے میں پاکستان بجائے مستفید ہونے کے خسارے سے دوچار ہوجائے۔
کہنے کو تو سعودی عرب نے بڑی نیک نیتی اور فراخدلی سے عمران حکومت پر اعتماد کرتے ہوئے جن منصوبوں پر کثیر زرمبادلہ مختص کیا ہے ان میں معدنی ترقی، قابلِ تجدید توانائی، کھیل کود، معیاریت (Standardization) اور سیاحت شامل ہیں` جن کی تکمیل کے بعد پاکستان دنیا کے جدید ترین معاشروں میں شمار کیا جائے گا (نوائے وقت، 19 فروری 2019ء۔ صفحہ 3)۔ لیکن اگر ہم اس کا موازنہ ماضی کے منصوبوں پر عمل درآمد کے تناظر میں کریں تو ہمیں کامیابی کم اور ناکامی زیادہ نظر آتی ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی ترقی ہوئی ہے تو وہ ایوب خان کے دور میں ہوئی ہے ۔اس کی وجہ حکومت میں تسلسل اور نوکر شاہی کی صلاحیت، لگن اور دیانت تھی، لیکن بعدازاں عوامی جمہوریہ چین نے جب سینڈک کے منصوبے پر کام شروع کیا تو قوم کو تاحال نہیں معلوم کہ اس سے وہاں کیا برآمد ہوا۔ ابتدا میں تو سننے میں آرہا تھا کہ وہاں سونے، چاندی اور تانبے کی کانیں ہیں جس سے ملک میں زرمبادلہ کی ریل پیل ہوجائے گی، لیکن ترقی میں پیش رفت کے بجائے ترقیِ معکوس دیکھنے میں آئی اور وفاقی حکومت اور بلوچستان میں جوتیوں میں دال بٹنے لگی۔
اگر ہم ترقی پذیر ممالک میں حقیقی معاشی خوشحالی کا جائزہ لیں تو معدودے چند ممالک میں حقیقی ترقی ہوئی ہے، مثلاً جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور، جو پاکستان کے مقابلے میں بڑے پسماندہ تھے، لیکن وہاں سیاسی استحکام، تسلسل اور دیانت دار قیادت کی وجہ سے ترقی کا سفر جاری رہا، اور آج یہ ممالک یورپ کی بہت سی ریاستوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ اگر ہم ان کے نظام کا طائرانہ مطالعہ کریں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان ممالک میں نام نہاد جمہوریت کے بجائے سخت گیر آمریت رہی ہے۔ مثلا ًجنوبی کوریا میں 40 سال تک مارشل لا رہا، جب کہ تائیوان میں بھی یک جماعتی نظام نصف صدی تک قائم رہا۔ ادھر سنگاپور میں Lee Kuan Yew جیسے قابل لیکن سخت گیر حکمران نے اسے ایسی ترقی دی کہ اس کی مجموعی پیداوار پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں مارشل لا کی حمایت کررہا ہوں، لیکن میں ایسی لولی لنگڑی جمہوریت کا بھی قائل نہیں ہوں جو اٹھارہویں ترمیم کی آڑ میں خردبرد، بدعنوانی، خیانت، غبن اور غصب کو چھوٹ دے دے۔
آخر میں مَیں یہ سوال کروں گا کہ ان منصوبوں کی تکمیل میں کتنی مدت درکار ہے؟ بظاہر ان میں سے کچھ انتہائی طویل المدت نوعیت کے ہیں، تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے جانشین حکمران ان منصوبوں پر نیک نیتی کے ساتھ کام کرسکیں گے جب کہ انہوں نے ماضی میں اسٹیل مل، پی آئی اے اور کے ای ایس سی کو نااہلی اور بددیانتی سے دیوالیہ بنا دیا؟