جب سے طالبان اور امریکہ کے درمیان براہِ راست مذاکرات شروع ہوئے ہیں، پاکستان کے بارے میں امریکی قیادت کا رویہ ایک دم بدلا ہوا نظر آرہا ہے۔ امریکی زعما کے بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ گویا ماضی کی رنجشیں ختم ہوگئیں اور اب اسلام آباد اور واشنگٹن جگری دوست بن چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ، امریکی وزیرخارجہ، افغان مصالحت کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے جناب زلمے خلیل زاد سے لے کر سینیٹ میں اسلام اور پاکستان کے بدترین مخالف سینیٹر لنڈسے گراہم تک سب کے سب پاکستان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے نظر آرہے ہیں۔ صرف چند ماہ پہلے تک پاکستان کو دوغلا، دہشت گردوں کا سرپرست اور ناکام ریاست کہنے والوں کے لیے اسلام آباد اب امن کا مینارۂ نور ہے۔
ہمیں سب سے زیادہ حیرت گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کے سامنے امریکہ کی مرکزی کمان (CENTCOM)کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کے بیان پر ہوئی جس میں موصوف نے فرمایا کہ امریکہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق حکمت عملی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ افغانستان کے حوالے سے کسی بھی مصالحت اور سمجھوتے میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔
صرف چند ماہ پہلے تک جنرل ووٹل پاکستان پر افغان دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا کرتے تھے۔ انھوں نے کئی بار کہا کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی پناہ گاہیں ہیں جہاں سے تربیت لینے کے بعد طالبان دہشت گرد افغانستان میں امریکی فوج کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ امریکہ کی سیاسی قیادت پر مسلسل زور دیتے رہے کہ پاکستان کے خلاف سخت رویہ اختیار کرکے اسلام آباد کو معقولیت پر مجبور کیا جائے۔ گزشتہ سال کے اختتام پر اسی کمیٹی کے روبرو اپنے بیان میں جنرل ووٹل نے کہا کہ جب تک پاکستان کی جانب سے حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی بند نہیں ہوجاتی، علاقے سے دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن ہے۔
امریکی سفارت کار بھی بہت مستقل مزاجی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف پاکستان کے اخلاص پر شکوک وشبہات کا اظہار کرتے رہے، بلکہ کئی موقعوں پر انھوں نے پاکستان کے کردار کو دوغلا قرار دیا۔ ڈیڑھ سال قبل جب امریکہ کی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسط ایشیائی امور، محترمہ ایلس ویلز پاکستان تشریف لائیں تو انھوں نے صاف صاف کہا کہ جب تک اسلام آباد اپنی سرزمین سے حقانی نیٹ ورک اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ نہیں کردیتا، بے پناہ قربانیوں کے باوجود اسے قابلِ اعتماد اتحادی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
سب سے معنی خیز تبدیلی زلمے خلیل کے انداز میں آئی ہے۔ 67 سالہ خلیل زاد پاکستان کے نظریاتی مخالف ہیں۔ وہ ایک سکہ بند مذہب بیزار سیکولر ہیں جو موجودہ منصب سنبھالنے سے پہلے مراکزِ دانش کی تقریبات میں پاکستان کے حوالے سے انتہائی زہریلی زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ افغانستان کے بارے میں ان کی نپی تلی رائے تھی کہ پاکستان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے بغیر افغانستان میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ انھیں پورا یقین تھا کہ افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کی بنیادی وجہ پاکستان کا دہرا کردار ہے۔
چند ماہ پہلے تک موصوف افغانستان میں امریکی آپریشن کی نجکاری کے قائل تھے۔ اس ضمن میں بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس نے ایک تفصیلی حکمت عملی بھی تجویز کی تھی۔ ایرک پرنس امریکی وزیرتعلیم محترمہ بیٹسی ڈیوس (Betsy DeVos) کے بھائی اور صدر ٹرمپ کے دوست ہیں۔ غیرقانونی سرگرمیوں اور مقدمات کی بنا پر اب یہ ادارہ Academiکے نام سے کام کررہا ہے۔ سیکورٹی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایرک پرنس کے حصص G4S کمپنی میں بھی ہیں جو پاکستان میں Wackenhutکے نام سے سرگرم ہے۔ ایرک پرنس متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید، المعروف MBZکے قریبی دوست ہیں، بلکہ وہ آج کل زیادہ تر ابوظہبی ہی میں رہتے ہیں۔ واشنگٹن کے صحافتی حلقوں میں یہ افواہ عام تھی کہ زلمے خلیل زاد صدر ٹرمپ اور ملک کے قدامت پسند طبقے کو آپریشن کی نجکاری پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ افغان فوج اور امریکی سپاہی طالبان چھاپہ ماروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے کہ سائے کا تعاقب ان کے بس کی بات نہیں۔ ایرک پرنس اپنے وسیع تجربے کی بنا پر پاک فوج کے ریٹائرڈ پشتون سپاہیوں اور قبائلی نوجوانوں کو پُرکشش تنخواہ پر بھرتی کرکے مُلّائوں کی سرکوبی کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں صدر ٹرمپ فوجی آپریشن کی نجکاری کے حامی تھے، لیکن فوج کی شدید مخالفت کی بنا پر یہ منصوبہ ترک کردیا گیا۔ اب پاکستان کے شدید مخالف زلمے خلیل زاد نہ صرف افغان امن کے لیے پاکستان کے عزم کو سراہنے لگے ہیں بلکہ وہ طالبان مذاکرات کاروں کے حلم اور مدلل گفتگو سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔
8 فروری کو واشنگٹن میں ایک قدامت پسند مرکزِ دانش یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (US Institute of Peace) سے خطاب کرتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان سے مذاکرات کی کوششوں میں پاکستان کے مثبت کردار کی بڑی فراخ دلی سے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بہت ہی مثبت کردار ادا کیا ہے اور مفاہمت کی جو کوششیں اسلام آباد نے کی ہیں اُن کی وجہ سے پاکستان ایک انتہائی اہم ملک کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ زلمے صاحب نے یہ مژدہ بھی سنایا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔
ری پبلکن پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر لنڈسے گراہم کو اس بات پر بڑا دکھ ہے کہ امریکہ نے اب تک پاکستان سے دیرپا تعلقات رکھنے کے بجائے وقتی تقاضوں کے تحت ربط رکھا، حالانکہ پاکستان اِس علاقے کے امن اور ترقی و خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ گزشتہ دورۂ پاکستان میں وزیراعظم، فوج کے سالار جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور دوسری اہم شخصیتوں سے تفصیلی ملاقات کے بعد امریکی سفارت خانے میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے سینیٹر گراہم نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت تعلقات غلط ہیں۔ پاکستان کے ساتھ وقتی مول تول کے بجائے اسٹرے ٹیجک تعلقات قائم کیے جانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ، وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے مابین سہ فریقی افغان امن کانفرنس تجویز کریں گے تاکہ افغانستان میں جاری سترہ سالہ جنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ فاضل سینیٹر کا کہنا تھاکہ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ فری ٹریڈ علاقے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ سینیٹر گراہم نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ پائیدار تعلقات کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے امریکی و برطانوی دوستی کی مثال دی۔ موصوف عمران خان کی بصیرت اور معاملہ فہمی سے بھی بے حد متاثر ہیں۔
سینیٹر گراہم نے پہلی بار ’ڈومور‘ کا روایتی منتر پڑھنے کے بجائے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کی فراخ دلی سے تعریف کرتے ہوئے جنرل باجوہ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ فاضل سینیٹر نے بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہا کہ پاکستانی جرنیل دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہیں اور پاک فوج نے 18 ماہ میں وہ کام کردیا ہے جس کی امریکہ کو 18 سال سے خواہش تھی۔ جب ایک صحافی نے اُن سے پوچھا کہ جنرل باجوہ نے گزشتہ 18 ماہ میں ایسا کیا کیا ہے کہ جس کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں امریکہ کے تاثرات (Perception) یکسر تبدیل ہوگئے ہیں؟ تو سینیٹر صاحب نے No Comments کہہ کر موضوع تبدیل کرلیا۔ سینیٹر گراہم نے یہ بھی فرمایا کہ وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں امریکہ کے لیے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کا اچھا موقع ہے۔ اپنے لہجے میں مزید مٹھاس پیدا کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان نے معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا تو امریکہ پاکستان کی حمایت کرے گا۔
