کہا جاتا ہے کہ دماغی صحت کے بغیر ایک مکمل صحت مند زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دماغی اور نفسیاتی بیماریاں اکثر اوقات جسمانی امراض کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ تحقیق کے مطابق پاکستان کی 20 کروڑ سے زیادہ آبادی میں تقریباً دو کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کے ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ ان میں ایک بڑا حصہ نوجوان اور کم عمر افراد کا ہے جن کی عمریں 13 سے 30 برس کے درمیان ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا فرد ذہنی دبائو (ڈپریشن) کا شکار ہے۔ پاکستان میں لوگوں پر ذہنی دبائو باقی دنیا سے چار یا پانچ گنا زیادہ ہے اور نفسیاتی امراض ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل نے موضوع کی حساسیت اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’نفسیاتی امراض: اسباب اور سدباب‘‘ کے عنوان سے ایک فورم کا اہتمام کیا جس کے شرکاء میں… پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کے صدراور معروف ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی، جو جناح اسپتال کراچی اور جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات و علوم رویہ جات (Behavioral Science) کے سربراہ بھی ہیں، ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر رضا الرحمن جو پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور شعبہ نفسیات ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کراچی کے سربراہ بھی رہے ہیں، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر واش دیو ادارۂ علوم رویہ جات ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کے موجودہ سیکریٹری اطلاعات بھی ہیں، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جمیل جونیجو پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کے سابق خازن رہے، اور اس وقت سوسائٹی کے صوبائی سیکریٹری ہیں، ساتھ ہی سر کائوس جی جمشید انسٹی ٹیوٹ آف سائیکاٹری حیدرآباد میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں… شامل ہیں۔پروگرام کی میزبانی سینئر صحافی جہانگیر سید نے اپنے مخصوص ،دلچسپ اور منفرد انداز میں کی۔ فورم کے شرکاء کے گراں قدر خیالات نذرِ قارئین ہیں۔
ڈاکٹر پروفیسر اقبال آفریدی
(سربراہ شعبہ نفسیات و علوم رویہ جات)
اگر ہم پاکستان میں نفسیاتی امراض کی صورت حال پر طائرانہ نظر ڈالیں تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے یہاں نفسیاتی مسائل اور بیماریاں خاصی زیادہ ہیں، جبکہ معالجین کا تناسب انتہائی کم ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 34 فیصد افراد یعنی ہر تیسرا فرد انگزائٹی ڈپریسو ڈس آرڈر (ذہنی بے چینی اور دبائو) کا شکار ہے (اس میں منشیات شامل نہیں ہے)۔ شیزوفرینیا کا شکار ایک فیصد، اور دو سے تین فیصد ذہنی پسماندہ لوگ ہیں۔ دوسری بیماریاں یعنی پرسنالٹی ڈس آرڈر (منتشر شخصیت) اور بچوں کی نفسیاتی بیماریاں ان میں شامل نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں نفسیات کے پانچ سو ماہرین ہیں جن میں سے رجسٹرڈ سائیکاٹرسٹ 445 ہیں۔ پاکستان میں تو ماہرین نفسیات پانچ سو کے لگ بھگ ہیں لیکن پاکستانی ماہرین نفسیات جو دنیا بھر میں کام کررہے ہیں ان میں سے 1400 صرف برطانیہ اور امریکہ میں ہیں۔ پھر اس پر مستزاد پاکستان کی زیادہ تر آبادی بچوں پر مشتمل ہے۔ بچوں کے ماہرین نفسیات اِکا دُکا ہی ہیں، ایک کراچی میں ہے تو ایک لاہور میں ہے، جبکہ ایک اسلام آباد میں ہے۔ دوسری طرف ٹیچر ٹریننگ کی سہولت کے حساب سے الحمدللہ پہلے کے مقابلے میں چیزیں بہتر ہورہی ہیں۔ کالج آف فزیشن اینڈ سرجن میں ایم سی اور ایف سی شروع ہوچکا ہے۔ اس وقت ہماری ضرورت نو ہزار ماہرین نفسیات ہیں۔ شعبہ نفسیات کے ماہرین اور سماجی کارکن بھی چاہئیں۔ لیکن ہماری رفتار بہت سست ہے۔
نیشنل ڈیٹا پر بھی ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی نے اس پر کام شروع کردیا ہے۔ ڈاکٹر رضا الرحمن نے بھی اس پر کام کیا ہے۔پہلے تعلیم کی کمی کی وجہ سے لوگ جن، بھوت کے چکر میں پھنس جاتے تھے، اب ایسے واقعات بہت حد تک کم ہوگئے ہیں۔ ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن اور میڈیکل کالجوں میں صورت حال یہ ہے کہ پی ایم ڈی سی نے تجویز دی ہے کہ جہاں پر 20 بستروں کی سہولت نہیں ہوگی وہ میڈیکل کالج منظور شدہ نہیں ہوگا۔ چند روز قبل ہم نواب شاہ گئے تھے، وہاں دیکھا کہ اتنی بڑی یونیورسٹی بنی ہوئی ہے لیکن اس میں نفسیات کا وارڈ ہی نہیں ہے۔ پہلے وارڈ تھا جو ختم کردیا گیا۔ اس وقت پاکستان تمام 109 اضلاع میںسائیکیٹری کی سہولت ہونی چاہیے۔ یہ سہولیات بہت سے ضلعوں میں نہیں ہیں، اس وجہ سے معاملات گمبھیر ہوکر ہمارے پاس آتے ہیں۔ ہمارے اسپتالوں کا ریفر سسٹم کمزور ہے، ہم چاہتے ہیں کہ الگ تھلک نہ رہیں، اجتماعی سہولت کے تحت ان بیماریوں کی روک تھام اور علاج کے لیے کام کریں۔
خاص بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ماہرین نفسیات کا کردار پاگلوں کا علاج کرنا سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ماہر نفسیات کا کردار ذہنی صحت کے لیے بہت مثبت ہوتا ہے یعنی بچوں کی نفسیات کیسی ہو، پڑھائی کیسے ہو، گفتگو کا سلیقہ کیا ہو، کس طرح سے ایک دوسرے کو برداشت کیا جائے، ایک دوسرے کے لیے آسانی پیدا کریں تاکہ ہم اچھے شہری بن سکیں۔ اچھی ذہنی صحت ہوگی تو اقتصادیات اچھی ہوگی، مقدمات بھی کم ہوں گے، لوگ کام کریں گے۔ اس لحاظ سے ہمیں کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ذہنی صحت کے بغیر ہماری صحت ادھوری ہے، یعنی انجن کے بغیر گاڑی بے کار ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومتی، این جی او اور عوامی سطح پر اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔
انڈر گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ سطح پر بھی یہ کام ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ صحت کی جو سہولیات دستیاب ہیں ان میں 28 فیصد بوجھ نفسیاتی بیماریوں کا ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ادارے بڑے ہونے چاہئیں جن میں مختلف شعبے ہوں، شعبوں کو ترقی دینا چاہیے۔ اگر اداروں کے لیے بجٹ نہیں ہوگا، ماہرین اور عملہ کی ضروری تعداد فراہم نہیں کی جائے گی یا ان کی ترقی نہیں ہوگی تو ہم اہداف اور مقاصد کو حاصل نہیں کرسکیں گے۔ قانون سازی کے حوالے سے سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ ہر صوبے کا مینٹل ہیلتھ ایکٹ ہو، اور پھر یہ کہ اس کی اتھارٹی بننے میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ سندھ نے اس سلسلے میں پہل کی، لیکن اس کی بجٹنگ تاحال نہیں کی جاسکی ہے۔ ذہنی بیماریوں کے علاج کے نام پر زیادتیاں ہوتی ہیں۔ خاص طور پر عامل ہیں جو جعلی علاج کررہے ہیں۔ جب کہ قانون کے تحت اگر کسی مریض کو جسمانی، نفسیاتی یا جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تواِس پر نہ صرف پانچ سال قید کی سزا بلکہ 50 ہزار جرمانہ بھی ہے۔ لہٰذا قوانین تو بن گئے لیکن ان پر عمل تب ہوگا جب اتھارٹی بنیں گی۔ سندھ کی مینٹل ہیلتھ اتھارٹی نے بڑا کام کیا ہے، ہارون صاحب کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ اسی وارڈ میں ہم نے پروگرام کیا تھا جس میں ہم نے حکومت کو 13 نام دیے کہ کوئی بھی 7 نام لے لیں اور اتھارٹی بنادیں، جس پر اتھارٹی بنادی گئی۔
اتھارٹی کے اندر پھر تبدیلی کی گئی، جو سیکشن 49 کے تحت حکومتِ سندھ نے کی۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ کوئی شخص اگر خودکشی کرتا تھا تو اس کو سزا ہوتی تھی، اب سندھ ایکٹ میں تبدیلی کردی گئی لیکن اس پر بجٹ اور قواعد و ضوابط کے بغیر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ ہمارا پروگرام طے ہے، لیکن دوسرے صوبوں میں ابھی تک مینٹل ہیلتھ اتھارٹی بنی ہی نہیں۔ جب تک اتھارٹی نہیں بنے گی، فیصلے غلط ہوں گے۔
ہم یہ بتاتے چلیں کہ پورے پاکستان میں کوئی فارنسک سائیکاٹرسٹ نہیں ہے، جبکہ میرے اپنے شاگرد اب آسٹریلیا میں کام کررہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ مریضوں کی دیکھ بھال پر ہمیں دھیان دینا ہے تاکہ بیماریوں کی روک تھام کی جا سکے۔ اس سلسلے میں ابتدائی نفسیاتی امداد کو فروغ دینا ہوگا تاکہ مریضوں کی تعداد کم ہو، بیماریوں سے متعلق آگاہی فراہم کریں۔
تیسرا نکتہ یہ تھا کہ ہم ٹیچر ٹریننگ کو بہتر سے بہتر بنائیں۔ چوتھا نکتہ تھا کہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ ہو، ریسرچ کے لیے پاکستان میں صحیح اعداد و شمار نہیں ہیں، اس کی تفصیلات پروفیسر رضا الرحمن بتائیں گے کہ کس طرح سے ہمیں کوئی فنڈ نہیں ملا، خود کیسے حاصل کیا اور استعمال کیسے کررہے ہیں۔ ہم نے اعلیٰ کمیشن سے رابطہ کیا ہے، اس پر کام چل رہا ہے۔ ڈاکٹر رضا الرحمن نے اپنی ذاتی حیثیت میں ہم سے مل کر کانفرنس کی، اس سے جو پیسے بچے ان کو ہم ریسرچ میں استعمال کریں گے۔ ہم چاہ رہے ہیں کہ پالیسی سازوں کو آمادہ کریں کہ وہ ہمیں تحقیقی اور ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈ فراہم کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آٹھویں کلاس میں ذہنی بیماریوں اور منشیات سے بچاؤ کا سبق شامل کروائیں، اس طرح بہت سارے مسائل حل ہوں گے۔ آخر میں ہم چاہتے ہیں کہ عالمی دماغی صحت پر بات کریں اور خوش قسمتی سے پاکستان کے سائیکاٹرسٹ افضل جاوید ورلڈ سائیکاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر منتخت ہوئے ہیں، ہم ان سے قربت بنانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ مل کر تھیمیٹک کانفرنس کرائی جاسکے جس میں بیرونی ممالک کے لوگ آئیں اور ہمارے لوگوں کو تربیت دیں۔ ہم اس فیکلٹی میں بہت کمزور ہیں۔
