آج پاکستانی میڈیا اور میڈیا سے وابستہ اخبار نویس جس بحران سے دوچار اور دباؤ کا شکار ہیں، اس پر اخبارات و جرائد کے ایڈیٹرزکی نمائندہ تنظیم کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر ممتاز صحافی اور معروف اینکرپرسن جناب عارف نظامی نے لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چند روز قبل کہا تھا کہ ’’آج پاکستان کا پورا میڈیا ’’ہاؤس اریسٹ ہے‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پورے میڈیا پر اس نوعیت کا کڑا وقت اس سے قبل کبھی نہیں پڑا۔ میڈیا پر دباؤ کے حوالے سے عامل صحافیوں کی پیشہ ورانہ تنظیموں کے تمام گروپوں، ایڈیٹرز کی کونسل اور اخبارات و جرائد کے مالکان کی نمائندہ تنظیم اے پی این ای کا مؤقف ایک ہے۔ اب اس مؤقف کی تائید سپریم کورٹ کے اس تاریخ ساز فیصلے نے بھی کردی ہے جو سپریم کورٹ کے جناب جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے فیض آباد دھرنا کیس کے اَزخود نوٹس میں 6فروری 2019ء کو جاری کیا ہے۔
34 صفحات پر مشتمل جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تحریر کردہ یہ فیصلہ اگرچہ فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق ہے، مگر اس فیصلے میں میڈیا پر ریاستی اداروں اور غیر ریاستی اداروں کی طرف سے پڑنے والے دباؤ کا بھی ذکر ہے، اور اُن ہتھکنڈوں کا بھی جو دباؤ کے لیے اختیار کیے گئے اور کیے جاتے ہیں۔ اس فیصلے میں ’جیو‘ اور ’ڈان‘ نیوز کی نشریات سے کنٹونمنٹ اور ڈی ایچ اے کے علاقوں میں مقیم شہریوں کو محروم رکھے جانے کا ذکر بھی ہے اور ان علاقوں میں ’ڈان‘ اخبار کو تقسیم نہ ہونے دینے کا بھی۔ فاضل عدالت نے اس فعل کو آئینِ پاکستان کے منافی اور اس کے تحت اُٹھائے جانے والے حلف کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
میڈیا کی موجودہ صورتِ حال پر سلیم احمد (مرحوم) کا یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے کہ:
کوئی نہیں جو پتا دے دلوں کی حالت کا
تمام شہر کے اخبار ہیں خبر کے بغیر
یوں تو پاکستان میں 1958ء کے پہلے مارشل لا کے بعد سے کبھی بھی آزاد صحافت کرنا آسان نہ تھا، تاہم گزشتہ کئی عشروں سے صحافت اور صحافتی ادارے ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کے جبر کے مکمل شکنجے میں بُری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ تب ہی تو آج کی صحافت ’بیان یاتی‘ ہوکر رہ گئی ہے۔ نوّے کے عشرے میں جناب میر خلیل الرحمن (مرحوم) نے بجا طور پر کہا تھا کہ ’بیان یاتی صحافت‘ نے سب سے زیادہ نقصان اُن اخبارات کو پہنچایا ہے جو سب سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ انہی پر زیادہ دباؤ پڑتا ہے کہ وہ ’خبر‘ کے بجائے ان کے بیانات کو اپنے ہاں زیادہ نمایاں جگہ دیں۔ پاکستانی میڈیا اور میڈیا سے وابستہ وہ ورکنگ جرنلسٹ ہوں یا وہ مالکان جنہوں نے صحافت کو بطور ’کیریئر‘ اختیار کیا، اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود آزاد صحافت کے ’علَم‘ کو تھامے ہوئے ہیں، انہی کے عزم اور حوصلوں نے سچائی جاننے اور عوام کے سامنے حقائق پیش کرنے کے مشن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ میڈیا کو دباؤ سے آزاد کرنے کے لیے سپریم کورٹ نے ’دھرنا کیس کے فیصلے‘ میں واضح ہدایت دے دی ہے۔ اس پر عمل درآمد کرنا حکومت سمیت ریاست کے تمام اداروں کی آئینی ذمّہ داری بھی ہے اور عافیت کا راستہ بھی یہی ایک ہے۔ میڈیا سے وابستہ سب ہی لوگوں کو اپنے اندر ’خود احتسابی‘ کے نظام کو عملی طور پر بروئے کار لانا پڑے گا جس کے کمزور ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں ’’بیان یاتی اور مفاداتی صحافت کرنے والی مخلوق غالب ہوتی ہے‘‘۔ صحافت کو بطور کیریئر اختیار کرنے والے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران اس ضابطۂ اخلاق پر کاربند رہنے کے پابند ہیں جسے دُنیا بھر کے آزاد اور غیر جانب دار میڈیا سے وابستہ صحافی اور اُن کی پیشہ ورانہ تنظیمیں تسلیم کرتی ہیں۔ جس کے مطابق وہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند، سیاسی و نظریاتی نقطۂ نظر، اور مذہبی رجحانات سے قطع نظر کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے حق یا مخالفت میں ایکٹوسٹ نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ وہ کسی ایک جماعت کو پسند اور کسی دوسری جماعت سے اختلاف تو رکھ سکتا ہے، مگر اپنے اختلاف کو کسی کی دشمنی کے لیے وجۂ جواز نہیں بنا سکتا۔ تاہم وہ اپنے گرد و پیش رونما ہونے والے واقعات سے نہ تو بے خبر رہ سکتا ہے اور نہ ہی کسی واقعہ کی رپورٹنگ، تجزیے یا تبصرے میں ان زمینی حقائق کو نظرانداز کرسکتا ہے جو اس کے سامنے پیش آتے ہوں، یا اس کی تحقیق یا مصدقہ ذرائع سے اس کے علم میں آئے ہوں۔ قائداعظمؒ نے درست فرمایا تھا کہ ’’صحافت ایک عظیم طاقت ہے جو فائدہ بھی پہنچا سکتی ہے اور نقصان بھی۔ اگر یہ صحیح نہج پر ہو تو اس سے رائے عامّہ ہموار کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے‘‘۔ خود قائداعظمؒ نے حصولِ پاکستان کی تاریخ ساز جدوجہد میں مسلم میڈیا کو فعال، متحرک اور منظم کرکے مسلمانانِ برِّصغیر کو آل انڈیا مسلم لیگ کے حق میں ہموار کیا تھا۔ قائداعظمؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے زیرِ اہتمام اخبارات و جرائد کا اجرا بھی کیا اور دوسرے اخبارات و جرائد کو مسلم لیگ کے مؤقف کی حمایت کرنے پر رضامند بھی کیا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے ترجمان کے طور پر ایک ہفت روزہ جریدہ ’منشور‘ کا اجرا کیا جو بعد ازاں روزنامہ ہوگیا تھا۔ اس طرح اکتوبر 1940ء میں انگریزی میں پہلے ہفت روزہ ’ڈان‘ کا اجرا کیا، جسے 12 اکتوبر 1942ء کو روزنامہ ’ڈان‘ کے طور پر شائع کرنا شروع کیا۔ قائداعظمؒ کے نزدیک میڈیا کی کیا اہمیت تھی، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے زیرِ اہتمام جاری ہونے والے اخبارات کے انتظامی معاملات کی نگرانی میں ذاتی طور پر دلچسپی لیتے تھے۔ ’منشور‘ کے حوالے سے ’منشور‘ کے ایڈیٹر سیّد حسن ریاض (مرحوم) سے ہونے والی طویل خط کتابت اس کی غماز ہے۔ قائداعظمؒ نے صرف مسلم لیگ کے زیرِ انتظام شائع ہونے والے اخبارات و جرائد پر ہی توجہ نہیں دی تھی بلکہ پورے ہندوستان میں شائع ہونے والے مسلمانوں کے اُن تمام اخبارات و جرائد کی حمایت حاصل کرنے پر بھی توجہ دی جو انگریزی، اُردو، بنگالی، سندھی، پشتو یا دیگر علاقائی زبانوں میں شائع ہوتے تھے۔ قائداعظمؒ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کی مسلسل اور اَنتھک جدوجہد کے نتیجے میں پورے ہندوستان کا کوئی صوبہ اور کوئی بڑا شہر ایسا نہ تھا جہاں سے پاکستان کے حصول کی جدوجہد کی حمایت کرنے والا اخبار یا جریدہ شائع نہ ہوتا ہو۔ قائداعظمؒ کی مساعی سے اورینٹ پریس آف انڈیا کے نام سے مسلمانوں کی ایک خبر رساں ایجنسی، اور دہلی میں مسلم جرنلسٹ فیڈریشن بھی قائم ہوئی تھی۔ مئی 1947ء میں دہلی کے اینگلو عربک کالج کے ہال میں آل انڈیا مسلم نیوز پیپر کنونشن منعقد ہوا تو اس میں ہندوستان بھر سے آئے ہوئے 54 اخبارات و جرائد کے مدیران نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن کا افتتاح آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل نواب زادہ لیاقت علی خان نے کیا تھا۔ اس حوالے سے ’قائداعظمؒ اور مسلم اخبارات کا اجرا‘ کے عنوان سے کئی برس قبل تحریکِ پاکستان اور قائداعظمؒ پر تحقیق کرنے والے معروف محقق خواجہ رضی حیدر نے تفصیلی مضمون لکھا تھا۔ معلوم نہیں کہ وہ کتابی شکل میں شائع ہوا ہے یا نہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد چلنے والی تمام تحریکوں میں بھی پاکستانی میڈیا نے اہم رول ادا کیا ہے۔ خود جو ادارے اور جو جماعتیں آج آزاد میڈیا کو اپنا تابع مہمل بنانے کے خبط میں مبتلا ہیں، ان کی مثبت امیج بلڈنگ میں آزاد میڈیا نے ہی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے میڈیا کو ہاؤس اریسٹ سے رہائی دی جائے اور اُن قوتوں اور افراد کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے جو میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نئی قانون سازی کے ذریعے اسے ہاؤس اریسٹ سے پسِ دیوارِ زنداں ڈالنے کے خواہش مند ہیں۔