کتاب : الطاف صحافت
مرتبہ : ڈاکٹر طاہر مسعود
صفحات : 534،قیمت:1000 روپے
ملنے کاپتا : فلیٹ نمبرA-15، گلشن امین ٹاور، گلستان جوہر بلاک 15، کراچی
موبائل : 0321-3899909
ای میل : saudzaheer@gmail.com
ویب سائٹ www.qirtas.co.nr
میز پر پڑے پرانے ٹیلی فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ لیکن رہائشی اور دفتری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی اس عمارت کا کوئی مکین ریسیور نہیں اٹھا رہا تھا۔ فون بند ہوتے ہی نئی کال شروع ہوجاتی۔ تیسری چوتھی بار بیل بجنے پر ساتھ والے کمرے میں کتابوں اور کاغذوں کے درمیان گھرے اور نیوز پرنٹ کے نیم خاکی کاغذوں پر انتہائی توجہ اور انہماک سے لکھنے میں مصروف باوقار ادھیڑ عمر شخص بے دلی کے ساتھ اُٹھے اور اپنی بیزاری پر قابو پانے کی مصنوعی کوشش کے درمیان ریسیور اٹھاکر بظاہر خوش دلی سے ہیلو اور السلام علیکم کہا۔ دوسری جانب سے سندھی اور انگریزی لہجے کی آمیزش کے ساتھ اردو بولنے کی کوشش کرتے ہوئے کوئی شخص کہہ رہا تھا: مجھے صدر ایوب خان نے کابینہ سے نکال دیا ہے، اور اس کی وجہ میرا وہ انٹرویو بنا ہے جو آپ نے لیا تھا۔ باوقار ادھیڑ عمرشخص نے اس اطلاع پر کسی قدر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا: مجھے اس بات کا علم ہوچکا تھا، لیکن اب آپ بہت آگے جائیں گے۔ دو چار مزید جملوں کے تبادلے کے بعد ٹیلی فون بند ہوگیا۔ شاید احتیاط کا یہی تقاضا تھا۔ ٹیلی فون کرنے والے ملک کے مقبول وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھے اور ریسیو کرنے والے جناب الطاف حسن قریشی مدیر مسئول اردو ڈائجسٹ۔ معلوم نہیں الطاف صاحب نے یہ جملے محض مروتاً کہہ دیے تھے، اُن کا وجدان انہیں یہ کہنے پر مجبور کررہا تھا، یا انہیں حالات کا درست ادراک تھا۔ کیونکہ ہوا ایسا ہی تھا۔ وزارتِ خارجہ سے محرومی پر غمگین اور پریشان ذوالفقار علی بھٹو اگلے چند برسوں میں ملک کے مقبول ترین سیاسی لیڈر، مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے بلا شرکت غیرے سربراہ، یحییٰ حکومت کے وزیر خارجہ اور نائب صدر، اور بچے کھچے پاکستان کے پہلے عوامی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر، اور چند ماہ بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پاکستان کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔ لیکن یہ بھی ایک سنگین اتفاق ہے کہ جس ذوالفقار علی بھٹو کو جناب الطاف حسن قریشی نے اپنے اندازے، وجدان یا بصیرت کی بنیاد پر بہت آگے جانے کی نوید سنائی تھی، وہ سیاہ و سفید کے مالک ہوئے تو سب سے پہلے جس صحافی کو گرفتار کیا وہ الطاف حسن قریشی ہی تھے۔ اور پھر ڈیفنس آف پاکستان رولز اور دیگر جابرانہ قوانین کے ذریعے اُن کی گرفتاری، عدالتوں کے ذریعے رہائی اور پھر نئے مقدمات کے تحت گرفتاری کا سلسلہ پورے بھٹو دور میں چلتا رہا۔ اس پورے دور میں اردو ڈائجسٹ بار بار بند کیا جاتا رہا، اس سے ضمانتیں طلب کی گئیں، ڈیکلریشن منسوخ ہوئے، قریشی برادران کو بار بار جیل اور عدالتوں کے چکر لگانا پڑے، لیکن یہ نجیب شخص جو اپنی ذات میں ایک مختلف، منفرد اور منکسر انسان ہیں آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کا نام پورے احترام سے لیتے ہیں۔ شاید منفرد اور نجیب افراد کی تربیت ایسی ہی ہوتی ہے۔
