اسٹیٹ لائف فیلڈ ورکرز ایسوسی ایشن کا احتجاج

منافع بخش ادارے کے فروخت کی تیاری

اسٹیٹ لائف ملک کا واحد منافع بخش ادارہ ہے جو اپنی آمدنی کا ڈھائی فیصد وفاق کو دیتا ہے۔ اس کے اثاثوں کی مالیت ایک ہزار ارب سے زیادہ ہے۔ 53 پلازے اور لا تعداد پلاٹ اس کی ملکیت ہیں۔ ملک بھر میں ایک لاکھ پچاس ہزار فیلڈ ورکر بیمہ کے کاروبار سے وابستہ ہیں، جن میں 30 ہزار سیلز آفیسر ہیں، ان کے نیچے دیگر فیلڈ ورکر ہوتے ہیں جو عوام میں بیمہ پالیسی کو روشناس کراتے ہیں اور لوگوں کو پالیسی خریدنے کی جانب راغب کرتے ہیں، اور یوں اس ادارے کے منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ورکر اپنے پالیسی ہولڈر سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور ان کو کسی بھی حادثاتی اموات، اور دیگر کلیمز کی مد میں ان کی مدد کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام میں اس ادارے کی ساکھ قائم ہے۔ اب اگر ان کارکنوں میں بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ نہ صرف اس ادارے کا نقصان ہوگا بلکہ ملکی معیشت کو بھی اور نیچے لے آئے گا۔
کراچی پریس کلب میں گزشتہ دنوں اسٹیٹ لائف فیلڈ ورکرز ایسوسی ایشن کے عہدیداران صدر راجا مظفر حسین، جنرل سیکریٹری خواجہ سجاد وحید ایسٹرن زون، جنرل سیکریٹری مشتاق حسین سینٹرل زون، نور الٰہی سینئر وائس پریذیڈنٹ سدرن زون، رفیق احمد فنانس سیکریٹری و دیگر نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ 4 فروری 2019ء کو کراچی میں آل پاکستان فیلڈ ورکرز فیڈریشن اور ایریا منیجر فیڈریشن کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں اسٹیٹ لائف کی موجودہ صورت حال پر غور کیا گیا، اس کے نتیجے میں 9 فروری کو کراچی میں تین زونز کی فیلڈ ورکرز ایسوسی ایشن اور ایریا منیجر ایسوسی ایشن کا مشترکہ ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں فیڈریشن کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے راجا مظفر حسین نے کہا کہ اجلاس میں گزشتہ دنوں پبلک اکائونٹس کمیٹی (PAC) اسلام آباد میں ہونے والی میٹنگ کی کارروائی زیر بحث آئی جس میں سیکریٹری کامرس و قائم مقام چیئرمین اسٹیٹ لائف محمد یونس ڈھاگہ کا ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان زیربحث آیا کہ ’’سیلز آفیسر کا عہدہ/ کیڈر جعلی ہے اور اس کی مد میں غلط طور پر 4 ارب 80 کروڑ کی ادائیگی کی جاتی رہی۔‘‘ ان کا یہ بیان حقائق کے بالکل خلاف ہے کیونکہ انہوں نے انہی ’’جعلی آفیسرز‘‘ کو ترقی دے کر سیلز منیجر بنا دیا ہے (واضح رہے کہ سیلز آفیسرز 1972ء کے کمیشن اسٹرکچر کے مطابق 1972ء سے دسمبر 2018ء تک کام کرتے رہے ہیں، اور ان کی تعداد ملک بھر میں تقریباً 30 ہزار ہے)۔ انہوں نے کہا کہ اس اقدام کے پیچھے یقینی طور پر ان کے مذموم مقاصد ہیں جن کی بنا پر پاکستان کے اس منافع بخش قومی ادارے کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان کی بدنیتی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ راتوں رات غیر قانونی اور غیر آئینی حکم نامے سے اہم ترین عہدہ/ کیڈر سیلز آفیسر کو بیک جنبش قلم ختم کردیا ہے جو کہ فیلڈ اسٹرکچر کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ قائم مقام چیئرمین کے اس اقدام کے نتیجے میں پورے پاکستان کے 32 زونز میں بیمہ کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے اور تمام فیلڈ ورکر 10 دن سے سراپا احتجاج ہیں۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس غیر آئینی اقدام کو واپس لیا جائے تاکہ 80 لاکھ سے زائد پالیسی ہولڈرز کو نقصان نہ پہنچے۔ عہدیداران نے وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کی کہ اس منافع بخش ادارے کو تباہ ہونے سے بچایا جائے اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والے پالیسی ہولڈرز کے سرمائے اور منافع کا تحفظ کیا جائے، لائف انشورنس نیشنلائزیشن آرڈر 1972ء کو بحال کرکے اس ادارے کی ساکھ کو قائم رکھا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہم اس سلسلے میں پُرامن احتجاج جاری رکھیں گے اور قانونی چارہ جوئی بھی کریںگے۔