جناح اسپتال سے 160 لوگ تربیت حاصل کرکے ڈاکٹر بنے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چوتھا آدمی ہمارے ادارے سے تعلیم و تربیت یافتہ ہے۔ اس وقت ہمارے پاس ساٹھ سے کم سپروائزر ہیں اور سات سو لوگ ایف سی پی ایس کررہے ہیں، یعنی ایک ڈاکٹر 12 لوگوں کی تربیت کررہا ہے۔ اب تو ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ جناح اور سول اسپتال میں ٹریننگ کرے۔ہم نے پیشہ ورانہ اخلاقیات پر بھی کام شروع کیا ہے۔ ایک اور اچھی چیز ہمارے اسپتال میں یہ ہوئی ہے کہ ہم نے یہاں ہاؤس جاب شروع کی ہے۔ اس میں انتظامیہ نے ہمارا بڑا ساتھ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ انجینئرنگ پر بھی ہاؤس جاب ہونی چاہیے۔
پروفیسر ڈاکٹر رضا الرحمن
(سابق سربراہ شعبہ نفسیات ڈائو میڈیکل یونیورسٹی)
میڈیکل کی تعلیم و تربیت ایک سائنس ہے، یہ ایک مہارت ہے۔ پوری دنیا اور پاکستان میں اس مہارت کا سہرا کالج آف فزیشن کو جاتا ہے کہ انہوں نے پہلے اس طرف قدم اٹھایا۔ پاکستان میں پچھلے 20 سال میں میڈیکل ایجوکیشن میں ایک ریگولیشن پاس ہوا ہے۔ میں آپ کو اپنی مثال دوں کہ ڈاکٹر اقبال اور میں جب میٹرک اور انٹر میں پڑھتے تھے تو اسی طرح کا طریقہ تعلیم تھا۔ یعنی چیزیں پڑھتے تھے، رٹتے تھے، یاد کرتے تھے، جبکہ میڈیکل ایجوکیشن نے وہ تصور تبدیل کیا ہے۔ اب دیگر میدانوں کے مقابلے میں صرف طبی تعلیم ہے جوکہ اس وقت پوری دنیا میں اعلیٰ معیار پر پوری اتر رہی ہے، اس میں معلومات سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ اپنے علم کو کس طرح استعمال کرنا ہے، مریض کے ساتھ آپ کیسے بہتر طریقے سے پیش آئیں گے۔ جو ڈاکٹر بنیں وہ ایسے ہوں کہ مرض کی بہتر تشخیص کریں اور مریضوں کی مدد کریں۔ اس میںبنیادی تبدیلی پوسٹ گریجویشن میں آئی ہے اور اب انڈرگریجویشن کے نصاب میں بھی بنیادی تبدیلی لائی گئی ہے۔ میں ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کا ڈائریکٹر میڈیکل ایجوکیشن رہا ہوں، وہاں پر ہم نے نصاب تبدیل کیا ہے۔ اب وہاں پر طلبہ کو اس طرح سے نہیں پڑھاتے کہ ان کا علم بڑھے، بلکہ اس طرح پڑھاتے ہیں کہ ان کی تخلیقی سوچ بڑھے، مسائل کے حل کی صلاحیت بڑھے اور مریض کے حوالے سے ان کی قوتِ فیصلہ بہتر ہو۔ ان ساری کوششوں سے عملاً فرق پڑا ہے۔ اس میں میڈیکل ایجوکیشن کے کچھ لوگ ہیں، وہ کام کررہے ہیں۔ اس کے نتائج یقینا آئیں گے۔ اس شعبے میں پانچ سال کے اندر جو اصلاحات ہوئی ہیں ان سے بھی بہت مثبت تبدیلی آئی ہے۔ نفسیات کے حوالے سے ہم بات کررہے ہیں تو ایک چیز میں آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا کہ اس سے پہلے نفسیات کا مضمون امتحانات میں شامل نہیں تھا، اب اسے نصاب میں شامل کر دیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ ڈاکٹر جان گئے ہیں کہ نئی نسل میں آگاہی آ رہی ہے کہ ایک مریض کی سماجی اقدار کو پیش نظر رکھ کر اُس کے مسئلے کوکس طرح حل کرنا ہے۔ اگر کسی مریض کو یہ یقین ہو کہ اُس پر جادو ہوگیا ہے تو آپ اُس سے کتنی بھی علمی بات کرلیں، اُسے یقین نہیں آئے گا۔ مریض سے کس طرح بات کرنا ہے، اب یہ نصاب میں شامل ہے۔ ایمرجنسی مریض ہے اُس سے کیسے بات کرنا ہے، اب یہ پڑھایا جارہا ہے۔ ہم کانفرنسیں کرتے ہیں، جن سے معلومات کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے رابطے بڑھتے ہیں۔
