تکمیل تاریخ کا مقدّمہ ، تاریخ کا آغاز کیسے ہوا؟ مغربی تاریخ کا لاعلمی

ہر انسان، خاندان، معاشرے، قوم، اور تہذیب کا بنیادی اور فطری حق ہے کہ تاریخ سے اتنی آگاہ ہو یا کی جائے، کہ حال کی حکمت اور مستقبل کی راہِ عمل طے کرسکے۔ اگر یہ بنیادی اور فطری حق حاصل نہ ہو، توکائنات اور انسان کا وجود نامکمل اور بے معنی ٹھیرے گا۔ زندگی کی تصویر نامکمل رہے گی، ناقابلِ فہم رہے گی۔
مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کائنات اور انسان دونوں نہ صرف بامعنی اور بامقصد ہیں، بلکہ تاریخ سے شعوری، لاشعوری طور پر وابستہ اور آگاہ بھی ہیں۔ وہ کیسے؟ یہ سوال کچھ اور سوالوں کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ یوں ’تکمیل ِتاریخ‘ کا مقدمہ اور مدعا واضح ہوسکے گا۔ سوال یہ ہیں: تاریخ جاننے کے کون سے ذرائع انسانوں کو حاصل ہیں؟ ان ذرائع کی نوعیت کیا ہے؟ ان کے ماخذات اور کیفیات کیا ہیں؟کیا یہ ذرائع انسان کا بنیادی اور فطری حق ٹھیک ٹھیک ادا کرتے ہیں؟ اور یہ کہ، ان کے اثرات اور نتائج کیا ہیں؟
تاریخ سے آگاہی کے دو بنیادی ذرائع ہیں: ایک علمِ وحی، دوسرا انسانی علم۔ دیگرذرائع علم ان کی ذیل میں آتے ہیں۔ انسانی علم کے دائرے میںکم سے کم چھے اور زیادہ سے زیادہ دس ہزار سال کی تاریخ کسی قدر واضح ہوسکی ہے، اس دائرے سے باہر صرف اعدادو شمار، اندازے، مماثلتیں، ظن و قیاس اور آثار ہی آثار ہیں، اس کے علاوہ اربوں سال کا تخلیقی ارتقاء ہے، جس میں کوئی تسلسل کوئی ربط نہیں،کوئی یقینی بات کوئی یقینی علم نہیں۔ جبکہ علمِ وحی کی تاریخ زمان ومکاں کی وسعتوں پر محیط ہے۔ انسان کے لیے ماضی کی عبرت، مستقبل کی ہدایت، اور حال کی حکمت عملی ہے۔ یہاں کائنات کی تخلیق و توسیع کا بیان ہے، یہاں انسان کی پیدائش کا واقعہ ہے، قوموں کا ارتقاء ہے، تہذیبوں کا عروج و زوال ہے، زندگی کا آغاز ہے، زندگی کا انجام ہے، اور انسانی اعمال کی اہمیت اور جوابدہی ہے۔ اہلِ مذہب دونوں ذرائع استعمال کرتے ہیں، اوّل اور حتمی درجہ علمِ وحی کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اہلِ دنیا کا کُل انحصار انسانی علم وعقل پرہے۔
تاریخ کی تحقیق تین مراحل میں ذرائع کی صراحت کرتی ہے: براہِ راست Primary Source، بالواسطہSecondary Source، اور توضیحی وتجزیاتیTertiary Source۔ انسانی ذرائع ماخذات تک رسائی کے لیے آثارِ قدیمہ، غاروں کے نقش ونگار، قدیم برتنوں، دیو مالائی کہانیوں، رزمیہ داستانوں، اور سرکاری دستاویزات وغیرہ کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتے ہیں، ان کی عمر کا اندازہ لگاتے ہیں۔ نقش ونگار، تحریر، علامات، اور تاثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہر شعبہ متعلقہ چیزیں لے کر الگ ہوجاتا ہے، اور صرف اسی پہلو پر تحقیق کرتا ہے۔ اس طرح تاریخِ حیاتیات، تاریخِ فنون لطیفہ، تاریخِ مذاہب، اور تاریخِ اقوام وغیرہ وغیرہ مرتب ہوتی ہیں۔ تاریخ سے آگاہی کے جتنے بھی انسانی ذرائع ہیں، وہ چند ہزار سال ماضی تک بلاواسطہ اور بالواسطہ تعاون کرتے ہیں، تاریخ جوں جوں ہزاروں سے لاکھوں، کروڑوں، اور اربوں سال ماضی میں گُم ہوتی ہے، یہ ذرائع بھی یقین سے قیاس، اور قیاس سے گمان میں گُم ہوجاتے ہیں۔

یوں، انسانی علم کے ذرائع ان سوالوں کے جواب دینے میں یکسر ناکام ہیں، کہ کائنات کی اصل کیا ہے؟ انسان کی اصل کیا ہے؟ تمام موجودات کی اصل کیا ہے؟ تاریخ سے واقفیت کے جتنے انسانی ذرائع ہیں، وہ سب ’شاید‘، ’غالباً‘، ’تقریبا‘، اور ’اندازاً‘ پرانحصار کرتے ہیں۔ انسانی ذرائع کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ ہر دور کے انسانوں کی ضرورت پوری نہیں کرتے، یعنی جدید انسانی ذرائع ماقبل جدید اور قبل مسیح، اور ماقبل تاریخ کے انسانوں کی کوئی علمی مدد نہیں کرسکے، ان ادوار میں انسانی علم کا سکہ کہیں نہیں چلتا۔ اس کا کیا
مطلب ہوا؟ ان ادوار کے انسان اور معاشرے کیا تاریخ سے ناواقف ہی رہے؟ کیا اس دور سے پہلے انسانی تاریخ کا سارا سفر لاعلمی اور دورِ جہالت سے عبارت تھا؟
نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ بلکہ یہ سارا عہد انسانی تہذیبوں کی پیدائش اور تشکیل کا تھا۔ تاریخ کے عظیم الشان ابواب اسی دور میں رقم ہوئے۔ یقیناً تاریخ سے واقفیت کے ذرائع ہردور میں موجود رہے، مگر یہ ذرائع انسانی نہیں تھے، بلکہ مذہبی ذرائع تھے۔
علم وحی کے مراحل انبیاء، رسل اور ان کی تعلیمات، اہلِ ایمان، اور ابتدائی دو ذرائع کی تشریحات وتفاسیر، اور ان سے اخذ شدہ عقائد پر مبنی ہیں۔ یہاں عموماً یہ ہوا کہ علم وحی تیسرے مرحلے میں مسخ کیا گیا، اور پھر نئی نبوتوں اور رسالتوں کی ضرورتیں پیش آتی رہیں، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انسانی معاشرے طویل عرصے تک کسی بھی ہدایت یا تعلیم سے یکسر محروم رکھے گئے ہوں۔ یہاں تک کہ انسانی علم و تاریخ کی تکمیل کا فیصلہ آگیا۔ بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہوئی، اور قرآن حکیم نازل ہوا۔ انسانوں کا نظامِ حیات (دین) اسلام حتمی قرار دے دیا گیا۔ ماضی، حال اور مستقبل کی تواریخ، تعلیمات، اور حتمی ہدایات پہنچادی گئیں۔