ان ہی منفرد، مختلف اور منکسر الطاف حسن قریشی کی جانب سے برادر بزرگ اور نامور کالم نگار جناب رئوف طاہر کے ذریعے اس خاکسار کو ’’الطافِ صحافت‘‘ موصول ہوئی، تو اس کے پہلے صفحے پر جناب الطاف حسن قریشی کے سبز قلم سے یہ الفاظ درج تھے ’’قابلِ اکرام جناب تاثیر مصطفی کے لیے ڈھیر ساری محبتوں کے ساتھ۔ الطاف حسن قریشی، 3 جنوری 2019ء‘‘… پانچ مختصر سی سطروں پر مشتمل یہ تحریر جہاں مجھ خاکسار کے لیے اعزاز اور اثاثہ ہے وہیں جناب الطاف حسن قریشی کے قابلِ عظمت انکسار کا ایک نمونہ بھی ہے۔ یہ سطریں بار بار پڑھتے ہوئے یاد آیا کہ 1970ء کی دہائی میں جب جناب ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت اور طاقت نصف النہار پر تھی، سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد فوج ملکی معاملات سے لاتعلق تھی، اپوزیشن منتشر، کمزور اور ہر روز سکڑ رہی تھی، اس دورِ فسطائیت کو للکارنے والوں میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے علاوہ چند صحافی اور ایک دو طالب علم لیڈرہی شامل تھے۔ اور ان میں سب سے نمایاں نام جناب الطاف حسن قریشی کا تھا۔ اُس زمانے میں سندھ کے شہر کراچی اور حیدرآباد اپوزیشن کے مضبوط قلعے سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ اُس دور میں ان دو شہروں اور اندرونِ سندھ میں مقیم ہمارے عزیز لاہور آنے پرہمیشہ اس خواہش کا اظہار کرتے کہ انہیں کسی طرح الطاف حسن قریشی اور جناب عبدالقادر حسن سے ملوا دیا جائے، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو صرف اُن کا درشن ہی ہوجائے تو بھی تسلی ہوجائے گی۔ مگر اُس وقت تو خود ہماری ان دونوں شخصیات تک کوئی رسائی نہ تھی، اُن عزیزوں کو خاک ملواتے! بھٹو دور ختم ہونے تک جناب الطاف حسن قریشی اپنی صحافیانہ صلاحیتوں، جرأت، منفرد اسلوبِ تحریر اور ایک اعلیٰ ایڈیٹر کے طور پر پاکستان کے ائمہ صحافت میں شمار ہونے لگے تھے۔ چنانچہ انہوں نے صحافت کی آبلہ پائی کے ساتھ اداروں کے قیام کے لیے اپنی صلاحیتیں لگانا شروع کردیں اور بہت جلد پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) اور کاروانِ علم فائونڈیشن جیسے ادارے قائم کردیے۔ پائنا کے تحت انہوں نے قومی سطح کے سیمینار منعقد کرکے مکالمہ، اور مسائل کے حل کے لیے قابلِ عمل اور نتیجہ خیزگفتگو کا آغاز کیا۔ اور کاروانِ علم فائونڈیشن کے تحت ذہین مگر غریب طلبہ و طالبات کی ایسی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی جو اُن کے لیے توشۂ آخرت ثابت ہوگی۔
