’’تخفیفِ آبادی، مسائل کا حل یا خود ایک مسئلہ‘ کے موضوع پر جماعت اسلامی پاکستان کے زیراہتمام اسلام آباد میں ایک سیمینار منعقد ہوا، جس کے میزبان اور صدرِ مجلس امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق تھے۔سیمینار میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کے علاوہ سابق رکن قومی اسمبلی میاں محمد اسلم، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، اسداللہ بھٹو، صاحبزادہ طارق اللہ، رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی، ڈاکٹر حماد لکھوی، سابق وفاقی سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، سینیٹر(ر) ڈاکٹر کوثر فردوس، رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی، ڈاکٹر شگفتہ عمر، عائشہ سید، خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، ڈاکٹر عطا الرحمن، علامہ ثاقب اکبر، سینئر وکیل خان افضل خان، اینکر پرسن آصف محمود، سرفراز احمد خان، عبدالرؤف محمدی، نعمت اللہ ہاشمی، پروفیسر انور شاہ اور دیگر نامور علمائے کرام، دانشوروں، سیاسی قائدین اور خواتین رہنماؤں نے اظہار خیال کیا۔ سیمینار کا مشترکہ اعلامیہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے پیش کیا۔
سینیٹرسراج الحق نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ جس موضوع پر سمینار ہورہا ہے یہ بہت ہی اہم اور حساس علمی موضوع ہے، اور ہم اس مجلس میں کوئی فتویٰ دینے نہیں بیٹھے، معاملے کو سمجھنا، بلکہ اس مجلس کے ذریعے علمی بحث اور آراء کے ذریعے امتِ مسلمہ کی درست رہنمائی مقصود ہے۔ بہتر ہوتا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی سیمینار میں شریک ہوتے تاکہ وہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکتے اور براہِ راست اس معاملے میں ہونے والی علمی گفتگو بھی سن لیتے۔ آبادی میں اضافے کو وسائل کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر دلائل بھی دیے جاتے ہیں، لیکن اس وقت ہمارے پاس پانچ لاکھ ٹن فالتو گندم پڑی ہوئی ہے، ملک کی انتالیس فی صد اراضی کاشت کی جارہی ہے اور اکسٹھ فی صد اراضی ابھی تک غیر کاشت ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ وسائل چند ہاتھوں تک محدود ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ یہ مسلم ممالک کے خلاف ایک ایجنڈا ہے اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کا ہتھیار ہے۔ اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور بدعنوانی اور بے روزگاری کو ختم کردیا جائے تو آبادی میں اضافہ باعثِ رحمت ہوگا، زحمت نہیں۔ آبادی ہمیشہ سے دنیا میں قوت و طاقت اور معاشی و سیاسی استحکام کا ذریعہ سمجھی گئی ہے اور آج بھی مغرب اور یورپ میں زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین کو وظائف، انعامات اور اعزازات سے نوازا جارہاہے۔ آبادی میں کمی کا ایجنڈا اسلام کا نہیں، اسلام اور مسلم دشمن قوتوں کا ہے۔ حکمرانوں کو آبادی میں کمی کے بجائے آبادی میں اضافے کے ایجنڈے پر چلنا چاہیے۔ تخفیفِ آبادی مفاد پرستی پر مشتمل عالمی دہشت گردوں کا ایک نظریہ ہے، مغرب خوفزدہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور آنے والے وقت میں دنیا پر وہی قوم حکومت کرے گی جس کی آبادی زیادہ ہوگی۔ ایک طرف ریاست کہتی ہے کہ انسان کے انفرادی معاملات میں دخل نہ دو، دوسری طرف اسے بچوں کی پیدائش سے روکتی ہے۔ تخفیف آبادی کا اصل مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنا ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان ترقی کرے تو اسے60 فیصد سے زائد بنجر پڑی زمین کو قابلِ کاشت بنانا ہوگا۔ پاکستان کے 95 فیصد وسائل 2 فیصد اشرافیہ کے پاس ہیں، وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا چاہیے۔ ملک کا بنیادی مسئلہ انصاف، تعلیم اور علاج کی سہولتوں کی عدم فراہمی، ملاوٹ اور کرپشن ہے۔ یہاں ریاست معصوم بچوں اور لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنادیتی ہے۔ تعلیم اور علاج کی فراہمی حکومت کے کسی پروگرام میں شامل نہیں۔ جس طرح سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے عدالتِ عظمیٰ کے احاطے میں آبادی پر کنٹرول کے لیے سیمینار کیا تھا، ہمیں بھی موقع دیں۔ ہم حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ غیر ترقیاتی اخراجات کم کریں، سادگی اختیار کریں اور اسلام کا معاشی نظام اختیار کرلیں تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ غیر تعلیم یافتہ افراد کی وجہ سے آبادی بڑھ رہی ہے۔ مگر یہاں تعلیم اور صحت دونوں شعبے نظرانداز کیے جاتے ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہماری بیٹیاں ہیں، اُن کی خدمات خواتین کی صحت بہتر بنانے کے لیے لی جاسکتی ہیں۔
