کتاب : رجب طیب اردوغان
صدر ترکی
تالیف : ڈاکٹر راغب السرجانی
تعلیق و ترجمہ : ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی
صفحات : 328، قیمت:600 روپے
ناشر : عکس پبلی کیشنز، بک اسٹریٹ، داتا دربار مارکیٹ۔ لاہور
فون نمبر : 042-37300584
موبائل : 0300-4827500
0348-4078844
ای میل : publicationsask@gmail.com
ہم اپنا تعارفِ کتاب صدرِ ترکی رجب طیب اردوغان (اردوان) کے اقوالِ حکیمانہ سے کرتے ہیں:
٭’’ہم ایسی نسل چاہتے ہیں جس کا ایمان اور عقیدہ پختہ اور مضبوط ہو، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان کسی ایک شعبے میں نہیں بلکہ تمام شعبہ ہائے حیات میں آگے بڑھیں، ہم اپنے نوجوانوں کو اِس فانی دنیا کی لذتوں میں ڈوبا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان دنیا کے ہر شعبے میں سب سے آگے کھڑے ہوں اور دنیا اُن کے پیچھے کھڑی ہو۔ نوجوانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایمان کے بغیر زندگی ایسے ہی ہوتی ہے جیسے پانی کے بغیر صحرا‘‘۔
٭ ’’معتدل اسلام‘‘ کی اصطلاح مغرب کی وضع کردہ ہے، اسلام صرف ایک ہے، دوسری کوئی چیز ’’اسلام معتدل‘‘ یا ’’اسلام غیر معتدل‘‘ نام کی نہیں پائی جاتی، کسی کو یہ حق نہیں حاصل ہے کہ وہ ہمارے دین کی اپنی مرضی کے مطابق تعریف و تشریح کرے۔‘‘
٭’’میرے ذہن میں ایک سوال آیا تو میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ ہم لازب نسل سے ہیں (جارجیا کے مسلمان قبائل) یا ترک؟ والد نے کہا: بیٹا یہی سوال ہم نے اپنے دادا سے کیا تھا، میرے دادا نے جو جواب دیا وہ غور سے سنو! انہوں نے کہاکہ جب تم رب کے حضور پہنچوگے تو سوال کیا جائے گا من ربک (تمہارا رب کون ہے) من نبیک (تمہارا نبی کون ہے) اور مادینک (تمہارا دین کیا ہے) یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ ماقومک (تمہاری قوم کیا ہے)۔
٭’’یہ مت بھولو کہ ہر تاریک رات کی صبح ہوتی ہے اور موسم گرما کے بعد موسم بہار آتا ہے، تمہارے ساتھ وہ قدرت اور طاقت ہے جو غموں کو خوشیوں میں اور تاریکیوں کو روشنی میں تبدیل کرتی ہے، جس نے یوسف کو جیل سے نکال کر مصر کا بادشاہ بنایا، جس نے موسیٰ کی پرورش فرعون کے محل میں کرائی اور پھر وہاں حاکم بنادیا۔ اللہ سے مدد مانگو اور اسی کے ہوجائو، میں اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا مؤثر طریقہ نہیں جانتا، میں ظلم کے لیے تالیاں نہیں بجاتا اور نہ ظلم سے محبت کرسکتا ہوں، اور نہ میں ماضی کو برا بھلا کہتا ہوں، مجھ میں یہ ہمت نہیں کہ حق کے نام پر باطل کی پرستش کروں‘‘۔
٭’’ہم اپنی قدیم عثمانی روایات میں موجود اس اصول پر عمل پیرا ہیں کہ ’’عوام کے زندہ رہنے سے ہی ریاستیں زندہ رہتی ہیں‘‘۔
٭ ’’بیت المقدس تمام مسلمانوں کے لیے سرخ لائن ہے، اگر ہم نے یروشلم کو کھودیا تو ہم مدینہ کا تحفظ بھی نہ کرسکیں گے، اور اگر ہم مدینہ کا تحفظ نہ کرسکے تو مکہ اور کعبہ کا بھی تحفظ نہ کرسکیں گے‘‘۔
یہ اقوال جس دلیر سیاست دان کے ہیں اسی کی حیات پر یہ کتاب مرتب کی گئی ہے، جس کا عربی سے ترجمہ جناب ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی نے عمدگی سے کیا ہے۔ اس کتاب کے ناشر جناب ابوالاعلیٰ سید سبحانی تحریر فرماتے ہیں:
’’جدید دنیا کے مسلم حکمرانوں کے درمیان رجب طیب اردوان کی شخصیت اور ان کا کردار بہت ہی ممتاز اور نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ان کی شخصیت اور ان کے کارناموں پر بہت سی کتابیں اور بہت سے تحقیقی مقالات شائع ہوچکے ہیں، لیکن ان کی شخصیت کا سب سے اہم اور سب سے منفرد پہلو یہ ہے کہ مسلم دنیا کے عام حکمرانوں کے برخلاف وہ اپنی ایک آزاد اور خودمختار سیاسی پالیسی رکھتے ہیں۔ وہ ترکی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، ترکی کے تاریخی کردار کی بازیافت چاہتے ہیں اور ترکی کو اس کے تابناک ماضی سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ترک عوام کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور انہیں ملک کی تعمیر و ترقی میں برابر کا شریک دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ترکی کو ایک پائیدار اور مضبوط جمہوری نظام دینا چاہتے ہیں جہاں ہر کسی کو شخصی اور اجتماعی آزادی کا بھی احساس ہو اور شخصی اور اجتماعی ذمہ داری کا بھی۔ وہ چاہتے ہیں کہ ترک عوام خود فیصلہ کریں کہ ان کے ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کیا ہوگی اور دنیا بھر میں اس کا کیا رول ہوگا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ترک معیشت ایک آزاد اور خودمختار معیشت ہو، زراعت کے میدان میں بھی ترکی نئے نئے میدان سر کرے، صنعت و حرفت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی فتوحات رقم کرے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ترکی اپنی فتوحات خود اپنے بازوئوں اور خود اپنے تیار کردہ ہتھیاروں سے رقم کرے۔ غرض رجب طیب اردوان اپنے ملک اور اپنے ملک کے عوام کے لیے وہ تمام اقدامات کرلینا چاہتے ہیں جن کے بارے میں مسلم دنیا، بالخصوص خلیج کی ریاستیں سوچنا بھی نہیں چاہتیں، اور وہ اس گھٹیا اور غلامی کی سیاست سے ترکی کو مکمل طور پر محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جس پر خلیجی ریاستیں قائم ہیں۔ رجب طیب اردوان کی شخصیت اور ان کی سیاست کا یہی سب سے امتیازی پہلو ہے اور یہی وہ بنیادی سبب ہے جس نے مغرب کی استعماری طاقتوں کو بھی اور مشرق کی غلام حکومتوں کو بھی، ترکی کے خلاف ایک صف میں کھڑا کردیا ہے۔
عرب بہاریہ کے بعد یہ حقیقت دنیا کے سامنے بالکل کھل کر آگئی ہے کہ اس بات کو نہ تو مغربی طاقتیں کبھی بھی آسانی کے ساتھ قبول کرسکتی ہیں اور نہ ہی مسلم دنیا کے مغرب نواز حکمراں اس کے لیے آمادہ ہوسکتے ہیں کہ مسلم دنیا میں ایک پائیدار اور مضبوط جمہوری نظام قائم ہو، اور وہاں کے عوام ملک کی تعمیر و ترقی میں نہ صرف شریک ہوں بلکہ ملکی سیاست میں مؤثر کردار ادا کرسکیں۔ مغربی دنیا اپنے تمام تر سیاسی اور جمہوری نعروں کے باوجود انتہائی مفاد پرست اور جھوٹی ثابت ہوئی ہے۔ فی الواقع مسلم دنیا میں ایک پائیدار اور مضبوط جمہوری نظام کا قیام مغربی دنیا کے اس استعماری ایجنڈے کے مفاد میں نہیں ہے، جس پر مسلم ممالک کے حکمراں اب تک کام کرتے آئے ہیں۔ مغربی دنیا چاہتی ہے کہ مسلم دنیا میں یہ بادشاہتیں یا جمہوریت کے نام پر بعض جابر و ظالم نظام ہائے حکومت قائم رہیں تاکہ اسے مختلف محاذوں پر اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کے بھرپور مواقع حاصل رہیں۔ مسلم دنیا کے ممالک، خواہ وہاں نام نہاد جمہوری نظام پایا جاتا ہو، یا بادشاہی نظام کی کارفرمائی ہو، وہ بھی یہ نہیں چاہتے کہ ان کے یہاں ایک پائیدار اور مضبوط سیاسی نظام قائم ہو۔ یہ ان ممالک کے حکمراں طبقے کے مفاد کے خلاف ہے، جو مغربی طاقتوں کی مدد سے کئی کئی دہائیوں سے اپنے ملک کے اقتدار پر قابض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی اور مسلم دنیا کے یہ تمام ہی ممالک اسلام پسندوں کو سب سے بڑا خطرہ مانتے ہیں، چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ مغربی دنیا کے ان سیاسی سورمائوں نے نام نہاد مسلم حکمرانوں کی مدد سے اسلام پسندوں کو زیر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرڈالی۔
صورتِ حال کے دو پہلو ہیں اور دونوں ہی اہم ہیں۔ مذکورہ بالا تجزیہ اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے بہت حد تک کافی ہے کہ ترکی میں رجب طیب اردوان کے لیے موجودہ عالمی سیاست میں اپنا سفر جاری رکھنا کس قدر صبر آزما اور مشکل کام ہے۔ وہیں صورتِ حال کا ایک اور پہلو ہے، اور یہ کافی امید افزا اور اطمینان بخش ہے۔