الطاف صاحب اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں، اس ایک ذات سے کئی اداروں نے جنم لیا۔ وہ پاکستان میں طلبہ سیاست کا رخ موڑ دینے والی اسلامی جمعیت طلبہ جیسی تنظیم کے بانی ارکان میں شامل اور ملک میں صحافتی انقلاب برپا کر نے والے اردو ڈائجسٹ کے معمارِ اول ہیں، انھوں نے صحافت میں شائستگی اور جرأ ت کو نظریاتی صحافت کا استعارہ بنادیا ۔ ’کچھ اپنی زبان میں‘ کے زیر عنوان لکھے گئے ان کے طویل اداریے ملک کی سیاسی و صحافتی تاریخ کا روشن باب رہیں گے۔ ’ہم کہاں کھڑے ہیں‘کے عنوان سے لکھا جانے والا ان کا تجزیہ سیاسی حالات کا بے رحم پوسٹ ماٹم اور مستقبل کے خدشات کی بے لاگ منظرکشی کا حق ادا کردیتا ہے۔ ’محبت کا زم زم بہہ رہا ہے‘ ، ڈھاکا کے گلی کوچوں اور سلہٹ کی پہاڑیوں میں پاکستان کی محبت سے سرشار ان جذبوں کی کہانی تھی جن کا احساس بروقت کرلیا جاتا تو شاید سقوطِ غرناطہ اور سقوطِ بغداد کے بعد اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ نہ ہوتا، ’سقوطِ ڈھاکا سے پردہ اٹھتا ہے‘ اس سانحہ کا ایسا تجزیہ ہے جسے اب ریفرنس کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ جنوری، فروری، مارچ اور اپریل 1972ء میں قسط وار شائع ہونے والے اس تجزیے کی چوتھی قسط لکھتے ہوئے جناب الطاف قریشی کو گرفتار کرلیا گیا، چنانچہ انھوں نے اس کا اختتام اس شعر پر کردیا:
رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے
کٹ گئی عمر ، رات باقی ہے
مکالمہ اور انٹرویو میں انھوں نے صحافت کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ ان کے طویل انٹرویوز میں ماحول کی منظرکشی انٹرویو نگاری میں ایک نئی اختراع ہے جو قاری کو اپنے سحر سے نکلنے نہیں دیتی۔ ریکارڈنگ اور نوٹس کے بغیر لیے گئے یہ انٹرویوز ایک الگ شان رکھتے ہیں کہ آج تک کسی نے کسی ایک جملے کی تردید یا وضاحت نہیں کی۔
ذاتی طور پر مجھے پہلی بار الطاف صاحب کی زیارت کا شرف اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک بڑے اجتماع میں حاصل ہوا۔ جہاں وہ ایک شاعر کے طور پر تشریف لائے تھے، اور انہوں نے اپنی یہ مقبول اور حالات کی تصویرکشی کرتی ہوئی نظم پیش کی تھی:
وہ اور ہی ہوں گے کم ہمت جو ظلم و تشدد سہہ نہ سکے
شمشیر و سناں کی دھاروں پر رودادِ صداقت کہہ نہ سکے
یہ چشم فلک نے دیکھا ہے طاقت میں جو ہم سے بڑھ کر تھے
توحید کا طوفاں جب بھی اٹھا وہ مدمقابل رہ نہ سکے
(میں نے یہ اشعار اپنی یادداشت کی بنیاد پر لکھ دیئے ہیں، الطافِ صحافت کے آ ٓخری حصے میں یہ اشعار اصل شکل میں موجود ہیں )