لیاقت بلوچ
(سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان)
تخفیفِآبادی ایک ایجنڈا ہے، جو مغرب مسلم معاشرے پر تھوپنا چاہتا ہے، اور اس کی آڑ میں قرض دے کر ایجنڈے کو مکمل کیا جاتا ہے۔ ہر حکومت نے کسی نہ کسی شکل میں قرض اور امداد لی ہے اور اس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آج ایک بات کہی جارہی ہے کہ دنیا عالمگیریت کی جانب بڑھ رہی ہے، اور اسی کی بنیاد پر یہ کہا جارہا ہے کہ دنیا ایک مٹھی میں بند ہوگئی ہے اور پیالے میں آگئی ہے۔ یہ بظاہر تو معمولی بات نہیں، لیکن اس کے پیچھے بہت بڑا ایجنڈا ہے جسے پورا کیا جاتا ہے۔ مسلم معاشرے ان کا بڑا ہدف ہیں۔ اس کام میں این جی اوز متحرک ہیں اور ہماری حکومتیں ان کے سامنے سرینڈر کرتی چلی جارہی ہیں۔ معاشروں میں بہتری لانے کے لیے سماجی بہبود کے منصوبوں کو فروغ دینے، انصاف کے نظام کو بہتر بنانے اور گڈ گورننس بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر وقار مسعود خان
(سابق سیکریٹری خزانہ)
یہ معاملہ بہت ہی حساس ہے اور اسے محض جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ مجھے حکومتوں میں رہ کر بہت سے معاملات براہِ راست دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں آبادی میں بڑھوتری وسائل سے زیادہ ہے، اس میں توازن لانے کی ضرورت ہے، اور اس موضوع پر ایک نہیں بہت سی نشستیں ہونی چاہئیں۔ ہمارے ملک میں شرح پیدائش ترکی، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا سے زیادہ ہے۔ اس وقت ہماری آبادی 21 کروڑ ہے، قیام پاکستان کے وقت 3 کروڑ تھی، سانحہ سقوط ڈھاکہ کے وقت 6 کروڑ تھی۔ چیف جسٹس نے بھی توازن لانے کی بات کی تھی اور اُن کا نکتہ نظر یہی تھا کہ ہم حقائق کی بنیاد پر فیصلے کریں اور اپنی رائے بنائیں۔ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ صحت اور آبادی الگ الگ شعبے ہیں یا ایک ہی ہیں۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے اور تربیت کا نظام بھی بہتر نہیں ہے، جس کی وجہ سے دہشت گردی اور منشیات کی جانب رغبت بڑھی ہے۔ اسلام بھی ہمیں بالواسطہ طور پر بچے کو دودھ پلانے کی مدت ڈھائی سال مقرر کرکے اسی جانب متوجہ کرتا ہے اور ہمیں اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ علمائے کرام اس معاملے میں ہماری بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو دور میں پہلی بار لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تقرری ہوئی، مگر اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ شعبہ مرکز سے صوبوں کے پاس چلا گیا ہے، تب سے یہ شعبہ بہت متاثر ہوا ہے، صوبوں نے اسے اہمیت نہیں دی کہ وسائل نہیں ہیں، لیڈی ہیلتھ ورکرز کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہ ملنے کے باعث ہڑتال پر رہیں۔ یہ افسوس ناک صورت حال ہے۔ ان کے ذریعے ہم خواتین کی صحت کے لیے بہت خدمات لے سکتے ہیں اور خواتین کی رہنمائی بھی کی جاسکتی ہے۔
اسد اللہ بھٹو
(نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان)
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ معاملہ اٹھایا، اور آئین کی جس دفعہ کے تحت آبادی کا مسئلہ اٹھایا اُس دفعہ میں ایسی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ جن چار مقدمات کا حوالہ دیا وہ بھی کسی طرح درست نہیں، اور یہ عدالتی نظیر کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ سابق چیف جسٹس نے اس معاملے میں ٹاسک فورس بنانے کی ہدایت دی، لیکن صحت، تعلیم، انصاف کی فراہمی اور کرپشن ختم کرنے کے لیے کبھی کوئی ٹاسک فورس نہیں بنائی۔
سرفراز احمد خان (سابق ممبر سی بی آر)
