پاکستانی میڈیا کا منظر نامہ زہر کیسے داخل ہوتا رہا؟

میڈیا انڈسٹری نے جس تیزی سے ترقی اور جدت کی منازل طے کی ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ اگر اس پورے سفر کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ضرور سامنے آئے گی کہ اب یہ ایک تجارتی منڈی بن چکی ہے ۔اس میں بڑی مافیاز بھی شامل ہیں بلکہ اسٹیک ہولڈرز مافیا بن چکے ہیں۔پاکستان کے قیا م کے وقت سے بڑی اسکرین یعنی سینما اپنی جگہ بنائے کھڑا تھا اور لوگ تفریح طبع کی خاطر سینما سے بھرپور لطف اندوز ہوتے آرہے تھے ۔ ریڈیو بھی ایک اہم میڈیم کے طور پر موجود تھا اور پورے پاکستان میں ذوق شوق کے ساتھ انفرادی و اجتماعی طور پرسنا جاتا۔ جو کچھ ریڈیو پر نشر ہوتا رہا (ایف ایم کلچر سے قبل)اُس کے مواد پر سماجی امور و میڈیا کے ماہرین کی اکثریت کا اجماع ہے کہ وہ ہر حوالے سے جامع ،دلچسپ، دینی ،تہذیبی و سماجی دائرے کے اندر کا مواد تھاجو نئی نسل کے زبان و بیان کی بھی تربیت کرتا تھا۔اس کے بعد ٹی وی کا دور شروع ہوا۔26نومبر1964کو پی ٹی وی کے قیام اور اُس کی نشریات حکومتی پالیسی و حکمرانوں کے نظریات کے تابع رہی کیونکہ اُنہیں معلوم تھا کہ یہ ٹی وی اور یہ ٹی وی اسٹیشن لگا کر ہمیں کیا کام انجام دینا ہے ۔ساٹھ کی دہائی میں جب بلیک اینڈ وائٹ نشریات کا دور تھا اُس میں ٹی وی نے خوب رنگ جمایا۔ہم نے جب آنکھ کھولی تو 1975سے شروع ہونے والی رنگین ٹی وی ٹرانسمشن کی شکل میںٹیلی ویژن کا ڈبہ ایک زبردست جادوئی اثر رکھنے والے میڈیم کے طور پر سامنے آچکا تھا۔گو کہ اس زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن کی چند گھنٹوں پر محیط نشریات ہی دستیاب تھیں لیکن آج بھی وہ نقوش دل و دماغ پر رکھتی ہیں۔رمضان المبارک کے ایام کی نشریات ہوں،بچوں کے کارٹون، بچوں کے لیے مشہو رانگریزی ڈرامہ سیریلز ، ملی نغموں کی ایک سیریز ہو، روایتی خبرنامہ ہویاپی ٹی وی کے شہرہ آفاق ڈرامے ہوں۔جو کچھ بھی تھا رات گیارہ ، بارہ بجے فرمان الٰہی(تلاوت ) نشر ہو کر سب بند ہوجاتا تھا۔کسی محلہ میں ایک گھر میں ٹی وی آجاتا تو اُس کے گھر رش لگ جاتا ۔آہستہ آہستہ ٹی وی کی رسائی محلہ کے ایک گھر سے دو ، تین پھر ہر گھر کی ضرورت کے طور پر اس حد تک پہنچ گئی کہ اب ہر کمرہ میں یہ اسکرین اپنی نئی شکل ( ایل سی ڈی ) میں جگہ بنا چکی ہے ۔چند گھنٹہ کی نشریات کا نشہ لگا تو پھر ذرا اور طلب بڑھی ۔ اس دوران وی سی آر نے بھی مارکیٹ میںجگہ بنا لی تھی ۔پڑوسی ملک بھارت کی فلمیں پاکستانی تہذیب و تمدن میں چھید کرنا شروع کر چکی تھیں۔بہر حال پاک بھارت جنگ کے تناظر میںپاکستانی سینماؤں پر سے بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی کے بعدوی سی آر کی بدولت بھارتی مواد کا داخلہ جاری رہا۔اس ضمن میں بھی ایک اہم ترین بات کرتا چلوں کہ بھارت کی فلموں نے بلاشبہ پروڈکشن کے معیار میں جہاںہالی ووڈ کی جانب رُخ کر کے تیز ترین دوڑ کامیابی سے لگائی ،وہاں اُس نے اپنے مواد کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا ۔