اکتوبر1981ء میں لاہور سے روزنامہ جنگ کی اشاعت کا آغاز ہوا تو احقر اس اخبار کی ابتدائی ادارتی ٹیم میں شامل تھا،یہاں الطاف صاحب کا آنا جانا تھا، اس طرح دفتر میں ان کی زیارت ہونے لگی ۔شہر میں ہونے والی تقریبات میں کبھی کبھار ایک آدھ جملے کا تبادلہ بھی ہوجاتا، وہ ہر بار انتہائی اپنائیت اور محبت سے ملتے۔ اتنے بڑے علمی اور صحافتی پیڈسٹل پر ہونے کے باوجود اُن کی ذات میں ایک عجیب قسم کا انکسار اور بے نیازی تھی۔ پائنا کی تقریبات میں اُن کے دعوت نامے اور خبر کی مناسب اشاعت کے لیے کبھی کبھار اُن کا فون بھی آجاتا جس کا تذکرہ میں فخریہ انداز میں دوستوں سے کئی دن کرتا رہتا۔
اپنی ذات میں الطاف صاحب خوبیوں کا مرقع ہیں، ان کا حلقہ بہت وسیع ہے ، وہ ہر شخص سے ملتے ہوئے فوراً پوچھتے ہیں ’’ہاں بھئی کیسے ہیں؟‘‘ پھر اُن کا اگلا سوال ہوتا ہے ’’کہاں ہوتے ہیں آج کل؟‘‘ بعض اوقات وہ یہ سوال تھوڑے وقفے سے ملنے والے شخص سے دوسری بار بھی کرجاتے ہیں۔ اُن کی وضع داری اور بڑا پن ملاحظہ فرمائیے کہ کئی سال پہلے میں بیگم بچوں کے ساتھ لاہور کے بہاولپور روڈ سے گزر رہا تھا کہ سامنے سے ایک جنازہ آتا ہوا دکھائی دیا جس کے ساتھ جناب الطاف قریشی بھی تھے۔ میں فوری طور پر گاڑی سے اُتر کر ملا تو انہوں نے بتایا کہ اُن کے بہنوئی کا جنازہ ہے، اور فوراً ہی کہا کہ آپ جائیے آپ کی شرکت ہوگئی۔ غالباً انہوں نے مجھے فیملی کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔
اتنے عظیم انسان ، میرے لیے آئیڈیل کا درجہ رکھنے والے صحافی اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل جناب الطاف قریشی کی کتاب موصول ہوئی جسے میں نے دو تین نشستوں میں مکمل کرلیا، مگر اُس پر قلم اٹھانے کی ہمت نہ کرسکا۔ اس تحریر میں تاخیر کا سبب میری یہی مرعوبانہ اور مؤدبانہ سوچ تھی کہ اتنے بڑے انسان، اتنے بڑے صحافی اور اتنے بڑے صاحبِ تحریر کے بارے میں مجھ جیسا طفلِ مکتب کیا لکھ سکتا ہے! اس دوران فرائیڈے اسپیشل کے ایڈیٹر جناب یحییٰ بن زکریا صدیقی کا مطالبہ بھی بڑھ رہا تھا جنہوں نے جناب طاہر مسعود سے مجھ تک کتاب پہنچانے کی فرمائش کی ہوئی تھی۔ یہ سوچ کر کہ الطاف قریشی صاحب جیسے منفرد اور مختلف صحافی پر لکھی جانے والی کتاب ’’الطافِ صحافت‘‘ پر لکھنے کا حق تو میں ادا نہیں کرسکتا لیکن اسے اپنی سعادت مندی سمجھتے ہوئے اس میں کچھ حصہ ڈالنے کی کوشش ضرور کرنا چاہیے۔ سو اس تحریر کو اس طرح کی ایک کوشش ہی سمجھا جائے۔
اس کتاب کی اشاعت پر جناب الطاف حسن قریشی اور میرے نادیدہ ممدوح جناب ڈاکٹر طاہر مسعود دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ قریشی صاحب اس لیے کہ وہ اس کام پر آمادہ ہوگئے، اور ڈاکٹر صاحب اس لیے کہ انہوں نے قریشی صاحب کو اس پر آمادہ کرلیا۔ کتاب پہلی ہی نظر میں بولتی ہے کہ جناب طاہر مسعود نے اس پر دل سے کام کیا ہے اور بہت کام کیا ہے۔ اس محنت کے نتیجے میں جناب الطاف قریشی کی زندگی کے تمام ظاہری اور پوشیدہ گوشے سامنے آگئے ہیں۔ ڈاکٹر وقار ملک کے ساتھ انٹرویو میں الطاف صاحب کے برادرِ بزرگ جناب ڈاکٹر اعجاز قریشی نے بہت اہم اور بنیادی باتیں قارئین تک پہنچادی ہیں جیسے الطاف صاحب کی پیدائش کرنال کے گائوں بابڑی میں ہوئی تھی جبکہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا مقام پیدائش سرسہ ضلع حصار ہے۔ والدہ انہیں الطاف حسین حالی کہہ کر پکارتیں۔ شاید شعوری طور پر انہیں علم و ادب کی جانب راغب کرنے کا یہ زیادہ مؤثر اور سائنسی طریقہ تھا۔ اس انٹرویو سے یہ بھی معلوم ہوا کہ الطاف صاحب کبھی ناراض بھی ہوجاتے تھے (شاید بچپن میں ایسا ہو، بعد میں تو اس کا کوئی گواہ ہمیں نہیں مل سکا) اور اس ناراضی میں کھانا چھوڑ دیتے تھے۔ اُن کی اس معصومانہ حرکت پر والدہ انہیں گاندھی کہہ کر پکارتیں۔ اس انٹرویو میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ماشا اللہ الطاف صاحب کے تمام بہن بھائیوں نے لمبی عمر پائی۔ کاش ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب الطاف صاحب کی بہن عجوبہ بیگم کے تاثرات بھی کتاب میں شامل کرلیتے۔ اسی انٹرویو میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ الطاف صاحب نے اپنی صحافتی تحریروں کا آغاز جناب م ش مرحوم کے ہفت روزہ اقدام سے کیا، جبکہ ملک نصراللہ خان عزیز کے سہ روزہ ایشیا اور مولانا کوثر نیازی کے ہفت روزہ شہاب میں بھی نثر و نظم لکھنے کا تجربہ کرتے رہے۔ ’’میری زندگی کے کٹے پھٹے اوراق‘‘ میں جناب الطاف قریشی نے خود اپنی زندگی، جدوجہد، کامیابیوں اور ترجیحات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اُن کا خاندان پہلے ہارون آباد اور پھر لاہور آگیا۔ یہاں انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے تربیت حاصل کرکے محکمہ انہار میں سگنلر کے طور پر ملازمت شروع کی اور دس سال تک سگنلرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری رہے۔ اس دوران ادیب فاضل اور گریجویشن کرنے کے بعد سیاسیات میں ایم اے کیا اور ٹاپ بھی کیا۔ اس عرصے میں ایک پرائیویٹ ادارے میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے، کچھ وقت دیال سنگھ کالج لاہور میں پڑھایا،کچھ عرصہ اپنا کالج بھی چلایا، لیکن ایم اے سیاسیات میں اوّل آنے کے باوجود انہیں دیال سنگھ کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں ملازمت نہ دی گئی، جس سے وہ دل برداشتہ بھی ہوئے لیکن یہ دل گرفتگی ہی انہیں کوچہ صحافت میں لے آئی (اس کتاب میں الطاف صاحب کی یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی تقریب پذیرائی میں گفتگو اور پنجاب یونیورسٹی ایلومنائی ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا)۔