یہ مسئلہ کم وسائل کا رونا رو کر اٹھایا جاتا ہے، جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ انسان خالق نہیں ہے، وہ صرف ایک ذریعہ ہے، لہٰذا جو خالق ہی نہیں ہے وہ کیسے کسی کو مار سکتا ہے اور دنیا میں آنے سے روک سکتا ہے! قرآن میں حوالہ دیا گیا ہے کہ غربت کے ڈر سے اولادکو قتل نہ کرو۔
پروفیسر انور شاہ، قائداعظم یونیورسٹی
سرمایہ دارانہ نظام انفرادی زندگیوں میں مداخلت کے خلاف ہے لیکن اس منصوبے کے لیے حکومتوں کی مداخلت کے ساتھ انفرادی زندگیوں میں دخل اندازی کررہا ہے، کسی قیمت پر حکومت کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے وسائل کی مدد سے لوگوں کی نجی زندگیوں میں مداخلت کرے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن
آبادی میں اضافے کے حوالے سے مغرب کے پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جائے اور آگاہی مہم چلائی جائے۔ آبادی کے ساتھ وسائل بھی بڑھتے ہیں۔ یہ نظریہ غلط ہے کہ کم وسائل کی وجہ سے آبادی سے متعلق سوچا جائے۔ مغرب نے ایک خاص ایجنڈے کے تحت مسلم ممالک کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ تعلیم اور تربیت پر فوکس ہونا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ موجود ہے، اس سے رہنمائی لی جائے تو مسئلہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر کوثر فردوس، سینیٹر(ر)
’’غربت کے ڈر سے اولاد کو قتل نہ کرو‘‘، یہ ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ضبطِ ولادت کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کی کتاب بہت اہم ہے، اس میں تفصیل کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ بات کی گئی ہے، لیکن ہمیں تو حیرانی ہے کہ یہ عدلیہ کا مسئلہ کہاں سے آگیا! چین میں حکومت نے پالیسی بنائی تھی لیکن اس کے اثرات منفی ہوئے، اور معاشرے میں صنفی توازن خراب ہوگیا۔ میڈیا، انٹرنیٹ نے بیڑہ غرق کیا ہوا ہے، اس کی وجہ سے نوجوان بھی متاثر ہورہے ہیں اور بڑے بھی۔ اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنالیا جائے اور کرپشن اور بے روزگاری کو ختم کردیا جائے تو آبادی میں اضافہ باعثِ رحمت ہوگا، زحمت نہیں۔ آبادی میں کمی کا ایجنڈا اسلام کا نہیں، اسلام اور مسلم دشمن قوتوں کا ہے۔
عبدالرؤف محمدی
ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ آبادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وسائل کی تقسیم کا مسئلہ ہے۔ آبادی کے حوالے سے جو طریق کار اختیار کیا جارہا ہے، وہ غلط ہے۔ تعلیم کا فروغ ہونا چاہیے، اسی سے مسائل حل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر نعمت اللہ ہاشمی
یہ این جی اوز کا کھیل ہے، آبادی کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن وسائل کی منصفانہ تقسیم کے مسائل ہیں۔ ہمیں مائیکرو اور میکرو اکنامک کے اصولوں پر سوچنا چاہیے۔ کئی مفکرین نے اپنی رائے بدلی ہے اور ہمیں بھی اپنی رائے بدل لینی چاہیے، جب درست تجزیہ سامنے آجائے تو رجوع کرنا چاہیے۔
شاہدہ اختر علی خان
( جے یو آئی (ف) رکن قومی اسمبلی)
یہ اہم اور سلگتا ہوا مغربی ایجنڈا ہے، جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ رزق دینے کا وعدہ تو اللہ نے کیا ہے، یہ ناکام معیشت اور ناکام ہوتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کا مسئلہ ہے، اس سے بے راہ روی بھی بڑھ رہی ہے۔ ضبط تولید خوش نما نعرہ ہے لیکن اس کے اثرات بہت بھیانک ہیں۔ اس کی وجہ سے نوجوان نسل کے صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ سیمینار سے پروفیسر ثاقب اکبر ملّی یک جہتی کونسل، ڈاکٹر شگفتہ عمر، آصف محمود اینکرپرسن، خواجہ معین الدین محبوب گوریجہ، گدی نشین کوٹ مٹھن شریف، خان افضل خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، پروفیسر حماد الدین لکھوی پنجاب یونیورسٹی نے بھی خطاب کیا۔