کمرشلائزیشن کہیں یا مغربی اثرات ،بھارتی فلموں کے اندر موجود قابل برداشت تہذیبی، اخلاقی، مذہبی رواداری کا عنصربھی زوال کی جانب گامزن رہا۔1960سے 1980 کی دہائی کی بھارتی فلموں کے موضوعات ، اُن میں عورت کا کردار ، مقام، رشتوں کی قدر، مذہبی رواداری، گیت اور اُن کی شاعری کو آج کی بھارتی فلموں سے موازنہ کر کے دیکھ لیں خود یہ زوال والی بات باآسانی سمجھ آجائے گی۔
پاکستان میںٹی وی ناظرین کو اسکرین کا نشہ لگ چکا تھا ، پی ٹی وی کی چند گھنٹوں پر مبنی جامع اور مناسب ڈوز سے گزارا مشکل ہوا تو پڑوسی ملک سے نشریات کھینچنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ہم نے ہر جانب چھتوں پربوسٹر اینٹینا لگتے دیکھے کہ اس سے بھارتی چینل دور درشن دیکھ سکیں گے۔اس بوسٹر کی فروخت نے مارکیٹ میں ڈش اینٹینا کی جگہ بنائی۔طلب بڑھتی ہی جا رہی تھی کہ90کی دہائی میں پاکستان میں این ٹی ایم کی صورت چینل کا اضافہ ہوا ۔جس نے اسکرین کے ساتھ جڑے رہنے والوں کو جدید دور کے مطابق اگلی ڈوزپلانا شروع کی ۔گلف وار کی خصوصی کوریج سے شہرت پانے والی سی این این کی نشریات پھر ایس ٹی این ( شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک) جس پر پاکستانی فیچر فلم کی ڈوز نے لوگوںکو خوب جما کر بٹھایا۔ڈش اینٹینا بھی شروع میں سب کی قوت خرید میں نہیں تھا لیکن المیہ یہ ہواکہ یہ اسٹیٹس سمبل بن گیا۔ پاکستانی معاشرے پر چمک دمک والے مواد کا زہر اثردکھلا چکا تھا ۔
ٹی وی اب کل وقتی ضرورت بن چکا تھا اور ڈش اینٹینا تو جہیز کی ایک ڈیمانڈ ۔ڈش کلچر نے پاکستان میں بھارتی ڈراموں اور بھارتی ثقافت کو اتنا تیزی سے انڈیلا جو قیام پاکستان کے بعد پچاس سال میں بھی نہیں داخل ہو سکی تھی۔ان سب کے ساتھ جب پیسہ و کاروبار جڑا تو کئی ڈش کو جمع کر کے ایک تار میں سارا گند جمع کر کے بھیجنے کی ٹیکنا لوجی بھی پڑوس سے منگوا لی گئی۔یوں ’کیبل‘ کلچر نے ڈش اینٹینا کے کاروبار کو سائیڈ لگا دیا۔ اس کے لیے نئے ٹی وی سیٹ میدان میں آگئے ۔پرانے ٹی وی سیٹ میں زیادہ چینلز ٹیون کرنے کی سہولت نہیں ہوتی تھی۔ڈش اینٹینا جب نازل ہوا تو ٹی وی سیٹ میں سات آٹھ سے بڑھ کر تیس چینل تک بات پہنچ چکی تھی۔ کیبل نے جو انقلابی پیش رفت کی ، جس نے عوام کو گھر بیٹھے بھرپور سہولت دے ڈالی۔تین سو روپے میں سو سو چینلز نے تو وارے نیارے کر دیئے۔دن والے چینل الگ رات والے الگ۔ٹی وی سیٹ فروخت کرنے والے کاروبار کو مہمیز دی ’کیبل ‘ میںبھی بھر پور تیزی آئی اور سو سو چینل والے ٹی وی سیٹ مارکیٹ میں آگئے۔مزید یہ ہوا کہ وی سی آر سے آگے بڑھنے والی سی ڈی اور ڈی وی ڈی پلیئرز کے استعما ل کو بھی کیبل ٹیکنالوجی والوں نے استعمال شروع کر دیا۔دنیا بھر سے سیٹلائٹ چینلز تو تھے ہی،کیبل والوں نے آزادنجی چینلز بھی بنا لیے ۔