ڈونلڈ ٹرمپ کا صدارتی خطاب

دنیا کو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے

خدا خدا کرکے امریکی کانگریس کے اراکین سمیت انتظامیہ اور عسکری اداروں کے افراد 35 دنوں کے طویل مدت Shut Down کے بعد 4 فروری کو اپنے متنازع اور متلون مزاج منتخب صدر کے Sate of the Union خطبے کو سننے کے لیے جمع ہوئے تو موصوف (ڈونلڈ ٹرمپ) نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سلیس انگریزی زبان میں فرمایا: ’’میں ری پبلکن یا ڈیموکریٹک پارٹیوں کا ایجنڈا نہیں پیش کروں گا بلکہ میرا ایجنڈا امریکی عوام کا ایجنڈا ہے‘‘۔ اتنا کہنے کے بعد انہوں نے مجمع کی طرف تالیوں طلب نظروں سے دیکھا تو وہاں موجود عوام نے انہیں مایوس نہیں کیا بلکہ پُرزور تالیاں بجائیں جس سے امریکی صدر کا سینہ فخر اور جوش سے پھول گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی جارح مزاج بلے بازکی طرح پے درپے چوکے چھکے والے جملے بولنا شروع کردیے۔ مجمع نے یہ تاثر دیا، یا دانستہ ان کے خطاب پر کھڑے ہوہوکر تالیاں بجائیں، جبکہ ان میں سے کچھ نے ان کو دکھا دکھا کر داد دی۔ مجھے تو لگا کہ شاید کوئی محفلِ مشاعرہ منعقد ہوئی ہے جس میں کسی استاد کے کلام کو سن کر حاضرین سر دھننے لگ گئے۔
امریکی عوام کی نفسیات بھی عجیب و غریب ہوتی ہے، جب خوش ہوئے تو آپے سے باہر ہوگئے، گویا اس سے بہتر کوئی شعر یا کوئی فقرہ کبھی بولا یا سنا نہیں گیا۔ ادھر میری کیفیت یہ تھی کہ اندر سے اُس کے خلاف ناپسندیدگی کے جذبات کے باوجود متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ امریکی رائے دہندگان نے اسے کیوں صدر (منتخب کیا) بنایا ہے۔ اس کی مثال ڈونلڈ ٹرمپ کا صدارتی خطاب ہے جس میں اس نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’امریکہ دنیا کی سب سے طاقتور قوم ہے جس نے پچاس سال سے چاند پر اپنا پرچم لہرایا ہوا ہے اور اب خلا میں راکٹ بھیجے گی۔ ہم نے دو سال میں پچاس لاکھ افراد کو خطِ غربت سے اوپر اٹھایا ہے جبکہ 53 لاکھ ملازمتیں (اسامیاں) پیدا کی ہیں۔ جب سے میں نے اقتدار سنبھالا ہے امریکہ کی آمدنی میں برابر اضافہ ہوتا رہا ہے، خاص طور سے عوامی جمہوریہ چین کی ڈھائی سو ارب ڈالر کی درآمدات کو بند کرنے سے وطنِ عزیز کے زرمبادلہ میں نمایاں بڑھوتری ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں ہم نے امریکی مسلح افواج پر ایک ارب 214 ہزار ڈالر لگا کر اسے دنیا کی جدید ترین فوج بنادیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے منفی سیاست اور جنگوں کے باعث ہمیں بڑا خسارہ ہورہا ہے، جس کے ازالے کے لیے ہم اہتمام کررہے ہیں، مثلاً اب ناٹو اتحاد کو درکار سالانہ سو ارب ڈالر میں یورپی رکن ممالک کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ ہم ایران کی ریاستی دہشت گردی کے تدارک اور اسے جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لیے 2015ء کے جوہری معاہدے سے دست بردار ہوگئے ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں بالخصوص سی آئی اے کے سربراہان یہ اعلان کرچکے تھے کہ ایسے شواہد نہیں ملے جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے جوہری بم بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے‘‘۔
