ایک ایمان افروز کتابچہ

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب

مولانا عبدالمالک
’’داعیانِ حق کی منزلِ مقصود‘‘ کے خوب صورت عنوان پر محترم جناب حافظ محمد ادریس صاحب حفظہ اللہ نے ایک عظیم القدر مقالہ تحریر فرمایا ہے جسے ایک بار پڑھنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا، جی چاہتا ہے کہ اسے بار بار پڑھا جائے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر عہدِ حاضر تک ایسے واقعات ذکر کیے گئے ہیں جو انتہائی رقت انگیز اور سبق آموز ہیں۔ میں نے اسے بار بار پڑھا لیکن اس کی خواندگی سے سیر نہیں ہوا۔ جی چاہتا ہے کہ اسے پڑھتا رہوں۔ میری رائے میں اسلامی تحریک کو تیز بلکہ تیز تر اور منزلِ مقصود تک پہنچانے میں اس مقالے کا مؤثر کردار ہوگا۔
جب آدمی اندر سے بدلتا ہے تو پھر وہ راہِ راست پر مستقیم ہوجاتا ہے اور کوئی چیز اسے سیدھے راستے سے نہیں ہٹا سکتی۔ صحابہ کرامؓ کے سامنے کس قدر رکاوٹیں آئیں۔ قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتیں جن کا پوری دنیا پر حکم چلتا تھا صحابہؓ کو ذرا بھی مرعوب نہ کرسکیں۔ صحابہ کرامؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ان کے تخت زمین بوس کردیے اور مشرق سے لے کر مغرب، اور جنوب سے لے کر شمال تک دنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرا دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہلک کسریٰ فلاکسریٰ بعدہٗ و ہلک قیصر فلا قیصر بعدہٗ۔ ’’اللہ کے بندوں نے اللہ کی زمین کو سرکشوں اور اللہ کے دین کے باغیوں سے پاک وصاف کردیا‘‘۔ وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین کی مبارک آیت کی عمل داری میں زمین اللہ کی رحمت سے بھر گئی۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ الصف، سورۂ الفتح اور سورۂ التوبہ میں بشارت دی ہے کہ یہ دین غالب ہونے کے لیے آیا ہے، مغلوب ہونے کے لیے نہیں، یہ دین حاکم بن کر آیا ہے، محکوم بن کر نہیں۔ چنانچہ اسلامی فوجیں جب مشرق ومغرب میں ہر قوم تک پہنچیں تو انھوں نے پہلے انھیں اسلام کی دعوت دی، فرمایا اگر تم اسلام قبول کرلو گے تو ہماری طرح ہوجاؤ گے، تمھیں بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو ہمیں حاصل ہیں اور تم پر بھی وہی فرائض عائد ہوں گے جو ہم پر عائد ہیں، اور اگر اس کے لیے تیار نہیں ہو تو پھر اقتدار سے دست بردار ہوجاؤ۔ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے اور آسمان اور پوری کائنات اور اس کے خزانے اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں، اس لیے حکومت بھی اسی کا حق ہے۔ ان الحکم الا للہ۔ ’’حکم نہیں چلے گا، مگر اللہ تعالیٰ کا‘‘، اقتدار سے اگر دست بردار نہیں ہوتے تو پھر تلوار فیصلہ کرے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الجنۃ تحت ظلال السیوف۔ ’’جنت تلواروں کے سائے میں ہے۔‘‘