چونکہ ذہنی صحت کے حوالے سے ڈیٹا نہیں ہے، ہم ادارۂ شماریات پاکستان سے مل کر ڈیٹا جمع کرنا چاہتے ہیں، ہم نے ادائیگی کرکے اُن سے نقشے حاصل کرلیے ہیں، ان نقشوں کی مدد سے ہم سادہ گریجویٹ کو منتخب کریں گے اور ان سے سروے کرائیں گے۔
یہ حکومت کا کام تھا، لیکن ہم ہر چیز حکومت پر ڈالیں گے تو کبھی بھی یہ کام نہیں ہوگا۔ پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی اپنے طور پر یہ کام کرے گی۔ ہم لوگوں سے کہیں گے کہ وہ اس میں ہم سے تعاون کریں۔
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر واش دیو
(سیکریٹری اطلاعات سائیکاٹرک سوسائٹی)
بہت شکریہ مجھے اعزاز دینے کا۔ سب سے پہلے آگاہ کرنا چاہوں گا کہ ذہنی صحت کی اہمیت کیا ہے۔ اس وقت ذہنی صحت کے شکار افراد کی تعداد نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد کا 40 فیصد ہے۔
طب کی دنیا اس وقت باریکی کی طرف جارہی ہے، مثال کے طور پر ایک کنسلٹنٹ فزیشن ہے تو اس میں نیفرولوجسٹ ہے، گیسٹرو کے ماہر ڈاکٹر ہیں، ڈرماٹولوجی اور نیورولوجی کے ماہرین ہیں۔
ان میں ذیلی مہارتیں بھی نکل آئی ہیں، کوئی پارکنسن کا علاج کررہا ہے،کوئی فالج کا معالج ہے، کوئی اعصابی بیماری کو ٹریٹ کررہا ہے… اسی طرح ہمیں بھی اس وقت سائیکاٹری کے ذیلی ماہرین کی ضرورت ہے۔ ہمیں تو رات دن باریکی کی طرف جانا ہے تاکہ اسپیشلائزڈ ڈاکٹر نکلیں جو فارنسک سائیکاٹرسٹ ہوں، جو بچوں کو دیکھیں، منشیات کے دائرہ کار کو دیکھیں۔
پروفیسر اقبال آفریدی کی سربراہی سوسائٹی کی جو نئی کابینہ منتخب ہوئی ہے اسے حلف اٹھائے تقریباً دو ماہ ہوئے ہیں، اور ہمارا 8 نکاتی ایجنڈا ہے جو ابھی ڈاکٹر اقبال آفریدی نے بتایا جس میں 8 دائرے ہیں، اس میں سے ایک ہے ٹیچنگ اینڈ ٹریننگ… سب سے پہلے ہم نے اسی پر قدم اٹھایا ہے۔ کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز پاکستان کو سمری ارسال کردی گئی ہے جس میں 4 ذیلی اسپیشلٹیز کا ذکر ہے۔ چائلڈ سائیکاٹری، جریاٹک سائیکاٹری، فارنسک سائیکاٹری اور منشیات۔ ابھی حال ہی میں ڈاکٹر اقبال آفریدی نے چار کمیٹیاں بنائی ہیں جن کی صدارت چار پروفیسر کرتے ہیں، جن میں سے ڈرگ ایڈکشن کمیٹی کو پروفیسر اقبال آفریدی خود دیکھ کررہے ہیں۔ تو یہجتنی بھی کمیٹیاں ہیں ان کے ایس او پیز ہیں، انہیں ہم کورسز میں شامل کرکے سی پی ایس پی کو بھجوائیں گے اور ایک سب اسپیشلٹی جنریٹ ہوگی۔ اس سے آپ ہماری کوششوں کااندازہ لگاسکتے ہیں۔
جتنی بھی بیماریاں ہیں ان سب کے سائیکاٹرک ڈس آرڈر ہوتے ہیں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک یونیورسل بیماری ہے، ہم اس کی قیمت کتنی بھررہے ہیں اندازہ کریں، دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک فرد خودکشی کرلیتا ہے، اگر آپ کو یہ پروگرام شروع کیے 60 منٹ ہوگئے ہیں تو اس وقت تک 80 افراد نے خودکشی کرلی ہوگی۔
خودکشی کی وجوہات:
