پاک سعودی تعلقات تاریخ کے آئینے میں

پاک سعودی تعلقات کی بنیاد آل انڈیا مسلم لیگ نے قیامِ پاکستان کے اعلان سے قبل ہی رکھ دی تھی۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا پاکستان آمد پر شاندار خیرمقدم اور اُن کی طرف سے مالی تعاون اور سرمایہ کاری کے 20 ارب ڈالر کی مفاہمت پر دستخط ہونا، جناب عمران خان کی حکومت کے لیے ہی خوشی و مسرت کا باعث نہیں ہے بلکہ پوری پاکستانی قوم اس پر خوش ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف میاں شہبازشریف نے سعودی عرب کے اس تعاون کا خیرمقدم کرکے اس روایت کو برقرار رکھا ہے جو پاک سعودی تعلقات کے حوالے سے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی روایت رہی ہے۔ بہتر ہوتا جناب عمران خان کی حکومت بھی ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ولی عہد کے اعزاز میں وزیراعظم کی طرف سے دیے جانے والے عشائیہ میں اور صدرِ مملکت کی طرف سے ظہرانے میں حزبِ اختلاف کے قائدین کو شرکت کی دعوت دیتی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی نوعیت دیگر ممالک سے ہمیشہ مختلف رہی ہے۔ اگر پاک سعودی تعلقات کو تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو سعودی عرب وہ ملک ہے جس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی ابتدا قیامِ پاکستان کے اعلان سے برسوں پہلے ہوگئی تھی۔
ستمبر 1932ء میں حجاز اور نجد پر کنگ عبدالعزیز کی قیادت میں آلِ سعود کی حکومت قائم ہوئی تو چند سال بعد ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے ملک عبدالعزیز سے رابطہ کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ سعودی عرب کے بادشاہ سے آل انڈیا مسلم لیگ کا رابطہ اور تعارف کرانے میں مفتی اعظم فلسطین، مفتی امین الحسینی (مرحوم و مغفور) نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ مسلم لیگ کی حصولِ پاکستان کی جدوجہد کے بارے میں ملک عبدالعزیز کو واقفیت علماء کے ان وفود سے بھی ہوئی تھی جو ہندوستان سے بادشاہ کی دعوت پر ان سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔ ان میں ہر فقہی مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء کے وفود شامل تھے جن میں ’ندوہ‘ ، ’خیری مکتبہ فکر‘، ’سلفی‘، ’دیوبندی‘ اور ’بریلوی مسلک‘ سے تعلق رکھنے والے علماء شامل تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی قیادت میں جانے والا علماء کا وفد بھی اور مولانا عبدالعلیم صدیقیؒ اور مولانا عبدالحامد بدایونی پر مشتمل وفد تو عملی طور پر آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد میں شریک تھے۔ مولانا عبدالعلیم صدیقیؒ اور مولانا عبدالحامد بدایونی پر مشتمل دو رکنی وفد نے سعودی عرب کے دورے کی تفصیلی رپورٹ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل (شہیدِ ملت) خان لیاقت علی خان کو پیش کی تھی۔
