آج دانش مستعار سے استفادہ کرتے ہیں تاکہ اس سرد موسم میں قارئین تازہ ہوا کے جھونکوں کا مزہ لے سکیں۔ برعظیم پاک و ہند کے بیشتر علاقے زمستانی ہوا کی زد میں ہیں، ہم اسے ’’مستانی ہوا‘‘ پڑھتے رہے یہ سوچ کر کہ ’’ز‘‘ کا سابقہ سہوِکاتب ہے۔ بہت سے لوگ اسے سہوِکتابت کہہ ڈالتے ہیں، لیکن سہو تو انسان سے ہوسکتا ہے، کتابت سے نہیں۔
فروغِ اردو میں مستغرق دبئی کے جناب عبدالمتین منیری نے ایک نئی بحث کی طرح ڈالی ہے۔ نسیم کی طرح عبدالمتین منیری ملکوں ملکوں بوئے اردو پھیلا رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے داغ دہلوی کے انتقال پر کہا تھا ’’گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے‘‘۔ ہم نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ یہ شانہ کیا ہے، تو بیشتر کندھے تک ہی پہنچے۔ تاہم کتنے ہی ایسے ہیں جو گیسوئے اردو سنوارنے کے لیے کنگھا لیے ہوئے ہیں۔ اس غیر ضروری تمہید کے بعد اب عبدالمتین منیری کی دعوتِ مبارزت ملاحظہ کریں، لکھتے ہیں:
’’اس مراسلہ سے ہم ایک نئی بحث کا آغاز کررہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ لوگ جو اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ ان عنوانات پر غور کریں گے اور اپنے خیالات کا اظہار کریں گے تاکہ اس کام کو مزید کارآمد بنایا جا سکے۔
یہ مقالہ مندرجہ ذیل ویب سائٹ پر موجود ہے:
https://www.humsub.com..pk/64535/arif-waqar-11/
مقالہ نگار کا نام ہے عارف وقار۔
جب موسم گرما 2010ء میں بڑی کوششوں کے بعد ہم کو یہ موقع ملا کہ ہم رَٹگَرز یونیورسٹی میں اردو کا ایک کورس پڑھائیں تو اس سلسلے میں ایک نئی توانائی آگئی۔ یہ تدریسی سلسلہ خود ہمارے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا، یوں کہ ہر وہ شخص جو اپنی زبان سے محبت کرتا ہے اس کا ایک شوق بلکہ شدید تمنا یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی زبان دوسروں کو بھی سکھائے۔ لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ذہنی طور سے بالغ افراد کو ایک نئی زبان سکھانا کتنا مشکل کام ہے۔ بچے تو زبان جِبِلّی استعداد کے تحت سیکھتے ہیں، نہ ان کو کوئی گرامر پڑھاتا ہے، نہ جملوں کی ساخت اور نہ علم لسانیات کی باریکیاں ان کے سامنے بیان کی جاتی ہیں اور نہ ایسا ہوسکتا ہے۔ بچپن میں ہم بچے کو ایک ساتھ چار زبانیں سکھا سکتے ہیں اور ایسے تجربات ہوچکے ہیں۔ کینیڈا کے صوبہ کیوبک میں بسے ہوئے پاکستانیوں کے بچے اسکول میں انگریزی اور فرانسیسی برابر سے سیکھ رہے ہیں، گھر کے اندر وہ اردو جانتے اور بولتے ہیں۔ اور اگر وہ مسلمان ہیں اور اسلامی مدرسے میں باقاعدہ پابندی سے جاتے رہتے ہیں تو عربی بھی سیکھ لیتے ہیں۔
اس کے برعکس وہ بالغ افراد جو بچپن سے لے کر بیس پچیس سال کی عمر تک کسی اور زبان کو اپنی مادری زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے رہے ہیں اُن کی لسانی بنیادیں اسی زبان کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے قائم ہوئی ہوتی ہیں۔ تو ہوتا یہ ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ ہر انسان میں نئی زبان سیکھنے کی اہلیت کم ہوتی جاتی ہے۔ لہٰذا بڑی عمر کے لوگ، خصوصاً بی، اے کے طلبہ جو کہ بیس بائیس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اُن کو نئی زبان سکھانے کے لیے اساتذہ کو خصوصی تربیت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دراصل استاد کو اس موقع پر اپنے آپ میں وہ ذہنی کیفیت پیدا کرنا ہوتی ہے جو ان طلبہ کی کسی بھی نئی زبان سیکھتے وقت ہوتی ہے۔
دوسرا سب سے بڑا مسئلہ غیر ملکیوں کو اردو سکھانے میں وہاں پیش آتا ہے جب ہم گرامر سکھانا شروع کرتے ہیں۔ ہر تعلیم یافتہ انسان جب کوئی نئی زبان سیکھتا ہے تو اس کا جذبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس نئی زبان میں بہت کم وقت میں مہارت حاصل کرلے، اور اس کے لیے وہ گرامر کو ضروری سمجھتا ہے۔ اب یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اردو ہے تو برصغیر کی زبان، اور اس کی بنیاد پراکرت کی شاخ کھڑی بولی کے ساختیے پر ہے، لیکن اردو کی گرامر متقدمین نے عربی کی اصطلاحوں میں ترتیب دی ہے۔ یعنی اردو کی گرامر پڑھانے کے لیے عربی کی اصطلاحات سیکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ یہ ہمارے جیسے اساتذہ کے لیے نئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ اب اس وقت اردو کی گرامر انگریزی میں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ایک دو کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں حالانکہ وہ کتابیں بڑے بڑے یونیورسٹی پریس کی شائع کردہ ہیں، ان میں جگہ جگہ ایسی فاش اغلاط ہیں کہ وہ کتابیں دراصل نئے طلبہ کے لیے گمراہ کن ہوگئی ہیں۔
ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے وہ بچے جو اب امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں پروان چڑھ رہے ہیں وہ اب اصلاً انگریزی (یا کسی یورپین زبان) کو اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں، اور حقیقت بھی یہی ہے۔ ماں باپ کی مروّت میں اگر وہ گھر میں ٹوٹی پھوٹی ارود بول لیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اردو داں بھی ہیں۔ ہمیں اس نئی نسل کو بھی غیر ملکیوں کی ہی فہرست میں رکھنا پڑے گا۔ اور یہی تجربہ ہم کو اردو کے اس تدریسی کورس کے دوران ہوا۔
کسی بھی زبان کے لیے اس کا سب سے قیمتی سرمایہ اس کی مخصوص صوتیات ہیں، اور اس کے بعد اس کا اپنا رسم الخط ہے۔ اور اردو کی تدریس میں یہی سب سے مشکل مرحلہ بھی ہے۔ اس کورس کے دوران سب سے بڑی دقت یہی سامنے آئی۔ آواز کے معاملے میں سب سے زیادہ دقت ’خ‘، ’ق‘ اور ’غ‘ کی آوازوں کو سمجھانے میں ہوئی۔ اور دوسری طرف وہ نوجوان جو کسی حد تک گھر کے ماحول کی وجہ سے اردو بول بھی لیتے ہیں اُن کا اردو کے رسم الخط سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں رہا ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے ہم نے سوفٹ ویئر کا سہارا لیا۔
یہ مقالے کا ایک حصہ ہے، باقی پھر سہی۔ اس مقالے میں بھی لئے، دئے کی عمومی غلطی موجود ہے جو مقالہ نگار بیرون ملک اردو پڑھاتے ہوئے وہاں بھی چھوڑ آئے ہوں گے۔ کبھی ’لیے‘ اور ’لئے‘ کی صوتیات ہی پر غور کرکے دیکھ لیں۔ ہمزہ کے ساتھ لئے اور گئے کی صوتیات یکساں ہے۔ مقالے کے دوسرے حصے میں ماہر لسانیات ڈاکٹر شوکت سبزواری (مرحوم) کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور انہوں نے یہ فرق بہت واضح کردیا تھا کہ جن حروف کے نیچے یے کے نکتے آتے ہیں ان پر ہمزہ نہیں لگتی۔ دیگر ماہرینِ لسانیات نے بھی لئے، دئے کی جگہ لیے، دیے لکھنے کی تاکید کی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ غلطی بھی فصاحت کے زمرے میں نہ آجائے۔ اب اگر اساتذہ غلط لکھیں گے تو ہم جیسے بھی اسی املا کا اتباع کریں گے۔