سینیٹرسراج الحق نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ جس موضوع پر سمینار ہورہا ہے یہ بہت ہی اہم اور حساس علمی موضوع ہے، اور ہم اس مجلس میں کوئی فتویٰ دینے نہیں بیٹھے، معاملے کو سمجھنا، بلکہ اس مجلس کے ذریعے علمی بحث اور آراء کے ذریعے امتِ مسلمہ کی درست رہنمائی مقصود ہے۔ بہتر ہوتا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بھی سیمینار میں شریک ہوتے تاکہ وہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکتے اور براہِ راست اس معاملے میں ہونے والی علمی گفتگو بھی سن لیتے۔ آبادی میں اضافے کو وسائل کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر دلائل بھی دیے جاتے ہیں، لیکن اس وقت ہمارے پاس پانچ لاکھ ٹن فالتو گندم پڑی ہوئی ہے، ملک کی انتالیس فی صد اراضی کاشت کی جارہی ہے اور اکسٹھ فی صد اراضی ابھی تک غیر کاشت ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ وسائل چند ہاتھوں تک محدود ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ یہ مسلم ممالک کے خلاف ایک ایجنڈا ہے اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کا ہتھیار ہے۔ اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور بدعنوانی اور بے روزگاری کو ختم کردیا جائے تو آبادی میں اضافہ باعثِ رحمت ہوگا، زحمت نہیں۔ آبادی ہمیشہ سے دنیا میں قوت و طاقت اور معاشی و سیاسی استحکام کا ذریعہ سمجھی گئی ہے اور آج بھی مغرب اور یورپ میں زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین کو وظائف، انعامات اور اعزازات سے نوازا جارہاہے۔ آبادی میں کمی کا ایجنڈا اسلام کا نہیں، اسلام اور مسلم دشمن قوتوں کا ہے۔ حکمرانوں کو آبادی میں کمی کے بجائے آبادی میں اضافے کے ایجنڈے پر چلنا چاہیے۔ تخفیفِ آبادی مفاد پرستی پر مشتمل عالمی دہشت گردوں کا ایک نظریہ ہے، مغرب خوفزدہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور آنے والے وقت میں دنیا پر وہی قوم حکومت کرے گی جس کی آبادی زیادہ ہوگی۔ ایک طرف ریاست کہتی ہے کہ انسان کے انفرادی معاملات میں دخل نہ دو، دوسری طرف اسے بچوں کی پیدائش سے روکتی ہے۔ تخفیف آبادی کا اصل مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنا ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان ترقی کرے تو اسے60 فیصد سے زائد بنجر پڑی زمین کو قابلِ کاشت بنانا ہوگا۔ پاکستان کے 95 فیصد وسائل 2 فیصد اشرافیہ کے پاس ہیں، وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا چاہیے۔ ملک کا بنیادی مسئلہ انصاف، تعلیم اور علاج کی سہولتوں کی عدم فراہمی، ملاوٹ اور کرپشن ہے۔ یہاں ریاست معصوم بچوں اور لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنادیتی ہے۔ تعلیم اور علاج کی فراہمی حکومت کے کسی پروگرام میں شامل نہیں۔ جس طرح سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے عدالتِ عظمیٰ کے احاطے میں آبادی پر کنٹرول کے لیے سیمینار کیا تھا، ہمیں بھی موقع دیں۔ ہم حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ غیر ترقیاتی اخراجات کم کریں، سادگی اختیار کریں اور اسلام کا معاشی نظام اختیار کرلیں تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ غیر تعلیم یافتہ افراد کی وجہ سے آبادی بڑھ رہی ہے۔ مگر یہاں تعلیم اور صحت دونوں شعبے نظرانداز کیے جاتے ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہماری بیٹیاں ہیں، اُن کی خدمات خواتین کی صحت بہتر بنانے کے لیے لی جاسکتی ہیں۔
لیاقت بلوچ
(سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان)
تخفیفِآبادی ایک ایجنڈا ہے، جو مغرب مسلم معاشرے پر تھوپنا چاہتا ہے، اور اس کی آڑ میں قرض دے کر ایجنڈے کو مکمل کیا جاتا ہے۔ ہر حکومت نے کسی نہ کسی شکل میں قرض اور امداد لی ہے اور اس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آج ایک بات کہی جارہی ہے کہ دنیا عالمگیریت کی جانب بڑھ رہی ہے، اور اسی کی بنیاد پر یہ کہا جارہا ہے کہ دنیا ایک مٹھی میں بند ہوگئی ہے اور پیالے میں آگئی ہے۔ یہ بظاہر تو معمولی بات نہیں، لیکن اس کے پیچھے بہت بڑا ایجنڈا ہے جسے پورا کیا جاتا ہے۔ مسلم معاشرے ان کا بڑا ہدف ہیں۔ اس کام میں این جی اوز متحرک ہیں اور ہماری حکومتیں ان کے سامنے سرینڈر کرتی چلی جارہی ہیں۔ معاشروں میں بہتری لانے کے لیے سماجی بہبود کے منصوبوں کو فروغ دینے، انصاف کے نظام کو بہتر بنانے اور گڈ گورننس بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر وقار مسعود خان
(سابق سیکریٹری خزانہ)