مفتیِ اعظم فلسطین کی مساعیِ جلیلہ اور علماء کے وفود کی کنگ عبدالعزیز سے ملاقاتوں کی بنا پر یہ شکل پیدا ہوئی تھی کہ قائداعظم جب قیامِ پاکستان سے قبل مصر کے قاہرہ ایئرپورٹ پر ہندوستان واپس آتے ہوئے مختصر وقت کے لیے رُکے تو اخوان المسلمون نے اُن کا شاندار استقبال کیا تھا۔ استقبال کرنے والوں میں سعودی عرب کی کئی ممتاز شخصیات بھی شامل تھیں۔ سعودی عرب ان ممالک میں سے ایک نمایاں ملک تھا جنہوں نے پاکستان قائم ہوتے ہی اس کے ساتھ 1947ء میں سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بنیاد باہمی احترام اور مشترکہ مفادات میں اشتراکِ عمل کے عملی تعاون کے اُصولوں پر پڑی تھی۔ (پاک سعودی تعلقات میں بعض اوقات وقتی طور پر اونچ نیچ بھی ہوتی رہی، جیسے یمن کے ساتھ سعودی عرب کی حالیہ برسوں میں جنگ میں فوجی تعاون کے ایشو پر میاں نوازشریف کی حکومت کے ساتھ سرد مہری کا دور رہا ہے) پاک سعودی تعلقات کا بنیادی پتھر مشترکہ دین کا ہونا اور اس سرزمین پر حرمین شریف اور دیگر مقدس مقامات کا ہونا ہے جس کی وجہ سے پاکستان نے ہر نفع و نقصان سے ماورا ہوکر سعودی عرب سے پائیدار تعلقات قائم رکھے۔ پاکستانی قوم کی نظر میں ہر قسم کی اونچ نیچ کے باوجود ان کے ساتھ جڑے رہنا ناگزیر ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ سعودی عرب نے ہر کڑے اور مشکل وقت میں پاکستان کی مالی مدد اور سفارتی تعاون فراہم کرنے کی بے مثال تاریخ رقم کی ہے۔ اگر پاک سعودی تعلقات کی تاریخ کا سرسری انداز میں جائزہ لیا جائے تو پاکستان نے بھی اپنی بساط سے بڑھ کر جہاں جہاں اور جس جس جگہ سعودی عرب کو پاکستان کے عملی تعاون کی ضرورت پڑی، اس نے کسی تامل کے بغیر سعودی مؤقف کی حمایت کی اور ساتھ کھڑا رہا۔
سعودی عرب آج جس طرح کے وسائل کی دولت سے مالامال ہے، ابتدا میں ایسا نہ تھا۔ پچاس اور ساٹھ کے عشرے تک سعودی عرب کا انتظامی ڈھانچہ آج کی طرح کا نہیں تھا۔ شاہ سعود بن عبدالعزیز کے بعد شاہ فیصل بن عبدالعزیز بادشاہ بنے تو انہوں نے سعودی عرب کو ایک جدید انتظامی ڈھانچہ رکھنے والی مملکت بنانے کی طرف توجہ دی، اور سعودی عرب کو سو فیصد خواندہ ملک بنانے کے فیصلے کے ساتھ ملک میں جدید بینکنگ مالیاتی نظام کا ڈھانچہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے پاکستانی ماہر معیشت انور علی (مرحوم) کی خدمات حاصل کی گئیں۔ انہیں سعودی عرب کے اسٹیٹ بینک کا گورنر بنایا گیا۔ انہی کے دستخط کے ساتھ سعودی کرنسی نوٹ جاری ہوتے تھے۔ سعودی عرب کے جدید بینکنگ کے مالیاتی نظام کا ڈھانچہ انور علی (مرحوم) اور ان کی ٹیم کی انتھک محنت کا مرہونِ منّت ہے۔ انور علی کی ٹیم میں ایک نمایاں نام عالمی شہرت کے حامل پاکستانی ماہر معیشت ڈاکٹر عمر چھاپرا کا بھی ہے۔ وہ بھی سعودی عرب کے اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی رہے ہیں۔ ڈاکٹر عمر چھاپرا کو سعودی حکومت نے سعودی شہریت بھی دی۔ سعودی عرب کے مرحوم شاہ عبداللہ کے ذاتی فزیشن بھی پاکستان کے معروف ڈاکٹر اکبر خان نیازی رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے ڈاکٹر اکبر خان نیازی کو بھی سعودی شہریت دی تھی۔