عرب بہاریہ کے بعد مسلم دنیا کے عوام اس حقیقت سے خوب اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں کہ نہ وہ خود آزاد ہیں اور نہ ہی ان کے حکمراں۔ ان کے حکمراں کچھ مغربی طاقتوں کے آلہ کار ہیں، اور وہ وہی کچھ کرتے ہیں جو ان کے مغربی آقا ان سے کرانا چاہتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوگئے ہیں کہ ان کے ملک کی داخلی و خارجی پالیسیاں ان کے ملک میں نہیں، بلکہ ان کے ملک اور علاقے سے بہت دور امریکہ، فرانس، برطانیہ اور روس میں تیار ہوتی ہیں، جن میں ملک اور اس کے عوام کے مفاد کا نہیں بلکہ کچھ استعماری اور صہیونی طاقتوں کے مفاد کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوگئے کہ ان کے ملک میں ان کی حیثیت محض چرند و پرند کی ہے، اور ملک کی تعمیر و ترقی اور ملک کے مستقبل کا نقشہ تیار کرنے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوگئے کہ ان کے حکمراں اب تک محض ان کا جذباتی استحصال کرتے آئے ہیں، کبھی وہ مسئلہ فلسطین کا سہارا لیتے ہیں، کبھی امریکہ اور اسرائیل کی دشمنی کا سہارا لیتے ہیں، کبھی ایران اور شیعت کے بڑھتے اثر رسوخ کا سہارا لیتے ہیں، اور کبھی حرمین شریفین کی خدمت اور قرآن مجید کی نشر و اشاعت کا سہارا لیتے ہیں، اور اس طرح کے مختلف سہاروں کی بنیاد پر وہ اپنے ملک کے مسلم عوام کا نہ صرف جذباتی استحصال کرتے ہیں، بلکہ وقت آنے پر اپنے آقائوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے عوام کی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر راغب السرجانی کی یہ کتاب ’’رجب طیب اردوان‘‘ بنیادی طور پر ترکی کی موجودہ سیاست سے بحث کرتی ہے، البتہ اس میں مسلم دنیا کی موجودہ سیاست سے متعلق بھی اہم نکات موجود ہیں۔ اس کتاب میں ترکی سیاست کا ہر پہلو سے تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور مستقبل کے ترکی کے سلسلے میں بھی شاندار گفتگو ہے۔ کتاب کے مترجم ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی صاحب ہیں، جو متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ماہنامہ ندائے اعتدال کے مدیر اور مدرسۃ العلوم الاسلامیہ (علی گڑھ) کے مہتمم ہیں۔ موصوف عالم اسلام کے سیاسی حالات سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور مسلم دنیا کے اتار چڑھائو سے بھی خوب واقف ہیں، موصوف کے ہاں مسلم دنیا کے حالات سے یہ دلچسپی صرف اکیڈمک نوعیت کی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ سچا جذبہ اور سچی تڑپ ہے جو دنیا بھر میں اسلامی احیا اور اسلامی بیداری کے لیے کام کرنے والوں کے تئیں آپ کے ہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ترجمہ کا مطالعہ کیجیے تو کہیں ترجمہ کا احساس بھی نہیں ہوتا، بہترین ترجمہ کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر موصوف کے حواشی اور تعلیقات نے کتاب کی افادیت کو دوچند کردیا ہے، چونکہ اصل کتاب 2012ء میں شائع ہوئی تھی، اس لیے موصوف نے ضمیمہ کے طور پر اپنی ایک تحریر سے بڑی کامیابی کے ساتھ اس خلا کو بھی پُرکردیا ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ اسلامی جدوجہد میں مصروف ہر فرد کی ضرورت ہے۔ ترکی میں اسلام پسندوں کا یہ تجربہ دنیا بھر کے ممالک میں کام کرنے والے اسلامی تحریک کے علَم برداروں کے لیے ایک طرف مہمیز کا کام دے گا، دوسری طرف غور و فکر کی ایک پوری دنیا فراہم کرے گا کہ سخت ترین مخالفت کے درمیان کس طرح اسلامی کاز کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ کتاب ترکی کی اسلامی تحریک کے متعلق عام ذہنوں میں اٹھنے والے بہت سے سوالات اور دوسروں کی جانب سے پھیلائے گئے بہت سے شبہات کا ازالہ کرے گی اور اسلام کا علَم بلند کرنے والوں کو ایک رخ دینے کا کام کرے گی۔‘‘
کتاب مجلّد ہے، نیوز پرنٹ پر طبع کی گئی ہے، ہر صحافی کو پڑھنی چاہیے اور تحریکِ اسلامی سے تعلق رکھنے والوں کو بھی اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