رمشا کاالمناک قتل

سندھ میں معصوم بچیوں اور بے گناہ خواتین کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات

سندھ میں معصوم بچیوں اور بے گناہ نوجوان لڑکیوں کو جھوٹے الزامات عائد کرکے قتل کردینا معمول بنتا جارہا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوگا کہ اس نوع کے اندوہناک واقعات رونما نہ ہوتے ہوں، ورنہ محض ذاتی عناد اور دیرینہ خاندانی تنازعات میں معصوم اور بے گناہ لڑکیوں اور خواتین کا بلاجواز قتل ایک ایسی بدنما اور دردناک حقیقت ہے جو موجودہ سائنسی دور میں تہذیبِ نو اور ہماری صوبائی، وفاقی حکومتوں بہ شمول عدلیہ کے لیے کسی تازیانے سے کم ہرگز نہیں ہے۔
صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں میں جھوٹے الزامات کے تحت ناحق قتل کی جانے والے کتنی ہی مقتول خواتین کے یہ واقعات ورثا اور لواحقین کی ذاتی و قبائلی اَنا، یا قاتلوں کے اثر رسوخ اور ان کی اپنے معاشرے اور علاقے میں بالادستی اور دبائو کے باعث منظرِعام پر ہی نہیں آپاتے، اور اگر بالفرض ایسے خونِ ناحق کے واقعات پرنٹ، الیکٹرانک یا سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آ بھی جائیں تو پھر بھی قتل میں ملوث ملزمان بہ مشکل ہی کیفرِ کردار کو پہنچ پاتے ہیں، اور اس طرح سے بیشتر خونِ خاک نشیناں رزقِ خاک ہوکر اللہ تعالیٰ کے دربار میں حصولِ انصاف کے لیے مدعی اور طلب گار ہوجایا کرتے ہیں جو حقیقی منصف اور مظلوموں کے ساتھ انصاف کرنے والا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اہلِ سندھ آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں ظالم وڈیروں، رئوسا اور جاگیرداروں کے جبر تلے اپنی زندگی بے بسی اور بے کسی کے ساتھ گزارنے بلکہ بھگتنے پر مجبور ہیں۔ ان کا سچ مچ کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، ظالموں اور درندہ صفت انسانوں کی چیرہ دستیوں سے انہیں بچانے والا کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں ہے، جس سے وہ کسی انصاف یا خیر کی توقع باندھ سکیں۔ ابھی دادو کی تانیہ خاصخیلی سمیت راجکماری اور دیگر بے شمار معصوم لڑکیوں اور عورتوں کے خونِ ناحق کے مرتکب قاتل بھی قانون کے شکنجے میں کسنے نہ پائے تھے کہ یکم فروری 2019ء بروز جمعۃ المبارک ضلع خیرپور کے علاقے کنب میں واقع گوٹھ پیر گڈو میں بااثر وسان قبیلے کے ملزم ذوالفقار نے مع اپنے ساتھیوں کے تیرہ سالہ معصوم لڑکی رمشا کو اس کی والدہ اور اہلِ خانہ کے سامنے اس کے گھر میں گولیاں مار کر قتل کردیا۔تیرہ سالہ رمشا کے قاتل ذوالفقار عرف ذلو کو پولیس نے بالآخر سخت عوامی احتجاج کے بعد گرفتارکر لیا لیکن اس قتل سے قبل قاتل پر اغوا اور قتل سمیت 22 دیگر مقدمات بھی درج تے، جن میں وہ پولیس کو مطلوب تھا لیکن بااثر شخصیات کی سرپرستی کی وجہ سے دندناتا پھر رہا تھا، رمشا کے والدین نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے قتل سے پہلے رمشا کو اغوا کرنے والےمرکزی ملزم اظہار وسان اور ریاض وسان کو تاحال گرفتار نہیں کیا۔ اس سانحہ کے ملزمان پیپلز پارٹی کے ایم این اے نواب وسان اور خواب دیکھنے کے حوالے سے معروف سابق صوبائی وزیر میر منظور وسان کے رشتے دار اور قریبی ہونے کے باعث ہر نوع کی قانونی گرفت سے محفوظ تھے، جس کی وجہ سے ایک اور معصوم جان درندہ صفت ملزمان کے ناپاک عزائم اور مذموم خواہشات کی عدم تکمیل کے سبب ان کی ستم گری کا نشانہ بن گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ درجہ نہم میں زیر تعلیم رمشا جو بہ مشکل تیرہ برس کی تھی اُس پر ملزمان اور اُن کے سرپرست ظالم وڈیروں اور منتخب نمائندوں نے حد درجہ بے حسی، بے حمیتی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’کاری‘‘ ہونے کا جھوٹا الزام لگایا ہے۔ سندھ میں آئے دن اس طرح کے من گھڑت الزامات کے تحت نام نہاد رسموں اور غیر قانونی جرگوں کے فیصلوں کے ذریعے بہ کثرت معصوم لڑکیوں اور بے گناہ خواتین کو جس طرح سے قتل کیا جا رہا ہے یہ المناک سانحہ بھی دراصل اسی بدنما سلسلے کی ایک کڑی ہے، یہ اور بات ہے کہ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے یہ سانحہ منظرِعام پر آگیا ہے جس کے ردعمل میں سندھ بھر میں ہر سطح پر عوام اس کے خلاف سخت احتجاج اور قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کررہے ہیں، لیکن بااثر وڈیروں کے زیر سایہ پولیس تاحال اصل ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکی ہے۔ درآں حالیکہ اس خونِ ناحق کے خلاف جیکب آباد، کندھ کوٹ، دادو، بدین، حیدرآباد، لاڑکانہ، قاضی احمد اور تھر پارکر سمیت صوبے کے ہر علاقے میں عوامی سطح پر بڑے بڑے مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن حکومتِ سندھ یا وفاقی حکومت نے بھی انصاف کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لیے کسی نوع کا کوئی لائقِ تشفی یا اطمینان بخش قدم نہیں اٹھایا ہے۔ پوسٹ مارٹم کرنے والی لیڈی ڈاکٹر کے مطابق معصوم رمشا کو قریب سے اس کی چھاتی اور بازو میں ظالم قاتلوں نے جو گولیاں ماری ہیں وہ اس مظلومہ کے جسم کے آرپار ہوگئی تھیں۔ مقتولہ کی صدمے سے نڈھال والدہ خورشید بیگم کے مطابق اس قتل کا اصل ذمہ دار بااثر ملزم ذوالفقار وسان ہے جس نے چند روز پہلے میری بیٹی کو اپنی ناپاک خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے ساتھیوں کے ذریعے اغوا کروایا، جس کے بعد میں نے نواب منظور وسان اور ایم این اے نواب وسان سے شکایت کی، اور جب بعد سعیٔ بسیار کے میری معصوم بیٹی برادری کے معززین کے دبائو پر گھر واپس آئی تو اس پر غم و غصے اور انتقام کی آگ میں جلنے والے وڈیرے ذوالفقار وسان نے میرے گھر میں گھس کر ہماری آنکھوں کے سامنے معصوم تیرہ سالہ رمشا کو بے دردی سے قتل کردیا، حالاں کہ میں نے اس موقع پر ظالم ملزمان کو قرآن پاک کے واسطے بھی دیے لیکن انہوں نے پھر بھی رمشا پر رحم نہیں کھایا ۔ایک اطلاع کے مطابق معصوم رمشا کے قتل کا مرکزی ملزم ذوالفقار عرف ذلّو وسان ضلع خیرپور کے منتخب عوامی نمائندوں ایم این اے نواب وسان اور ایم پی اے میر منظور وسان کا کزن ہے۔
بہرکیف! حکومتِ سندھ، وفاقی حکومت اور قانون و انصاف کی سربلندی کے تمام علَم بردار اداروں کو اس حوالے سے اپنا متحرک اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے معصوم رمشا سمیت تمام ناحق قتل کی جانے والی بچیوں اور خواتین کے قاتلوں کو فوری گرفتار کرکے انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ المیہ تو یہ ہے کہ حکومتِ سندھ کے اعلیٰ ذمہ داران کے ایما پر سندھ اسمبلی میں بھی گزشتہ دنوں دورانِ اجلاس اس ایشوپر بحث کی اجازت نہیں دی گئی۔
یہ سطور تحریر کرتے وقت سندھ کی ایک معروف گلوکارہ کی سندھ کی مظلوم خواتین کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتی، ناروا سلوک اور ظلم کے حوالے سے کہی گئی یہ درد بھری المیہ پکار بہ صورت وائی کانوں میں بے اختیار گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ترجمہ: اواماں! وہ مجھے کاری قرار دے کر مار ڈالیں گے (او اماں اُھی مُوں کھے کاری کری ماریندا) کاش! ہمارے ارباب اختیار میں سے کوئی اس درد بھری فریاد اور صدا پرکان دھر سکے۔ کاش! اے کاش! تاکہ مستقبل میں اس نوع کے المناک واقعات کا اعادہ نہ ہوسکے۔