ان سربراہوں کو تو ٹرمپ پہلے ہی نالائق قرار دے چکا ہے، تاہم اس نے اندرون ملک قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو سراہتے ہوئے سلام پیش کیا، جس سے ان کے سربراہوں کے چہرے خوشی اور فخر سے کھل اٹھے اور انہوں نے بڑھ بڑھ کر تالیاں بجائیں۔
ایک اور بات بھی ٹرمپ نے کہی جو تصدیق کے بغیر تسلیم نہیں کی جاسکتی، اس نے کہا کہ ان دنوں امریکہ میں بے روزگاری کی شرح سب سے کم ہے۔
افغانستان کے مصالحتی عمل میں ٹرمپ نے امریکہ کی کوششوں کو بہت سراہا اور کہاکہ اگر پیش رفت ہوئی تو امریکہ افغانستان پر قابض فوج میں تخفیف کرے گا، لیکن اسے نہیں معلوم افغانستان میں جاری جنگ کب ختم ہوگی۔
امریکی نفسیات میں خودستائی اور ڈینگ مارنا ان کی فطرتِ ثانیہ تصور ہوتی ہے۔ یہاں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کسی نجیب الطرفین کی طرح گویا ہوا: ’’ہم نے شام اور عراق میں داعش اور دہشت گردوں کا قلع قمع کیا‘‘۔ دنیا جانتی ہے کہ سب سے بڑا دہشت گرد وہاں کا صدر بشارالاسد ہے جس نے ملک کی ایک تہائی آبادی کو ہلاک اور نصف کو بے گھر کردیا ہے اور ملک خانہ جنگی کی آگ میں جل رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے پیش رو صدر بارک اوباما واشگاف الفاظ میں اعلان کرچکے ہیں کہ شام کا آمر بشار الاسد اپنی قوم کی نسل کُشی کے باعث حقِ حکمرانی کھوچکا ہے اور اس کے برسراقتدار رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عراق کے تناظر میں ٹرمپ نے امریکی ٹیلی وژن CBS کے پروگرام Face the Nation میں کہاکہ اس نے عراق کے فوجی اڈے میں جو امریکی فوج رکھی ہے وہ اس خطے پر نظر رکھے گی۔ لیکن اس کے فوراً بعد ہی عراق کے صدر برہان صالح نے کہاکہ عراق کا دستور اپنی سرزمین پر کسی ہمسایہ ملک کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دے گا۔ (ڈان، 5 فروری)
ہم یہاں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کوئی آزاد ریاست اپنی داخلی اور خارجی صورت حال کو قابو میں کرنے کے لیے اگر غیر ملکی فوج کو دعوت دیتی ہے تو یہ اس کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیونکہ بیرونی فوج کو گھر داماد بنانے والا ملک عملاً اُس کا مقبوضہ علاقہ بن کر رہ جاتا ہے، اس ضمن میں ایران کا کردار مثالی رہا ہے، جبکہ پاکستان، سعودی عرب، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، جاپان، تائیوان اور فلپائن وغیرہ کا کردار بڑا فدویانہ بلکہ غلامانہ رہا ہے، کیونکہ بیرونی فوج بالآخر قابض فوج بن کر اس خطے کو اپنی نوآبادی میں تبدیل کردیتی ہے۔ اب عراق پر دوملکی اثرات مسلط ہیں یعنی ایران اور امریکہ۔ یہ دو متضاد قوتیں ہیں جن کے درمیان عراق گندم کے ساتھ گھن کی طرح پس رہا ہے۔