ان میں وقت کے ساتھ ساتھ اور علاقائی ضرورت کے مطابق تبدیلی کر دیتے جیسے کچھ بھارتی فلموںکے لیے ، کچھ موسیقی کے لیے، کچھ کو انگریزی فلموں کے لیے ، کچھ کو اسلامی چینلز کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔اسی طرح کچھ پر اسٹیج ڈرامہ یا پاکستانی پرانے ڈرامے جو سی ڈی یا ڈی وی ڈی پلیئر سے چلا دیئے جاتے اور یہ سب24گھنٹے کی نشریات ہوتی ۔آگے چل کر اسے وی او ڈی یعنی ویڈیو آن ڈیمانڈ کر دیا گیا ۔لوگ بقیہ سو چینلوں سے اگر مایوس ہو جاتے تو کیبل آپریٹر سے خود فرمائش کر کے اپنی پسند کی ویڈیو لگواتے ۔اس کے ساتھ ہی ایک اور ٹیکنالوجی نے جگہ بنانے کی کوشش کی جسے ڈی ٹی ایچ ( ڈائریکٹ ٹو ہوم ) کا نام دیا گیا جس میں کارڈ لگا کر چینل دیکھے جاتے۔آپ اس بتدریج تیز ترین سفر کااندازہ کریں کہ کس طرح بتدریج قوم کو اسکرین کی لت لگاکر تہذیبی، اخلاقی ، سماجی ، معاشی اقدار کو کچلا گیا۔اس دوران پاک بھارت تناؤ ، کچھ عدلیہ کی جانب سے غیرت جاگنے کے عمل نے بھارتی مواد اور نیم شب والے کیبل چینلز پر سخت پابندی عائد کر دی ۔پابندی اتنی سخت رہی کہ عوام کو سو ،ڈیڑھ سو اقساط والے بھارتی ڈراموں کی لت نے چلانے پر مجبور کرد یا ۔ کیبل آپریٹرز کو صرف پیسہ سے مطلب تھا، انہیںقومی مفاد بھی سمجھ نہیں آیا،ناظرین کی تسکین کے لیے کیبل آپریٹرز مافیا نے چور راستو ں سے یہ زہر دوبارہ انڈیلنا شروع کیا ۔دوسری جانب اس لت کو پاکستانی چینلز نے محسوس کیا اوریہاں بھی نقل شروع کی گئی،جس میں بالآخر آج ہم کہہ سکتے ہیںکہ پاکستانی پروڈکشن نے دھڑا دھڑ پروڈکشن سے اپنے ناظرین کو متوجہ کر ہی لیا۔
یہ بھی کیسے ہوا ۔ذرا ایک نظر دیکھیے ۔1991-92میں پاکستان ٹیلی ویژن نے بھی اپنی نشریات کا دائرہ بڑھایا اور سیٹلائٹ پر PTV-2کے نام سے منتقل ہوا۔1999میں این ٹی ایم مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہو گیا۔2000میں پرویز مشرف صاحب نے اپنے فلسفہ enlighten moderationکے تحت نجی سیٹلائٹ چینلز کے لائسنس جاری کرنا شروع کر دیئے۔انڈس2000، اے آر وائی2001،جیو2002میں لانچ ہوئے اس کے بعدپاکستان میں سیٹلائٹ ٹی وی چینلزکی mushroom growth کا سلسلہ شروع ہوا۔گوکہ پاکستان میں کیبل کا دور آج بھی جاری ہے لیکن انٹرنیٹ نے پھر 2G,3G,4Gاور اب5Gٹیکنالوجی کی بدولت غالب امکان ہے کہ آنے والے دنوںمیں میڈیا کا منظر نامہ اور سہل الحصول ،تیز،شدید نشہ آور، خطرناک ہو جائیگا۔اس بات کا اندازہ آپ اپنے گھروں میں،رشتہ داروں میں موجود ڈیڑھ سال کے بچوں سے لے کر چھ سال کے بچوںمیں موبائل فون سے رغبت دیکھ کر باآسانی کر سکتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا کے منظر نامہ پر ایک نظر ڈالیں تو اس وقت دستیاب ٹی وی چینلز کو تین دائروں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے۔انٹرٹینمنٹ یعنی تفریح، دوسرا دائرہ خبریں یا حالات حاضرہ ہے اور تیسرا عنوان مذہبی ہے ۔انٹرٹینمنٹ کے دائرے میں ڈرامہ، فلم، موسیقی، کھانے پکانے کے چینلز شامل ہیں، ان کی تعداد 28 کے قریب ہے ۔