ہر چیز کی تین وجوہات ہوتی ہیں: جسمانی، نفسیاتی اور سماجی۔ جہاں تک رہی بات ڈپریشن یا اس سے منسلک بیماریوں کی، اس میں نفسیاتی اور سماجی وجوہات زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت ہم ای دنیا میں جی رہے ہیں جس سے صحت مند سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں، ایک صحت مند شخص وہ ہوتا ہے جو اپنے ذہنی دبائو کو کم کرپاتا ہے، نئی چیزیں سیکھ رہا ہوتا ہے اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتا ہے۔
میڈیا کے استعمال کی ترجیحات:
سب سے پہلے ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ آگاہی حاصل کریں… مرض کی آگاہی، سہولتوں کی آگاہی، علاج وغیرہ۔
سب سے بڑی آگاہی یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے لوگوں کو یہ بتا دیں کہ اپنی زندگی میں ایک ترتیب پیدا کریں، اس کا مطلب یہ ہے کہ سونے کا، اٹھنے کا اور کھانے کا کوئی متعین وقت ہو، اس سے بہت سارے مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔ اب آپ مذہب کو دیکھیں۔ دن میں 5 دفعہ نماز پڑھنے کا حکم ہے، اس کا فلسفہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نمازوں کے ذریعے یہ چاہتا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں ترتیب پیدا کریں۔ جتنی ترتیب ہوگی اتنا آپ بہتر ہوں گے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ لوگ ساری رات جاگتے اور صبح دیر تک سوتے ہیں۔ مارکیٹیں 2 بجے دوپہر تک بند پڑی ہوتی ہے، جبکہ پوری دنیا میں اس کا الٹ ہے کہ لوگ علی الصبح اپنے کاموں پر نکل جاتے ہیں اور سرِشامواپس آجاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ورزش کی بڑی اہمیت ہے۔ جو کام دوائوں کے ذریعے ہوتا ہے وہ ورزش کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے پیغامات اگر میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچیں تو مستقبل میں بہت سارے نفسیاتی امراض سیبچا جاسکتا ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ جو ٹاک شوز اور ٹی وی شوز ہوتے ہیں ان میں آپ پیشہ ور طبی ماہرین کو بلائیں تاکہ صحیح پیغام لوگوں تک پہنچے۔
میں اپنے انسٹی ٹیوٹ کی بات کرنا چاہوں گا۔ ہمارا ادارہ ’علوم رویہ جات‘(Behavioral Science) ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ نفسیاتی مریضوں کی سروسز کے حوالے سے ایک اسٹیٹ آف آرٹ سینٹر ہے، اور میں آپ کو دعوت دوں گا کہ ہمارے ادارے میں آئیں اور دیکھیں کہ ہم نے ایک چھت کے نیچے تمام سہولیات فراہم کی ہیں۔ نفسیاتی مریضوں کی ذہنی صحت کی بحالی کثیر جہتی کام ہے جس میں سائیکاٹرسٹ، سائیکالوجسٹ، سوشل ورکر اور ایکوپیشنل تھراپسٹ موجود ہیں اور بہت کم قیمت پر بہترین سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ جب ہم وہاں پر جنرل فزیشن یا کسی دوسرے اسٹیک ہولڈر کو ایڈریس کرتے ہیں تو میں ہمیشہ ان سے کہتا ہوں کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اپنے مریضوں کو آئی بی ایس میں ہی بھیجیں، بلکہ جو بھی ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ ہیں جہاں پروفیشنل لوگ ہیں آپ وہاں پر بھیج سکتے ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جونیجو
(اسسٹنٹ پروفیسر)
شکرگزار ہوں کہ فرائیڈے اسپیشل نے پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کے عہدیداروں کو بات کرنے کا موقع دیا۔ ہمارے سندھ میں ہر جگہ مسائل ہیں۔ اسباب کی آپ بات کرتے ہیں تو سمجھیں کہ شعبہ سائیکاٹری مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، ہم اس میں کیا بہتر کرسکتے ہیں! سندھ کے 29 اضلاع ہیں، ہر جگہ حالات خراب ہیں۔ آپ کو ایک یا دو اضلاع کے بعد کوئی ماہر نفسیات ملے گا۔ میں اگر بھول نہیں رہا تو حکومتِ سندھ کے پاس اس وقت صرف 6 ماہرین نفسیات ہیں، جن میں سے ایک مِٹھی میں ہے۔
مِٹھی میں اس سال 47 افراد نے خودکشی کی ہے۔ یہ ہماری سوسائٹی اور مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی کاوشیں ہیں کہ ہم وہاں پر ایک ورکشاپ کررہے ہیں۔ ہم وہاں 150 ڈاکٹروں کو یہ سمجھائیں گے کہ کس وقت کس کو ریفر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مجھے پھینکا گیا ہے فارنسک سائیکاٹرک ڈپارٹمنٹ میں کہ آپ وہاں جائیں اور کام کریں۔ میرے پاس وہاں کی صرف غیر ملکی ماہرینِ طب کی تصویریں ہیں۔ وہ ایک پرانا ٹوٹا پھوٹا ادارہ ہے، زمین پر دوائیاں پڑی ہیں، گندگی ہے۔ میں نے بہت کوشش کی، اور میں شکر گزار ہوں پاکستان کی عدالت عظمیٰ کا کہ اس نے ہمیں سہولیات فراہم کیں، اور آج وہاں 50 بستروں پر مشتمل شاندار اسپتال منظور ہوگیا ہے اور 25 بستر ہمارے حوالے بھی کیے جاچکے ہیں۔
ہمارے پاس ماہرین نفسیات کی بہت کمی ہے۔ آپ لاڑکانہ میں دیکھیں، یہاں صرف 20 بستروں کی سہولتہے جبکہ یہاں 200 بستر ہونے چاہئیں کیونکہ بلوچستان کا بوجھ بھی سندھ پر ہے۔ سکھر میں اگر کوئی خودکشی کی کوشش کرے تو وہاں کوئی ایمرجنسی وارڈ نہیں ہے، نہ ہی وہاں سائیکاٹرسٹ کی سہولت ہے۔ کیا لوگ وہاں پر خودکشی نہیں کرتے؟ 1965ء کے بعد اس ملک میں نئی ہیلتھ فیکلٹی ہی نہیں بنی ہے۔ یہ سوال میڈیا کو اٹھانا ہے۔ ہم سوسائٹی کی جانب سے چیزوں کو اجاگر کررہے ہیں، اس کے کام بھی کررہے ہیں۔
ممتاز ادیب، شاعر اور محقق خواجہ رضی حیدر سے مکالمہ
٭سیکولر قوتوں کی جانب سے اس بات پر اصرار کا کیا مقصد ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں نہیں آیا؟٭سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کی حیثیت کیا ہے ؟٭قائد اعظم اور اقبال کے تعلقات کیسے تھے؟ ٭کیا تقسیم ہند بنیادی طورپر برٹش ایمپائر کا آئیڈیا تھا؟٭مولانامودودی رح کو قائد اعظم کیوں پسند کرتے تھے؟ ٭دو قومی نظریے کے باوجود بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ کیوں نہیں رہ سکا؟٭کیا قائد اعظم کو واقعی اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی؟٭ لبرل دانشور، قائد اعظم کی 11ستمبر کی ایک تقریر توڑمروڑ کرکیوں پیش کرتے ہیں؟ ٭قائد اعظم کی بیماری کے دوران کوئٹہ سے کراچی منتقلی کے واقعہ پر شک و شبہ کی حقیقت کیا ہے؟ ٭کیا محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’’میرابھائی‘‘ خود لکھی تھی؟٭قائداعظم بسترِمرگ پر کیا سوچ رہے تھے؟ ٭قائد اعظم کانگریس سے نکل کر مسلم لیگ میں کیوں گئے ؟ ٭گاندھی بڑی شخصیت تھے یا بہت بڑا کردارتھے؟٭کیا سبب ہے کہ قیام ِپاکستان کو ہندو قیادت نے کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا؟٭برصغیر کی سیاست میں علما کا کیا تاریخی کردار رہا ہے؟
تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم کے بارے میں اٹھائے جانے والے
اہم سوالات کے جواباتآئندہ شمارے میں ملاحظہ کیجیے۔