گلوبل وارمنگ کی اصطلاح عام کرنے والے امریکی سائنس دان ویلس اسمتھ بروکر 87 برس کی عمر میں گزشتہ روز نیویارک کے اسپتال میں انتقال کرگئے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے بروقت آگاہ کرنے کے معاملات اٹھانے والے ویلس اسمتھ 1931ء سے کولمبیا یونیورسٹی میں بطور پروفیسر اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ انہوں نے گلوبل وارمنگ کی اصطلاح کو عام استعمال میں لانے کے لیے 1975 آرٹیکل لکھے اور یہ ثابت کیا کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھنے سے گرین ہائوس گیس کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے جو زمینی سطح کا درجہ حرارت بڑھنے کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ انہوں نے 1970ء میں ہی یہ پیش گوئی کردی تھی کہ آئندہ برسوں میں گلوبل وارمنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا، اور ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
ہندوستان کی تقسیم اور اصل حقائق
اَن گنت تحقیقی کتابیں یہ ثابت کرچکیں کہ ہندوستان کو تقسیم کرتے وقت بائونڈری کمیشن نے پاکستان سے نہ صرف ناانصافی کی بلکہ ’’ظلم‘‘ کیا، اور اس ناانصافی کے پس پردہ مائونٹ بیٹن تھا جس نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے ایوارڈ تبدیل کروایا۔ قائداعظم جیسا مدبر اور سچا انسان بھی اس ایوارڈ پر احتجاج کیے بغیر نہ رہ سکا۔ انہوں نے اپنی براڈ کاسٹ تقریر میں کہا کہ ’’اس عظیم اور آزاد مسلم ریاست کی تشکیل میں ہمارے ساتھ انتہائی بے انصافیاں کی گئیں اور ہمیں ہر طرح سکیڑنے کی کوشش کی گئی۔ بائونڈری کمیشن کا ایوارڈ ہم پر آخری ضرب ہے۔ یہ غیر منصفانہ، ناقابلِ فہم اور Perverse ہے، چونکہ ہم اسے قبول کرنے کے پابند ہیں اس لیے ایک معزز قوم کی طرح اسے قبول کرتے ہیں۔‘‘ (قائداعظم کی انگریزی تقاریر ، از خورشید یوسفی، جلد چہارم صفحہ 2646)
مہاراشٹر (ہندوستان) کے ایک ایڈووکیٹ جنرل ایچ ایم سیروائی نے اس موضوع پرPartition of India legend and reality نامی کتاب لکھی ہے جس میں حکومتِ برطانیہ کی طرف سے چھاپی گئی ٹرانسفر آف پاور کی بارہ جلدوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ٹرانسفر آف پاور میں اس موضوع سے متعلقہ تمام خفیہ رپورٹیں اور کاغذات شامل ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک مستند دستاویز ہے۔ سیروائی کی کتاب کے باب نمبر 9میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ بائونڈری کمیشن کا چیئرمین سر ریڈ کلف 9 جولائی کو ہندوستان پہنچا۔ اس کے اسٹاف میں ہندو بیوروکریٹ وی پی مینن بھی شامل تھا جو اسے Adviceکرتا تھا۔ ریڈ کلف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ یوم آزادی سے چار دن قبل 10اگست تک ایوارڈ کا اعلان کردے گا تاکہ حکومتی مشینری کو انتظامات کرنے میں سہولت رہے۔ دستاویز سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نے 9 اگست کو ایوارڈ طے کرلیا تھا لیکن اسے 16اگست تک ملتوی رکھا گیا جس سے قتل عام کی آگ مزید پھیلی۔ پنجاب کے ایوارڈ کے حوالے سے سیروائی نے ٹرانسفر آف پاور کی بارہویں جلد کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ پنجاب کی تقسیم کرتے ہوئے پاکستان سے ظلم کیا گیا۔ آزادی سے قبل پنجاب کا گورنر سر جینکز تھا۔ اس نے وائسرائے کو خط لکھا کہ پنجاب میں فسادات اور قتل عام کا خطرہ ہے اس لیے مجھے یوم آزادی سے کچھ دن قبل پنجاب کی سرحدوں کی اطلاع دی جائے تاکہ خون خرابے کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کر سکوں۔ 8 اگست کو وائسرائے کے اسٹاف کی جانب سے پنجاب کے گورنر جینکز کو خط لکھا گیا جس کے ساتھ ایک نقشہ بھی منسلک تھا جس پر حد بندی ظاہر کی گئی تھی۔ نوٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ اس بائونڈری میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اس نقشے کے مطابق ضلع فیروزپور کی تحصیلیں فیروزپور اور زیرہ پاکستان میں شامل تھیں۔ برطانوی حکومت کی شائع کردہ بارہویں جلد میں لکھا ہوا ہے کہ وائسرائے ہائوس سے سیکرا (خفیہ) فون آیا کہ ان علاقوں کو نکال دو۔‘‘ اس جلد میں سر جینکز کا خط بنام مائونٹ بیٹن بھی شامل ہے جس میں اس نے اپنے اختلافات کا ذکر کیا ہے۔
