آئی ایم ایف سے معاہدہ؟

وزیراعظم عمران خان کی دبئی میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے نئے قرضے بھی لے گا۔ دبئی میں عالمی حکومتوں کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کی جو انفرادی ملاقاتیں ہوئی ہیں اُن میں آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ دونوں شخصیات کے درمیان غیر رسمی ملاقات کے بعد اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے حکام بات چیت جاری رکھیں گے۔ آئی ایم ایف کے اعلامیے کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف معاشی اصلاحات پر متفق ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر خزانہ اسد عمر بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ملاقات کا باضابطہ اعلامیہ تو جاری نہیں کیا گیا، البتہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹینا لیگارڈ سے ملاقات اچھی اور مفید رہی، اور مجھے یہ بتاتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ہماری اور آئی ایم ایف کی سوچ میں خاصی مطابقت پائی جاتی ہے، ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ بنیادی نکات پر اتفاق ہوگیا ہے، ہم عنقریب آئی ایم اے سے مل کر ایک پروگرام مرتب کریں گے جس میں کم آمدنی والے طبقات کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے، اور جلد ہی اس کی تکنیکی تفصیلات بھی طے ہوتی ہوئی منظرعام پر آجائیں گی۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعے بتایا کہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات میں پاکستان کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے گہرائی میں ’’اسٹرکچرل اصلاحات‘‘ کی ضرورت پر دونوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اور یہ اقدامات پاکستانی معاشرے میں انتہائی پسماندہ گوشوں کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہیں ۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بھی اس ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے لیے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی اور آئی ایم ایف حکام پروگرام کے لیے بات چیت جاری رکھیں گے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے عمران خان سے ملاقات کو سودمند قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ آئی ایم ایف پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہے۔
موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے چھے ماہ ہوچکے ہیں، حکومت کی تشکیل سے قبل ہی یہ مسئلہ ہر سیاسی کارکن کے علم میں تھا کہ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا معرکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہوں گے۔ عمران خان سمیت سابق حکومت کے تمام مخالفین کی سب سے بڑی فردِ جرم یہ تھی کہ حکومت نے پاکستان کو اتنا مقروض کردیا ہے جو تاریخ میں کبھی نہیں تھا۔ عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران میں بجا طور پر آئی ایم ایف سے قرض کو خودکشی قرار دیا تھا، لیکن اب انہوں نے بھی یہ خوش خبری سنا دی ہے کہ ہمارا آئی ایم ایف سے قرضوں کے پروگرام پر اتفاق ہوگیا ہے۔ یعنی قوم بدستور آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑی رہے گی۔ حکومت نے تاثر یہ دیا تھا کہ عمران خان دوست ممالک کے سامنے کشکول پھیلا کر ملک و قوم کو آئی ایم ایف کے نئے شکنجے سے بچا لیں گے، یا اقتصادی غلامی کی شرائط کچھ نرم ہوجائیں گی، لیکن قوم کی امید پوری نہیں ہوسکی۔ صاحبانِ نظر کو امید تو ہرگز نہیں تھی کہ نئی حکومت کوئی ’’معجزہ‘‘ دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کی ٹیم میں موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر کی اہلیت صرف یہ ہے کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ ان کی اہلیت آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں سے معاملہ کرنے میں کام نہیں آئی۔ ان چھے ماہ میں معمول کے برخلاف دو ضمنی بجٹ پیش کیے گئے ہیں جنہوں نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ یہ بات اب ہر عام و خاص کو معلوم ہوچکی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کا تعلق صرف اقتصادی امور سے نہیں ہے بلکہ سیاسی اور دفاعی امور سے بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ جماعتیں جو ماضی میں اقتدار میں تھیں، جنہوں نے ملک کی قرضوں کی جکڑبندی کو مزید سخت کیا، تباہ کن شرائط کو تسلیم کیا وہ اب موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے پر طعنہ دے رہی ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا عالمی سیاست سے خاص تعلق ہے۔ افغانستان پر امریکی قبضے اور اس کی تاریخی ہزیمت کی وجہ سے پاکستان کی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس اہمیت کا فائدہ پاکستان، عالم اسلام اور امتِ مسلمہ کو حاصل ہو سکتا تھا، لیکن غلامانہ ذہنیت، مفاد پرستی، اور اس سے بڑھ کر بدعنوانی اور کرپشن کے کلچر نے حمیت و غیرت کو ختم کردیا۔ بعض طبقات کو امید تھی کہ عمران خان کی حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانے سے گریز کرے گی، لیکن یہ محض خوش فہمی تھی۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں موجود معاشی ماہرین کی اکثریت بھی عالمی مالیاتی اداروں سے جڑی ہوئی ہے۔ کوئی ملازمت کرتا رہا ہے، کوئی کسی اور طرح سے خدمات انجام دیتا رہا ہے۔ یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے کہ ورلڈ بینک کے سابق ملازمین وزیر خزانہ رہے ہیں، لیکن وزیراعظم عمران خان کی آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات میں وزیر خارجہ کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ ان معاہدات کا تعلق سیاسی امور سے ہے۔ یہ بات ہمیں یاد رہنی چاہیے کہ انتخابات کے چند دنوں بعد ہی امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے واضح الفاظ میں انتباہ کیا تھا کہ امریکی ٹیکس گزاروں کے ڈالر پاکستان کو چینی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ اسی دوران میں ہی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں دہشت گردوں کی معالی معاونت کا ملزم بناکر کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا ہے۔ اب ’’ڈومور‘‘ کی گردان آئی ایم ایف کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ پاکستانی عوام کی امریکہ کے خلاف مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے غربت اور بے روزگاری کے مصنوعی طوفان میں غرق کیا جارہا ہے۔ طویل عرصے سے آئی ایم ایف کی جانب سے’’اسٹرکچرل اصلاحات‘‘ کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ ان مذاکرات میں بھی اسی پر اتفاقِ رائے کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔ اسٹرکچرل اصلاحات کا سادا مطلب یہ ہے کہ بجلی کی قیمت بڑھائو، گیس کی قیمت بڑھائو، روپے کی قیمت کم کرو، ڈالر کی قیمت بڑھائو، قومی اثاثے عالمی سرمایہ دار ساہوکاروں کے لیے کھول دو، عوام پر ٹیکسوں کا کمر توڑ بوجھ لاد دو۔ یہ ہیں وہ نام نہاد اصلاحات جس پر موجودہ حکومت بھی اپنے سابقہ پیش روئوں کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