خطابات سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ

کتاب : خطابات سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ
جلد دوم (1938ء۔1955ء)
مرتب : پروفیسر نورورجان
صفحات : 336، قیمت: 425 روپے
باہتمام : ادارہ معارف اسلامی۔ منصورہ، ملتان روڈ۔ لاہور
فون نمبر : 042-35252475
042-35419520-4
فیکس : 042-35252194
ای میل : imislamic1979@gmail.com
ویب گاہ : www.imislami.org
تقسیم کنندہ : مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ ملتان روڈ، لاہور
فون نمبر : 042-35252419
042-35419520-4

پروفیسر نور ور جان صاحب نے جس عظیم کام میں ہاتھ ڈالا ہے وہ قابلِ صد تعریف ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے خطابات کو کتابی شکل میں مرتب کردینا اور ہر خاص و عام کی دسترس میں یہ عظیم ذخیرہ لے آنا عظیم ضرورت ہے۔ اس کتاب کی جلد اوّل کا تعارف ہم پہلے کروا چکے ہیں، زیر نظر دوسری جلد میں انہوں نے جن خطابات کو جمع کیا ہے وہ 1938ء۔ 1955ء کے دورانیے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتاب کا تعارف حافظ محمد ادریس صاحب کے قلم سے ہے اور پیش لفظ پروفیسر خورشید احمد حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے۔
پروفیسر خورشید احمد تحریر فرماتے ہیں:
’’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے گزشتہ صدی میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے فکری اور عملی لحاظ سے عظیم الشان جدوجہد کی، اسی مقصد کی خاطر جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ 75 ارکان کی ٹیم کو میدانِ علم و عمل میں اتارا گیا اور اب کروڑوں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیا جارہا ہے۔ سید مرحوم و مغفور اور آپ کے رفقا کے اس ہمہ جہت کام کے ہزاروں پہلو ہیں۔
یہی سبب ہے کہ بے شمار لوگ تحریر و تقریر میں تجزیاتی اور تحقیقی انداز سے اپنے اپنے میدان میںکام کررہے ہیں۔ سید مرحوم کی تصنیفات بلاشبہ دنیا بھر کی تحریکوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں، لیکن آپ نے تحریکِ اسلامی کی رہنمائی صرف علمی تصنیفات سے نہیں کی تھی، بلکہ لاکھوں میل کا سفر کرکے اور سیاست کے میدان میں اترکر اعلائے کلمۃ الحق کا علَم بلند کیا۔ چھوٹے بڑے اجتماعات سے خطاب اور پریس کانفرنسوں اور بیانات کے ذریعے پالیسی واضح کی۔ مقامِ شکر ہے کہ یہ ریکارڈ محفوظ رہا اور اب سامنے آرہا ہے۔
تحریک اسلامی کے ساٹھ ستّر سال پرانے رسائل تک رسائی حاصل کرنا انتہائی مشکل کام تھا، لیکن رضائے الٰہی کا حصول جب سامنے ہو اور کام عشق و لگن سے کیا جائے تو کوئی کام ناممکن نہیں رہتا۔
پروفیسر نورور جان نے اس نیک مقصد کے لیے عمرِ عزیز وقف کررکھی ہے۔ اُن کے قلم نے مولانا معین الدین خٹک، ملک غلام علیؒ، نعیم صدیقیؒ کی سوانح مرتب کرڈالیں، ’’اصول فقہ‘‘ ترتیب دیئے۔ ’’سید مودودیؒ سرحد میں‘‘ میں سید کے بارہ اسفار سامنے آئے۔
اب انہوں نے سید مودودیؒ کی تقاریر، مکتوبات، سیّد کے 14 بین الاقوامی اسفار، سیّد شعرا کی نظر میں، سیّد کے بیانات اور پریس کانفرنسیں، اپیلیں اور ٹیلی گرامز، انٹرویوز کو الگ الگ مکمل حوالہ جات کے ساتھ مرتب کردیا ہے۔ یقینا پروفیسر صاحب کا یہ علمی و دعوتی کام سخت محنت و تحقیق اور استقامت کا طالب تھا۔ لیکن اس کام کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سر انجام دے دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے پرانے لوازمے کی فراہمی اور ترتیب و تدوین مشکل کام تھا، دراصل یہ اداروں کا کام تھا۔