اس کہانی کا اگلا حصہ چودھری محمد علی نے اپنی کتاب ’’ظہورِ پاکستان‘‘ میں بیان کیا ہے: ’’پنجاب میں ریڈ کلف نے جو ثالثی فیصلہ کیا اُس میں متصلہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان سے قطع کردئیے لیکن ہندوستان سے غیر مسلم اکثریت کا ایک بھی علاقہ نہ لیا گیا۔ ضلع گورداسپور میں متصلہ مسلم اکثریتی تحصیلیں گورداسپور، بٹالہ اور پٹھان کوٹ ہندوستان کو دے دی گئیں تاکہ ہندوستان کا جموں وکشمیر سے رابطہ قائم ہوسکے (کشمیر کی واحد سڑک یہاں سے گزرتی تھی)، ضلع امرتسر کی مسلم اکثریتی تحصیل اجنالہ بھی ہندوستان کو دے دی گئی، اور ضلع جالندھر کی دو تحصیلیں نکرور اور جالندھر بھی ہندوستان کے حوالے کردی گئیں۔ سرحدی خط اس طرح کھینچا گیا کہ فیروزپور ہیڈورکس بھی ہندوستان میں شامل ہوگیا جس سے نکلنے والی نہروں سے پاکستان کے زیادہ تر علاقے سیراب ہوتے تھے۔‘‘
چودھری محمد علی انکشاف کرتے ہیں: ’’گورنر جینکز نے جو کاغذات پیچھے چھوڑے اُن میں پنجاب کے بارے میں ریڈ کلف فیصلے کا خاکہ بھی موجود تھا جو مائونٹ بیٹن کے سیکریٹری جارج ایبل نے 8 اگست کو بھیجا تھا۔ ایوارڈ نقشے کی صورت میں مرتب کیا گیا تھا (یہ وہی نقشہ ہے جس کا ذکر سیروائی کرتے ہیں اور جو ٹرانسفر آف پاور کی بارہویں جلد میں موجود ہے)۔ اس کے مطابق فیروزپور اور زیرہ کی تحصیلیں پاکستان کا حصہ تھیں لیکن ریڈ کلف نے 12اگست کو یہ علاقے ہندوستان کو دے دئیے۔ پنجاب بائونڈری کمیشن کے مسلمان رکن جسٹس دین محمد نے حکومتِ پاکستان کو بتایا کہ جب ہم نے ان تحصیلوں کے حوالے سے دلائل دئیے تو ریڈکلف نے ہمیں روک دیا کہ یہ امر اظہر من الشمس ہے اس لیے دلائل دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود یہ علاقے ہندوستان کو دے دئیے۔‘‘ چودھری محمد علی لکھتے ہیں کہ میں پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے وائسرائے سے ملنے گیا تو میں نے وائسرائے کے چیف آف اسٹاف کے کمرے میں ایک لٹکا ہوا نقشہ دیکھا جس پر لکیریں کھنچی ہوئی تھیں۔ ان کے مطابق مسلم اکثریت کی یہ تحصیلیں پاکستان کو مل رہی تھیں۔ بہت سی کتابوں میں تحقیق سے ثابت کیا گیا ہے کہ مائونٹ بیٹن نے ریڈکلف پر اثرانداز ہوکر یہ ایوارڈ تبدیل کروایا۔ ظاہر ہے کہ مائونٹ بیٹن آزاد ہندوستان کا گورنر جنرل نامزد ہوچکا تھا، اس کی نہرو سے گہری دوستی تھی، نہرو کی لیڈی مائونٹ بیٹن سے عشق کی کہانی پر بھی کئی کتابیں ہندوستان میں چھپ چکی ہیں، اس لیے اس کی ہمدردیاں ہندوستان کے ساتھ تھیں۔ ادھر وی پی مینن ہر لمحے خبریں کانگریسی قیادت کو پہنچا رہا تھا۔ مائونٹ بیٹن کے کردار کے بارے میں ایک معتبر کتاب جنرل شاہد حامد مرحوم کی ہے جس کا نام Twilight Delhi ہے۔ کیپٹن شاہد حامد مائونٹ بیٹن کے اے ڈی سی تھے۔ ان کا گھر مائونٹ بیٹن کی رہائش گاہ کے قریب تھا اور وہیں مہمان خانہ تھا جس میں لارڈ ریڈکلف ٹھیرے ہوئے تھے۔ وہ عینی شاہد کی حیثیت سے لکھتے ہیں کہ 11۔12 اگست کے فیصلہ کن ایام میں مائونٹ بیٹن ریڈکلف کو ون ٹو ون ڈنر پہ بلاتا رہا، اور انہی ملاقاتوں کے نتیجے کے طور پر ایوارڈ میں تبدیلیاں کی گئیں، کیونکہ برطانوی ریکارڈ کے مطابق ایوارڈ 9اگست کو مکمل ہوچکا تھا لیکن اعلان 16اگست تک ملتوی رہا۔
ایسے مائونٹ بیٹن کو جو پاکستان کا دشمن تھا، پاکستان کا ہمدرد یا خیرخواہ کہنا زخموں پہ نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ جنہیں یہ غلط فہمی ہے کہ مائونٹ بیٹن نے کشمیر پاکستان کو دینے کی کوشش کی وہ پروفیسر لیمب (LAMB) کی کتاب Kashmir a Disputed legacy پڑھیں جس نے مائونٹ بیٹن کے، مہاراجا پر اثرانداز ہوکر ہندوستان سے الحاق پر روشنی ڈالی ہے۔ اسی طرح رضوانی کے حوالے سے یہ دعویٰ کہ قائداعظم نے پہلا ترانہِ پاکستان جگن ناتھ آزاد سے لکھوایا اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ دوستوں سے گزارش ہے کہ ان موضوعات پر فیصلہ دینے سے پہلے متعلقہ تحقیقی کتابیں پڑھ لیا کریں تاکہ ان کے الفاظ سے قارئین گمراہ نہ ہوں۔
(ڈاکٹر صفدر محمود۔ جنگ، 19فروری2019ء)