مذہبی اور انسانی، دونوں ذرائعِ علم کا کُل انحصار ایمانیات پر ہے۔ انسانی علم عقل ومشاہدے، اور تجربے وحسیات پرایمان رکھتا ہے۔ جبکہ مذہبی ذرائع وحیِ الٰہی اور تعلیماتِ انبیاء پرایمان رکھتے ہیں، اور ان کا مکمل فہم بھی حاصل کرتے ہیں۔ ایک جانب فلسفی اور سائنس دان ہیں، دوسری جانب انبیاء ورسل،صالحین، اور حکماء ہیں۔ انسان پرستی کی عمر بہ مشکل پانچ صدیوں پر پھیلی ہے، جبکہ خدا پرستی آدم علیہ السلام تک، یعنی پہلے انسان سے شروع ہوتی ہے۔ یوں تکمیلِ تاریخ کا فہم علمِ وحی کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ قطعی طور پر جھوٹ ہے کہ سائنس کائنات یا انسان کی اصل سے مکمل طور پر واقف ہوچکی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، سائنس پرست صرف سائنسی طریقہ تحقیق پر ایمان رکھتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس میں بھی انہیں کوئی اختصاص حاصل نہیں۔ مسلمان حکماء (سائنس دان) اس معاملے میں بھی سیکڑوں سال مقدم رہے ہیں۔ جدید عملی سائنس کی بنیادیں عباسی بغداد اور مسلم اندلس میں رکھی گئی تھیں۔
عبدالرحمان ابن خلدون اسی عہد (پیدائش: 1332ء -وفات: 1406ء) سے تعلق رکھتے ہیں، وہ نہ صرف عالم اسلام کے مشہور و معروف مؤرخ، فقیہ، فلسفی اور سیاست دان تھے، بلکہ علمِ تاریخ نویسی، علمِ عمرانیات، اور علمِ معاشیات میں جدید اسلوب کے بانی ہیں۔ انہوں نے العبر کے نام سے مسلمانوں کی تاریخ لکھی تھی جو دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ مقدمۃ فی التاریخ ہے جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تاریخ، سیاسیات، عمرانیات، اقتصادیات اور ادبیات کا گراں مایہ خزانہ ہے، یہ مقدمہ تاریخِ عالم کی وہ نرسری ہے، جہاں سے بعد کے ہر اہم مؤرخ نے اکتسابِ علم کیا ہے۔ جدید سائنس کی طرح جدید تاریخ نویسی بھی تحقیق واسلوب میں ابن خلدون کی مرہونِ منت رہی ہے۔ تاریخ نویسی کے اس اولین عالم کی تاریخ ایک مذہبی محقق کی تاریخ ہے، جہاں علم وحی کا درجہ اوّلین ہے۔ اہلِ مذہب ہوں یا اہلِ دنیا، تاریخ نویسی کے لیے جب ابن خلدون کا رخ کرتے ہیں، تو علمِ وحی سے ہی بسم اللہ کرتے ہیں۔ جس کے بعد مقدمہ یوں شروع ہوتا ہے: ’’بندہ جو اللہ کا فقیر ہے اور اس کے لطف وکرم کا محتاج ہے، عبدالرحمان بن محمد بن خلدون حضرمی عرض پرداز ہے کہ ہر طرح کی تعریفیں اللہ جل شانہٗ کے لیے ہی ہیں۔ اصل میں عزت وکبریائی اس کی صفاتِ عالیہ ہیں۔ وہ ایسا عالم ہے کہ جس سے نہ سرگوشی کی باتیں پوشیدہ ہیں اور نہ وہ باتیں جن کو خاموشی چھپاتی ہے۔ وہ ایسا قادر ہے کہ آسمان و زمین کی کوئی چیز اسے عاجز نہیں کرسکتی، اور نہ اس کی قدرت سے کوئی شے باہر ہے۔ اس نے ہمیں جاندار مٹی سے پیدا کیا اور اسی نے ہمیں زمین پر نسلوں اور قوموں کی صورت میں بسایا۔ اسی نے ہمارے لیے روزیاں اور حصے آسان بنائے۔ ہمارے لیے فنا ہے، اور بقاء وپائیداری صرف اسی ربِ کائنات کو زیبا ہے۔ اصل میں وہی زندہ ہے، جسے موت نہیں۔‘‘
