کالے علم اور سفلی عمل کے متاثرین ضعیف الاعتقاد لوگوں کی خدمت میں

پاکستان میں جہاں علم روبہ زوال ہے، کالا علم روبہ ترقی ہے۔ قوم ذہنی مُردنی کے ساتھ بے عملی کا بھی شکار ہے۔ لیکن عملیات کا بڑا زور ہے۔ نجوم، جفر، رمل، علم الاعداد کے پڑھے لکھے لوگ بھی قائل ہیں۔ اور اگرچہ برصغیر کے مسلمانوں میں توہم پرستی ہندوئوں سے کم ہے لیکن پھر بھی بہت زیادہ ہے اور جعلی پیروں، فقیروں، عاملوں کا دھندا تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔
ہمارے معاشرے کے ایک پیر وہ ہیں جو جہالت نے پیدا کیے ہیں۔ یہ پیر خود بھی جاہل ہیں اور ان کے معتقدین بھی۔ نفسیاتی مریضوں کا علاج یہ ڈنڈے سے کرتے ہیں۔ لاہور کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ ایک جعلی پیر نے جن نکالنے کے لیے تشدد کرکے سات بچوں کی ماں کو مار ڈالا۔ میں ایک گھرانے کو جانتا ہوں، ان کا لڑکا پولیو کا شکار ہوگیا تھا۔ عامل صاحب نے عمل یہ بتایا کہ وہ ایک مہینہ اندھیری کوٹھری میں بند رہے اور ان کا وظیفہ پڑھتا رہے۔ لڑکے نے کال کوٹھری میں یہ قید کاٹی۔ اس بے چارے کا جسم پہلے ہی مفلوج تھا، اس عمل سے گزر کر ذہن بھی متاثر ہوا، اور بعد میں بڑی مشکل سے اس کی حالت ٹھیک ہوئی۔ اس عرصے میں عامل صاحب ہزاروں روپے بٹور چکے تھے اور غریب خاندان نے یہ رقم بڑی مشکل سے ادا کی تھی۔
ڈنڈے کے زور پرجن نکالنے والے عامل عام ہیں، مگر ان سے زیادہ قرآنی عملیات اور سفلی عملیات میں مہارت رکھنے والے عامل ہیں۔ پنجاب میں ایسے بہت سے جعلی پیر پکڑے گئے ہیں جو مسلمان ہی نہیں تھے، عیسائی فرقے سے ان کا تعلق ہے، لیکن یہ مسلمان پیر اور فقیر بنے جعل سازیاں کررہے ہیں۔ روزنامہ خبریں نے ایسے ہی ایک جعلی پیر کی خبر دی ہے کہ لاہور کی پرانی آبادی اکبر شہید چوک کا محمد بوٹا لاولد تھا، اُس کی بیوی انوری بیٹا حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھی، وہ اس جعلی عیسائی پیر کے پاس پہنچی۔ جعلی پیر نے برہنہ جسم پر تعویذ لکھنے کے لیے کہا۔ انوری پہلے ہچکچاتی رہی، مگر بعد میں بیٹے کی خواہش غالب آگئی۔ مشتاق مسیح کئی روز تک اسے بلاتا رہا اور جسم پر تعویذ لکھتا رہا۔ ایک دن مجرمانہ حملہ کیا، انوری کی چیخ پکار پر لوگ جمع ہوئے لیکن وہ اپنا کام کرچکا تھا، اولاد کی خواہش میں انوری بے آبرو ہوچکی تھی۔ عامل کو پکڑا گیا تو اس کی اصلیت معلوم ہوئی۔ پنجاب میں پہلے تو جعلی عاملوں، پیروں کے کاروبار میں ماشاء اللہ سے مسلمان تھے، اب عیسائی بھی بھیس بدل کر اس کاروبار میں شریک ہوگئے ہیں، اور یہ گروہ ترقی پر ہے۔
پاکستان کے ہر حصے میں مرادیں بر لانے والے پیر، عامل، فقیر اپنا کام کررہے ہیں۔ ان میں عورتیں بھی ہیں جو گھروں کا دروازہ کھٹ کھٹا کر عورتوں سے اپنی بات چیت کا آغاز کرتی ہیں، انہیں کوئی شعبدہ دکھاتی ہیں اور رقم یا زیور دوگنا کرنے کا لالچ دے کر لوٹ لیتی ہیں، لیکن سب سے زیادہ جو مسئلہ ہے وہ گھرانوں کا ہے۔ جو گھرانہ بھی کسی مصیبت، بیماری، روزگار کی تنگی، خاندانی جھگڑوں کا شکار ہوتا ہے اُس کا خیال ہوجاتا ہے کہ اس کے مخالف رشتے داروں نے اس پر سفلی عمل کرایا ہے، اور پھر اس گھرانے کو کالے علم کی کاٹ کرنے والے عامل کی تلاش ہوتی ہے۔ مشہور ہے کہ قرآنی آیات کو الٹا پڑھ کر یا الٹا لکھ کر سفلی عمل کیا جا سکتا ہے۔ عورتوں کی طرح مرد بھی ان خرافات پر یقین رکھتے ہیں اور پریشان رہتے ہیں کہ جس سفلی عمل کے وہ زیراثر آگئے ہیں اس سے نجات کیسے حاصل کریں۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ عورتوں کی اس کمزوری سے واقف تھے کہ انہیں خاص خاص کاموں کے لیے تعویذ، نقش، وظیفے، عملیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے عورتوں کے لیے جو کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ لکھی اُس میں بہت سے نقش، تعویذ، وظیفے وغیرہ درج کردیے گئے ہیں، اور عورتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ان کے ذریعے اپنا مطلب حاصل کریں۔ پیروں، فقیروں، عاملوں کے پاس ہرگز نہ جائیں۔ یہ دراصل عورتوں کو عمل، عملیات اور دعا تعویذ کے معاملے میں خود مکتفی بنانے کی ترکیب تھی، مگر کچھ زیادہ کارگر نہیں ہوئی۔ ضعیف الاعتقادی ہمارے معاشرے میں مسلسل ترقی کررہی ہے۔ عورتوں کی طرح مرد بھی اس کا شکار ہیں، اور آج کل جاہلوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اس چکر میں پڑ گئے ہیں۔
نجوم کا چکر بھی فضول ہے۔ ابنِ خلدون نے جس کا مقدمہ تاریخ جدید یورپ کی پیدائش پر بھی اثرانداز ہوا ہے، لکھا ہے کہ اس نے برسوں تک علم نجوم کی حقیقت جاننے کے لیے کوشش کی اور آخر میں معلوم ہواکہ نجوم علم نہیں جہالت ہے، اس کی کوئی اصلیت یا حقیقت نہیں، اور اسلام میں تو پہلے دن ہی نجوم پر اعتقاد کو غلط قرار دیا گیا ہے، پھر بھی افسوس ہے کہ مسلمان بھی اس چکر میں ہیں تاہم ہندوئوں سے کم۔ وہاں تو ہر شخص کی جنم پتری یا زائچہ پیدائش بنانا ضروری ہے۔ اور شادی ہو، فیکٹری یا دکان کا افتتاح ہو، یا وزارت کا حلف، ہر کام علمِ نجوم کی گھڑیوں کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ ہندوئوں پر ہی منحصر نہیں ہے، جدید مغرب میں بھی نجوم کی جہالت نے نیا عروج حاصل کیا ہے۔ سال کیسا گزرے گا، ہفتہ کیسا گزرے گا پر منحصر نہیں، اب تو ایسی کتابیں آرہی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ آپ کا دن کیسا گزرے گا، اور پورے سال کا یوم بہ یوم حال پیشگی اطلاع کے طور پر درج ہوتا ہے۔ برصغیر میں جن نجومیوں کو کامیابی نہیں حاصل ہوئی انہوں نے لندن پہنچ کر بڑا نام کمایا، ان میں ایک میر بشیر مرحوم تھے جو ممبئی سے لندن گئے تھے۔
عملیات کے ماہر جو شعبدہ بازی کرتے ہیں اس میں کیمیکل استعمال ہوتے ہیں، مثلاً جن اتارنے والوں کے پاس جو لوٹا ہوتا ہے اس میں کیمیکل پانی میں گرج اور آوازیں پیدا کرتا ہے۔ عامل صاحب اسے جن کی چیخ و پکار قرار دیتے ہیں کہ لو دیکھو قابو میں آگیا اور اب ہمارے لوٹے میں بند ہے۔ اس طرح جو فقیر جلالی روپ میں پھرتے ہیں وہ کیمیکل کی مدد سے ہی چاول سے خون نچوڑ کر بتاتے ہیں۔ اس طرح فقیر مردوں، عورتوں کے پاس خاص بُوٹی ہوتی ہے جو آدمی کے دماغ کو کچھ دیر کے لیے معطل کردیتی ہے اور جو وہ کہتے ہیں آدمی اُس کے مطابق کرتا ہے۔ بُوٹی کا اثر ختم ہونے کے بعد انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ لٹ چکے ہیں۔
ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی سے لوگوں کو نجات دلانے کے لیے بھی ایک مہم کی ضرورت ہے، مگر یہ مہم چلانے سے پہلے ہمیں خود اپنے دل و دماغ کو اس کے اثر سے پاک کرلینا چاہیے، کیونکہ اس بیماری کی جڑیں معاشرے میں گہری ہیں، اور آپ کو پہلے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں آپ کے گھر کا کوئی فرد اس بیماری کا شکار تو نہیں ہے؟
نیک اور بزرگ لوگوںسے دعا کرانے میں حرج نہیں ہے مگر پہلے خود دعا کرنی چاہیے۔ اگر آپ کسی تکلیف میں ہیں اور اللہ کے حضور خود گڑگڑا کر دعا نہیں کررہے ہیں اور ہر کام کسی دوسرے پر ٹرخا رہے ہیں تو یہ بات اللہ کو پسند نہیں آئے گی۔ آپ کو یقین رکھنا چاہیے کہ آپ کا اللہ آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، اور وہ دعائوں کو سننے اور قبول کرنے والا ہے۔ اس لیے جو بھی مسئلہ درپیش ہے اس کے لیے دعا کیجیے، جعل ساز پیروں، فقیروں، عاملوں کے چکر میں نہ پھنسیے، اور یہ یقین کیجیے کہ کالے علم، جادو ٹونے کے کاروبار میں جعل سازی ہی جعل سازی ہے۔ اس شیطانی چکر میں پھنسنے کے بجائے خدا سے دعا کیجیے اور اسی سے مدد مانگیے، وہی مرادوں کا پورا کرنے والا ہے۔