خدا دوست پروفیسر حافظ احسان الحق ؒجمعیت الفلاح میں تعزیتی اجلاس

یوں تو یہ ایک تعزیتی اجلاس تھا۔ شرکاء اپنے ذاتی تعلق کے حوالے سے گفتگو کررہے تھے۔ کسی نے ان کی علمی خدمات گنوائیں، کسی نے ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کا ذکر کیا۔ ان کی قابلیت پر بھی بات ہوئی۔ وہ نہ صرف اردو، عربی بلکہ انگریزی پر بھی مکمل دسترس رکھتے تھے۔ وہ ایک اچھے استاد بھی تھے اور دلنشین مبلغ بھی… ادیب بھی تھے اور شاعر بھی۔ اور ان سب سے بڑھ کر وہ ایک باعمل، با کردار انسان تھے، اقامتِ دین کے داعی… وہ ساری زندگی لوگوں کو خدا سے جوڑنے میں مصروفِ عمل رہے۔

عروجِ آدمی ہے منزلِ جاناں کا پا لینا
مکان و لامکاں کی سیر کرکے اپنی جاء لینا

(یوسف شاہؔ)
(صاحب زادہ) فیضان الحق جو اپنے والد حافظ احسان الحقؒ سے فیض یافتہ افراد میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، اپنی حکایتِ دل سنا رہے تھے ’’والد نے نہ صرف گھر میں بلکہ گھر سے باہر بھی کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی، وہ ہر حال میں خوش رہتے، وہ کہتے: جو کھالیا، پی لیا، پہن لیا اپنا ہے۔ کوئی چیز یہاں سے کنٹرول نہیں ہوتی، سب چیزیں اوپر سے کنٹرول ہوتی ہیں، ہمیں تو انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدا سے تعلق بحال کرانا ہے، (حافظ صاحب کی ساری زندگی کا تحریری اثاثہ، درس و تدریس، عمل و کردار اسی تعلق کو بحال کرانے کی عملی جدوجہد ہے) وہ فرماتے: دولت اور اولاد کے بغیر زندگی گزرسکتی ہے، ہدایت کے بغیر نہیں۔ وہ شکر گزاری پر بہت زور دیتے۔ وہ بڑے بڑے دکھ اپنے اندر سمیٹ لیتے اور سب کے لیے کشادگی پیدا کرتے۔ آخر دنوں میں وہ استغراق میں رہتے۔ ایک دن جامعہ کی مسجد میں وضو خانے میں کچھ دیر اسی حالت میں تھے کہ ایک صاحب نے سخت الفاظ کہے مگر آپ نے برا نہ مانا بلکہ فرمایا کہ میں نے وضو میں پانی تو ضائع نہیں کیا۔ وہ صاحب بعد میں اپنی اس حرکت پر بہت شرمندہ ہوئے۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو کشف عطا فرما دیتا ہے، چچا سے کہا کہ مجھ سے جلد مل لو، ایک دوست سے کہا کہ میری دعا ہے کہ جنت البقیع میں دفن ہوں۔ وہ میرے والد نہ بھی ہوتے تو بھی میں ان کا معتقد ہوتا۔
فیضان الحق گزرے واقعات سنا رہے تھے اور مجھے محسوس ہورہا تھا کہ ان کے لہجے میں حافظ صاحب کا فیض بول رہا ہے۔
ہم عمرے کی ادائیگی کے لیے جدہ ایئرپورٹ پر اترے، وہاں ہمارے پاسپورٹ کسٹم حکام نے اِدھر اُدھر کردیے۔ ہماری بس بھی مکہ روانہ ہوچکی تھی۔ ہم ایئرپورٹ سے باہر اس پریشانی میں تھے کہ ایک صاحب اپنی گاڑی میں آئے اور والد صاحب سے کہا کہ میں آپ کو مکہ چھوڑ دیتا ہوں۔ ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ والد صاحب نے ان سے کہا کہ ہمارے پاسپورٹ بھی کل پہنچا دینا۔ انہوں نے کہا جی بہتر ہے۔ اور دوسرے دن صبح 9 بجے انہوں نے پاسپورٹ بھی ہمیں لاکر دے دیے۔ میں بہت حیران تھا۔ والد صاحب نے زندگی میں کبھی اپنا کام کسی سے نہ کہا تھا۔ دو تین ماہ بعد وہ صاحب کراچی میں ہمارے ہاں آئے، والد صاحب نے ان کو اپنی کتابیں بھی دیں۔ میں سمجھا کہ وہ شاگرد ہوں گے۔ مگر میری جب ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میری پہلی ملاقات تو جدہ ایئرپورٹ پر ہی آپ سے ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ میری دعا ہے کہ میں جنت البقیع مدینہ منورہ میں دفن ہوں۔ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور آپ جنت البقیع میں حضرت عثمان غنیؓ کے قریب مدفون ہیں۔
جمعیت الفلاح کے صدر محمد قیصر خان نے کہا کہ وہ شجرِ سایہ دار بھی تھے اور شجرِ ثمر بار بھی۔

