دنیابھر میں جمہوری نظام کی کمزوری کے اسباب

اس وقت عالمی سطح پر جمہوری نظام کے حوالے سے بنیادی نوعیت کے سوالات زیر بحث ہیں۔ عالمی سیاسی تجزیہ نگار دنیا میں موجود جمہوری نظام پر سخت تنقیدکرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام آہستہ آہستہ اپنے داخلی تضاد کے باعث عوامی سطح پر اپنی افادیت کھو رہا ہے۔ دنیا میں جمہوریت پر عالمی ماہرین کی سخت تنقید کو محض تنقید سمجھ کر رد نہیں کیا جاسکتا۔جمہوری نظام میں عوام ہی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ بالخصوص کمزور طبقات کو بنیاد بناکر جمہوری نظام کی افادیت کے سوال کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں بھی دنیا بھر میں جمہوری نظام پر ہونے والی بحث اور تنقید کے پہلوئوں کو سمجھ کر اپنے ملک کے مسائل کا حل تلاش کریں
اُن ممالک یا ریاستوں میں شمار نہیں ہوتے جہاں حقیقی جمہوریت کو برتری حاصل ہوتی ہے۔بالخصوص ایسے معاشروں میں جہاں جمہوریت داخلی محاذ پر مضبوط جڑیں نہ رکھتی ہو اور اس میں خارجی مداخلتیں زیادہ ہوں، وہاں جمہوریت کا عمل اور زیادہ کمزور نظر آتا ہے۔
برطانوی جریدے ’’دی اکانومسٹ‘‘ کے تحقیقی ادارے انٹیلی جنس یونٹ کے مطابق نئے جمہوری معیارات کے مطابق پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری عمل زوال کا شکار ہے۔ دنیا بھر میں موجود جمہوری ممالک میں پاکستان کا نمبر 112 ہے۔ جبکہ ہمارے مقابلے میں بھارت کا 44 واں نمبر ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا میں صرف 20 ایسے ممالک ہیں جہاں مکمل جمہوریت ہے، جبکہ57 ایسے ممالک ہیں جہاں حکومتی نظام ناقص ہے مگر وہ جمہوریت کے تقریباً قریب ہیں۔ اسی طرح 39 ممالک کو ’’نیم جمہوری‘‘ ممالک میں شمار کیا گیا ہے جہاں انتخابی عمل شفاف نہیں، اورجہاں قانون پر عمل درآمد کا نظام کمزور ہے۔ جبکہ دنیا کے 53 ممالک ایسے ہیں جہاں جمہوریت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں پاکستان کو ’’نیم جمہوری‘‘ یا مخلوط نظام یعنی Hybrid
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں داخلی اور خارجی دونوں بحران شدت سے موجود ہیں۔ دونوں عوامل یا فریقین ایک دوسرے کو الزام دے کر اپنا دامن بچانے کی سیاست کرتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری عمل میں سیاسی مداخلتیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اصل مسئلہ مرکزیت پر مبنی نظام کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے نے جائزے کے تناظر میں بہت سے اہم نکات کو حصہ بنایا، لیکن اس میں مقامی حکومتوں یعنی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا کوئی نکتہ موجود نہیں۔ حالانکہ ہم سب اتفاق کرتے ہیں کہ جمہوریت میں مقامی ادارے نرسری کا کردار ادا کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ کو کسی ملک میں جمہوریت کا عملی جائزہ لینا ہو تو یہ دیکھا ضروری ہوگا کہ اس کی نچلی سطح پر حکومت اورحکمرانی کا نظام کس حد تک مقامی نظام حکومت سے جڑا ہوا ہے، کیونکہ اس کے بغیر جمہوریت کو جانچنے کا عمل بے معنی نظر آتا ہے۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کی مضبوطی کے تناظر میں ہمیں جو بڑے چیلنج درپیش ہیں ان میں داخلی محاذ پر سیاسی عمل کی کمزوری، سیاسی جماعتوں کے داخلی جمہوریت سے جڑے مسائل، پارلیمنٹ اور دیگر سیاسی اداروں کو نظرانداز کرنا، پارلیمنٹ کی حیثیت محض ایک تقریری فورم ہونا، وزیراعظم اور وزرا کی پارلیمانی امور میں عدم دلچسی، سیاسی جماعتوں کے داخلی انتخابات، موروثی سیاست کے مسائل، کمزور احتساب اور شفافیت کا نظام، ادارہ جاتی عمل کی کمزوری، غیر منصفانہ اور عدم شفافیت پر مبنی انتخابی نظام، دولت کا بے جا استعمال، قانون سازی پر عدم توجہ، سیاسی عدم استحکام، قانون کی پاسداری کا نہ ہونا، دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کمزور طبقات کا بری طرح استحصال، سیاسی اور سماجی ناہمواریاں شامل ہیں۔ جبکہ سیاسی نظام میں سول و فوجی بیوروکریسی کی مداخلتیں اور سول ملٹری تعلقات میں خرابی جیسے امور بھی جمہوری نظام کو کمزور بنانے کا سبب بنتے ہیں۔