بات ہورہی تھی کسی خودمختار ریاست کی سرزمین پر اس کی سلامتی کی خاطر غیر ملکی فوج کے قیام کی، تو ہم پاکستانی یہ بھگت چکے ہیں کہ کس طرح امریکہ نے صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو جھانسہ دے کر اس کی حفاظت اور دفاع کی خاطر سابق شمال مغربی سرحدی صوبہ کے دارالحکومت پشاور کے قریب بڈبیر نامی فضائی اڈے کی سہولیات حاصل کرلی تھیں، جس کے باعث پاکستان اپنے دفاع سے بے فکر ہوگیا تھا۔ لیکن امریکہ نے پاکستانی حکومت کو بتائے بغیر اس اڈے سے سوویت روس کے اندر U2 جاسوسی طیارے بھیجنا شروع کردیئے جو اس کی عسکری تنصیبات کی تصاویر اتار کر دفاعی ادارے پینٹاگون کو دیا کرتے تھے تاکہ سند رہے اور ’’بہ وقتِ ضرورت کام آئے‘‘۔ لیکن سوئے اتفاق کہ سوویت روس کے فضائی محکمہ نے ان خفیہ پروازوں کا سراغ لگالیا جو استنبول سے پشاور پرواز کرکے سوویت یونین کی اجازت کے بغیر اس کی فضائی حدود میں دراندازی کرکے اس کی حساس دفاعی تنصیبات کی تصاویر لے کر اپنی فضائیہ کے حوالے کردیتے تھے۔ اب روسی فضائیہ چوکس ہوگئی تھی کہ کس طرح رنگے ہاتھوں اس دراندازی کرنے والے طیارے کو زمین پر اتارے۔ اتفاق سے اس کو یہ موقع مل گیا اور ان کی فضائیہ نے U2 درانداز امریکی جاسوسی طیارے کو مار گرایا، لیکن امریکی پائلٹ Francis Garry Powers جو بڑا مشاق اور ہنرمند تھا، پیراشوٹ کی مدد سے زمین پر اتر آیا، لیکن آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق وہ مقامی باشندوں کے ہاتھ لگ گیا جنہوں نے اسے روسی پولیس کے حوالے کردیا۔ اس پر روس کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل نکیتا خروشیف نے جو بہت سخت گیر تھا، احتجاجاً پاکستان کے سفیر برائے سوویت روس سلمان علی (مرحوم) کو طلب کیا، ساتھ ہی افغانستان کے سفیر کو بھی وزارتِ خارجہ کے دفترمیں بلایا۔ اُس وقت اس دفتر میں خطے کا بڑا نقشہ موجود تھا۔ اس نے پاکستان کی ہتک کے طور پر ان دونوں سے سوال کیا: یہ پشاور کہاں ہے؟ اس پر افغان سفیر نے فوراً جواب دیا یہ پختونستان میں ہے۔ جبکہ سلمان علی نے نہایت درست جواب دیا کہ پختونستان کا کوئی وجود نہیں ہے، اور پشاور پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبرپختون خوا) کا صدر مقام ہے۔ اس پر روسی رہنما نے برہم ہوکر کہا: اب اگر دوبارہ امریکی جاسوس طیارے نے سوویت یونین کی فضائی حدود میں دراندازی کی جرأت کی، تو ہم پشاور کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ حکومتِ پاکستان کو سرے سے معلوم ہی نہیں تھا کہ امریکی اس اڈے کو کس طرح استعمال کررہے ہیں۔ سو ایوب خان کے لیے بڑی خفت کا مقام تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو قطعاً ہوا تک نہ لگنے دی کہ وہ ’’مہمان‘‘ کی حیثیت سے میزبان کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اس کے بعد تو صدر ایوب خان نے امریکہ کو بڈبیر اڈہ خالی کرنے کا نوٹس دے دیا اور اس کو انخلا پر مجبور کرکے اپنے تصرف میں لے لیا۔ یہ ایوب خان کی سیاسی زندگی میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پھر تو وہ ہمیشہ کے لیے امریکہ سے بدظن ہوگئے۔ یہ واقعہ انہوں نے اپنی خودنوشت سوانح حیات Friends Not Masters میں بھی تحریر کیا ہے۔ انہوں نے سوویت یونین کے اپنے سرکاری دورے میں وزیراعظم کوسیجن سے ملاقات کا تذکرہ بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یوں ہے: جب صدر ایوب نے روسی رہنما سے کہاکہ پاکستان سوویت یونین سے دوستی کا خواہاں ہے، تو انہوں نے فوراً طنزاً کہاکہ یہ کیسی دوستی ہے کہ آپ ہمارے حریف کے لیے جاسوسی کرتے ہیں؟ مگر صدر ایوب بڑی معتبر اور باوقار شخصیت کے حامل تھے، انہوں نے سوویت رہنما سے وعدہ کیا کہ آپ ہمیں کچھ مہلت دیں تاکہ میں خوش اسلوبی سے بڈبیر سے امریکیوں کو نکال باہر کروں۔ چنانچہ ایک باغیرت اور سچے انسان کی طرح انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور مارچ 1968ء میں بڈبیر کا اڈہ خالی کرالیا۔