یہ معاملہ بہت ہی حساس ہے اور اسے محض جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ مجھے حکومتوں میں رہ کر بہت سے معاملات براہِ راست دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں آبادی میں بڑھوتری وسائل سے زیادہ ہے، اس میں توازن لانے کی ضرورت ہے، اور اس موضوع پر ایک نہیں بہت سی نشستیں ہونی چاہئیں۔ ہمارے ملک میں شرح پیدائش ترکی، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا سے زیادہ ہے۔ اس وقت ہماری آبادی 21 کروڑ ہے، قیام پاکستان کے وقت 3 کروڑ تھی، سانحہ سقوط ڈھاکہ کے وقت 6 کروڑ تھی۔ چیف جسٹس نے بھی توازن لانے کی بات کی تھی اور اُن کا نکتہ نظر یہی تھا کہ ہم حقائق کی بنیاد پر فیصلے کریں اور اپنی رائے بنائیں۔ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ صحت اور آبادی الگ الگ شعبے ہیں یا ایک ہی ہیں۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے اور تربیت کا نظام بھی بہتر نہیں ہے، جس کی وجہ سے دہشت گردی اور منشیات کی جانب رغبت بڑھی ہے۔ اسلام بھی ہمیں بالواسطہ طور پر بچے کو دودھ پلانے کی مدت ڈھائی سال مقرر کرکے اسی جانب متوجہ کرتا ہے اور ہمیں اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ علمائے کرام اس معاملے میں ہماری بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو دور میں پہلی بار لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تقرری ہوئی، مگر اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ شعبہ مرکز سے صوبوں کے پاس چلا گیا ہے، تب سے یہ شعبہ بہت متاثر ہوا ہے، صوبوں نے اسے اہمیت نہیں دی کہ وسائل نہیں ہیں، لیڈی ہیلتھ ورکرز کئی کئی ماہ تک تنخواہیں نہ ملنے کے باعث ہڑتال پر رہیں۔ یہ افسوس ناک صورت حال ہے۔ ان کے ذریعے ہم خواتین کی صحت کے لیے بہت خدمات لے سکتے ہیں اور خواتین کی رہنمائی بھی کی جاسکتی ہے۔
اسد اللہ بھٹو
(نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان)
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ معاملہ اٹھایا، اور آئین کی جس دفعہ کے تحت آبادی کا مسئلہ اٹھایا اُس دفعہ میں ایسی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ جن چار مقدمات کا حوالہ دیا وہ بھی کسی طرح درست نہیں، اور یہ عدالتی نظیر کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ سابق چیف جسٹس نے اس معاملے میں ٹاسک فورس بنانے کی ہدایت دی، لیکن صحت، تعلیم، انصاف کی فراہمی اور کرپشن ختم کرنے کے لیے کبھی کوئی ٹاسک فورس نہیں بنائی۔
سرفراز احمد خان (سابق ممبر سی بی آر)
یہ مسئلہ کم وسائل کا رونا رو کر اٹھایا جاتا ہے، جب کہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ انسان خالق نہیں ہے، وہ صرف ایک ذریعہ ہے، لہٰذا جو خالق ہی نہیں ہے وہ کیسے کسی کو مار سکتا ہے اور دنیا میں آنے سے روک سکتا ہے! قرآن میں حوالہ دیا گیا ہے کہ غربت کے ڈر سے اولادکو قتل نہ کرو۔
پروفیسر انور شاہ، قائداعظم یونیورسٹی
سرمایہ دارانہ نظام انفرادی زندگیوں میں مداخلت کے خلاف ہے لیکن اس منصوبے کے لیے حکومتوں کی مداخلت کے ساتھ انفرادی زندگیوں میں دخل اندازی کررہا ہے، کسی قیمت پر حکومت کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے وسائل کی مدد سے لوگوں کی نجی زندگیوں میں مداخلت کرے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن
آبادی میں اضافے کے حوالے سے مغرب کے پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جائے اور آگاہی مہم چلائی جائے۔ آبادی کے ساتھ وسائل بھی بڑھتے ہیں۔ یہ نظریہ غلط ہے کہ کم وسائل کی وجہ سے آبادی سے متعلق سوچا جائے۔ مغرب نے ایک خاص ایجنڈے کے تحت مسلم ممالک کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ تعلیم اور تربیت پر فوکس ہونا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ موجود ہے، اس سے رہنمائی لی جائے تو مسئلہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر کوثر فردوس، سینیٹر(ر)
