پاکستان میں انعامی اسکیموں کا ایک طوفان برپا ہے۔ بینکوں کی کروڑپتی، لکھ پتی اسکیمیں ہیں، پلاٹ بیچنے والے انعام میں پلاٹ اور گھر دے رہے ہیں۔ صابن، ریزر، چائے کی پتی اور عام استعمال کی دوسری اشیا کے خریداروں کے لیے انعامات کی نوید ہے۔ حتیٰ کہ اخبار بھی لاٹری بن رہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس بات کا پتا دیتا ہے کہ لوگوں میں راتوں رات امیر بننے کی خواہش شدید ہے اور انعامی اسکیموں کے ذریعے اس خواہش کو اور ہوا دی جارہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے تو ان ساری اسکیموں کو جوا قرار دیا ہے، جو کہ اسلام میں شیطانی کام کہا گیا ہے۔ انعامی بانڈز کے نمبروں کی پرچیوں کے کاروبار نے ایسی ترقی کرلی تھی کہ گلی گلی یہ کاروبار کرنے والے نظر آتے تھے۔ حکومت نے اس پر پابندی لگائی لیکن خود حکومت جوئے سازی کی ذہنیت کو ترقی دے رہی ہے اور اس سے فائدہ اٹھاکر رقم جمع کرنے میں لگی ہوئی ہے، لیکن یہ انعامی اسکیمیں مایوس لوگوں کی نفسیات سے کھیل رہی ہیں۔ اس کھیل کا لوگوں کی نفسیات پر برا اثر پڑے گا۔ انعام تو اکا دکا لوگوں کو ہی ملتے ہیں اور باقی سب کے حصے میں مایوسی ہے۔ غیبی امداد کے خواہاں ہر طرف قسمت آزمائی کریں گے اور جب کسی جگہ نصیب یاوری نہیں کرے گا تو ان کے احساسِ محرومی میں اور اضافہ ہوگا۔ اس طرح ہمارے معاشرے میں محرومی کا احساس ترقی کرے گا۔
ان انعامی اسکیموں کی وجہ سے جوئے بازی کی ذہنیت کا فائدہ غلط لوگ بھی اٹھا رہے ہیں اور ہر شہر میں ’’لکی کمیٹیاں‘‘ زور پکڑ گئی ہیں کہ اگر آپ کی کمیٹی نکل آئے تو آپ کو کچھ دینا نہیں پڑے گا، اور جس کی نہیں نکلے گی اس کو بھی آخر میں اصل رقم مع منافع مل جائے گی۔ ابھی ان لکی کمیٹیوں کی ابتدا ہے مگر بہت جلد آپ ان کے دفاتر ہر سڑک اور گلی میں دیکھیں گے، نتیجہ وہی ہوگا جو فنانس کمپنیوں اور انویسٹمنٹ کمپنیوں کا ہوا ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے بہت سے لوگوں کی رقم ڈوب جائے گی، کیونکہ ایک ایسے وقت میں جب کہ کاروبار مندے پن اور کساد بازاری کا شکار ہے، کسی بھی تجارت سے اتنا منافع حاصل نہیں کیا جاسکتا کہ ہر شخص کی جیب بھر دی جائے۔ یہ انعامی اسکیمیں خود معاشی بحران اور کساد بازاری کو ظاہر کرتی ہیں۔ بینکوں کو اس کی ضرورت اس لیے پڑی کہ بینکوں کا خزانہ خالی ہوچکا ہے، انھیں روپے کی شدید ضرورت ہے، اور اس ضرورت کے لیے وہ کروڑپتی، لکھ پتی اسکیموں کے ذریعے پیسہ حاصل کررہے ہیں، لوگ انھیں رقم دے رہے ہیں۔ بینکوں کی انعامی اسکیموں میں مجموعی طور پر تیس ارب روپے جمع ہوگئے ہیں۔ ان انعامی اسکیموں میں سب سے زیادہ رقم حبیب بینک کی ہے۔ مگر جب مایوسی کی لہر چلے گی تو سب اپنا اپنا پیسہ واپس لینے کے لیے یکدم جھپٹ پڑیں گے جس سے بینکوں کے لیے دیوالیہ کن صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح بینکنگ نظام جو پہلے ہی خطرناک حالات سے دوچار ہے، اچانک ایک ایسی آفت سے دوچار ہوجائے گا جس سے جانبر ہونا مشکل ہوگا۔ نارمل طریقے سے ہٹ کر جو کام ہوگا اس کا نتیجہ بھی نارمل نہیں ہوسکتا، الٹا ہی پڑے گا۔
جو کمپنیاں اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے انعامی اسکیمیں چلا رہی ہیں اُن کا معاملہ بھی یہ ہے کہ خرید کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس لالچ میں جو غیر ضروری خریداری ہوگی، کارخانہ دار اس سے سنبھالا لے گا۔ لیکن عام صارفین کے لیے چیزیں جو پہلے ہی مہنگی ہیں، اور بھی مہنگی ہوجائیں گی، کیونکہ اشیا کی لاگت پر نہ صرف انعامات کی رقم کا بلکہ ان کی زبردست اشتہار بازی کی مہم کے اخراجات کا بوجھ بھی پڑے گا۔ یہ بوجھ عام صارفین کو برداشت کرنا ہوگا۔