موت اُس کی ہے جس کا زمانہ کرے افسوس
ورنہ آئے تو سبھی ہیں یہاں مرنے کے لیے

پروفیسر اسحق منصوری نے کہا کہ جب ہم اپنے جانے والوں کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں سکون ملتا ہے۔ وہ چمکتا سورج تھے، وہ چاروں طرف اپنی حرارت سے لوگوں کو گرماتے رہے اور ہر لحاظ سے فیض پہنچاتے رہے۔ مجھے ان کے ساتھ منصورہ سندھ میں رہنے کا موقع ملاہے۔ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹے مگر علمی صلاحیت اور خوبیوں کی وجہ سے بہت بڑے تھے۔ جامعہ کراچی میں برے حالات آئے، لوگ تشبیہ اور استعاروں میں بات کرتے، مگر ڈاکٹر صاحب صاف اور حق بات کرتے۔ مجھے کئی بار انہوں نے اپنے ذاتی واقعات سنائے۔ آپ کے اجداد کا تعلق کشمیر سے تھا۔ اُن کا جماعت اسلامی سے گہرا تعلق مولانا عبدالحق کے زمانے سے تھا۔ مولانا عبدالحق بھی منصورہ تشریف لاتے تھے اور ان کا درس بھی دل پر لگتا تھا۔ یہی بات داکٹر صاحب کے درس میں بھی تھی۔ وہ بنیادی طور پر ایک درویش تھے۔ بہترین نثر لکھتے تھے۔ ان کی شاعری بھی منصورہ کے وال پیپر پر میں نے دیکھی ہے۔ وہ بہترین استاد اور بہترین دوست تھے۔ وہ شاگردوں کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے اور اس طرح پڑھاتے کہ ان کی سمجھ میں آجاتا۔ سید مودودیؒ سے گہرا قلبی تعلق رہا۔ اپنی درویشی کی وجہ سے انہوں نے بڑی قربانیاں دیں اور ہر جگہ ثابت قدم رہے۔
یونس بارائی نے کہا کہ وہ ہر طرح سے ہماری رہنمائی فرماتے تھے۔ ہم ایک شفیق رہنما سے محروم ہوگئے۔
پروفیسر محمد یوسف منصوری نے کہا کہ مجھے بھی ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ حافظ صاحب جب بھی جمعہ کو منصورہ تشریف لاتے، لوگوں کا اصرار ہوتا کہ وہ خطبہ بھی دیں اور تقریر بھی کریں۔ وہ بڑی محبت کرنے والے انسان تھے۔ احباب فائونڈیشن کے شکیل احمد نے بتایا کہ منصورہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام میں آپ نے ہماری بہت مدد فرمائی۔
جمعیت الفلاح کے اس باوقار تعزیتی اجتماع میں اربابِ دانش کے ساتھ آپ کے قریبی ساتھیوں نے شرکت کی۔ تقریب میں روحانی آسودگی کو ہر شریکِ تقریب نے محسوس کیا۔