اس ضمن میں ایک اور بات قابلِ ذکر ہے۔ ہوا یہ کہ ابوظہبی کے فرماں روا کو پاکستان میں تلور کا شکار کھیلنے کی بہت لت تھی۔ وہاں کے شیوخ اور امرا یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ بڑے بڑے محل بردار جہاز شیوخ اور شہزادوں کو یہاں لاتے تھے جو اپنے سدھے ہوئے شکروں کے ذریعے اس غریب نادار پرندے کا شکار کھیلتے تھے۔ لیکن بعدازاں شمسی کا یہ اڈہ محض شکار کھیلنے کے لیے ہی استعمال نہیں ہوا۔ جب امریکہ نے 11 ستمبر2001ء کے بعد انسداد دہشت گردی کی آڑ میں پختونوں کا شکار کھیلنا شروع کیا تو اُسے شمسی اڈے کی افادیت کا احساس ہوا اور اس نے شیخِ ابوظہبی سے اس کے استعمال کی اجازت لے لی، اور اس اڈے سے امریکی ڈرون طیارے پرواز کرکے تلور کے بجائے وزیرستان میں پختون عسکریت پسندوں کا شکار کرتے تھے، جس سے مقامی آبادی میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور ساتھ ہی ساری قوم سراپا احتجاج بن گئی۔ اُن دنوں جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بڑے جلال میں رہتے تھے اور افغانستان پر امریکی/ناٹو افواج کے قبضے کے خلاف رائے عامہ کو متحرک کرتے تھے۔ امریکیوں نے تو اُن دنوں پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا گویا تہیہ کرلیا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان پر فوجی آمر پرویزمشرف کی حکومت تھی جس نے امریکیوں کی توقع کے خلاف طالبان کا قلع قمع کرنے کے لیے ساری حدیں پار کرلیں۔ پہلے تو وہ عوام سے پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کو یہ کہہ کر چھپاتا رہا کہ دراصل یہ پاکستان کی فضائیہ ہے جو دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ آور ہورہی ہے۔ لیکن حقیقت ایک دن کھلنی تھی۔ اس بے غیرت آمر نے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت ہزاروں مسلمانوں کو القاعدہ کا کہہ کر امریکیوں کے حوالے کردیا جن میں سے کچھ کو امریکیوں نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ یہ ہمارے مطلوبہ ملزم نہیں ہیں۔ اُس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم جبکہ آصف زرداری صدر تھے۔ اس ٹولے نے رسوائے زمانہ موقع پرست نوجوان حسین حقانی کو پاکستان کا سفیر بناکر امریکہ تعینات کیا ہوا تھا۔ اس ملعون نے آئی ایس آئی کو نظرانداز کرکے کھیپ کی کھیپ مشتبہ امریکیوں کو پاکستان جانے کا ویزہ دے دیا تھا۔ وہ دندناتے ہوئے پاکستان کے شہروں میں آتے اور پولیس پر دبائو ڈال کر کراچی اور دیگر شہروں میں حساس اقتصادی اور فوجی اہمیت کے مقامات اور تنصیبات کی تصاویر بناکر امریکی جاسوس ادارے اور کرائے کے قاتلوں کے ٹولے بلیک واٹر کے ایجنٹوں کے حوالے کردیتے، جس سے پاکستان کی سلامتی معرضِ خطر میں پڑ گئی تھی۔ شاید انہی اسباب کی بنا پر امریکی ایجنٹوں نے پاکستان کی اعلیٰ ترین فوجی تربیت گاہ کاکول کے قرب وجوار میں واقع ایک رہائش گاہ پر شب خون مارا اور دوسرے دن اعلان کردیا کہ امریکی سی آئی اے نے پاکستان کی سرزمین میں ایک دفاعی نوعیت کے شہر کے قریب واقع ایک مکان میں روپوش اسامہ بن لادن کو گولی مار کر نہ صرف ہلاک کردیا بلکہ ان کی لاش کو سمندر برد بھی کردیا۔ اس سانحہ پر پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری نے امریکی حملہ آوروں کے اس کارنامے پر مبارکباد دی اور یہ بھی جتانے کی کوشش کی کہ اس کامیابی میں حکومتِ پاکستان کی معاونت شاملِ حال تھی۔
اسی زمانے میں امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی اور اسٹیفن فورڈ جامعات کی کلیاتِ قانون کے طلبہ اور اساتذہ کی ٹیمیں وزیرستان کا تحقیقی دورہ کررہی تھیں۔ ان کی شائع کردہ تحقیقات میں انکشاف کیا گیاکہ زیادہ تر ڈرون حملوں میں صرف 20 فیصد دہشت گرد مارے گئے جبکہ اکثریت بے گناہ افراد کی تھی۔ امریکہ نے جارج بش اور بارک اوباما کے ادوار میں تین سو سے زائد فضائی حملے کیے، حتیٰ کہ نماز جنازہ اور شادی بیاہ کی تقریبات پر ڈرون طیاروں نے شدید بمباری کرکے بے شمار افرادکو شہید کردیا۔ پاکستان کے ڈاکٹروں کا ایک وفد متاثرہ علاقوں میں تحقیق کی غرض سے گیا اور تباہ شدہ بستیوں میں متوفین اور مجروحین کے بارے میں چھان بین سے اس نتیجے پر پہنچا کہ بیشتر حملے کیمیاوی اور جراثیمی نوعیت کے تھے، جن سے زخمیوں کو کینسر اور تنفس کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا۔
میں یہ سطور اس غرض سے لکھ رہا ہوں تاکہ قارئین کو باور کرا سکوں کہ امریکہ یا کسی استعماری ٹولے کو اپنی سرزمین پر اپنی سلامتی کے لیے اڈے فراہم کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ امریکی فوج مہمان بن کر آتی ہے اور اسے میزبان قوم سے دشمنی کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا۔ ہم نے دیکھا کہ بڈبیر اور شمسی اڈے امریکیوں کے حوالے کرنے کا کیا انجام ہوا۔ ہم نے بڈبیر کی طرح شمسی اڈے کو بھی امریکیوں سے خالی کرالیا، لیکن اس کی قیمت جان لیوا ثابت ہوئی، یعنی امریکی ہمارے جانی دشمن ہوگئے اور ہر معاملے میں مزاحمت کرنے لگے، جس پر ہمارے حکمرانوں نے چپ شاہ کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ لیکن جب 2011ء میں امریکی قزاقوں نے سلالہ فوجی چوکی پر حملہ کرکے 24 پاکستانی فوجیوں کو مار ڈالا تو افواجِ پاکستان کی آنکھیں کھل گئیں کہ ایسے خطرناک مہمانوں کو گھر بلاکر گھر والوں کی جانیں ضائع ہونے لگی ہیں۔ ایسے کاموں میں ایسا تو ہوتا ہے۔ یعنی دوست دشمن بن جاتے ہیں اور سلامتی اور تحفظ تو کجا، جینے کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں۔
پشاور اور شمسی کے اڈوں کو امریکیوں سے خالی کرانے پر امریکہ تو دشمن ہوا لیکن متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر کے سربراہان نے بھی ہمارے رویّے کو بے مروتی اور احسان فراموشی پر محمول کیا اور برسوں ہم سے روٹھے رہے، لیکن بھلا ہو عمران خان کا کہ انہیں ایسا منایا کہ انہوں نے ہماری بے مروتی کو ہماری مجبوری سمجھ لیا اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا، اور اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر اربوں ڈالر دے دیئے۔ ایسے ہی برے وقتوں میں دوست دشمن کی پہچان ہوا کرتی ہے۔