پاکستان کا اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے قیام میں کلیدی کردار رہا ہے۔ اس تنظیم کے قیام کی تجویز شاہ فیصل کو رابطہ عالم اسلامی کے پلیٹ فارم سے دی گئی تھی۔ شاہ فیصل نے او آئی سی کی تنظیم کے لیے اسلامی ممالک کا دورہ ساٹھ کے عشرے میں کیا تھا۔ شاہ فیصل پاکستان آئے تو اُن کا سرکاری اور عوامی سطح پر جو فقیدالمثال والہانہ استقبال ہوا تھا اس کی کوئی دوسری مثال پاکستان میں چین کے وزیراعظم چو این لائی کے استقبال کے سوا نہیں ملتی۔ تاہم پاکستان نے سرکاری اور عوامی سطح پر شاہ سعود بن عبدالعزیز سے لے کر ہر سعودی حکمراں اور ولی عہد کے شاندار خیرمقدم کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب کے بینکنگ کے مالیاتی نظام، تعلیم، صحت اور انجینئرنگ کے شعبے کے علاوہ بھی کئی دیگر شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ پاکستان کو ساٹھ کے عشرے میں بیت اللہ کا غلاف تیار کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا (سعودی عرب نے اُس وقت تک اپنے ملک میں غلافِ کعبہ تیار کرنے کا کارخانہ قائم نہیں کیا تھا)۔ اُس وقت تک مصر سے غلافِ کعبہ تیار کرایا جاتا تھا۔ مصر کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی انتہا کو پہنچی تو مصر میں غلافِ کعبہ کی تیاری ناممکن ہوگئی تھی، جس کے بعد رابطہ عالم اسلامی کی تجویز پر شاہ فیصل نے غلافِ کعبہ تیار کرانے کے لیے حکومت پاکستان سے رجوع کیا تھا۔
غلافِ کعبہ کی تیاری میں پاکستان کے ہنرمند، ماہر کاریگروں نے سعادت حاصل کرنے کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی ہنرمندی کے ایسے جوہر دکھائے کہ اسلامی دنیا عش عش کر اُٹھی۔ پاکستان میں تیار ہونے والے غلافِ کعبہ پر قرآنی آیات کی خطاطی ملک کے معروف خطاط حافظ یوسف سدیدی (مرحوم) نے کی تھی۔ سعودی عرب کی حکومت کو پاکستان میں غلافِ کعبہ کی تیاری کے سلسلے میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ سمیت تمام دینی مکاتبِ فکر کے علما کا تعاون بھی حاصل رہا تھا۔ غلافِ کعبہ کی سعودی عرب روانگی سے قبل پاکستان کے ہر بڑے شہر میں عوام کو اس کی زیارت کرائی گئی تھی۔ اس کا اہتمام جماعت اسلامی نے کیا تھا۔ پاکستان سے سعودی عرب غیر ہنرمند مزدور 1975ء میں جانے شروع ہوئے تھے، اس سے قبل پاکستان سے سعودی عرب جانے والے یا تو ڈاکٹر ہوتے تھے، یا انجینئر، یا انگریزی اور دیگر جدید علوم پڑھانے کے لیے اساتذہ کرام۔ پاکستان نے سعودی عرب میں قرآنِ پاک کے حفاظ تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ساٹھ کے عشرے تک سعودی حافظ قرآن خال خال ہی ملتے تھے۔ حرم تک میں نماز تراویح میں امام قرآنِ پاک ہاتھ میں لے کر دیکھ کر پڑھتے تھے۔ پاکستان کے ایک معروف تاجر یوسف سیٹھی (مرحوم) نے (جو سکھ مذہب ترک کرکے مسلمان ہوئے تھے) سعودی عرب میں قرآنِ پاک کے حفاظ کی کم یابی کا یہ عالم دیکھا تو انہوں نے اپنے سارے وسائل اور بقیہ زندگی سعودی عرب میں حفاظ کی تیاری کے لیے وقف کردی (وہ اپنے ذاتی خرچ پر پاکستان کے پس ماندہ علاقوں میں بھی درست تلفظ کے ساتھ قرآنِ پاک پڑھانے کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیا کرتے تھے)۔ یوسف سیٹھی (مرحوم) پاکستان سے سعودی عرب قرآنِ پاک حفظ کرانے کے ماہر اساتذہ کو لے کر جاتے تھے اور ان کے سارے اخراجات خود برداشت کیا کرتے تھے۔ یہ اعزاز اللہ نے ایک پاکستانی کو بخشا۔ اس کی بدولت آج سعودی عرب کے متمول گھرانوں میں بھی بہ کثرت قرآنِ پاک کے حافظ موجود ہیں۔ یوسف سیٹھی مدینہ منورہ میں ہی مدفون ہیں۔
