قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بدگمانی سے بچتے رہو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، اور لوگوں کے رازوں کی کرید نہ کیا کرو اور نہ لوگوں
کی نجی گفتگو کو کان لگا کر سنو، آپس میں دشمنی پیدا نہ کرو بلکہ بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘(بخاری)
امجد عباسی
حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ مدینہ کے مشہور علمائے احبار (یہودی علما) میں سے تھے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ بھی آپؐ کے دیدار کے لیے گئے۔ انھوں نے آپؐ کا چہرۂ انور دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا، اور اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام حصین تھا جسے بدل کر آپؐ نے عبداللہ رکھا۔
حضرت عبداللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ میں نے مدینہ میں جو پہلی گفتگو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی وہ یہ روایت تھی۔ گویا یہ وہ پہلی ہدایات تھیں جو اہلِ مدینہ کو دی گئیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلۂ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو۔ (ایسا کرنے کی صورت میں) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے‘‘۔ (احمد، ترمذی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم کی خصوصیت سے نوازا تھا۔ آپؐ مختصر گفتگو فرماتے تھے لیکن وہ اختصار و جامعیت کا شاہکار ہوتی اور اپنے اندر گہرے مفاہیم و معنی رکھتی تھی۔ آپؐ کے اکثر خطبے مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ ایسی ہی گفتگو کا نمونہ یہ روایت بھی ہے، جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر وسیع مفاہیم اور نکات کو سموئے ہوئے ہے۔ یہی وہ ہدایات ہیں جنھوں نے اہلِ مدینہ پر اسلام اور مسلمانوں کا ایسا گہرا تاثر چھوڑا کہ ان کے دل اسلام کے لیے کھلتے چلے گئے اور فی الواقع مدینہ میں اسلامی انقلاب کی بنیاد پڑگئی۔
٭ سلام کوعام کرو: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کی روشنی میں مسلمانوں نے سلام کو شعار بنالیا۔ ملاقات پر ایک دوسرے کو سلام کہتے۔ اور پھر آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہر ایک کو سلام کرو چاہے اسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے۔ سلام سلامتی کی دُعا، محبت کا اظہار اور ایک دوسرے کی خیریت جاننے کا ذریعہ ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں اہلِ مدینہ نے یہ جان لیا کہ مسلمان مخلص اور خیرخواہ ہیں۔ انھیں ہم سے کوئی لالچ نہیں بلکہ ہمارے سچّے ہمدرد ہیں جو پریشانی اور مشکل میں ہمارے کام آتے ہیں۔ یہ سلام کو عام کرنے اور اخلاص و خیرخواہی کا نتیجہ تھا۔
٭ کھانا کھلاؤ:آپؐ کی دوسری ہدایت تھی کہ ایک دوسرے کو کھانا کھلاؤ۔ اس کے نتیجے میں صحابہ کرامؓ کو یہ فکر لاحق ہوتی کہ ہمارے گردوپیش اور ہمسایے میں کوئی بھوکا نہ رہے۔ پھر باہمی محبت کے اظہار کے لیے بھی ایک دوسرے کو مہمان کرتے کہ آج چند لقمے میرے ساتھ کھائیں۔ اس سے جہاں ایک دوسرے کی خیریت سے آگہی ہوتی وہاں اللہ کے دین کی طرف دعوت بھی دی جاتی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے (مسلم)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جب دعوت کا آغاز کیا تھا تو اہلِ قریش کو کھانے کی دعوت پر بلایا تھا۔ کھانے یا چائے کی دعوت سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ سرسری گفتگو سے نہیں ہوتے۔ لہٰذا دعوتِ دین میں اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔
٭ صلۂ رحمی کرو: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ابتدائی ہدایات میں اہلِ مدینہ کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ صلۂ رحمی کریں۔ سلام کو عام کرنے اور کھانا کھلانے سے جہاں مسلمانوں کے خلوص اور خیرخواہی کا جذبہ عام ہوا، وہاں صلۂ رحمی نے اس تاثر کو مزید گہرا کیا۔ پریشان حال اور مصیبت زدوں کی مدد کے لیے مسلمان بے قرار رہتے۔ اس کے نتیجے میں ایثار کے جذبے نے فروغ پایا۔ ایک مسلمان اپنے اُوپر دوسرے کی حاجت کو ترجیح دیتا۔ صلۂ رحمی اور ایثار کے نمونے جابجا لوگوں کے دیکھنے میں آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ راستے کی تکلیف دہ چیز کو دُور کردینا بھی صلۂ رحمی ہے اور اپنے بھائی کو مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں۔ ہم نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ ‘‘۔(الدھر ۷۶: ۸۔۹)
اہلِ مدینہ کو جس چیز نے سب سے بڑھ کر متاثر کیا وہ مواخات کا عمل تھا۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد سے اہلِ مدینہ کو جن مسائل کا سامنا تھا اس کا حل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو ایک دوسرے کا بھائی بناکر جس طرح سے کیا، اور پھر انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی ضروریات کا جس طرح سے خیال رکھا اور ان کو اپنے اُوپر ترجیح دی، اس خلوص، خیرخواہی، صلۂ رحمی نے یقیناًاہلِ مدینہ کے دل مسلمانوں کے لیے کھول دیے ہوں گے۔ اسلامی معاشرت کی اس جیتی جاگتی تصویر نے قبولِ اسلام کے لیے راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
٭ تہجد پڑھو: اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو آخری ہدایت یہ دی کہ رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، یعنی نمازِ تہجد ادا کرو۔ رات کی تنہائیوں میں تہجد اداکرنے سے قربِ الٰہی کے ساتھ ساتھ اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے۔ سلام کو عام کرنا، کھانا کھلانا اور صلۂ رحمی، سب اللہ کی رضا کے حصول اور خلوص کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ تہجد کی ادائیگی اس کیفیت میں مزید اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ جب مسلمان راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر قیامِ لیل کرتے ہوں گے، قرآن پڑھتے ہوں گے اور خلوصِ دل سے دُعا کرتے ہوں گے تو اس سے اہلِ مدینہ پر مسلمانوں کے خلوص کا نقش مزید گہرا ہوتا چلاگیا ہوگا اور ان کے اخلاص میں کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہا ہوگا۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ایسے مخلصین کا وہ دل و جان سے ساتھ نہ دیتے!
ان ہدایات کے آخر میں آپؐ نے ان سب اعمال کے نتیجے میں سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی ضمانت بھی دی ہے۔
تحریک اسلامی کے کارکنوں کو اپنی بستیوں کو اس کا عملی نمونہ بنانا چاہیے۔ بلاشبہ آج بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایات اسلامی انقلاب کی بنیاد اور جنت کی ضمانت بن سکتی ہیں۔