پروفیسر طارق تنولی
اپنے ادبی نام شریف شادؔ سے شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے پروفیسر محمد شریف سومرو اپنی ہمہ جہت شخصیت اور علمی، ادبی، تعلیمی اور سماجی امور کی انجام دہی کے سبب اب ایک انجمن اور ادارے کی سی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ انہوں نے 18 اگست 1960ء کو ضلع شکارپور رستم شہر کے سومرو محلہ میں عبدالقادر عنبرؔ سومرو کے گھر میں جنم لیا۔ ان کے والدِ گرامی بھی شعر و شاعری سے شغف رکھتے تھے اور بطور ایک اچھے شاعر کے جانے جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انہیں شاعری اور ادب سے لگائو ورثے میں حاصل ہوا ہے۔ جب شادؔ صاحب 18 برس کے ہوئے تو انہوں نے بھی شاعری کی باقاعدہ شروعات کردی تھی۔ انہوں نے 1978ء سے لکھنے کا آغاز کیا اور ان کی پہلی تحریر ماہنامہ ’’پیغام‘‘ کراچی میں اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ انہوں نے نہ صرف سندھی زبان کے تخلیقی ادب نثر و نظم میں، بلکہ تنقید اور تحقیق کے شعبے میں بھی بسیار سعی و کوشش سے خود کو نہ صرف منوایا ہے بلکہ نژادِ نو کے لیے بھی ایک ایسی لائقِ تقلید مثال قائم کی ہے جو بے حد قابلِ ستائش ہے، اور وہ یہ کہ چھوٹے دیہات اور قصبات میں رہنے والے بھی اپنی محنت، لگن اور مستقل مزاجی سے نام اور مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ ادب، شریف شادؔ کو بلاشبہ ورثے میں ملا ہے کہ والد اگر ایک معروف شاعر تھے تو چچا مرحوم ڈاکٹر عبدالخالق رازؔ سومرو بھی ایک نامور محقق اور تاریخ دان تھے، اور جو ادبی حوالے سے بھی شادؔ صاحب کے استاد تھے۔ ڈاکٹر رازؔ مرحوم نے شکارپور اور بکھر کی تاریخ پر بے حد اہم علمی اور تحقیقی کام کیا ہے۔ ماضی میں ان کے خاندان میں کئی معروف شعرائے کرام بھی پیدا ہوچکے ہیں جن میں سے ایک شاعر محمد طالب (1862ء تا 1942ء) کا نامِ نامی زیادہ نمایاں اہمیت کا حامل ہے، اور ان کا شعری مجموعہ بھی شادؔ سومرو چھپوا چکے ہیں۔ سندھی زبان و ادب کی مختلف اصناف میں انہوں نے تاحال اَن گنت تحاریر سپردِ قلم کی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کے ایک صد سے زائد علمی و ادبی مقالہ جات شائع ہوچکے ہیں اور غیرمطبوعہ مضامین کی تعداد دو سو سے بھی زیادہ ہے۔ موصوف مطالعۂ کتب کے بے حد شائق ہیں۔ سندھی نثر کے ساتھ ساتھ سندھی نظم میں بھی بے پناہ کام کیا ہے، اور علمِ عروض جیسے مشکل فن کے ایک اچھے ماہر گردانے جاتے ہیں۔ ان کے وقیع علمی و ادبی مضامین ماہنامہ ’’نئین زندگی‘‘، ماہنامہ ’’پیغام‘‘، سہ ماہی ’’مہران‘‘، سہ ماہی ’’تخیل‘‘ اور ماہنامہ ’’سوجھرو‘‘ سمیت دیگر رسالہ جات اور اخبارات میں بڑے تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے ہیں۔ موصوف نہ صرف اپنی جائے پیدائش رُستم بلکہ شکارپور کے ادبی پروگرامات، سندھی ادبی سنگت اور سماجی سرگرمیوں کے محرک اور روحِ رواں رہے ہیں۔ سندھی زبان و ادب کی مختلف اصناف میں انہوں نے جو بے حد و حساب خدمات سرانجام دی ہیں اس کی بنا پر سندھی کے معروف ادبی رسالے ماہنامہ ’’سورمی‘‘ نے اپنے نومبر 2018ء کے شمارے میں ان کے لیے ایک گوشۂ خاص مختص کیا ہے، جس میں ان کے فکر و فن اور شخصیت کے بارے میں نامور ادبی شخصیات نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہیں شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ان کا ایم فل کا مقالہ 1999ء میں بہ عنوان ’’سندھی ادب میں نثری نظم جی ارتقاء جو تحقیقی ابھیاس‘‘ منصۂ شہود پر آچکا ہے اور جو اُن کی محنت، علمی لیاقت اور قابلیت پر دلالت کرتا ہے۔ سندھی نظم نے قدیم نظم سے جدید نظم تک کا جو ایک طویل سفر طے کیا ہے اسی پر وہ آج کل اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی قلم بند کرنے میں مصروف ہیں، ان کی رائے میں استاد بخاری، بردو سندھی اور نارائن شیام نے جدید سندھی نظم میں بڑے اہم تجربات کیے ہیں لیکن جدید نظم کے شعراء میں فن کی جو کمی محسوس ہوتی ہے وہ توجہ کی متقاضی ہے۔ ان کے خیال میں شعراء اور ادباء کیوں کہ معاشرے کے ذمہ دار اور باشعور افراد ہوا کرتے ہیں اس لیے ان کے ہاں قول اور فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اِن کی بیشتر تعداد کا کردار مشکوک رہا ہے اور وہ درباری بنے رہے ہیں، درآں حالیکہ ادباء اور شعراء کو تو اپنے معاشرے کے ساتھ گہرا تعلق استوار کرتے ہوئے اپنوں کے دکھ اور سُکھ میں ان کے شریکِ حال رہنا چاہیے۔ ایک صاحبِ قلم تو درحقیقت عظیم کردار کا حامل ہوا کرتا ہے، اس لیے اسے سب کے لیے ہر لحاظ سے ایک عمدہ مثال کے مصداق ہونا چاہیے۔ شادؔ صاحب نے سندھی شاعری کی لگ بھگ تمام اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ دورِ حاضر میں جب کہ مطالعۂ کتب کا رجحان قابلِ ذکر حد تک کم ہوچکا ہے، موصوف نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ اپنے کالج کے طلبہ کو بھی پڑھاتے ہیں اور انہیں بھی مطالعے کی ترغیب دیا کرتے ہیں، نیز کتب کی خریداری کے بھی بے حد شائع ہیں۔
اب بارے کچھ بیان ان کی تعلیم و تعلم کا۔ انہوں نے 1983ء میں ایم اے انگلش، 1985ء میں ایم اے معاشیات، اور 1987ء میں ایم اے سندھی کے امتحانات پاس کیے۔ 1993ء میں ایم ایڈ کیا۔ پرائمری اسکول ٹیچر 14اکتوبر 1979ء سے 31 اگست 1991ء تک رہے۔ سیکنڈری اسکول ٹیچر یکم ستمبر 1991ء تا 15 اگست 2000ء رہے۔ لیکچرار سندھی گورنمنٹ ڈگری کالج شکارپور 16 اگست تا 29 مئی 2011ء۔ بعد ازاں 30 مئی 2011ء سے ڈگری کالج ٹھل میں فرائض انجام دیئے۔ آج کل موصوف گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج جیکب آباد میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ شریف شادؔ سومرو گورنمنٹ ہائی اسکول خانپور میں جب پڑھا کرتے تھے تو یہیں پر اُس دور میں ان کے استادِ محترم ان کے مرحوم چچا نامور محقق اور ادیب ڈاکٹر عبدالخالق رازؔ سومرو بھی تعینات تھے جن سے انہوں نے سندھی شعرو شاعری اور علمِ عروض کی تربیت حاصل کی۔ ان کا تخلص شادؔ بھی موصوف کا ہی عطا کردہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رستم شہر کو علمی شہر تو سائیں عبدالخالق مہر نے بنایا ہے لیکن اسے موجودہ ادبی مقام دلانے میں سب سے اہم کردار پروفیسر محمد شریف شادؔ سومرو نے ادا کیا ہے۔ موصوف نے نہ صرف علمی و ادبی بلکہ سماجی حوالے سے بھی خاصا کام کیا ہے اور اپنے اہلِ علاقہ کے دکھوں کے درماں بنے ہوئے ہیں۔ علاقے میں بابا مستری اللہ ڈنو کے بعد انہی کا نام سماجی خدمات کے باعث معروف ہے۔ موصوف نوآموز لکھنے والوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتے ہیں۔ بارہا مجھے اور میرے سربراہِ شعبہ پروفیسر محمد عارف پٹھان اسکالر ایم فل کو علمِ عروض سکھانے کی پیشکش کرچکے ہیں۔ ان کی تعلیمی خدمات بھی بہت زیادہ ہیں۔ پرائمری کے بچوں اور بڑی کلاسوں کے طلبہ کے لیے سندھی زبان میں ’’اکرن جی اکیڑ‘‘ کے نام سے ایک دلچسپ کھیل تیار کرچکے ہیں جس کے ذریعے طلبہ میں زبان کے نئے نئے الفاظ سیکھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ ایم ایڈ کے کورس کے لیے آر۔ ٹی۔ ای یعنی ’’تعلیم میں تحقیق جا طریقا‘‘ لکھا ہے، جو ایم ایڈ کے کور مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ موصوف بے حد محنتی اور اپنے طلبہ میں بے حد مقبول اور پسندیدہ استاد ہیں۔ وضع دار، بااخلاق، مہمان نواز اور ہنس مکھ شخص ہیں۔ دینی اقدار اور شعائر سے محبت و الفت رکھتے ہیں۔ اس وقت ’’سندھی ادب میں جدید نظم جی اوسر‘‘ کے نام سے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ سندھ یونیورسٹی جام شورو کے زیراہتمام مکمل کرنے میںہمہ تن مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ذیل میں ان کا مختصر شخصی خاکہ پیش خدمت ہے۔
تعلیم: پرائمری اور مڈل کی تعلیم اپنے گوٹھ رستم سے حاصل کی۔ میٹرک1977ء، انٹر 1979ء میں، گریجویشن 1981ء میں، اور بی ایڈ 1987ء میں کیا۔ اعلیٰ تعلیم کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔
ادبی شناخت: شاعر، ادیب، افسانہ نگار، نقاد اورمحقق۔
حاصل کردہ ایوارڈ:
(1)سندھی ادبی سنگت شاخ رستم کی کارکردگی پر حاصل کردہ ایوارڈ 1985ء۔
(2)ہمدرد انسانیت سوشل ویلفیئر ایسوسی ایشن ڈسٹرکٹ شکار پور ایوارڈ، سرٹیفکیٹ 2007ء
(3) سی اینڈ ایس کالج کی طرف سے دی گئی شیلڈ 2008ء
(4) ادبی، سماجی فورم خیرپور کی جانب سے دی گئی شیلڈ 1999ء
(5) ڈاکٹر تنویر عباسی ایوارڈ 2010ء
(6)ادب اور بولی کی خدمت کے صلے میں اعزازی شیلڈ سندھ ادبی اور ثقافتی فورم سے حاصل کردہ 2015ء
(7) شکارپور سامی کلچر ہیریٹیج فیسٹیول انڈومینٹ فنڈ ٹرسٹ فارپرزرویشن آف دی ہیریٹیج آف سندھ 2016ء
(8)چار سوسالہ جشنِ شکارپور ایوارڈ از مہران ادبی سنگت شکار پور 2017ء
(9)رحمت اللہ شوق یادگار شیلڈ 2017ء
(10) سندھ سُگھڑ لوک ادب تنظیم (سلات) استاد محمد پنجل شیخ ایوارڈ، سرٹیفکیٹ 2018ء وغیرہ سمیت دیگر متعدد اعزازات۔
چند غیر مطبوعہ اور مطبوعہ کتب کے نام: 1۔ کلام طالب (شعری مجموعہ محمد طالب سومرو) ترتیب اور سوانح، 2۔ ادبی تاریخ تعلقہ لکھی، 3۔ تاریخ شکار پور، 4۔ وسی شال سندھو جو کنارو (ڈاکٹر عبدالخالق رازؔ کی طویل نظموں کی ترتیب پر مبنی کتاب)، 5۔ چوتھی دنیا (افسانوی مجموعہ)، 6۔ شاعری جون صنفون، فن، فکر، تاریخ، 7۔ سوچن جو سلسلو (نثری نظمیں)، 8۔ سندھی میں نثری نظم جو ارتقاء، 9۔ تعلیم میں تحقیق جا طریقہ، 10۔ سندھی ادب میں جدید نظم جی اوسر، 11۔ کلیاتِ شادؔ (شعری مجموعہ)، 12۔ رسالو عیسیٰ فقیر جو، 13۔ علاوہ ازیں سیکڑوں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مقالہ جات اس پر مستزاد ہیں۔
پسندیدہ کتاب: قرآن مجید۔ پسندیدہ شاعر: شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ۔ پسندیدہ پھول: گلِ یاسمین۔ پسندیدہ پھل: سیب اور نارنگی۔ پسندیدہ رنگ: سفید۔ پسندیدہ ناول: ماستریانی۔ موبائل نمبر 03332770660۔
پتا: بتوسط ڈیسنٹ پریس، لکھی درشکارپور