سعودی عرب کے ایئرپورٹس، ہائی ویز اور بلند و بالا پلازوں کی تعمیر میں لاکھوں پاکستانی مزدوروں کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، انجینئروں اورہنرمند فنی ماہرین کی خدمات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سعودی عرب کے ایئرپورٹس جس جوائنٹ ونچرز نے تعمیر کیے اُن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے خاقان عباسی کی کمپنی (سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے والد) ’’عباسی‘‘، امریکی فرم ’’ایف کو‘‘، اور سعودی عرب کی کمپنی ’’دلّہ‘‘ شامل تھی، جس کا مخفف ’’عباسی‘‘، ’’ایف کو‘‘، ’’دلّہ‘‘ تھا۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں ہائی ویز کی تعمیر میں پاکستان کی تعمیراتی کمپنی نذیر اینڈ کمپنی کا بڑا کردار ہے۔ نذیر اینڈ کمپنی کے مالک حاجی نذیر احمد (مرحوم) نے کسی مالی منفعت اور دنیاوی لالچ کے بغیر مکہ اور مدینہ میں حجاج کرام اور زائرینِ عمرہ کی بے لوث خدمت زندگی کے آخری سانس تک جاری رکھی۔
حاجی نذیر احمد (مرحوم) کا مہمان خانہ ہر خاص و عام زائر کے لیے سال کے بارہ مہینے اور دن کے چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا، جہاں قیام کرنے والوں کے لیے خور و نوش کا اہتمام حاجی نذیر احمد مرحوم اپنی جیب سے کیا کرتے تھے۔ اللہ نے ان کی اس خدمت کی بدولت مدینہ منورہ میں مدفون ہونے کی تمنا پوری کردی تھی۔ پاکستان اور پاکستانی صحافیوں نے سعودی عرب میں انگریزی اور اُردو زبان میں اخبار جاری کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 1975ء میں سعودی عرب سے انگریزی زبان کا پہلا روزنامہ ’’عرب نیوز‘‘ جاری ہوا، اس کا پورا پروجیکٹ ایک پاکستانی شہری سیّد محمد علی (مرحوم) نے تیار کرکے دیا تھا، یہ پروجیکٹ انہوں نے سعودی عرب کے معروف اشاعتی ادارے کے مالک حافظ حشام کی فیملی کی خواہش پر تیار کیا اور کامیابی سے چلا کر دکھایا تھا۔
روزنامہ ’’عرب نیوز‘‘ کی مالک تو حافظ حشام کی فیملی تھی۔ مگر ’’عرب نیوز‘‘ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین شاہ فیصل کے بیٹے امیر ترکی تھے۔ سید محمد علی (مرحوم) واحد غیر سعودی رہے ہیں جن کا نام سعودی عرب کے کسی اخبار کی پرنٹ لائن میں شائع ہوتا تھا۔ سیّد محمد علی (مرحوم) کا 1991ء میں جدہ میں مکہ جاتے ہوئے ٹریفک حادثے میں انتقال ہوا تو سعوی وزیرداخلہ پرنس نائف کی خصوصی اجازت سے ان کی نمازِ جنازہ حرم مکہ میں اور تدفین جنت المعلیٰ کے تاریخی قبرستان میں ہوئی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد آج تک کسی دوسرے غیر سعودی کا نام کسی اخبار کی پرنٹ لائن پر شائع نہیں ہوسکا ہے۔ سیّد محمد علی (مرحوم) نے روزنامہ ’’عرب نیوز‘‘ کا انتظامی ڈھانچہ بھی تیار کیا تھا اور معاشی طور پر ایک کامیاب ومستحکم ادارہ بھی بناکر دکھایا تھا۔ سیّد محمد علی پاکستان سے مارکیٹنگ کے شعبے میں سیّد فیاض الدین احمد (مرحوم) کو لے کر گئے تھے جنہیں کئی اخباروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر کام کرنے کا وسیع تجربہ تھا۔ ادارتی ٹیم میں انگریزی صحافت کے بلند قامت صحافی نایاب نقوی (مرحوم) کو لے کر گئے تھے۔ ’’عرب نیوز‘‘ کی پہلی ادارتی ٹیم میں سعودی عرب جانے والوں میں معروف صحافی جناب ادریس بختیار اور جناب رُوح الامین بھی شامل تھے۔
1994ء میں ’’عرب نیوز‘‘ شائع کرنے والے ادارے نے سعودی عرب سے اُردو زبان کا ایک روزنامہ ’’اُردو نیوز‘‘ کے نام سے اور ایک ’’ہفت روزہ‘‘ اُردو میگزین نکالنے کا منصوبہ بنایا تو اس کے لیے بھی صحافتی ٹیم کا انتخاب پاکستان سے کیا گیا تھا۔ اس وقت روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی کے ایڈیٹر سیّد نصیر ہاشمی نے اپنے ساتھ جانے والی ٹیم کے ساتھ سعودی عرب سے پہلے اُردو روزنامہ ’’اُردو نیوز‘‘ اور ’’ہفت روزہ‘‘ اُردو میگزین کی تیاری کی، اور بہت کم عرصے میں تیاری مکمل کرکے شائع کرنا شروع کیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے روزنامہ ’’اُردو نیوز‘‘ نے سعودی عرب سے نکلنے والے عربی اور انگریزی زبان کے اخبارات کی صف میں صحافتی معیار اور اشاعت کے اعتبار سے صفِ اوّل میں اپنا مقام بنالیا تھا۔ روزنامہ ’’اُردو نیوز‘‘ سعودی عرب کئی شہروں سے شائع ہوتا تھا، اس کی مجموعی اشاعت چار لاکھ سے تجاوز کرجاتی تھی۔
سیّد نصیر ہاشمی کی قیادت میں پاکستان سے جانے والی صحافیوں کی ٹیم میں جناب ناصر بیگ چغتائی، ظفر اقبال (مرحوم)، جناب جنید سلیم، جناب رُوح الامین، اطہر ہاشمی، سیّد ابصار علی، رئوف طاہر ،خالدخورشید اور مظفر اعجازسمیت ملک کے کئی دیگر صحافی شامل تھے۔ ملک کے معروف خطاط جناب انور انصاری بھی ٹیم میں شامل تھے، جنہوں نے اپنی خطاطی کے جوہر کا سعودی عرب میں خوب سکہ جمایا ہوا ہے۔ پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات کی نوعیت کس سطح پر استوار ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی حکومت نے پاکستان کے سوا کسی دوسرے اسلامی ملک کے سربراہ کو سرکاری دورے پر مکہ، مدینہ میں گھر کا تحفہ پیش نہیں کیا۔ 1953ء میں پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد سعودی عرب کے سرکاری دورے پر گئے تو شاہ سعود بن عبدالعزیز نے مدینہ منورہ میں بابِ جبریل کے بالکل سامنے ایک بڑا گھر تحفہ میں دیا تھا، جس کی کنجی ملک غلام محمد نے پاکستانی سفارت خانے کے سپرد کردی تھی تاکہ اسے پاکستانی حکومت کا سرکاری ریسٹ ہائوس بنایا جائے، اس کا نام پاکستان ہائوس رکھا گیا تھا۔ حرم کی توسیع کی وجہ سے پاکستان ہائوس کی وہ عمارت تو اب وہاں سے ختم ہوگئی ہے، مگر اس کے بدلے میں سعودی حکومت نے جو جگہ دی ہے وہاں اس سے بڑا پاکستان ہائوس قائم ہے۔ سعودی عرب میں پاکستان کے سوا کسی دوسرے اسلامی ملک کے پاس سعودی عرب کی طرف سے عطیہ میں دی گئی کوئی عمارت نہیں ہے۔