ابوسعدی
امریکی ماہرین نے مصنوعی ذہانت کے بل پر نمونیا کی پیشگوئی کرنے والی ایسی اسٹیتھو اسکوپ بنائی ہے جو اس جان لیوا مرض کی بڑی حد تک پیشگوئی کرسکتی ہے۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ذیلی کمپنی سوناوی لیبس نے 1800ء سے اب تک کبھی نہ بدلنے والی اسٹیتھواسکوپ کو ایک نیا روپ دے کر اسے اسمارٹ بنایا ہے۔ اب یہ سینے سے اٹھنے والی آوازوں کو پڑھ کر ان کا بہتر انداز میں تجزیہ کرسکتی ہے۔
مریض کے سینے کے بعض مقامات کی آوازوں کا موازنہ ایک ایسے بیس سے کیا جاتا ہے جس میں نمونیا کے مریضوں کے سینے کی آوازیں محفوظ ہیں۔ اس بنا پر اسٹیتھو اسکوپ اور اس سے وابستہ سافٹ ویئر نمونیا کی بہت درستی سے شناخت کرتا ہے۔ حساس اسٹیتھو اسکوپ کسی بھی ماحول میں پھیپھڑوں کی معمولی آواز بھی سن لیتی ہے۔ نمونیا شناخت کرنے والی اسٹیتھو اسکوپ الگورتھم، ڈیٹا بیس اور پروسیسر کی مدد سے کام کرتی ہے۔ ابتدائی درجے میں یہ 87 فیصد درستی سے نمونیا کی پیشگوئی کرسکتی ہے۔ اب سوناوی کمپنی فیلکس اور فیلکس پرو کے نام سے دو جدید ترین اسٹیتھو اسکوپ فروخت کے لیے پیش کررہی ہے۔
خواتین کی طویل عمر کا راز
دنیا بھر میں یہ عمومی مشاہدہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ عرصے تک زندہ رہتی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی طویل عمری کی مختلف وجوہات سامنے آئی ہیں۔ سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور زیادہ کھانا کھانے سے مردوں کی عمر کم ہوتی ہے اور وہ جلد مرتے ہیں۔ مثلاً روس میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی اوسط عمر 13 سال کم ہے جس کا ایک سبب کثرتِ شراب نوشی ہے۔ ماہرین کے مطابق مردوں کی کم عمری میں موت کی ایک وجہ خطرے والے کام بھی ہیں جیسے لڑائی جھگڑا، مار پیٹ، گاڑی اور موٹر بائیک کو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ چلانا اور خودکشی وغیرہ بھی۔ صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2016ء میں عالمی سطح پر دنیا کی آبادی کی اوسط عمر 72 سال تھی۔ اس میں خواتین کی عمر 74 سال دو ماہ تھی جبکہ مردوں کی اوسط عمر 69 سال اور 8 ماہ سامنے آئی۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین کی اوسط عمر مردوں سے 5 سال زیادہ ہے۔ خواتین کی طویل عمری کی ایک اور وجہ ہارمونز بھی ہیں۔ مردوں میں ٹیسٹیسٹرون ہارمون زیادہ ہوتے ہیں اور جوانی میں جب یہ جوش مارتے ہیں تو مردوں میں موت کی شرح بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان سے جذبات میں ابال آتا ہے۔
سگریٹ نوشی کا ایک اور خطرناک نقصان سامنے آگیا
سگریٹ نوشی کی عادت پھیپھڑوں کے لیے تباہ کن ہوتی ہے جبکہ اس کے دیگر کئی اور نقصانات بھی ہیں، اور اب ان میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا ہے۔ تحقیق میں یہ دریافت کیا گیا کہ ایک دن میں 20 سے زیادہ سگریٹ پینے سے بینائی بہت حد تک متاثر ہوسکتی ہے۔ تحقیق کے دوران کچھ سگریٹ نوشوں کو کئی رنگ دکھائے گئے، جبکہ دیکھا گیا کہ وہ افراد جو زیادہ سگریٹ پیتے ہیں انہیں سرخ، سبز، نیلے اور زرد رنگوں کو پہچاننے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ جس سے یہ بات سامنے آئی کہ بہت زیادہ تمباکو نوشی سے بینائی اس حد تک متاثر ہوسکتی ہے کہ رنگوں کو پہچاننے کی صلاحیت ختم ہوجائے۔
چین کا توانائی کے لیے ناقابلِ یقین منصوبہ
چین اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سورج کا سہارا لینے کا ارادہ رکھتا ہے مگر اس میں انفرادیت یہ ہے کہ وہ بالائی خلا میں پاور اسٹیشن تعمیر کرنے جارہا ہے۔ یہ بجلی گھر یا پاور اسٹیشن زمین کے مدار میں ہوگا اور سورج کی شعاعوں کو بجلی میں بدل کر یہ توانائی واپس زمین پر بیم کی شکل میں منتقل کرے گا۔ چین کو توقع ہے کہ اگر چینی اسپیس ایجنسی اس کے لیے درکار ٹیکنالوجی تیار کرنے میں کامیاب ہوئی تو اس منصوبے کو 2030ء تک مکمل کرلیا جائے گا اور اس کی بدولت ہر وقت بجلی کی سپلائی جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔ اس ٹیکنالوجی کی آزمائش 2021ء سے 2025ء کے درمیان کیے جانے کا امکان ہے، جس کے بعد ایک میگاواٹ سولر پاور اسٹیشن 2030ء تک خلا میں بھیجا جائے گا۔ چین کا یہ مجوزہ پاور اسٹیشن 36 ہزار کلومیٹر بلندی پر زمین کے مدار میں موجود ہوگا، جس سے پہلے چینی سائنس دان چھوٹے پاور اسٹیشن تعمیر کرکے خلا میں بھیجیں گے۔ چینی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے 99 فیصد تک بجلی کی فراہمی وقت پر ہوگی جبکہ یہ ماحول دوست بھی ہوگی۔ اس منصوبے کے تحت سولر انرجی کو خلا میں پہلے بجلی میں منتقل کیا جائے گا جس کے بعد مائیکرو ویو یا لیزر کی شکل میں زمین پر بیم کیا جائے گا جہاں گرڈ اسٹیشن اسے موصول کرے گا۔ سائنس فکشن ناول جیسا یہ منصوبہ نیا نہیں، جاپان اس بارے میں ایک دہائی قبل بات کرچکا ہے جبکہ امریکہ میں بھی گزشتہ سال اس طرح کے منصوبے پر بات کی گئی۔ چین اس وقت خلائی منصوبوں پر امریکہ کے بعد سب سے زیادہ فنڈز خرچ کرنے والا ملک ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے 8 ارب ڈالر سالانہ بجٹ مختص کیا ہوا ہے تاکہ اس معاملے میں روس اور امریکہ کو پیچھے چھوڑا جاسکے۔ چین دنیا کا پہلا ملک بننا چاہتا ہے جو چاند پر ایک بیس قائم کرنے میں کامیاب ہوگا اور اس کے لیے وہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد لے گا۔