اس لوازمے کی تحقیق اور حوالوں کے لیے پروفیسر صاحب نے جن رسائل و جرائد سے استفادہ کیا ہے وہ قابلِ اعتماد ذرائع ہیں۔
واضح رہے کہ پروفیسر موصوف نے ’’مولانا مودودیؒ کی تقاریر‘‘ 1938ء سے مئی 1979ء تک مرتب کی ہیں، کیوں کہ اس سے پہلے کی تقاریر پروفیسر ثروت صولت (مرحوم) نے 14 اگست 1947ء سے مئی 1955ء تک دو جلدوں میں مرتب کی تھیں، اور ابوطارق مرحوم نے سید مودودیؒ کے انٹرویوز دو جلدوں میں مرتب کیے تھے، لیکن پروفیسر موصوف نے مزید 24 انٹرویوز مرتب کردیئے۔
تقاریر میں پہلے ’’سپاس نامہ‘‘، پھر سیّد کی تقریر اور پھر سوالات و جوابات یک جا کرکے ہمیں اس ماحول میں پہنچا دیا ہے جس میں سیّد مرحوم نے خطاب فرمایا تھا۔
مَیں اس مبارک کام پر انہیں کلماتِ تحسین پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ جناب پروفیسر نور ور جان کی اس علمی اور دعوتی کوشش کو قبول فرمائے اور تحریک اسلامی کے کارکنوں کے لیے فائدہ مند بنادے۔ آمین‘‘۔
پروفیسر نور ور جان تحریر فرماتے ہیں:
’’راقم الحروف کو اپنی کم عملی کا مکمل احساس ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ جب پچپن سال تک ’’صدیوں کے انسان‘‘ کے خطابات و ملفوظات کو نہ تو کوئی ادارہ تاریخی وفنی ترتیب سے مرتب کرائے، اور نہ ہی دانش ورانِ تحریک میں سے کوئی اس سمندر میں چھلانگ لگانے پر آمادہ ہو تو پھر آخر یہ کام کون کرے گا؟ کیا اُس وقت کا انتظار کیا جائے جب سیّد مودودیؒ کو دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان دنیا سے رخصت ہوجائیں؟ کم از کم میرے نزدیک تساہل اور غفلت سے کام لیا گیا جس کا کوئی جواز فراہم کرنا مشکل ہے۔ راقم الحروف نے سید مودودیؒ کی تقاریر، پریس کانفرنسوں اور بیانات، اپیلوں اور ٹیلی گرامز کی تحقیق و تدوین کا کام جون 2007ء میں شروع کیا تھا اور جون 2011ء میں مکمل ہوا۔ چار سال کی مدت میں 13جلدیں کمپیوٹرائزڈ مرتب ہوگئی ہیں جو 6500 صفحات پر مشتمل ہیں۔ اس راہ میں مشکلات تو پیش ضرور آتی ہیں مگر راقم الحروف کی نظر سعادتوں پر ہے اور اس سلسلے میں صرف ایک کا ذکر کافی ہے۔ اس دعوتی اور تحقیقی کام کے دوران 2008ء میں اہلیہ کے ہمراہ عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی اور یہی بات کیا کم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور مقامِ ابراہیم پر بندگی کا سجدہ ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوجائے۔ اہلِ علم اور اصحابِ تحریکِ اسلامی سے گزارش ہے کہ اگر ان مجموعوں میں سیّد مرحوم کی کوئی تقریر شامل ہونے سے رہ گئی ہو تو اس کی فراہمی میں تعاون فرمائیں، تاکہ آخری مجموعہ ’’بقیہ تقریریں‘‘ میں شامل کیا جاسکے۔ تحقیق و تدوین کے اس علمی و فکری کام میں ہر غلطی کو میری کم علمی اور کوتاہ فکری پر محمول کیا جائے، اور اس کی ہر خوبی سراسر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔‘‘
بڑی خوشی کا مقام ہے کہ اس سلسلے کی یہ دوسری جلد چھپ گئی ہے۔ مجھے جناب ظفر حجازی صاحب نے بتایا کہ تیسری اور چوتھی جلد بھی زیر طبع ہیں، ان شاء اللہ وہ بھی عنقریب قارئین کرام کی دسترس میں ہوں گی۔ یہ خطابات سب اہلِ اسلام کو پڑھنے چاہئیں، اس سے تاریخی طور پر افکار کے ارتقا سے آگہی ہوگی۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔ مجلّد ہے۔ رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