نومبر 1960ء میں انہوں نے ڈاکٹر اعجاز قریشی اور ظفر اللہ خان مرحوم کے ساتھ مل کر اردو ڈائجسٹ کا اجرا کیا، جو پاکستان میں ڈائجسٹ جرنلزم کا آغاز اور دنیا بھر میں اردو زبان کا پہلا ڈائجسٹ تھا۔ یہ اعزاز صرف اردو ڈائجسٹ کو حاصل ہے کہ جب پاکستان کے کسی اردو یا انگریزی اخبار کی اشاعت چند ہزار سے زیادہ نہ تھی اردو ڈائجسٹ کی اشاعت ایک لاکھ تک اس انداز میں پہنچی کہ لوگوں کو مہینہ بھر اس کا انتظار رہتا تھا۔ کتاب میں ڈاکٹر طاہر مسعود نے جہاں کتاب کی وجۂ طباعت پر روشنی ڈالی ہے، وہیں ’’بڑا انسان، بڑا صحافی‘‘ کے نام سے جناب الطاف قریشی سے ہونے والی راجشاہی کی ادھ کچی ملاقات سے اب تک کے تعلقات کا بھی احاطہ کیا ہے۔ اس تحریر میں ’’اتے بڑے صحافی‘‘ کی ترکیب نے تحریر کی خوبی کو دوچند کردیا ہے۔
کتاب میں الطاف صاحب کے بچپن کے دوست ڈاکٹر محمد یقین اور اُن کے رشتے کے ماموں ذکا الرحمن کی تحریریں دل سے لکھی ہوئی تحریریں محسوس ہوتی ہیں۔ خصوصاً ڈاکٹر یقین کی پختہ تحریر پڑھ کر انہیں داد دینے کو دل چاہتا ہے کہ امراضِ چشم کے اس ماہر ڈاکٹر کا اسلوبِ تحریر کس قدر پختہ اورخوبصورت ہے۔
استاد محترم ڈاکٹر شفیق جالندھری نے الطاف صاحب کی ترجمہ کی صلاحیت اور بلا کے حافظہ کا جو مشاہداتی تذکرہ کیا ہے اور عامر خاکوانی نے جس طرح الطاف صاحب کی اپنی تحریر کو بار بار کاٹنے چھانٹنے اور آخری وقت تک ترمیم و اضافہ کرتے رہنے کی روداد بیان کی ہے وہ بہترین انداز کا اعترافِ صلاحیت ہے۔ جناب مجیب الرحمن شامی، برادرم رئوف طاہر اور ہارون الرشید کی تحریریں الطاف صاحب سے اظہارِ عقیدت کی چلتی پھرتی تحریریں ہیں۔ کتاب میں اردو ڈائجسٹ کے ادب پاروں پر ہونے والی دس سالہ تقریب میں استاد الاساتذہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا بطور مہمانِ خصوصی خطبہ یادگار حیثیت کا حامل ہے، جبکہ سلمیٰ اعوان کی گواہی کہ 1969ء میں جب وہ ڈھاکا یونیورسٹی کی طالبہ تھیں انہیں مشرقی پاکستان کے اردو جاننے والے ہر گھر میں اردو ڈائجسٹ نظر آیا، ایک خاتون کی آدھی نہیں مکمل گواہی ہے۔ کتاب میں جاوید ہاشمی جیسے لیڈر کا یہ اعتراف کہ وہ اردو ڈائجسٹ کی پیداوار ہیں، اس ماہنامہ کے لیے تمغائے شجاعت سے کم نہیں۔ کاش ڈاکٹر طاہر مسعود اس کتاب میں الطاف صاحب اور اردو ڈائجسٹ کے بارے میں کچھ قومی سیاسی رہنمائوں کے تاثرات اور آرا بھی شامل کرلیتے۔
میری رائے میں اس کتاب کو بہت پہلے آجانا چاہیے تھا اور اس میں ہر دو چار سال بعد اضافہ ہوتا رہتا۔ اگر ایسا ہوجاتا تو بعض ایسے نابغۂ روزگار افراد کی آرا اور تحریریں بھی قارئین کے سامنے آسکتی تھیں جو اب اس دنیا میں موجود نہیں۔ ان میں سیاست، صحافت، علم و ادب، شاعری، میگزین جرنلزم، درس و تدریس، سماجیات، شہری آزادیوں کے علَم بردار، قانونی ماہرین، دینی علوم کے اساتذہ، مالکانِ اخبارات اور عامل صحافی شامل ہوتے… اور الطاف صاحب کی بعض دیگر صلاحیتوں کا بھی اعتراف کرتے۔ اب بھی الطاف صاحب کی صحافتی اور قومی خدمات پر کئی کتابیں آسکتی ہیں اور آنی چاہئیں کہ ان کی ذات دنیا بھر میں اردو زبان کے شیدائیوں، اہلِ پاکستان اور خصوصاً اہلِ صحافت کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں، لیکن خود الطاف صحافت کا انکسار اور امید ملاحظہ ہو: