دوسری زبانوں سے آئے ہوئے کتنے ہی الفاظ ایسے ہیں جن کا ہم بے تکان استعمال کرتے ہیں اور مفہوم کے مطابق بالکل صحیح کرتے ہیں، لیکن ان الفاظ کے معانی یا یوں کہیے کہ لغوی معنیٰ معلوم نہیں ہوتے۔ ایسا ہی ایک لفظ ہے ’’کیفرِ کردار‘‘۔ ذرائع ابلاغ میں اس کا استعمال عام ہے کہ فلاں شخص کیفرِ کردار کو پہنچ گیا۔ لیکن یہ ’کیفر‘ کیا ہے؟ چلیے، اس کے لیے لغت دیکھتے ہیں جس کے مطابق ’کیفر‘ فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے: بدی کا عوض، برے کام کا بدلا (نہ کہ بدلہ)۔ چنانچہ کیفرِ کردار کا مطلب ہوا عملِ بد کی پاداش۔ ایک شعر ہے:
جو سر اٹھائیں عدو اس کے خاک میں مل جائیں
ہر ایک حال میں وہ پائیں کیفرِ کردار
عربی کا ایک لفظ ’’قُحبہ‘‘ ہے۔ قحبہ خانہ، قحبہ گری وغیرہ اردو میں عام ہیں، گو کہ اس کا مطلب اچھا نہیں، اور بدکردار عورت کو کہتے ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کا مصدر ’’قحب‘‘ ہے اور مطلب ہے کھانسنا۔ یعنی قحبہ ہوئی کھانسے والی، پھانسنے کے لیے کھانسنے والی۔ کسی زمانے میں بدکردار خواتین کھانس کر مردوں کو متوجہ کیا کرتی تھیں، چنانچہ قحبہ کہلائیں۔ لیکن پھر تو نئے نئے طریقے ایجاد ہوگئے، اور اب کوئی کھانسے توکھانسی کا شربت پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ کنایتہً دنیا کو بھی قحبہ کہا جاتاہے کہ یہ کسی کی نہیں ہوتی۔ احمد جاوید کا شعر ہے:
دنیا مرے پڑوس میں آباد ہے مگر
میری دعا سلام نہیں اس ذلیل سے
احمد جاوید کو پڑوس بدل لینا چاہیے۔ دنیا کو دَنی بھی کہتے ہیں یعنی سفلہ، ناکس۔
عربی ہی کا ایک لفظ ’اتباع‘ ہے۔ یہ مذکر ہے یا مونث، ہم اسی الجھن میں ہیں۔ ایک بڑے عالم اور کالم نگار نے اسے مونث باندھا ہے ’’کی اتباع کے لیے‘‘۔ لغت کہتی ہے کہ یہ مذکر ہے۔ ہم سید مودودیؒ کی طرح یہ نہیں کہہ سکتے کہ لغت درست کرلیں، یہ الگ بات ہے کہ لغات میں پہلے ہی سے بہت غلطیاںہیں۔ کئی الفاظ ایسے ہیں جن کی تذکیر وتانیث میں دہلی اور لکھنؤ میں فرق ہے، لیکن وہ مقامی الفاظ ہیں، عربی کے نہیں۔ دو الفاظ جن کا املا ایک ہے مگر معانی مختلف۔ ایک مِہر اور دوسرا مُہر۔ دونوں فارسی کے الفاظ ہیں لیکن بہت پڑھے لکھے لوگ بھی اس میں گھپلا کرجاتے ہیں۔ ایک بڑے سینئر صحافی بلکہ مدیرانِ اخبارات کے سرخیل، سی پی این ای کے صدر جناب عارف نظامی ٹی وی چینل 92 نیوز پر مُہرِ سکوت کو مِہرِ سکوت فرما رہے تھے کہ یہ کب ٹوٹے گی۔ مزید فرمایا کہ اس خاموشی کے پیچھے پس منظر کیا ہے۔ دل باغ باغ ہوگیا۔ جناب عارف نظامی کئی اخبارات کے مدیر بھی رہ چکے ہیں اور تعلق حمید نظامی مرحوم سے ہے جو نوائے وقت کے بانی تھے۔ ہم عام طور پر کسی کا نام لینے سے گریز کرتے ہیں، لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص تک بات نہیں پہنچتی۔ عارف نظامی جیسے صحافی کو مِہر اور مُہر میں فرق معلوم ہونا چاہیے تھا۔ مِہر (بروزن دہر، قہر، زہر) توڑی نہیں جاتی۔ مہر (بالکسر) بمعنی آفتاب اور مونث ہے۔ مطلب ہے: محبت، دوستی، الفت، پیار، شفقت وغیرہ۔ صبا کا شعر ہے:
عذابِ حشر کہاں پرسشِ گناہ کہاں
ذرا جو مہر تری اے فلک جناب ہوئی
ایک مصرع ہے ’’خدا کی مہر ہے تیرے جمال پر او بت‘‘
آفتاب کے معنوں میں مہر مذکر ہے۔ برق کا شعر ہے:
فرقتِ یار میں گھر مجھ کو ہوا ہے ظلمات
ایک دن مہر نہ ذرا کے برابر چمکا
’’ذرا کے برابر‘‘ کا مطلب شاعر ہی کو معلوم ہو گا۔ مہر سے مہربان اور مہربانی ہے۔ مہربانِ من یعنی میرے عنایت فرما۔ رند کا شعر ہے:
تکلیف اب نہ کیجے گا مہربانِ من
تھم جائے گا تڑپ کے دل ناصبور آپ