قارئین اس تحریر کو ہمارے نفسِ موضوع سے غیر متعلق نہ سمجھیں، کیونکہ اس تذکرے سے ہمارا مدعا صورت حال کی نزاکت اجاگر کرنا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے صدارتی خطاب میں ایران کے خلاف بھی زہر افشانی کی، اور تیل کی دولت سے مالامال لاطینی امریکی جمہوریہ وینزویلا میں برپا اندرونی سیاسی انتشار میں منتخب صدر مدورو کے خلاف گائڈو کو صدر تسلیم کرلیا ہے، اور یہی نہیں بلکہ 4 فروری کے CBS کے پروگرام Face the Nation میں مدورو کے خلاف اس ملک پر فوج کشی کی بھی دھمکی دی ہے (ڈان، 5 فروری 2019ء)، اور ساتھ ہی اعلان کیا ہے کہ امریکہ وینزویلا کے سیاسی بحران میں خودساختہ صدر یعنی گائڈو کے ساتھ کھڑا ہے۔
ادھر امریکی سینیٹ نے 26 کے مقابلے میں 70 ووٹوں سے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کو لاحق خطرات کے پیش نظر امریکہ کو افغانستان سے اپنی افواج نہیں بلانی چاہئیں۔ لطف یہ ہے کہ 100 رکنی سینیٹ میں 53 ری پبلکن اراکین ہیں جن کی خاصی تعداد نے ٹرمپ کے افغانستان سے فوج واپس بلانے کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ اس طرح جو تزویراتی منظرنامہ ابھر رہا ہے اس میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی یک لگی (Unilateral) حکمت عملی اور حکمت حربی سے ایڈولف ہٹلر کے نقشِ قدم پر گامزن ہوتا نظر آرہا ہے۔ ادھر وفاقِ روس نے یوکرین میں ناٹو کی مداخلت اور 1987ء کے امریکہ سے کیے گئے درمیانی درجے کے میزائل معاہدے کے یک طرفہ تعطل کا اعلان کردیا ہے، جبکہ عوامی جمہوریہ چین سے جنوبی بحرالکاہل میں واقع مجمع الجزائر پر بیجنگ کے حقِ ملکیت کے دعوے پر اس سے الجھ پڑا ہے۔ اس میں ٹرمپ کا قصور نہیں، کیونکہ یہ پالیسی اس کو اپنے پیش رو ڈیمو کریٹک حریف بارک اوباما سے ورثے میں ملی ہے جس نے چین کے خلاف بھارت کو حلیف بنانے کی مؤثر اور کامیاب پالیسی اختیار کی تھی جسے وہ Asia-Pacific Pirot سے موسوم کرتا تھا۔
اس سے قبل جارج بش نے بھی 1975ء کے امریکی اور روسی تاریخی معاہدے ABM کو یک طرفہ منسوخ کرکے دو عظیم تر طاقتوں کے مابین قائم توازنِ دہشت (Balance of Terror) کو خیرباد کہہ دیا تھا، جس کے باعث فریقین میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع ہوگئی ہے، اور اب ڈونلڈ ٹرمپ نے INF معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کرکے روس کو مشتعل کردیا ہے جو نت نئے مہلک میزائل بنارہا ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ State of the Union خطاب میں کس طرح بطلِ حریت کا روپ دھار کر طبلِ جنگ بجارہا ہے جس کی بازگشت چار دانگ عالم میں سنائی دے رہی ہے تو اس کرۂ ارض کی خیریت معلوم نہیں ہوتی۔ ایک بے لگام جنونی رہنما نے ساری قوم کو جنگی جنون کی وبا میں مبتلا کردیا ہے:
