پاک ، بھارت کشیدگی،بھارتی حکومت کو وزیراعظم کا دو ٹوک جواب

وزیراعظم عمران خان نے پلوامہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے اور اس کے نتیجے میں پاکستان پر الزام تراشیوں اور مودی کی جانب سے سبق سکھانے والی باتوں پر دوٹوک پالیسی بیان دے کر جرأت مندانہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ عمران خان نے چھے بنیادی باتیں کی ہیں:
(1) ہماری اعتدال پسندی اور مصالحتی رویّے کو کمزوری نہ سمجھا جائے، اور جو رویہ بھارت شدت پسندی میں دکھائے گا اُس کا جوابی ردعمل بھی سخت ہوگا۔
(2) ہم بھارت کو اس حالیہ واقعے میں تفتیش کے تناظر میں دو طرفہ تعاون کا یقین دلاتے ہیں، اور پاکستان ہر ممکن تعاون کے لیے پیش پیش ہوگا۔
(3) ہم یہ طے کرچکے ہیں کہ کوئی ہماری سرزمین یا ہم کسی کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
(4) بھارت ماضی سے باہر نکلے اور مستقبل کی طرف دیکھے جہاں ہم امن، ترقی اور خوشحالی کی بنیاد پر دوطرفہ تعاون چاہتے ہیں تاکہ خطے کی سیاست استحکام کی طرف بڑھے۔
(5)ہم دہشت گردی کے موضوع پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں اور مسئلہ کشمیر طاقت کے بجائے مذاکرات سے حل ہوگا۔
(6) جنگ شروع کرنا انسان کے بس میں ہوتا ہے لیکن پھر جنگ کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتی اور اس کے نتائج بھی کسی کے حق میں نہیں ہوں گے۔
بنیادی طور پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ہندوتوا کی سیاست پر یقین رکھنے والی سخت گیر بی جے پی کی حالیہ پاکستان مخالف مہم خلافِ توقع نہیں سمجھنی چاہیے۔ یہ بات طے تھی کہ نریندر مودی اپنی انتخابی مہم میں پاکستان مخالف جذبات کو ابھار کر بھارت کے جنونی ہندو ووٹرز پر اثرانداز ہونے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ ویسے بھی اگر بھارت کی انتخابی سیاسی تاریخ یا انتخابی مہم کا جائزہ لیں تو اس میں پاکستان مخالف ایجنڈا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ نریندر مودی کی سیاست کا بڑا حصہ سیکولر سیاست کے مقابلے میں ہندوتوا پر مبنی سیاست کے گرد گھومتا ہے، اور اسی بنیاد پر شدت پسند ہندو مودی کو اپنا بڑا حلیف سمجھتا ہے۔ حالیہ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بی جے پی کی شکست نے عملی طور پر مودی کو سیاسی طور پر تنہا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ پاکستان مخالف ایجنڈے کو بنیاد بناکر اپنی انتخابی مہم چلانا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک عملی مظاہرہ ہم پلوامہ کے بعد بھارت کے مجموعی میڈیا کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں جہاں بظاہر ایک جنگ کا سماں ہے، اور سب اس حد تک شدت پسندی کا شکار ہیں کہ ان کے دل و دماغ پر پاکستان چھا چکا ہے، اور لگتا ہے کہ بس پاکستان اب ختم ہونے والا ہے یا ہم ختم کرنے جارہے ہیں۔
پلوامہ کے واقعہ کی ٹائمنگ بھی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کلبھوشن کیس، ایف اے ٹی ایف اجلاس، سعودی ولی عہد کے دورۂ پاکستان اور افغانستان میں داخلی امن کی کوششوں میں مصروف ہے، اس طرز کے واقعات یقینی طور پرزیادہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر بھارت اس وقت مقبوضہ کشمیر میں موجود داخلی بحران کے باعث سیاسی طور پر تنہا نظر آتا ہے۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی جو بدترین پامالی کی جارہی ہے اُس پر خود بھارت کے اندر موجود انسانی حقوق کے کارکن اور ماہرین مضطرب ہیں۔ سابق بھارتی سفارت کار ایم کے بھدر کمار کے بقول بھارت عملی طور پر اس وقت مودی سرکار کی کشمیر پالیسی کی بھاری قیمت ادا کررہا ہے۔ اُن کے بقول اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دہشت گردی کی بنیادی وجہ ہے، اور اس کا حل پاکستان سے مذاکرات سے ہی جڑا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کے بقول پلوامہ حملہ پاکستان سے نہیں بلکہ مقامی لوگوں سے جڑا ہے، اور مقامی لوگ ہی عملی طور پر بھارت کے خلاف لڑرہے ہیں۔ اس واقعہ سے قبل فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی دونوں نے ہی بھارت کی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کی داخلی صورتِ حال پر یہی مشورہ دیا تھا کہ مسئلے کا حل طاقت نہیں بلکہ مذاکرات ہیں۔ ان کے بقول بھارت مقبوضہ کشمیر میں جتنی طاقت دکھاتا ہے، اتنی ہی شدت پسندی مقامی سطح پر بھارت مخالفت میں سامنے آتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی موجودہ سیاسی قیادت کشمیر کے داخلی مسائل کو سمجھنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں میں کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر ہندو طلبہ کی نکلنے والی مختلف ریلیاں بھی مودی سرکار کو داخلی خطرات کا فہم نہیں دے سکی ہیں۔ بھارت کے مختلف شاعر، ادیب، دانشورں، استاد، فلم ساز، فن کار اور دیگر کئی شخصیات نے بھی مودی سرکار کی ہندوتوا پر مبنی سیاست کو داخلی سطح پر چیلنج کیا ہے۔ ان ہی وجوہ سے مودی سرکار کو ریاستی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نریندر مودی نے جو سخت لب ولہجہ اور زبان پاکستان مخالفت میں استعمال کی ہے یہ اصولی طور پر اُن کی سیاسی ضرورت ہے۔ وزیراعظم مودی کے بقول پاکستان کو اس حملے کی بھاری قیمت چکانی ہوگی اور ہم نے فوج کو آزادی دے دی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کمر کس لے۔ مودی اسلام آباد کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی مہم بھی چلانے کا اعلان کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ حملے سے زیادہ پاکستان مخالفت سے جڑا ہے۔ مودی کی ہندوتوا پالیسی کی وجہ سے پلوامہ کے واقعہ کے بعد شدت پسند ہندوئوں کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں اور کشمیریوں پر حملے حالات میں مزید کشیدگی کا سبب بن سکتے ہیں۔
بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو سمجھنے کے لیے 2018ء کی انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی رپورٹ کافی ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل طور پر اتفاق کیا گیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا مرتکب ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے اجرا پر بھی پاکستان مخالف مودی سرکار بہت غصے میں نظر آتی ہے۔ کیونکہ اس رپورٹ میں عملی طور پر مودی سرکار کی کشمیر پالیسی کو بری طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پلوامہ کے حالیہ واقعہ کی تحقیقات میں بھی کچھ بنیادی نکات سمجھنے ہوں گے:
اول: کیا اتنا بڑاحملہ ایک یا دو مقامی افراد کرسکتے تھے؟
دوئم: کیا اُن کے پاس اتنی فوجی مہارت اورصلاحیت تھی کہ وہ یہ کام کرسکتے؟
سوئم: اتنے بھاری بھرکم بم کا مواد وہاں کیسے پہنچا جہاں ہر طرف بھارتی فوج کا سخت پہرہ ہوتا ہے؟
چہارم: جیشِ محمد جیسی کالعدم تنظیم کو بنیاد بناکر جو بیان دلوائے گئے ہیں ان کی عملی حقیقت کیا ہے؟ اورکیا اس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی داخلی جدوجہد پر سوال اٹھانا نہیں؟
پنجم: مودی کا اسلام آباد کو تنہا کرنے کا اعلان کیا یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں کہ اس طرح کے پُرتشدد واقعات کو بنیاد بناکر وہ عملاً پاکستان مخالف سیاست کو ابھار رہے ہیں؟
بنیادی طور پر مودی سرکار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی سے نمٹنے اور اپنے ملک سمیت خطہ کے حالات میں بہتری پیدا کرنے کے لیے تمام فریقین سے معاملات کو مذاکرات کی مدد سے حل کرنا چاہتا ہے۔ خود بھارت کو بھی پاکستان ایک سے زیادہ مرتبہ بات چیت کی دعوت دے چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے بقول بہتر تعلقات کے لیے بھارت ایک قدم چلے گا تو ہم دو قدم آگے نظر آئیں گے۔ کرتار پور راہداری اسی مفاہمتی عمل کا حصہ ہے جو پاکستان نے عملی طور پر کرکے دکھایا ہے۔ لیکن مسئلہ بھارت کی سخت گیر قیادت کا ہے جو ہر صورت میں پاکستان کو دبائو میں لانے یا سیاسی طور پر تنہا کرنے کی خواہش مند ہے۔ نریندر مودی سی پیک کے منصوبے کو قبول نہ کرنے اور اسے روکنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ہماری عسکری قیادت نے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ بھارت کو مفاہمت کی پیش کش کی ہے، اور اس تاثر کی نفی کی کہ فوج بھارت سے تعلقات میں بڑی رکاوٹ ہے۔
پاکستان کو مودی سرکار کی حالیہ مہم جوئی سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ اُس کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ مودی اس مہم میں مزید شدت پیدا کرنے کے لیے اس طرح کے ہونے والے واقعات کو پاکستان مخالفت میں استعمال کریں گے،کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ ان کی کامیابی ہندوتوا کی سیاست سے جڑی ہے، اور وہ اس میں شدت پیدا کرکے بھارت کے ووٹرز پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کو ان حالات میں بھارت کے انتخابات کے ماحول پر نظر رکھنی چاہیے۔ کیونکہ پاکستان اور بھارت میں جو بھی مثبت پیش رفت ہوگی وہ انتخابی نتائج کے بعد ہی ہوگی۔ کیونکہ موجودہ صورت حال میں بھارت اس شدت پسندی کی سیاست اور مقبوضہ کشمیر میں طاقت کی بنیاد پر مسئلے کے حل میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ عملی طور پر مسئلے کا حل پاکستان بھارت مذاکرات، اور اس کے نتیجے میں بہتر تعلقات سے جڑ ا ہے، اور یہی دونوں ملکوں سمیت خطہ کی سیاست کے مفاد میں بھی ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ مئی کے عام انتخابات تک بھارت کا سیاسی ماحول جنگی جنون پر مبنی رہے گا، اور مودی سرکار اس کو بنیاد بناکر انتخابات جیتنا چاہتی ہے۔ لیکن جو حالات بن رہے ہیں وہ مودی کے خلاف ہیں، داخلی سیاست میں وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہورہے ہیں، اور لگتا ہے کہ حالیہ جنگی جنون کی سیاست میں بڑی تبدیلی انتخابات کے بعد ہی ممکن ہوسکے گی، اور اُس وقت تک پاکستان کو اپنے کارڈ صبر اور سیاسی حکمت عملی کے تحت ہی کھیلنا ہوں گے، تاکہ ہم مودی کی سیاسی حکمت عملی کا شکار ہوکر وہ کچھ نہ کریں جو عملی طور پر مودی چاہتے ہیں، اور یہی ہمارے مفاد میں ہوگا۔