سیاسی مفکرین، سیاسی کارکنان، سیاسی قیادت اور اہلِ دانش کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جمہوریت کو خارجی سطح پر جو چیلنج ہیں ان سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری قوتیں اور اس سے وابستہ ادارے پہلے خود کو داخلی سطح پر مضبوط کریں۔ جمہوریت سے جڑے افراد کا اپنا جمہوری مقدمہ بہت کمزور ہے۔سیاسی جماعتیں اور ان سے وابستہ شخصیات اصولوں اور اداروں کی بالادستی کے مقابلے میں افراد یا آمرانہ سوچ اور فکرکی حمایت کرتے ہیں۔ ایک مسئلہ جمہوریت سے جڑے اہلِ دانش کا بھی ہے جو جمہوریت کے مقابلے میں افراد یا طاقت وروں کا سہارا بن کر جمہوری عمل کو کمزورکرکے ان کی آمرانہ حکمرانی کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔
ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ آج دنیا میں جمہوریت کو جو بڑا چیلنج درپیش ہے وہ سیاست، جمہوریت اور میڈیا کے کارپوریٹ کلچر سے ہے، یعنی سیاست میں اصول اورنظریات کے بجائے دولت کو اوّلین فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سیاست اور جمہوریت کے فیصلے جمہوری قوتیں کم اور سرمائے کی طاقت رکھنے والی بڑی قوتیں زیادہ کرتی ہیں۔ یہی قوتیں اب سیاسی اور جمہوری لبادہ بھی اوڑھ چکی ہیں۔ میڈیا اور اہلِ دانش یا رائے عامہ بنانے والے افراد اور ادارے بھی اس کھیل میں اپنی دانش بیچ رہے ہیں۔ یہاں تضادات اور تنازعات کو ابھارنے، اور اسلحہ اور جنگوں کی سیاست کا کاروبار اب اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو ممالک کو سیکورٹی طرز کی ریاستوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
اس لیے جو قوتیں واقعی حقیقی جمہوریت چاہتی ہیں اُن کو اپنی ترجیحات نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگی۔ روایتی طور طریقوں سے جمہوریت کو کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جو دنیا بھر میں جمہوری عمل کو کمزور کرنے والی داخلی اور خارجی قوتوں کے خلاف ایک بڑی مزاحمت پیدا کرسکے۔ ایک طاقت ور مافیا ہے جس سے ہمیں عالمی سطح پراور خود پاکستان میں جمہوریت کو آزاد کرانے کی جنگ لڑنی ہے۔ لیکن اس جنگ کے لیے پہلے ہمیں دنیا کے جمہوری نظام کی بحث کو سمجھنا ہوگا عوام کو آگاہ کرنا ہو گا کہ پاکستان میں رائج کمزور سا جمہوری نظام عام آدمی کے لیے استحصال اور طاقت ور طبقات کے لیے فوائد رکھتا ہے۔ ہمیں قوم کے سیاسی اور سماجی شعور کو بلند کرنا ہوگا۔

Regime میں شمار کیا گیا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں 2014ء کے بعد سے جمہوری اسکور میں بتدریج کمی آرہی ہے جو 2014ء میں 4.64، 2015ء میں 4.40، 2016ء میں 4.33 جبکہ 2017ء میں 4.26 رہا ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ میں دنیا کے 167ممالک میں جمہوریت کا جائزہ لیا گیا۔ 42 ممالک میں جمہوریت پر زوال رہا، جبکہ 48 ممالک میں عملی طور پر جمہوریت کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ دنیا کے دس بہترین جمہوری ممالک میں 9.87 اسکور کے ساتھ ناروے، آئس لینڈ، سویڈن، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، کینیڈا، آئرلینڈ، فن لینڈ، آسٹریلیا اور سوئٹزرلینڈ شامل ہیں۔ جبکہ نچلی سطح سے آمرانہ نظام میں شمالی کوریا، شام، کانگو اور چاڈ ہیں۔ امریکہ کا بھی جمہوریت کے حوالے سے اسکور کم ہوا ہے اور وہ 2017ء کے مقابلے میں 21 ویں سے 25 ویں نمبر پر آگیا ہے، جبکہ برطانیہ 14ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح چین 130، افغانستان 143اور ایران 150ویں نمبر پر ہیں۔ اس تحقیقی رپورٹ کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اول: مکمل جمہوریت، دوئم: تقریباً یا ناقص جمہوریت، سوئم: نیم جمہوریت یا مخلوط نظام، چہارم: مطلق العنانیت یا آمرانہ نظام شامل ہیں۔ جبکہ جمہوریت کی صورت حال کو پرکھنے کے لیے جن امور کا جائزہ لیا گیا اُن میں انتخابی عمل اور اکثریت، حکومتی عمل داری، سیاسی شرکت، جمہوری سیاسی کلچر اور شہری آزادیاں شامل ہیں۔
اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت اور جمہوری عمل کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم دنیا میں فلاحی اور جمہوری ریاستوں کے مقابلے میں بڑی تیزی سے سیکورٹی طرز کی ریاستوں کی طرف جارہے ہیں۔ ایسی سیکورٹی طرز کی ریاستوں میں فلاحی جمہوری ریاست اور عوامی حقوق یا شہری آزادیوں کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں جمہوریت کو اصل چیلنج بھی جمہوریت کے داخلی اور خارجی دونوں نظاموں سے ہے۔ پاکستان اور جنوبی ایشیا، یا ہمارے علاقائی ممالک جن میں پاکستان، افغانستان، ایران اور بھارت شامل ہیں، کو جمہوری تناظر میں بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