بیسویں صدی میں برصغیر نے جن نامور علما اور صوفیہ کو پیدا کیا، ان میں ایک ممتاز نام مولانا اشرف علی تھانوی کا ہے۔ آپ نے مختلف علوم و فنون پر سیکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔ تصوف و معرفت میں آپ نے ہزاروں انسانوں کے لیے سامانِ تزکیہ فراہم کیا۔ نامور علمائے کرام آپ کے حلقۂ ارادت و بیعت میں شامل تھے۔ علومِ شریعت اور معارفِ تصوف کے مشاغل کے ساتھ ساتھ آپ نے برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کی سیاسی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا۔ آپ نے تحریکِ پاکستان میں مسلم لیگی قیادت کی مدد کی اور کانگریسی علما کے زعم کو توڑ دیا۔ تصوف کی تحریروں میں افراط و تفریط اور اس کے نظریات میں عدم اعتدال بہت زیادہ ہے۔ آپ نے اس میدان میں ایک ایسا طریق تزکیہ و احسان اور ایک ایسی راہِ تصوف کو اجاگر کیا، جس سے عجمی تصوف کے بہت سے گمراہ کن نظریات کی بھی تطہیر ہوگئی۔ اس ضمن میں ان کی تصانیف ’’التکشف فی مہمات التصوف‘‘،’’ تحقیق مسئلہ وحدت الوجود و وحدت الشہود‘‘، ’’ کلید مثنوی‘‘ (مثنوی کے دفتر اوّل کی شرح)، ’’مسائل المثنوی‘‘ اور ’’سیرت منصور حلاج‘‘، جو آپ کی زیر نگرانی مولانا ظفر احمد عثمانی نے تالیف کی، بہت اہمیت کی حامل ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
گوہرایوب کی شادی اورحفیظ جالندھری
صدر ایوب کے بیٹے گوہر ایوب کی شادی خانہ آبادی تھی۔ سید ضمیرجعفری کا بیان ہے کہ بریگیڈیئر گلزاراحمد انھیں لینے آئے اور کہا ’’آئیے شاعرِ پاکستان حفیظ جالندھری کو بھی دیکھتے ہوئے چلیں۔ اگر وہ ابھی تک روانہ نہیں ہوئے، تو انھیں بھی لے لیں۔‘‘ جب یہ دونوں اصحاب حفیظ صاحب کی کوٹھی پر پہنچے تو پتا چلا وہ آرام فرما رہے ہیں۔ جعفری صاحب اندر گئے۔ دیکھا تو نیچے قالین پر لیٹے ہیں۔ بولے ’’حفیظ صاحب یہ کیا؟ ملک کے ولی عہد کی شادی ہے اور ملک الشعراء تقریب میں جانے کے لیے ابھی تیار ہی نہیں ہوئے۔‘‘
حفیظ صاحب نے بے نیازی سے جواب دیا ’’میرا جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ سہرے کی فرمائش ہے لیکن میں کہاں ان کا سہرا لکھتا پھروں؟ آپ میری طرف سے معذرت کر دیجیے گا۔ طبیعت ناساز ہے۔‘‘ چنانچہ حفیظ صاحب صدرِ پاکستان کے بیٹے کی شادی پر نہیں گئے۔
اشعار
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
(میر تقی میر)
ان کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
(جگر مراد آبادی)
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے
حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
(داغ دہلوی)
احمق کون؟
ہماری جماعت صلح عام کی منـادی ہے،دونوں فریق کو مصالحت کی دعوت دیتی ہے،وہ جدید علوم، تازہ خیالات، نئی تحقیقات کی بجان و دِل خریدار ہے،لیکن اِس کے معاوضے میں اپنے بزرگوں کا اندوختہ نہیں کھونا چاہتی۔ یہ اُن نادانوں پر ہنستی ہے جو تمام سرمایہ عمر دے کر بازارِ فرنگ کی ہرچمکتی ہوئی چیز کے خریدار بن جاتے ہیں، وہ ہر چیز کو خریدنے سے پہلے یہ جان لینا چاہتی ہے کہ کیا ہمارے بزرگوں کے تاریک تہ خانوں میں، وِیران خرابوں میں اَور مدفون خزانوں میں یہ موجود تو نہیں،اگر ہے تو وہ کون احمق ہوگا جو گھر میں ایک چیز کو چھوڑ کر اُسی کی تلاش میں گلیوں اور بازاروں میں آوارہ گردی قبول کرے گا۔
(سید سلیمان ندویؒ، مجلہ معارف، جولائی 1916ء)
ایک شعر
ایک دفعہ مامون (813۔833ء) محل سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک شخص محل کی دیوار پر کوئلے سے کچھ لکھ رہا ہے۔ پاس جاکر دیکھا تو ایک شعر تھا جس کا ترجمہ یہ تھا:
’’اے محل! تیرے مکین نہایت بے مروت، بے فیض اور بے رحم ہیں، اللہ کرے کہ تُو برباد ہوجائے اور تیرے طاقچوں میں اُلّو آباد ہوں‘‘۔
مامون نے پوچھا: تمہیں اس ہجو پہ کس چیز نے مجبور کیا؟ کہا: اے امیرالمومنین، یہ تسلیم کہ یہ محلات زرو جواہر اور سامانِ تعیش سے لبریز ہیں، لیکن ان میں میرے لیے ایک پیسہ تک نہیں۔ میں چار روز سے بھوکا ہوں، ان محلات کے مسلسل چکر کاٹ رہا ہوں، لیکن مجھے کسی نے ایک روٹی تک نہیں دی۔ اگر یہ محل اجڑ جائیں تو غریبوں کا فائدہ ہوگا، ہم لوگ ان کے بالے ہی بیچ کر پیٹ پال لیں گے۔
یہ سن کر مامون کانپ اٹھا۔ اس کا وظیفہ باندھ دیا اور تمام عمال کو ہدایت کی کہ قلمرو میں کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