پاکستان میں اللہ کا شکر ہے کہ جوئے بازی کی ذہنیت نے زور نہیں پکڑا، ریس پر حکومت کی پابندی کا اچھا نتیجہ نکلا، ورنہ عقل کے گھوڑے دوڑائے جاتے تھے کہ کون سا گھوڑا پہلے یا دوسرے نمبر پر ہوگا، اور اس شوق میں لوگ دیوالیہ ہوجاتے تھے۔ ریس کا جوا اور امریکن روئی کے بھائو کا سٹہ اب بھی کہیں کہیں ہے مگر بہت کم، اس قدر عام نہیں جس قدر کہ قیام پاکستان سے قبل تھا یا اب پڑوسی ملکوں میں ہے۔ پاکستان میں پچھلے برسوں میں کرکٹ پر جوئے نے خاصی ترقی کرلی ہے، اس میں ہم بھارت سے آگے نکل گئے ہیں، اس جوئے میں ہمارے نامور کھلاڑی بھی ملوث ہیں اور کھیل کی ہار جیت کا سٹہ روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔
آزادی کے بعد بھارت نے شراب اور جوئے میں بڑی ترقی کی ہے۔ ایک زمانے میں کانگریس کی حکومت نے ترکِ شراب یا امتناعِ شراب کی مہم چلائی تھی اور شراب کی دکانوں پر کانگریسی رضاکار چیکنگ کرتے تھے، مگر اب بھارت کے شہروں میں چائے سے زیادہ شراب کی دکانیں ہیں اور مختلف اقسام کی لاٹریاں اخبارات کے اسٹالوں پر خوب بکتی ہیں، ہر صوبائی حکومت نے سرکاری طور پر بھی ایک لاٹری جاری کررکھی ہے اور عوام کو لوٹا جارہا ہے۔ ان کے لیے حکومت نے شراب کے نشے کے ساتھ جوئے کے نشے کا بھی اچھا انتظام کررکھا ہے۔ ویسے بھی ہندو معاشرے میں جوئے کی لت زیادہ ہے، لوگ اس جوئے میں اپنی بیویاں بھی ہارتے رہے ہیں، دیوالی کے موقع پر تو جوا خاص طور پر یہ معلوم کرنے کے لیے کھیلا جاتا ہے کہ اس سال دولت کی دیوی ’’لکشمی‘‘ ہم پر مہربان ہے یا نہیں۔ اس طرح کا جوا تو ہمارے پاس نہیں مگر تاش کا جوا موجود ہے اور زیادہ تر دکاندار لوگ اس کا شوق رکھتے ہیں اور چھٹی کے دن محفل جمتی ہے، مگر مجموعی طور پر پاکستانی قوم ’’جواری قوم‘‘ نہیں ہے اور جوا اتنا عام بھی نہیں ہے، لیکن حکومت جس طرح جوئے بازی کی ذہنیت پیدا کررہی ہے اور اسے فروغ دے رہی ہے اس کے نتیجے میں مختلف اقسام کے جوئے پھیل جائیں گے۔ ایک بار اس ذہنیت اور عادت نے سر اٹھا لیا تو اس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔ انعامی اسکیموں اور لاٹریوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ نظامِ سرمایہ داری معاشرے کو مطمئن کرنے میں ناکام ہے تو لوگوں کو سچی، جھوٹی تسلیوں اور امیدوں کے ذریعے بہلانا ضروری ہے، ورنہ معاشرے کے مایوس عناصر جی چھوڑ بیٹھیں گے۔ انعامی اسکیمیں، لاٹریاں لوگوں کو امید فراہم کرتی ہیں کہ شاید ان کی قسمت بدل جائے۔
بظاہر بینکوں اور مختلف کمپنیوں کی انعامی اسکیمیں بے ضرر لگتی ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ اس نظام سرمایہ داری میں غریب آدمی یا متوسط طبقے کے آدمی کے ہاتھ کسی موٹی رقم کے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر اس طرح کی اسکیموں کے ذریعے کچھ لوگوں کا بھلا ہوتا ہے تو کیا حرج ہے! مگر چند لوگوں کا ایسا فائدہ جس میں بہت سے لوگوں کا نقصان ہو، اچھی بات نہیں۔ اور مسئلہ اصل میں ذہنیت کا ہے کہ اس طرح معاشرے میں جوئے سازی کی فاسد ذہنیت فروغ پاتی ہے، اور ایک بار یہ ذہنیت عام ہوگئی تو جوئے کے ذریعے دولت سمیٹنے کے ماہرین بڑی بڑی اسکیمیں پیش کریں گے اور مختلف اقسام کے جوئے کے کھیل اور اس کے ادارے عام ہوتے چلے جائیں گے، اور سرمایہ کھنچ کر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں پہنچے گا جو اس کے استعمال کے سلسلے میں کسی اخلاقی اقدار کا لحاظ نہیں کریں گے، اور جوئے کی صنعت کے بعد دوسری بہت سی غلط صنعتوں کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔
(21مئی 1999ء)