آج کے انسان کے لیے آج کا عذاب ہے… آج کی بد اعمالیاں آج کی سزا کی منتظر ہیں… جب انسان کے پاس آسائشیں ہوں اور سکون نہ ہو تو عذاب ہے… جب محافظ موجود ہوں اور حفاظت عنقا ہو تو عذاب ہے… جب نیکی، بدی نظر آئے اور بدی، محترم مانی جائے تو عذاب ہے۔ عذاب کا وقت خدا کسی پر نہ لائے… وہ وقت کہ جب مسلسل سفر ہورہا ہو اور فاصلے نہ کٹتے ہوں، تو عذاب قریب ہوتا ہے۔ ایسا وقت کہ انسان پر بغیر قصور اور بغیر کسی جرم کے مصیبتیں نازل ہوں اور وہ فریاد تک نہ کرسکے، عذاب کا وقت ہے۔ عذاب اُس وقت کو بھی کہتے ہیں کہ مبلغ، تبلیغ کرے اور سامعین مذاق اڑائیں۔ جب محسن کُشی وبا کی شکل اختیار کرلے، عذاب ہے۔
عذاب کا لمحہ، وہ لمحہ ہے جب کرنیں اپنے سورج کو چاٹنے لگ جائیں، جب شاخیں اپنے درخت کو کھا جائیں، جب اعضا اپنے وجود سے کٹ جانا چاہیں، جب اجزاء اپنے کُل سے منحرف ہوں، جب اپنی صورت اپنی صورت نہ رہے، جب نہ ہونا، ہونے سے بہتر ہو، جب آدھا راستہ طے کرنے کے بعد مسافر سوچنے لگ جائیں کہ یہ سفر بے کار ہے… عذاب ہی عذاب ہے… اُس مسافر کے لیے جس کے لیے اپنے سفر میں کوئی دلچسپی باقی نہ رہے، آگے جانے کی خواہش نہ رہے اور لوٹ جانا ممکن نہ ہو۔ جب انسان اپنے ماضی سے کٹ جائے اور مستقبل واضح نہ ہو، قافلے منتشر ہوجاتے ہیں اور رہنمائوں کی کثرت ہوتی ہے۔ عذاب ہے ایسی مسافرت، جس میں سفر کا انجام بھی سفر ہو… جس میں ہم سفر صرف اندیشہ ہو… ایسا سفر جیسے صحرا میں رات کی تنہائی میں ایک مسافر، جسے اپنی آواز سے ڈرلگتا ہے… ہولناک سناٹے میں چیخ کی آواز، عذاب کا اعلان ہے۔
جب انسان اپنے دیس میں خود کو پردیسی محسوس کرے تو عذاب ہے، جب اپنے گھر میں انسان خود کو مہمان محسوس کرے تو عذاب سے کم نہیں۔ جب آوازوں کا اتنا شور ہو کہ انسان کی گویائی آواز کے سمندر میں ڈوب جائے‘ تو دکھ کا زمانہ ہے۔ جب سورج روشنی دینا بند کردے تو عذاب ہے۔ جب زمانہ امن کا ہو اور حالات جنگ کے ہوں تو عذاب ہے۔
طرفہ عذاب تو یہ ہے کہ دلوں سے مروت نکل جائے، احساس ختم ہوجائے، ہمدردی کے جذبات سرد پڑجائیں اور انسان کھوکھلی آنکھوں سے جلتے ہوئے گھر اور ڈوبتے ہوئے سہارے دیکھ رہا ہو… جب فریاد زبان پر آنے سے پہلے زبان کٹ جائے… جب انسان کے پاس راز ہو اور اس کا کوئی محرمِ راز نہ ہو… جب آنکھوں میں آنسو ہوں اور اُس کے گرد جشن منانے والے درندے ہوں… جب وحشت رقص کرے اور معصومیت کے جنازے اٹھ رہے ہوں… عذاب ہے۔
(’’قطرہ قطرہ قلزم‘‘… واصف علی واصفؔ)
پروانہ اور جگنو
(پروانہ)
پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو
کیوں آتشِ بے سوز پہ مغرور ہے جگنو
(1) پروانہ جگنو سے کہتا ہے: جگنو پروانے کے مقام سے بہت دور ہے۔ پروانہ شمع پر گر کر جل مرتا ہے، لیکن جگنو کے پاس جو آگ ہے، اس میں جلن ہے ہی نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جگنو بے سوز آگ پر کیوں اترا رہا ہے۔
(جگنو)
اللہ کا سو شکر، کہ پروانہ نہیں میں
دریوزہ گر آتشِ بیگانہ نہیں میں
دریوزہ گر: بھکاری۔
(2) جگنو جواب دیتا ہے: خدا کا شکر ہے کہ میں پروانہ نہیں بنا، اس لیے کہ مجھے جل مرنے کے لیے دوسرے سے آگ کی بھیک نہیں نہیں مانگنی پڑتی۔
اس نظم سے ہمیں یہ اخلاقی سبق ملتا ہے کہ ہر وجود کو صرف اپنے جوہروں سے کام لینا چاہیے، اپنے جوہر کی نمائش کے لیے دوسروں کا محتاج ہونا شایان نہیں۔ یہ امر خود داری کے خلاف ہے۔