’’غربت کے ڈر سے اولاد کو قتل نہ کرو‘‘، یہ ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ضبطِ ولادت کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کی کتاب بہت اہم ہے، اس میں تفصیل کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ بات کی گئی ہے، لیکن ہمیں تو حیرانی ہے کہ یہ عدلیہ کا مسئلہ کہاں سے آگیا! چین میں حکومت نے پالیسی بنائی تھی لیکن اس کے اثرات منفی ہوئے، اور معاشرے میں صنفی توازن خراب ہوگیا۔ میڈیا، انٹرنیٹ نے بیڑہ غرق کیا ہوا ہے، اس کی وجہ سے نوجوان بھی متاثر ہورہے ہیں اور بڑے بھی۔ اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنالیا جائے اور کرپشن اور بے روزگاری کو ختم کردیا جائے تو آبادی میں اضافہ باعثِ رحمت ہوگا، زحمت نہیں۔ آبادی میں کمی کا ایجنڈا اسلام کا نہیں، اسلام اور مسلم دشمن قوتوں کا ہے۔
عبدالرؤف محمدی
ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ آبادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وسائل کی تقسیم کا مسئلہ ہے۔ آبادی کے حوالے سے جو طریق کار اختیار کیا جارہا ہے، وہ غلط ہے۔ تعلیم کا فروغ ہونا چاہیے، اسی سے مسائل حل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر نعمت اللہ ہاشمی
یہ این جی اوز کا کھیل ہے، آبادی کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن وسائل کی منصفانہ تقسیم کے مسائل ہیں۔ ہمیں مائیکرو اور میکرو اکنامک کے اصولوں پر سوچنا چاہیے۔ کئی مفکرین نے اپنی رائے بدلی ہے اور ہمیں بھی اپنی رائے بدل لینی چاہیے، جب درست تجزیہ سامنے آجائے تو رجوع کرنا چاہیے۔
شاہدہ اختر علی خان
( جے یو آئی (ف) رکن قومی اسمبلی)
یہ اہم اور سلگتا ہوا مغربی ایجنڈا ہے، جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ رزق دینے کا وعدہ تو اللہ نے کیا ہے، یہ ناکام معیشت اور ناکام ہوتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کا مسئلہ ہے، اس سے بے راہ روی بھی بڑھ رہی ہے۔ ضبط تولید خوش نما نعرہ ہے لیکن اس کے اثرات بہت بھیانک ہیں۔ اس کی وجہ سے نوجوان نسل کے صحت کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ سیمینار سے پروفیسر ثاقب اکبر ملّی یک جہتی کونسل، ڈاکٹر شگفتہ عمر، آصف محمود اینکرپرسن، خواجہ معین الدین محبوب گوریجہ، گدی نشین کوٹ مٹھن شریف، خان افضل خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، پروفیسر حماد الدین لکھوی پنجاب یونیورسٹی نے بھی خطاب کیا۔
مشترکہ اعلامیہ،تخفیف آبادی، سیمینار
جماعت اسلامی پاکستان کے زیراہتمام تخفیفِ آبادی کے موضوع پرہونے والے سیمینار کے مشترکہ اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ ریاست کو فرد کی ذاتی اور خاندانی زندگی میں مداخلت کا قطعاً کوئی حق نہیں، حکومت آبادی پر کنٹرول کی حکمت عملی کو فوری طور پر ترک کرے اور نوجوان آبادی کو معیشت کے استحکام کے لیے ایک قوت بنانے کو قومی ترجیح بنائے۔
آبادی ہمیشہ سے دنیا میں قوت و طاقت اور معاشی و سیاسی استحکام کا ذریعہ سمجھی گئی ہے، لیکن آج ایک عالمی ایجنڈے نے بڑھتی ہوئی آبادی کو خوف کی علامت بنادیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ترقی پذیر اور معاشی طور پر کمزور ممالک کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی ان کی معیشت ہی نہیں، ان کے وجود کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ اسی ایجنڈے کے تحت 1973ء سے اقوام متحدہ نے تخفیفِ آبادی کو ایک عالمی پالیسی بنادیا ہے۔ اسی کے مطابق ترقی پذیر ممالک سے آبادی کنٹرول کرنے کی یقین دہانیاں لی جاتی ہیں اور قرض و ترقیاتی فنڈ کے لیے تخفیفِ آبادی کے اہداف کو بطور شرط منوایا جاتا ہے، حالانکہ اصل مسئلہ آبادی نہیں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ سیمینار کے اعلامیہ میں کہاگیا کہ وسائل بھی خالقِ کائنات کے عطا کردہ ہیں، اور ہر ذی روح کے رزق کا ذمہ اللہ رب العالمین نے خود لیا ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد کے درمیان توازن و اعتدال کیسے ہوگا، شرح پیدائش اور شرح اموات کا فارمولا کیا ہوگا، یہ اس کی ہی تقدیر کے فیصلے ہیں، اور انسانوں نے جب بھی ان معاملات میں مصنوعی مداخلت کی کوشش کی ہے، اس سے اتنے بڑے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے پورے معاشرے کے تارو پود بکھیر دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں نام نہاد تخفیفِ آبادی مہم کے نتیجے میں ورکنگ اور نوجوان لیبر فورس کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔ ساٹھ سال سے زائد عمر کی آبادی 1990 ء میں 50 کروڑ تھی جو 2017 ء میں 96 کروڑ ہوگئی، اور 2030 ء میں ایک ارب 40 کروڑ ہوجائے گی۔ چین میں ایک بچہ پالیسی کی وجہ سے گزشتہ دہائیوں میں 40 کروڑ کم بچے پیدا ہوئے ہیں اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد اتنی کم ہوچکی ہے کہ اب شادی کی عمر کے 5 نوجوانوں کے لیے محض ایک لڑکی موجود ہے جس کی وجہ سے جرائم اور فحاشی بڑھ گئی ہے۔
