بلوچستان:قومی شاہراہوں پر خونی حادثات بلوچستان کے اندر قومی شاہراہوں پر خونیں حادثات

بڑھتے جارہے ہیں۔ صوبے کے طول و عرض کی کوئلہ کی کانیں موت کے کنویں بن چکی ہیں۔ سال 2018ء میں ہرنائی، شارگ، مچھ، ڈیگاری، مارواڑ سمیت دیگر علاقوں کی کانوں میں 90 سے زائد مزدور جاں بحق ہوچکے ہیں۔ رواں سال 27 جنوری تک صرف ضلع دکی میں 19 کان کن دم گھٹنے، کان منہدم ہونے اور ٹرالی لگنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ دراصل ان مزدوروں کی زندگیاں ہمہ وقت خطرے سے دوچار رہتی ہے۔ کئی ہزار فٹ کی گہرائی میں کام کرنے والے ان محنت کشوں کے بچاؤ کے لیے سرے سے کوئی بندوبست و انتظامات نہیں ہوتے۔ یہ اللہ توکل پر کانوں کے اندر اترتے ہیں۔ حلال کی روزی کماتے ہیں۔ اس جدید دور میں بھی جدید آلات شعبہ کان کنی کے اندر استعمال میں نہیں ہیں۔ گویا پرانے طور طریقے اب تک رائج ہیں۔ نہ سرکار اور نہ ہی کان مالک اور ٹھیکیدار اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہیں۔ مزدور یونین کے بڑے گٹھ جوڑ کیے ہوئے ہیں۔ دور دراز کی ان کانوں میں مزدوروں کے لیے طبی سہولیات بھی نہیں ہیں۔ حادثات اور ہنگامی حالات میں زخمیوں کو کوئٹہ کے اسپتالوں میں پہنچایا جاتا ہے۔
ہم نے ذکر شاہراہوں پر حادثات کا بھی کیا ہے۔ ویسے تو شہروں کے اندر بھی حکومتوں اور مقامی انتظامیہ کی غفلت کے باعث حادثات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ وہ اس لیے کہ ہر شخص دو دن گاڑی چلا کر ڈرائیور بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو روکنے والا کوئی نہیں۔ ڈرائیونگ سیکھنے کا رواج ہی ختم ہوچکا ہے۔ لائسنس کا تصور ہی نہیں رہا ہے۔ اگر سرکار اور محکمہ پولیس اس ضمن میں فی الواقع متحرک ہوجائے تو اناڑی ڈرائیوروں کی سڑکوں پر آنے کی مجال نہ ہوگی۔ یہاں تو غضب یہ ہے کہ قومی شاہراہوں پر بھی غیر تربیت یافتہ ڈرائیور حضرات ویگن اور کوچ چلاتے ہیں۔ آج کل کوئٹہ کراچی، کوئٹہ پشاور، کوئٹہ لاہور اور کوئٹہ اسلام آباد لائن پر کار سروس بھی جاری ہے، اور ان میں اکثر ڈرائیور پیسوں کے لالچ میں آرام و نیند پوری کیے بغیر پھیرا لگاتے ہیں۔ کوچ ڈرائیوروں میں چرس پینے والوں کی کمی نہیں۔ یہ ڈرائیور کم عمر اور ناتجربہ کار ہوتے ہیں۔ شاہراہوں پر رفتار کی مقررہ حد سے تیز بسیں اور گاڑیاں دوڑائی جاتی ہیں۔ ان ڈرائیوروں کو شاہراہ پر گاڑی پارک کرنے کی تمیز تک نہیں ہے، یعنی سڑک پر کھڑے ٹرکوں، ٹریکٹروں اور گاڑیوں سے ٹکرانے کے بھی کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ رات کے اوقات میں تیز روشنی والی لائٹس بھی حادثات کا باعث بن رہی ہیں۔ یہاں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا کردار بھی قابلِ گرفت ہے۔ موٹروے پولیس الگ دھندوں میں لگی ہوئی ہے۔ 21 جنوری کو لسبیلہ کا دلخراش واقعہ پہلا سانحہ ہرگز نہیں ہے، جہاں 27 افراد اس طرح جھلس گئے کہ ان کی شناخت تک نہ ہوسکی۔ پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ بسوں، ٹرکوں، پک اپ اور دوسری گاڑیوں کے ذریعے ہورہی ہے۔ لسبیلہ کا حادثہ بھی اسی اسمگلنگ کا شاخسانہ ہے۔ کراچی سے پنجگور جانے والی بس اور ٹرک کے درمیان تصادم ہوا۔ اطلاعات ہیں کہ ٹرک میں پیٹرول اور ڈیزل لدا ہوا تھا جس سے آگ بھڑک اٹھی اور کسی کو بچنے کی مہلت ہی نہ ملی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے انکوائری کا حکم دیا، حالانکہ اس میں انکوائری کی کیا ضرورت! صاف بات ہے کہ ان شاہراہوں پر ایرانی تیل کی اسمگلنگ ہورہی ہے، اور غیر محفوظ و غیر محتاط طریقے سے ہورہی ہے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ گاڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی اور لوگ مرے ہیں۔ یہ سب کچھ کھلم کھلا ہورہا ہے۔ پولیس، لیویز اور ایف سی کے اہلکار ناکوں پر پیسے لے کر ان گاڑیوں کو جانے دیتے ہیں۔
لسبیلہ کے المناک حادثے میں جاں بحق 24 افراد کو پنجگور میں دفنایا گیا۔ ان کی میتیں کراچی سے لینے صوبائی وزیر اسد بلوچ گئے تھے۔ ستم یہ کہ بیلہ کے اندر کھڑی فائر بریگیڈ کی ایک گاڑی خراب حالت میں ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی دوری پر اوتھل کے مقام سے فائر بریگیڈ کی گاڑی روانہ کی گئی۔ یہ گاڑی پہنچی تب تک لوگ جل کر کوئلہ بن چکے تھے۔ لسبیلہ جام اور بھوتانی خاندان کا علاقہ ہے۔ جام کمال اپنے خاندان کے تیسرے فرد ہیں جو صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔ ان کے والد جام یوسف اور دادا جام غلام قادر بھی وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اسی طرح بھوتانی خاندان کے سردار اسلم بھوتانی اور ان کے بڑے بھائی سردار صالح بھوتانی صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ صالح بھوتانی نگراں وزیراعلیٰ بھی رہے۔ یاد رہے گزشتہ سال یعنی اکتوبر 2018ء میں مچھ میں کوئٹہ سبی شاہراہ پر بریک فیل ہونے کے باعث ٹرک ویگن، پک اپ گاڑی اور پولیس ناکے سے ٹکرایا۔ پک اپ گاڑی پیٹرول لے کر جارہی تھی، اس لیے آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں 6 افراد جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔ اس نوعیت کا ایک بڑا واقعہ مارچ 2014ء میں لسبیلہ ہی کے علاقے گڈانی میں مسافر بسوں اور آئل ٹینکر میں تصادم کا پیش آچکا ہے جس میں 35سے زائد افراد کی موت ہوئی۔ ان افراد کو شناخت کے بغیر حب کے فقیر شیخ گوٹھ قبرستان میں دفنایا گیا۔ جاں بحق افراد کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا وعدہ کیا گیا مگر کوئی عمل نہیں ہوا۔ ان کے پیارے اب تک قبروں کی شناخت کے انتظار میں ہیں۔ لواحقین کی بھی کوئی مالی امداد نہیں کی گئی۔ اُس وقت بھی کمشنر قلات ڈویژن محمد اکبر حریفال کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے پاکستان کوسٹ گارڈ، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، موٹروے پولیس، بس مالکان اور عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے۔ حادثے کی وجہ اسمگلنگ بتائی گئی۔ حادثے کے کچھ عرصہ بعد تک ایرانی تیل کی اسمگلنگ پر سختی کی گئی، مگر کچھ عرصے بعد پھر وہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ بہرکیف ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد اور لائسنس کے اجراء کی شرائط پر عرب، امریکہ اور یورپی ممالک کی طرح سختی کی ضرورت ہے۔