چند ماہ پہلے تک یہی حضرت پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست اور امریکہ کی پشت میں چھرا گھونپنے والا قرار دے رہے تھے۔ سینیٹ میں پاکستان کے خلاف ہر قرارداد کی سینیٹر لنڈسے گراہم نے پُرجوش حمایت کی۔ اِس وقت بھی ایوانِ زیریں کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور میں ایک قرارداد زیرغور ہے جس میں پاکستان کا غیر نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ریاست ایریزونا سے ری پبلکن پارٹی کے متعصب رکن کانگریس اینڈی بگس (Andy Biggs)کی جانب سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کو ایوان کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ نہیں ہوا، اور افغانستان کے حوالے سے بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں اس کے منظور ہونے کا کوئی امکان بھی نہیں۔
اور تو اور اب خود صدر ٹرمپ پاکستان کی تعریف کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، حالانکہ اگست 2017ء میں جب انھوں نے افغانستان کے بارے میں جارحانہ عسکری پالیسی کا اعلان کیا اُس وقت ان کے خطاب کا مرکزی نکتہ ہی یہ تھا کہ امریکہ سے اربوں ڈالر لینے والے پاکستان کی بے وفائی نے افغانستان میں امریکی افواج کو مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ اپنے مخصوص انداز میں دانت پیستے ہوئے انھوں نے پاکستان کو ناقابلِ اعتماد ملک قرار دیا تھا۔
اس بار نئے سال کے پہلے ٹویٹ پیغام میں بھی امریکی صدر نے پاکستان کا ذکر انتہائی حقارت سے کیا۔ انھوں نے کہاکہ گزشتہ 15 برسوں میں امریکی صدور نے احمقانہ طور پر پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی خطیر امداد دی، لیکن اس کے جواب میں پاکستان نے امریکہ کو جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس ٹویٹ کے بعد اقوام متحدہ میں امریکہ کی سابق مستقل مندوب نکی ہیلی نے اعلان کیا کہ امریکہ پاکستان کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں مختص 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی رقم روک رہا ہے اور جب تک پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں عملی قدم نہیں اٹھاتا اُسے ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملے گی۔
صدر ٹرمپ پاکستان کی جملہ امداد ختم کرنے کے ساتھ یہ دھمکی بھی دے گئے کہ پاکستان کو اس دوغلے پن کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اس کے ساتھ ہی امریکی دارالحکومت میں یہ خبر بھی عام ہوگئی کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے خلاف تادیبی کارروائیوں پر غور کررہی ہے تاکہ پاکستان کو دہشت گرد گروپوں کے مبینہ محفوظ ٹھکانے ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اُس وقت بہت سے عسکری ماہرین نے شک ظاہر کیا کہ شاید طالبان کے خلاف کارروائی کے نام پر افغانستان میں تعینات امریکی فوج پاکستان کے خلاف مہم جوئی کا مظاہرہ کرے گی جس کے لیے امریکی جرنیل گرم تعاقب یا Hot Pursuit کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اب صورت حال بالکل تبدیل ہوچکی ہے اور امریکی صدر کی ہر تقریر پاکستان کے لیے مہرومحبت سے معمور ہوتی ہے۔
اس تبدیلی کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ہر قیمت پر افغانستان سے اپنی فوج کو واپس بلانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے جرنیلوں کو فیصلہ کن فتح کے لیے ایک سال، مکمل اختیار اور بھاری رقم دی تھی، لیکن اس دوران طالبان کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی۔ 5 فروری کو اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں بھی انھوں نے اس دلدل کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایک عظیم الشان اقتصادی معجزہ انگڑائی لے رہا ہے، لیکن اگر احمقانہ جنگیں ختم نہ ہوئیں تو ترقی کے ثمرات سے عوام مستفید نہیں ہوسکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عظیم قومیں کبھی ختم نہ ہونے والی جنگیں یا end- less war نہیں لڑتیں۔
افغان تنازعے کے حل کے لیے پاکستان کے اہم کردارکے تناظر میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں مثبت پیش رفت کے ضمن میں ایک نیا انکشاف یہ بھی سامنے آیا کہ امداد کی معطلی کے اعلان کے باوجود امریکہ اور پاکستان کے درمیان کچھ حد تک فوجی تعاون گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ سینیٹ میں سماعت کے دوران جنرل ووٹل نے بتایا کہ امریکہ کے لیے پاکستان کی اہمیت صرف افغان تنازعے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ جوہری صلاحیت اور اس کا محلِ وقوع بے حد اہم ہے۔ افغانستان، چین، بھارت اور ایران اس کے پڑوس میں ہیں جبکہ روس بھی بہت زیادہ دور نہیں۔ اس تناظر میں امریکہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔
امریکہ کے سفارتی و عسکری ماہرین اور مراکزِ دانش کا خیال ہے کہ امریکہ اور بھارت کی جانب سے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان چین اور روس کے قریب ہوگیا ہے جو امریکہ کے لیے اچھی خبر نہیں۔ دوسری طرف امریکہ سے قریبی تعلقات کے باوجود بھارت اپنی خودمختاری برقرار رکھنے کے لیے روس اور ایران سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ دہلی نے روس سے S-400 میزائیل خریدنے کا معاہدہ کیا ہے اور اب وہ سعودی عرب و کویت کو چھوڑ کر ایران سے تیل خرید رہا ہے۔ امریکیوں کو بھارت کا وکٹ کے چاروں طرف کھیلنا پسند نہیں، جس کی بنا پر واشنگٹن پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے۔
دوسری طرف توہین آمیز رویّے اور کھلی تحقیر کے باوجود اسلام آباد میں امریکہ سے اچھے تعلقات کی خواہش نمایاں ہے۔ بے عزتی اور دہشت گردی کے مکروہ الزامات کے بعد مثبت اشارے ملتے ہی پاکستانی قیادت وارفتگی و سپردگی کے نشے سے سرشار و نہال نظر آرہی ہے۔ گویا ’اس طرف ہے گرم خوں اور ان کو عاشق کی تلاش‘ والا معاملہ ہے۔ دنیا کی بڑی طاقت کو دشمن بنانا دانش مندی نہیں، اور امریکہ سے تعلقات میں بہتری پاکستان کے مفاد میں ہے، لیکن چچا سام کی خوشنودی کے ہونکے میں وزیر خارجہ جو بیانات جاری کررہے ہیں ان سے بے صبری صاف جھلک رہی ہے۔
اپنے لندن کے دورے میں انھوں نے بعض ایسے بیانات جاری کیے جن میں نہ صرف خوشامدکا پہلو نمایاں تھا بلکہ وہ خلافِ حقیقت بھی تھے۔ مثلاً انھوں نے فرمایا کہ ’’افغانستان کا قابلِ ذکر حصہ طالبان کے کنٹرول میں نہیں‘‘، یا یہ کہ ’’افغانستان سے جلدبازی میں فوجی انخلا خطرناک ہوگا‘‘۔ ’’افغانستان میں دیرپا امن کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مصالحت ضروری ہے‘‘۔ اسی کے ساتھ انھوں نے یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ عمران خان ہی کے کہنے پر صدر ٹرمپ طالبان سے مذاکرات پر رضامند ہوئے ہیں۔
امریکیوں کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ امریکی قیادت سے قربت پاکستانی رہنمائوں کی کمزوری ہے۔ پرویزمشرف بہت فخر سے کہا کرتے تھے کہ ان کے پاس صدر بش کا ذاتی موبائل نمبر ہے اور وہ جب چاہیں امریکی صدر سے براہِ راست بات کرلیتے ہیں۔ پاکستانی وزیرخارجہ سے اپنی حالیہ ملاقاتوں میں مائک پومپیو، زلمے خلیل زاد، سینیٹر لنڈسے گراہم اور دوسرے امریکی اہلکاروں نے عمران خان کی فراست و معاملہ فہمی کی نہ صرف خوب تعریف کی بلکہ قربت کا اظہار کرتے ہوئے آئی ایم ایف اور دوسرے معاملات میں امریکی حمایت کا یقین دلایا۔ نوازشات کے اس ٹوکرے کے عوض افغانستان کے معاملے پر پاکستان کی جانب سے مکمل تعاون مطلوب ہے کہ افغان تنازعے کے پُرامن حل کے لیے امریکہ پاکستان کے کردار کو اہم خیال کرتا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان براہِ راست بات چیت میں پاکستان کے کردار کی تعریف و شاباش کے ساتھ یہ بات بھی قریشی صاحب کو گوش گزار کرادی گئی کہ واشنگٹن کو پاکستان سے مزید ٹھوس اقدامات کی توقع ہے۔
ٹھوس اقدامات سے امریکہ کی مراد طالبان کو افغان حکومت سے براہِ راست بات چیت پر مجبور کرنا ہے، جو نہ قریشی صاحب کے بس میں ہے اور نہ پاکستانی وزیراعظم کے۔ جنگ کے میدان اور مذاکرات کی میز دونوں جگہ طالبان کو برتری حاصل ہے، اور اب ماسکو مذاکرات کے بعد کابل انتظامیہ افغانستان میں بھی تنہا رہ گئی ہے۔ افغانستان کی تینوں بڑی جماعتیں یعنی حزبِ اسلامی، حزبِ وحدت اور جمعیتِ اسلامی کے نمائندوں کے علاوہ سابق صدر حامد کرزئی ماسکو کانفرنس میں موجود تھے، جنھوں نے کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے ہیں۔ اب پاکستان کے لیے طالبان کو کابل حکومت سے بات چیت پر آمادہ کرنا مزید مشکل ہوگیا ہے۔ کیا قریشی صاحب امریکہ کو ’ناراض‘ کیے بغیر یہ حقیقت چچا سام کو بتا پائیں گے؟
کانوں میں شہد گھولتے لہجے اور نرم وملائم گفتگو کو اسلام آباد پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہے، حالانکہ مقربین کو مطالبے کی نئی فہرست تھمانے سے پہلے یہ تبسم و تکلم چچا سام کی عادت بلکہ فطرت ہے۔ یقین نہ آئے تو 1985ء میں پروفیسر برہان الدین ربانی کی زیرِ قیادت وہائٹ ہائوس آنے والے افغان رہنمائوں سے آنجہانی صدر ریگن کی ملاقات، اور اس موقع پر سابق امریکی صدر کے ’سپاس نامے‘ کا ٹیپ سن لیجیے۔
………٭٭٭………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