مثلاً (1) روس اور چین سے محاذ آرائی، (2) ABM کی تنسیخ اور INF کا یک طرفہ تعطل، (3) اقوام متحدہ کے منشور اور سلامتی کونسل کے فیصلوں کی مخالفت، (4) عالمی عدالتِ انصاف اور بین الاقوامی تعزیراتی عدالت کو مسترد کرنا، (5)انسانی حقوق کمیشن اور اس کے منشور کی تضحیک دنیا کو جہنم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس وقت دنیا کو تیسری عالمی جنگ کا شدید خطرہ لاحق ہے جو سب ختم کردے گی، اور یہ آب و خاک وباد کا جہاں ناپید ہوجائے گا۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی خطاب میں اُس کے افغانستان اور مشرق وسطیٰ بالخصوص شام اور عراق کی جنگ سے علیحدگی کے دلائل پر غور کیا جائے تو وہ انتہائی معقول اور حقیقت پسندانہ نوعیت کے ہیں۔ مثلاً امریکہ نے افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں میں سات ہزار فوجیوں کی قربانی دی ہے اور 52 ہزار فوجی بری طرح زخمی ہوئے ہیں، اور 2 کھرب ڈالر کی رقم بھی صرف ہوئی ہے، لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ امریکی فوجیوں کو وطن واپس بلاکر ان کا خیرمقدم کیا جائے۔ ٹرمپ امریکیوں کو باور کرانا چاہتا ہے کہ یہ مہم جوئی لاحاصل (Dead loss) نہیں رہی، بلکہ امریکہ نے شام اور عراق کا 22 ہزار مربع میل علاقہ جس پر داعش نے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا تھا، واگزار کرالیا ہے۔ اس سے وہ امریکہ کی فتح کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن حیرت ہے کہ اس نے افغانستان میں فتح کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اپنے دشمنوں بالخصوص طالبان سے مذاکرات کررہا ہے۔ جب یہی بات اسے سمجھائی جارہی تھی تو وہ ایسے افراد کو دہشت گردوںکا حامی قرار دیتا تھا۔ اس بارے میں تو وہ جارج بش اور اوباما سے زیادہ سمجھدار ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب اوباما نے طالبان سے زچ ہوکر افغانستان میں اپنی فوج میں کمی کی تجویز پیش کی تو جنرلوں نے مخالفت کرکے اسے اس ارادے سے باز رکھا تھا، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگجو جنرلوں کو لگام دے کر انہیں افغانستان سے قابض فوج کو بلانے پر مجبور کردیا۔ امریکی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے امریکی اراکین کانگریس کو بتایا کہ افغانستان تنازعے کا فوجی نہیں بلکہ سیاسی حل ہے جس کے لیے طالبان سے بات کرنا پڑے گی۔ (ڈان، 7 فروری2019ء)
جیسا کہ میں نے مندرجہ بالا سطور میں تحریر کیا ہے ، ٹرمپ دراصل تضادات کا مجموعہ ہے۔ جہاں وہ امریکی سپاہیوں کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا، وہیں اس کے ایران، روس اور چین سے جو تنازعات ہیں ان کے لیے وہ نسل کُش اسلحہ جات کی تیاری، حتیٰ کہ خلا اور اجرام فلکی میں بھی مہلک اسلحہ جات کی تنصیبات سے ایسی جنگ کو دعوت دے رہا ہے جس میں اس کے لاڈلے فوجیوں سمیت ساری قوم، حتیٰ کہ کرۂ ارض کی چھے ارب آبادی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ بقول شہرۂ آفاق سائنس دان آئن اسٹائن اور برٹرینڈرسل اگر خدانخواستہ جوہری جنگ چھڑ جاتی ہے تو اس سے کرۂ ارض کی نصف آبادی فوراً ختم ہوجائے گی، جبکہ باقی نصف عرصۂ دراز تک ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تلف ہوگی، اس طرح اوّل الذکر آخر الذکر کے مقابلے میں زیادہ خوش قسمت ہوگی۔