خبروں اور حالات حاضرہ میں تمام خبروں ( تمام زبانوں)کے چینلزشامل ہیں جن کی تعداد 34کے قریب ہے۔مذہب کے دائرے میں گو کہ چار ہی چینلز ہیں جن میں کیو ٹی وی، مدنی چینل، پیغام ٹی وی ،منہاج ٹی وی ، اہل تشیع کی تبلیغ کے حوالے سے ہادی ٹی وی، اہل بیت ٹی وی شامل ہیں ، عیسائی تبلیغ کے لیے پاکستان میںگواہی ٹی وی، برکت ٹی وی، زندگی ٹی وی، پریس ٹی وی ، جیزز کرائسٹ ٹی وی، ایساک ٹی وی، جبکہ احمدی چینلز اس کے علاوہ ہیں۔بحوالہ (Lyngsat)
پیٹ نہیں بھرا اور پروڈکشن کم محسوس ہوئی تو ترکی سے ڈراموں کو لا کر ترجمہ کر کے پیش کیا جانے لگا۔اس پر عشق ممنوعہ جیسے ڈراموں پر احتجاج کے لیے خود پاکستانی پروڈیوسرز میدان میںآگئے ،جن کے پیٹ پر لات پڑ رہی تھی۔بہر حال نئے چینلز کے قیام اور آؤٹ سورس پروڈکشن نے مزید گنجائش کو پورا کرنے کا کام کیا۔نیوز چینلز نے بھی انٹرٹینمنٹ کے کئی کئی چینلز شروع کر دیئے ۔مگر اب انکا دور بھی اختتام کی جانب جا چکا ہے۔ ان سب کی جگہ تیزی سے سوشل میڈیا لے رہا ہے ، اب ڈرامے ٹی وی اسکرین سے زیادہ یو ٹیوب پر دیکھے جاتے ہیں اور سیٹلائٹ کی محدودیت بھی ختم ہو گئی ہے ۔دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر یو ٹیوب کے خزانے میں سے آپ اپنی پسند کے ڈرامے ،فلمیں دیکھ رہے ہیں۔فائزہ افتخار کا تحریر کردہ ہم ٹی وی کا ایک آن ائیر ڈرامہ رانجھا رانجھا کردی کی پہلی قسط کے چالیس لاکھ سے زائد ویوز بہت کچھ سمجھانے کے لیے کافی ہیں(یوٹیوب کے صرف ایک چینل پر )۔پہلے کی طرح ٹی وی کا ڈبہ ، پتلے اور خوبصورت قسم کی اسمارٹ ایل ای ڈی کا روپ دھارے دیواروں پر ٹانگا جا چکا ہے۔سترہ انچ۔ بیس انچ سے بات 62انچ اور70انچ تک چلی گئی ہے ۔ایچ ڈی اور فور کے ٹیکنالوجی کے گن گائے جا رہے ہیں۔اسی طرح اب نیٹ فلکس اور آئی فلکس کے بعد مزید آزاد ، اخلاق باختہ ٹی وی پروڈکشن کا ذریعہ ویب سیریز کی صورت سامنے آ رہا ہے ۔ویب سیریز کی کی مقبولیت کی خاص بات یہی ہے کہ اس میں ہر قسم کی حدیں پار کر لی جاتی ہیں۔ہالی ووڈ اپنی جگہ لیکن بھارت اس معاملے میں بھی تیزی سے ناظرین کے لیے مواد کی سمت بناتا جا رہا ہے ۔اس وقت تمام بھارتی مقبول ویب سیریز کی خاص بات اعلیٰ پروڈکشن، کہانی، انتہائی بے لاگ ڈائیلاگ و حدود سے باہرمناظر ہیں۔پاکستانی پروڈیوسرز نے بھی ویب سیریز میں قدم جمانے شروع کر دیئے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ جو کچھ نکل کر آئے گا وہ مواد نئے اذہان کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا۔بس ایک خاص بات یہ ہے کہ ویب سیریز میں کوئی قید نہیں اگر وہ بدترین موضوعات پر سیریز بنا سکتے ہیں تو آپ متبادل کسی بہترین بامقصداور اصلاحی موضوع پر اپنی سیریز بنا سکتے ہیں۔
اس منظر نامے میں جماعت اسلامی خواتین نے ہمت کر کے میڈیا کی اصلاح، اس زہر کے حوالے سے شعور کی بیداری کی مہم کا آغاز کیا ہے۔میری دعاہے کہ ملک بھر میں جاری یہ مہم عوام کو اس زہر کا احساس دلانے ، اس سے بچنے اور تدارک کے لیے سبیل بنا ئے ۔