1993ء سے مسلمانوں کی شرح پیدائش کو بالخصوص خطرہ ظاہر کرکے مسلمان ممالک کو خصوصی ہدف بنایا گیا ہے۔ چونکہ پاکستا ن میں نوجوان آبادی کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، اس لیے پاکستان کو بالخصوص نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستان میں غربت اور معاشی بدحالی کے اصل اسباب قومی وسائل پر ظالم اشرافیہ کا قبضہ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، کھربوں روپے کی بدترین کرپشن، قومی دولت کی لوٹ مار اور حقیقی نظام احتساب کی غیر موجودگی ہے، اسی وجہ سے غریب پینے کے صاف پانی، دو وقت کی روٹی، سر چھپانے کے لیے چھت اور تعلیم و علاج سے محروم ہیں۔ جبکہ لوٹ مار کرنے والا یہ طبقہ غریبوں کو ہی ان کے زیادہ بچوں کی وجہ سے اپنی غربت کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ کنٹرولِ آبادی کی اس مہم کے نتیجے میں اسقاطِ حمل کی شرح میں اضافہ ہونے سے خواتین کی زندگی و صحت کے مسائل نے جنم لیا ہے۔ مانع حمل اشیاء کی سرکاری سطح پر دیہات تک آسان دستیابی و رسائی نے معاشرے میں بے راہ روی کو فروغ دیا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اسلام نے ماں بچے کی صحت کو یقیناً مدنظر رکھا ہے اور اسی مقصد کے لیے ماؤں کو کامل دو سال بچے کو دودھ پلانے کا حکم ہے۔ اسی طرح ماں بچے کی صحت اور بچوں کی تعلیم اور صحیح تربیت کے پیش نظر ایک فیملی بچوں میں وقفے کا فیصلہ کرسکتی ہے، لیکن یہ سب کچھ خالص فرد کے مسائل اور فیصلے ہیں۔ ریاست کو فرد کی ذاتی اور خاندانی زندگی میں مداخلت کا قطعاً کوئی حق نہیں۔ قومی سیمینار کے شرکاء مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت آبادی پر کنٹرول کی پالیسی کو فوری طور پر ترک کرے، زچہ و بچہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مراکز قائم کیے جائیں تاکہ دورانِ زچگی ماں یا بچے کی اموات پر قابو پایا جاسکے۔ بنیادی مراکزِ صحت اور دیہی مراکزِ صحت کو جدید طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ قومی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے زراعت میں فی ایکڑ پیداوار دوگنا کرنے، ایگرو بیسڈ انڈسٹری اور لائیو اسٹاک کو فروغ دینے، گھریلو صنعت اور اسمال و میڈیم انڈسٹری کو مستحکم کرنے، اور برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ دی جائے۔ جاگیرداری نظام کے خاتمے، امارت و غربت میں تفاوت کو کم کرنے، بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ سودی معیشت کے خاتمے اور اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کے آئینی تقاضے فی الفور پورے کیے جائیں۔ یہ اجلاس علمائے کرام اور ائمہ حضرات سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں تعلیم و صحت کی اہمیت، بچوں کی پرورش و نگہداشت اور اولاد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے منبر و محراب کی قوت کو بروئے کار لائیں۔
آبادی ہمیشہ سے دنیا میں قوت و طاقت اور معاشی و سیاسی استحکام کا ذریعہ سمجھی گئی ہے، لیکن آج ایک عالمی ایجنڈے نے بڑھتی ہوئی آبادی کو خوف کی علامت بنادیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ترقی پذیر اور معاشی طور پر کمزور ممالک کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی ان کی معیشت ہی نہیں، ان کے وجود کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ اسی ایجنڈے کے تحت 1973ء سے اقوام متحدہ نے تخفیفِ آبادی کو ایک عالمی پالیسی بنادیا ہے۔ اسی کے مطابق ترقی پذیر ممالک سے آبادی کنٹرول کرنے کی یقین دہانیاں لی جاتی ہیں اور قرض و ترقیاتی فنڈ کے لیے تخفیفِ آبادی کے اہداف کو بطور شرط منوایا جاتا ہے، حالانکہ اصل مسئلہ آبادی نہیں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ سیمینار کے اعلامیہ میں کہاگیا کہ وسائل بھی خالقِ کائنات کے عطا کردہ ہیں، اور ہر ذی روح کے رزق کا ذمہ اللہ رب العالمین نے خود لیا ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد کے درمیان توازن و اعتدال کیسے ہوگا، شرح پیدائش اور شرح اموات کا فارمولا کیا ہوگا، یہ اس کی ہی تقدیر کے فیصلے ہیں، اور انسانوں نے جب بھی ان معاملات میں مصنوعی مداخلت کی کوشش کی ہے، اس سے اتنے بڑے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے پورے معاشرے کے تارو پود بکھیر دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں نام نہاد تخفیفِ آبادی مہم کے نتیجے میں ورکنگ اور نوجوان لیبر فورس کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔ ساٹھ سال سے زائد عمر کی آبادی 1990 ء میں 50 کروڑ تھی جو 2017 ء میں 96 کروڑ ہوگئی، اور 2030 ء میں ایک ارب 40 کروڑ ہوجائے گی۔ چین میں ایک بچہ پالیسی کی وجہ سے گزشتہ دہائیوں میں 40 کروڑ کم بچے پیدا ہوئے ہیں اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد اتنی کم ہوچکی ہے کہ اب شادی کی عمر کے 5 نوجوانوں کے لیے محض ایک لڑکی موجود ہے جس کی وجہ سے جرائم اور فحاشی بڑھ گئی ہے۔
1993ء سے مسلمانوں کی شرح پیدائش کو بالخصوص خطرہ ظاہر کرکے مسلمان ممالک کو خصوصی ہدف بنایا گیا ہے۔ چونکہ پاکستا ن میں نوجوان آبادی کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، اس لیے پاکستان کو بالخصوص نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستان میں غربت اور معاشی بدحالی کے اصل اسباب قومی وسائل پر ظالم اشرافیہ کا قبضہ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، کھربوں روپے کی بدترین کرپشن، قومی دولت کی لوٹ مار اور حقیقی نظام احتساب کی غیر موجودگی ہے، اسی وجہ سے غریب پینے کے صاف پانی، دو وقت کی روٹی، سر چھپانے کے لیے چھت اور تعلیم و علاج سے محروم ہیں۔ جبکہ لوٹ مار کرنے والا یہ طبقہ غریبوں کو ہی ان کے زیادہ بچوں کی وجہ سے اپنی غربت کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ کنٹرولِ آبادی کی اس مہم کے نتیجے میں اسقاطِ حمل کی شرح میں اضافہ ہونے سے خواتین کی زندگی و صحت کے مسائل نے جنم لیا ہے۔ مانع حمل اشیاء کی سرکاری سطح پر دیہات تک آسان دستیابی و رسائی نے معاشرے میں بے راہ روی کو فروغ دیا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اسلام نے ماں بچے کی صحت کو یقیناً مدنظر رکھا ہے اور اسی مقصد کے لیے ماؤں کو کامل دو سال بچے کو دودھ پلانے کا حکم ہے۔ اسی طرح ماں بچے کی صحت اور بچوں کی تعلیم اور صحیح تربیت کے پیش نظر ایک فیملی بچوں میں وقفے کا فیصلہ کرسکتی ہے، لیکن یہ سب کچھ خالص فرد کے مسائل اور فیصلے ہیں۔ ریاست کو فرد کی ذاتی اور خاندانی زندگی میں مداخلت کا قطعاً کوئی حق نہیں۔ قومی سیمینار کے شرکاء مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت آبادی پر کنٹرول کی پالیسی کو فوری طور پر ترک کرے، زچہ و بچہ کے لیے زیادہ سے زیادہ مراکز قائم کیے جائیں تاکہ دورانِ زچگی ماں یا بچے کی اموات پر قابو پایا جاسکے۔ بنیادی مراکزِ صحت اور دیہی مراکزِ صحت کو جدید طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ قومی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے زراعت میں فی ایکڑ پیداوار دوگنا کرنے، ایگرو بیسڈ انڈسٹری اور لائیو اسٹاک کو فروغ دینے، گھریلو صنعت اور اسمال و میڈیم انڈسٹری کو مستحکم کرنے، اور برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ دی جائے۔ جاگیرداری نظام کے خاتمے، امارت و غربت میں تفاوت کو کم کرنے، بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ سودی معیشت کے خاتمے اور اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کے آئینی تقاضے فی الفور پورے کیے جائیں۔ یہ اجلاس علمائے کرام اور ائمہ حضرات سے بھی اپیل کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں تعلیم و صحت کی اہمیت، بچوں کی پرورش و نگہداشت اور اولاد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے منبر و محراب کی قوت کو بروئے کار لائیں۔