اہلِ دنیا کی تاریخ کا آغاز کس طرح ہوتا ہے، یہ اقتباس بھرپور ترجمانی کرتا ہے: ’’زندگی کا کہیں کوئی آغاز نہیں، اور اگر کوئی اختتام ہے تو ہماری نظر میں نہیں۔ ہم سب ہمیشہ سے درمیان میں ہیں، ہمارے سارے سلسلے لاپتا ہیں۔ ہمیں کوئی ایسا مقام نہیں ملتا، جہاں سے زندگی شروع ہوئی ہو۔ کہیں زندگی کا کوئی شرارہ نہیں ملتا… کسی زندگی کا کوئی تعین نہیں کیا جاسکتا۔ تمام مخلوقات کی چار جہتیں ہیں۔ سب خلاء میں معلق ہیں۔ وقت کے دھارے میں بہہ رہے ہیں۔ درحقیقت صرف وہی ٹھیرے ہوئے ہیں جو مُردہ ہیں۔ ہمارے آبا و اجداد کا وہ سلسلہ جو نامعلوم ماضی تک چلا جاتا ہے، اس سے پیچھے یہ دوٹانگوں والوں، اور پھر چوپایوں تک پہنچتا ہے، وہاں سے خطرناک درندوں میں جانکلتا ہے، اس سے پہلے یہ سمندری نباتات میں کہیں پایا جاتا ہے، اور پھر کسی سمندری چٹان میں منجمد ملتا ہے۔ بات چار ارب سال پیچھے چلی جاتی ہے۔‘‘
(Chapter One, Abrief History of Everyone Who Ever Lived by Adam Rutherford)
ایڈم رتھر فورڈ کا یہ اعترافِ لاعلمی، انسانی علم کی وہ کیفیت واضح کررہا ہے، جو جدید مغربی تواریخ پر طاری ہے۔ یہ بے معنویت اور بے مقصدیت سے عبارت ہے، جس کی کوئی تہذیبی بنیاد نہیں، کوئی معتبر پہچان نہیں، کوئی معزز مقام نہیں، کوئی آغاز کوئی انجام نہیں۔
دونوں ذرائع تاریخ کے ماخذات وکیفیات قدرے واضح ہیں۔ ان کے مابین تکمیلِ تاریخ کے تعین کا ایک اور مشاہداتی وتجربی طریقہ بھی ہے، وہ یہ کہ انسانی دنیا پر ان کے اثرات ونتائج کا جائزہ لیا جائے۔ آغاز سے پندرہویں صدی تک کا دور عظیم تہذیبوں کی پیدائش، بلوغت، اور استحکام کا ہے۔ یہ انسانی معاشرہ سازی کا تعمیری عہد ہے۔ یہ نظری و عملی علوم کی ترویج کا سنہرا دور ہے۔ جبکہ پندرہویں صدی سے اکیسویں صدی تک انسانی تہذیب مجموعی طور پر زوال پذیر ہے۔ انسان کی قدرو قیمت کچھ نہیں رہ گئی، مال پرستی اور سائنس پرستی نے تہذیب کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ پندرہویں صدی تک انسان کے مستقبل پر ایسی بے یقینی کا شائبہ تک نہ تھا، جو آج تمام تر نام نہاد ترقی کے باوجود اپنا بھرپور وجود رکھتا ہے۔
لہٰذا تکمیلِ تاریخ کا مقدمہ محض انسانی علم پرمستحکم نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ کسی بھی سوال کے اطمینان بخش جواب سے عاجز ہے۔ جبکہ علمِ وحی اور اس کا مکمل انسانی فہم ’تاریخ کی ضروری تفصیل ہر دور میں بہم پہنچاتا رہا ہے، اور قرآنِ کامل پر یہ مقدمہ مکمل ہوچکا ہے۔ یہ تاریخ کی تکمیل کا الٰہی اعلان ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہے، وہ علم قرآنی کی تشریح وتفسیرہے، بیان القرآن کی صراحت وتوضیح ہے۔ اب ہم جسے تاریخ کہتے ہیں، وہ صرف قرآن کی تفہیم و تفصیل ہے۔ تکمیلِ تاریخ کی تعریف اس کے سوا کچھ نہیں کہ جو کچھ علمِ وحی سے اکتسابِ علم ہو، اسے قابلِ فہم بنایا جائے،اور ہرانسان تک پہنچایا جائے۔