اب کیا ہمارے صحافی بھائی مِہربانی کو بھی مُہربانی کہیں گے؟ عارف نظامی نے جو چیز توڑنے کی کوشش کی ہے وہ مُہرِ سکوت ہے (میم پر پیش)۔ مُہر مونث ہے اور مطلب ہے انگوٹھی، خاتم، کسی چیز پر کھدا ہوا نام۔ عارف نظامی کے پاس اپنی مہر بھی ہوگی۔ نظام حیدرآباد میر محبوب علی خان کا بڑا مشہور شعر ہے اور غالباً اکیلا ہے جو مشہور ہوا ہے۔ اُن کے خلاف جب سازشیں ہورہی تھیں تو انہوں نے کہا تھا:
لائو تو قتل نامہ ذرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مُہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
مہر برلب، یعنی ہونٹوں پر مہر لگنا۔ کنایہ ہے خاموشی سے۔ اسی کو مُہرِ سکوت بھی کہتے ہیں جو ٹوٹ جاتی ہے۔ مُہر کے اور بھی کئی محاورے ہیں مثلاً مہر کروا لینا یعنی تصدیق کروا لینا۔ اب رہی بات ’’اس کے پیچھے پس منظر‘‘ کی، تو اس پر کیا بات کرنا۔ غنیمت ہے کہ پسِ منظر (پسے منظر) نہیں کہا۔
کھلی چھوٹ کی جگہ ’’کھلی چھٹی‘‘ سے جان نہیں چھوٹ رہی۔ 16 فروری کے ایک کثیرالاشتہار اخبار کی شہ سرخی میں ہے ’’گواہان کو کھلی چھٹی دے دی‘‘۔ جانے ہمارے صحافی بھائی اس کھلی کھلی غلطی کی اصلاح کب کریں گے۔ تلفظ کا عالم یہ ہے کہ ایک خاتون اینکر بھینٹ کو بِھینٹ چڑھا رہی تھیں، یعنی ’بھ‘ کو زیر کیا ہوا تھا۔ کراچی میں بادل تو کبھی کبھی آتے ہیں، اور جب آئے تو اینکر اطلاع دے رہے تھے کہ ’’بادل گھر آئے‘‘ یعنی گھر بمعنی مکان۔ ممکن ہے بادل، موصوف کے گھر آگئے ہوں۔ ’گھ‘ کے نیچے زیر لگانے سے بادل بھاگ نہ جاتے۔
ہمارے ممدوح جناب عبدالمتین منیری، بھٹکل،کرناٹک والے نے لکھا ہے کہ ’’گزشتہ ہفتے دانشِ مستعار کے تحت آپ کے کالم میں بی بی سی کے عارف وقار کا جو کالم شائع ہوا ہے، اسے گزرگاہ خیال گوگل گروپ پر شکاگو سے آپ کے کالموں کے مستقل قاری اور مداح جناب سید محسن نقوی نے پوسٹ کیا تھا، غالباً اپنے مراسلے میں انہوں نے اپنا نام نہیں لکھا تھا، جسے آپ نے میرا مراسلہ سمجھ لیا، ویسے ہماری اتنی بساط کہاں کہ لسانیات کی ایسی باریک بحثوں کو آگے بڑھانے کی ہمت کرسکیں۔‘‘
وہ ایک بار پھر پڑھیں۔ بی بی سی کے عارف وقار کا نام نمایاں ہے۔ البتہ محسن نقوی نے جو کچھ بھیجا اس پر ان کا نام نہیں تھا۔ غالباً یہ اردو کی لغات سے متعلق بھرپور مقالہ ہے جس کا کچھ حصہ شامل ہے، وہ لکھتے ہیں:
”اب تک کی تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ اردو کی اولین معلومہ قواعد ہالینڈ کے ایک باشندے نے مرتب کی تھی۔ جان جوشوا کٹیلر نامی یہ ڈچ باشندہ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں ہندوستان آیا تھا اور سورت کے شہر میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ناظم تجارت مقرر ہوا تھا۔ ہندوستان میں اس کے قیام کی تاریخوں سے اندازہ لگا کر مولوی عبدالحق نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ہندوستانی زبان کی یہ اولین گرامر 1715ء کے لگ بھگ لکھی گئی تھی۔ لیکن اب سے چند برس پہلے معروف محقق محمد اکرم چغتائی نے خود یورپ جاکر جو تحقیق کی اُس سے ثابت ہوا کہ یہ کتاب مذکورہ زمانے سے پچیس برس پہلے لکھی گئی تھی۔ کتاب لاطینی میں ہے اور ہندوستانی زبان کے الفاظ اور جملوں کی مثالیں رومن رسم الخط میں دی گئی ہیں۔ یہ کتاب محض اپنی اولیت کی وجہ سے اہمیت اختیار کر گئی ورنہ اس میں ہندوستانی زبان کا کوئی مفصل تجزیہ موجود نہیں ہے۔
اردو گرامر کی دوسری معروف کتاب 1743ء میں شائع ہوئی۔ اس کو ایک جرمن مشنری بنجمن شلزے نے مرتب کیا تھا۔ یہ بھی لاطینی زبان میں تھی لیکن اردو کے الفاظ اردو ہی کے رسم الخط میں درج تھے۔ یہ کتاب بھی ایک ایسے شخص کے نقطہ نظر سے لکھی گئی تھی جو لاطینی کو ام السنہ گردانتا تھا۔ اردو کو بھی لاطینی قواعد کے اصولوں پر پرکھتا تھا۔ شلزے کو جتنی بھی ہندوستانی (اردو) آتی تھی، اس پر بنگالی کا اثر نمایاں تھا اور بہت سے الفاظ جو اُس نے اردو یا ہندوستانی کے نام پر درج کیے ہیں، دراصل بنگالی الفاظ ہیں۔