حضرت ربیعہ بن عامرؓ نے ایرانی فوجوں کے سپہ سالار سے فرمایا تھا: جئناکم لنخرج العباد من عبادۃ العبادالی عبادۃ رب العباد وعن جور الادیان الی عدل الاسلام ومن ضیق الدنیا الی سعۃ الاخرۃ۔ ’’ہم تمھارے پاس آئے ہیں کہ بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے رب کی بندگی کی طرف لے آئیں اور ادیانِ باطلہ کے ظلم سے نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام کے سائے میں بسیرا کردیں، اور دنیا کی تنگنائیوں سے نکال کر آخرت کی وسعت اور دائمی زندگی کی نعمت سے نوازیں‘‘۔ اسی طرح حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: امرنا نبینا رسول ربنا ان نقاتلکم حتی تعبدوا اللہ وحدہ وانہ من قتل منا صار الی الجنۃ فی نعیم مقیم ومن بقی منا مَلَک رقابکم۔ ’’ہمیں ہمارے نبی اور رب کے رسول نے حکم دیا ہے کہ ہم تم سے لڑائی لڑیں تاکہ تم اللہ وحدہٗ لاشریک کے عبادت گزار بندے بن جاؤ اور ہمارے نبی، ہمارے رب کے رسول نے خبر دی ہے کہ ہم میں سے جو قتل ہوگیا وہ سیدھا جنت کی دائمی نعمتوں میں چلا جائے گا، جو بچ گیا وہ تمھاری گردنوں کا مالک ہوگا۔‘‘
یہ وہ حقیقت پسندانہ اور جرأت مندانہ خطاب ہیں جنھوں نے دشمنوں کے دلوں پر لرزہ طاری کردیا اور وہ اقتدار سے بھی دست بردار ہوگئے اور دائرۂ اسلام میں بھی داخل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح فرمایا تھا: یدخلون فی دین اللہ افواجا۔ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے کا منظر ساری دنیا نے دیکھا۔ اب بھی یہ منظر دنیا دیکھے گی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : لیبلغن ہذا الامر ما بلغ اللیل والنہار لا یبقیٰ بیت مدر ولا وبر الا دخل اللہ الاسلام یعز عزیزا ویذل ذلیلا۔ (احمد) ’’یہ دین وہاں وہاں پہنچے گا جہاں دن اور رات ہیں، کوئی مٹی کا گھر باقی نہیں رہے گا اور کوئی خیمہ باقی نہیں رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کو داخل کردے گا۔ عزت والوں کو عزت دے گا اور ذلت والوں کو پست کردے گا۔‘‘
حافظ محمدادریس صاحب نے پوری تفصیل لکھی ہے کہ ہر دور میں دینِ حق کے لیے قربانیاں دینے والی عظیم شخصیات نے اپنے پیچھے ایمان افروز واقعات چھوڑے ہیں۔ وہ نہ کبھی جھکے اور نہ ہی بکے۔ اسلام کی نمائندگی کا حق انھی لوگوں نے ادا کیا۔ آج اگرچہ امت اور بالخصوص اسلامی تحریکات کے لیے حالات سخت ہیں، مگر اللہ ان حالات کو بدل ڈالے گا۔ آج کی جدوجہد اور تمام مجدّدین کی سعیِ مبارکہ دعوت وتبلیغ کے ذریعے حالات تبدیل کرنے پر مرتکز تھیں۔ سختیاں برداشت کیں، مگر صبر واستقامت کا مظاہرہ کیا۔ اب بھی ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا کہ اسلام کا جھنڈا پوری دنیا میں لہرائے گا۔
جناب حافظ محمدادریس صاحب نے دورِ حاضر میں قائم اسلامی تحریکات کا جائزہ بھی پیش کیا ہے اور ان کی حکمت عملیوں پر بھی تبصرہ فرمایا ہے۔ خصوصاً جماعت اسلامی کی بہت اہم رہنمائی کی ہے۔ میری مخلصانہ رائے ہے کہ یہ مقالہ انقلابی ہے اور انقلابِ امامت کی راہ کو ہموار کرنے والا ہے۔ لہٰذا ہر کارکن کے ہاتھ میں ہونا چاہیے اور ہر کارکن اسے بار بار پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کرے اور مضبوط عقیدے سے مسلّح ہو کر میدان میں تسلسل سے جہاد کرے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین