سینیٹ میں افغانستان اور شام سے فوجی انخلا کے خلاف قرارداد کی منظوری
نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مرحوم قاضی حسین احمد نے کہا تھا کہ ’’روس نے بازی ہاری ہے، اب امریکہ کی باری ہے‘‘۔ بعد میں مردِ قلندر کے ان الفاظ نے ایک قومی نعرے کی شکل اختیار کرلی۔ ایک عرصے تک پاکستان کے دانش وروں نے اسے دیوانے کی بڑ اور شیخ چلی کا خواب قرار دیا۔ 17سال گزرنے کے بعد قاضی صاحب کی بات تو درست ثابت ہوئی مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ کی باری سے پہلے کہیں صدرِ امریکہ کی باری نہ آجائے۔ جی ہاں، صدر ٹرمپ کی جانب سے انخلا پر آمادگی کے ساتھ ہی اُن کے خلاف امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ متحد و منظم ہوگئی ہے۔
جو لوگ صدر ٹرمپ کے طرزِ سیاست پر نظر رکھتے ہیں انھیں اندازہ ہوگا کہ نسلی تعصب، مسلمان مخالف جذبات، رنگ دار اور غیر ملک نژاد امریکیوں کے بارے میں منفی رویّے سے قطع نظر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سرکاری خرچ کے معاملے میں بے حد حساس ہیں۔ 20 جنوری 2017ء کو امریکی صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ امریکیوں کے خون پسینے کی کمائی کو شوقِ کشور کشائی میں ضائع نہیں کریں گے۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ وہ امریکہ کے صدر ہیں جس کی بنیادی ذمہ داری امریکیوں کے لیے خوشی اور خوشحالی کو یقینی بنانا ہے۔
سرکاری اخراجات کے معاملے میں انھوں نے اپنے وزرا پر بھی گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ اپنے قریب ترین ساتھی، انتخابی مہم کے بڑے معاون اور وزیرِصحت و عوامی خدمات ڈاکٹر ٹام پرائس (Tom Price)کو انھوں نے صرف اس بات پر برطرف کردیا کہ وہ سرکاری دوروں کے لیے عام تجارتی پروازوں (Commercial Flights) کے بجائے چارٹر طیارے استعمال کرتے تھے۔ صدر ٹرمپ کا مؤقف تھا کہ یہ قومی دولت کا زیاں ہے۔ مزے کی بات کہ ٹام پرائس صاحب کو پروانۂ برطرفی تھمانے سے پہلے چارٹر اور کمرشل فلائٹ کے خرچ کا فرق بھی اُن سے وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرادیا گیا۔ اسی کے ساتھ صدر کی ہدایت پر وہائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف نے تمام وزرا کو ایک تنبیہی خط لکھا جس میں انھیں باور کرایا گیا کہ امریکی شہری ہفتے میں کم از کم 40 گھنٹے سخت محنت مشقت کے بعد جو کماتے ہیں اس کا ایک حصہ ٹیکس کی شکل میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ امریکی عوام اپنے خون پسینے کی کمائی سے حکومت کو پال رہے ہیں، لہٰذا ایک ایک پائی خرچ کرنے سے پہلے صدر سمیت حکومت کے ہر ذمہ دار کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ اس میں فضول خرچی کا کوئی شائبہ تو نہیں؟
بین الاقوامی تعلقات کے باب میں بھی ’سب سے پہلے امریکہ‘ امریکی صدر ٹرمپ کی بنیادی ترجیح ہے، چنانچہ انھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی نیٹو اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ ادارے کے اخراجات دیانت داری سے ادا کریں۔ ان کے حکم پر وزارتِ خارجہ نے نیٹو کے ہر رکن کی جانب سے واجبات کی ادائیگی کا ایک جائزہ پیش کیا اور نادہندگان کو خطوط لکھے۔ نیٹو سربراہ ملاقاتوں میں بھی وہ نیٹو واجبات کی ادائیگی پر زور دیتے ہیں۔ ان کا یہی رویہ ان کے خلیجی اور ایشیائی اتحادیوں کے ساتھ بھی ہے۔
صدر ٹرمپ ایک کاروباری آدمی ہیں۔ وہ خرچ پر نظر رکھنے کے ساتھ اسے کم، اور غیر ضروری اخراجات ختم کرنے کے قائل ہیں۔ انھوں نے اقتدار میں آتے ہی پینٹاگون (وزارتِ دفاع) سے دریافت کیا کہ:
٭جنوبی کوریا میں امریکی فوج کی تعیناتی اور فوجی مشقوں پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے؟
٭شام اور عراق میں موجود امریکی فوج کا مجموعی خرچ کتنا ہے؟
٭خلیج عرب میں امریکی بحریہ کے گشت پر کتنی لاگت آتی ہے؟
٭افغانستان پر قبضے کی امریکی عوام کو کیا قیمت دینی پڑ رہی ہے؟
جب یہ اخراجات سامنے آئے تو خود پینٹاگون کو بھی حیرت ہوئی۔ افغانستان میں امریکی فوج کے قیام کا تخمینہ 75 ارب ڈالر سالانہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے 2017ء کے وسط سے کوریا کا جوہری تنازع شمالی کوریا پر پابندیوں اور بات چیت کے ذریعے نبٹانے، شام میں داعش کے خلاف سخت کارروائی کے بعد فوج واپس بلانے، اور افغانستان پر فیصلہ کن وار کرنے کا فیصلہ کیا۔ صدر ٹرمپ کی خوش نصیبی کہ شمالی کوریا پر پابندی کی چین نے بھی بھرپور حمایت کی، بلکہ یوں کہیے کہ تجارتی مفادات پر بیجنگ نے شمالی کوریا کی دوستی کو قربان کردیا۔ چین کی بے وفائی سے شمالی کوریا کے رہنما ’کم جونگ ان‘ کے پاس امریکہ سے براہِ راست بات چیت کے سوا کوئی راستہ نہ رہا، اور دونوں رہنمائوں کے درمیان گزشتہ برس 12 جون کو براہِ راست ملاقات نے اس مسئلے کے پُرامن حل کی راہ ہموار کردی۔ کشیدگی کم ہوتے ہی صدر ٹرمپ نے جزیرہ نمائے کوریا میں فوجی مشقیں ختم کرنے کا اعلان کردیا اور صاف صاف کہاکہ فوجی مشق کے ذریعے شمالی کوریا کو مرعوب کرنا امریکہ کی نہیں بلکہ جنوبی کوریا کی ضرورت ہے، اور اس کام کے لیے وہ امریکی ٹیکس دہندگان کے کروڑوں ڈالر خرچ نہیں کرسکتے۔
افغانستان کے معاملے میں صدر ٹرمپ نے اپنے جرنیلوں سے کہا کہ اگر ایک ڈیڑھ سال میں مُلّائوں کو کچل کر فیصلہ کن فتح حاصل کی جاسکتی ہے تو ٹھیک، ورنہ افغانستان سے باوقار واپسی ہی مناسب ہے، کہ بے مقصد پڑائو کے لیے امریکی ٹیکس دہندگان پر 75 ارب ڈالر کا بوجھ ان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ فتحِ افغانستان کے نئے منصوبے کی تدوین و تصنیف بھی ان ہی سورمائوں کو سونپی گئی جن کی پالیسیوں اور طرزِعمل نے افغانستان اور وہاں تعینات امریکی فوج کو اس حال میں پہنچایا ہے۔ یعنی وزیر دفاع جنرل میٹس، قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر جنرل مک ماسٹر، وہائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف جنرل جان کیلی، سابق مشیرِ سلامتی جنرل مائیکل فلن، سی آئی اے کے سابق ڈی جی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس وغیرہ۔
صدر ٹرمپ کے جرنیلوں نے اپنی ناکامی کا الزام یہ کہہ کر بارک اوباما پر ڈال دیا کہ سابق امریکی صدر نے اُن کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔ جرنیلوں کا مؤقف تھا کہ صدر اوباما نے ان کے مشورے کے علی الرغم افغانستان سے امریکی فوج کو واپس بلالیا جس کی وجہ سے طالبان کو تقویت ملی، اور یہ سابق امریکی صدر کی بہت بڑی غلطی تھی۔ چنانچہ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں اضافی امریکی فوجی دستے بھیجنے کے ساتھ عسکری قیادت کو مکمل آزادی دینے کا فیصلہ کرلیا، لیکن اسی کے ساتھ جرنیلوں کو یہ بھی گوش گزار کردیا گیاکہ امریکی صدر 12 سے 18 ماہ میں فیصلہ کن نتیجے کی توقع رکھتے ہیں، اور اسے دستخط شدہ کورا چیک نہ سمجھا جائے۔
افغانستان میں فیصلہ کن لڑائی کے لیے 21 اگست 2017ء کو امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے ایک جارحانہ پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت تازہ دم 3 ہزار اضافی فوجی مشیر، عسکری تربیت کار اور چھاپہ مار جنگ کے ماہر سپاہی افغانستان بھیجے گئے۔ پاکستان پر طالبان کے خلاف براہِ راست کارروائی کرنے کے لیے زبردست دبائو ڈالا گیا۔ اسی کے ساتھ جرنیلوں کو مکمل آزادی عطا کردی گئی۔ اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی سورمائوں نے سارے افغانستان پر وحشیانہ بمباری شروع کرادی۔ نیٹو کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں پر 600 فضائی حملے فی ماہ کیے گئے، لیکن 11 ماہ بعد جب گزشتہ برس جولائی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ 6600 سے زیادہ فضائی حملوں کے باوجود ایک مربع انچ زمین بھی طالبان کے قبضے سے چھڑائی نہ جاسکی، بلکہ بے گناہوں کی ہلاکت سے افغان حکومت کے زیراثر علاقوں میں بھی طالبان کی حمایت بڑھتی جارہی ہے۔ امریکی حکومت کے نگراں ادارے سینئر انسپکٹر جنرل برائے افغان تعمیرِ نو یعنی SIGARکے مطابق 52 فیصد افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہے اور اب جنوبی اور مشرقی افغانستان کے پشتون علاقوں کے ساتھ شمال میں فارسی بان صوبے بھی ان کی گرفت میں آگئے ہیں۔ SIGARکا کہنا تھا کہ نئی افغان پالیسی کے تحت جرنیلوں نے امریکی سپاہیوں کو چھائونیوں اور اڈوں میں سراغ رسانی، ڈرون کی نگہبانی اور مقامی سپاہیوں کی تربیت تک محدود کردیا ہے۔ اس ’احتیاط‘ کی وجہ سے امریکہ میں تابوتوں کی آمد کا سلسلہ رک گیا ہے لیکن وحشیانہ بمباری کے باوجود میدانِ جنگ میں طالبان مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ غیرجانب دار عسکری ذرائع کے حوالے سے اس نشست میں یہ بھی کہا گیاکہ طالبان کا دبائو بڑھنے کے ساتھ منشیات کے استعمال کی وجہ سے افغان فوج کی کارکردگی ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔
اس رپورٹ کے بعد صدر ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا اصولی فیصلہ کرلیا اور جرنیلوں کو انخلا کا ایک جامع منصوبہ بنانے کا حکم دیا۔ امریکی صدر کے اس حکم سے امریکی جرنیلوں کو تو صرف شرمندگی اور مایوسی ہوئی لیکن کابل کے ڈاکٹر صاحبان یعنی ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی۔ دونوں حضرات کو معلوم تھا کہ ان کے لیے امریکی فوج کی واپسی ایسی ہی ہے جیسے کہ پیر سے معذور کسی شخص سے بیساکھیاں چھین لی جائیں۔ چنانچہ براہِ راست بات چیت کے لیے طالبان کو انتہائی پُرکشش شرائط پیش کی گئیں جس میں جلال الدین حقانی مرحوم کے صاحبزادے انس حقانی سمیت تمام طالبان قیدیوں کی رہائی، سرکاری خرچ پر کابل میں طالبان کے دفتر کے قیام، مذاکرات کے لیے ملک واپس آنے والے طالبان رہنمائوں کے پاسپورٹ کا اجرا، طالبان سپاہیوں کو فوج میں باوقار جگہ دینے اور شرکتِ اقتدار وغیرہ شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ جکارتہ اور سعودی عرب میں علما کی بیٹھک اور فتووں کے ڈول بھی ڈالے گئے، لیکن طالبان نے کابل حکومت کی پیشکش پر غور کرنے سے بھی انکار کردیا۔
دوسری طرف امریکی وزارتِ خارجہ نے طالبان سے سلسلۂ جنبانی شروع کیا۔ امریکہ کی نائب وزیرخارجہ برائے جنوب و وسط ایشیا ایلس ویلزکی قطر میں طالبان سے براہِ راست ملاقات کی خبریں شائع ہوئیں، اور 5 ستمبر کو امریکی وزارتِ خارجہ نے کابل میں امریکہ کے سابق سفیر جناب زلمے خلیل زاد کو امریکی حکومت کا نمائندۂ خصوصی برائے افغان مصالحت مقرر کردیا۔
اسی دوران صدر ٹرمپ نے مشورے اور اجلاس کے تکلف میں پڑے بغیر شام سے امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کردیا، اور ساتھ ہی پینٹاگون کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ امریکی صدر نے افغانستان میں تعینات نصف کے قریب فوج کی فوری واپسی کے ساتھ مکمل انخلا کا منصوبہ بنانے کا حکم دیا ہے۔
امریکی فوج اور وزارتِ دفاع شام و افغانستان سے مکمل انخلا کے حق میں نہیں۔ مشورہ کیے بغیر شام سے فوج کے انخلا پر امریکی وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس نے استعفیٰ دے دیا۔ اسی کے ساتھ قدامت پسند حلقوں نے افغانستان سے فوجی انخلا کے خلاف منظم مہم شروع کردی۔ صدر کے قریبی رفیق اور مسلم مخالف سینیٹر لنڈسے گراہم (Lindsay Graham) ان قدامت پسند جنگجوئوں کے سرخیل ہیں۔ دوسری طرف افغان حکومت نے بھی فوری انخلا کی صورت میں افغانستان پر داعش اور دوسرے دہشت گردوں کے قبضے سے ڈرانا شروع کردیا۔ کابل انتظامیہ کا اصرار تھا کہ امن بات چیت افغان حکومت کے زیرنگرانی ہونی چاہیے۔
ستمبر میں امریکی وزیرخارجہ پاکستان آئے اور انھوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات میں زور دیا کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثررسوخ استعمال کرتے ہوئے انھیں کابل انتظامیہ سے بات چیت پر رضامند کرے۔ ملاقات کے بعد امریکی سفارت خانے میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے مائک پومپیو نے مزید فرمایا کہ پاکستان کو معاشی پریشانیوں پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت ہے اور امریکہ اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ امریکی وزیرخارجہ نے ماضی کے برخلاف پاکستان پر تعریف کے ڈونگرے برسائے اور امید ظاہر کی کہ اسلام آباد طالبان کو افغان حکومت سے بات چیت پر رضامند کرلے گا۔ تعریف سے سرشار ہوکر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان جاری کردیا کہ ’’طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا۔‘‘
زلمے خلیل زاد ایک طرف طالبان سے ملاقات کے دوران انھیں اپنے اخلاص کا یقین دلاتے رہے، تو دوسری طرف امریکی حکومت کے خصوصی نمائندے پاکستان پر مسلسل زور دیتے رہے کہ وہ طالبان کو افغان حکومت سے براہِ راست بات چیت پر آمادہ کرے۔ قطر میں ابتدائی ملاقات کے بعد جب زلمے خلیل زاد کابل پہنچے تو اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں فرمایا کہ اگر طالبان مذاکرات پر راضی نہیں تو ہم جنگ کے لیے تیار ہیں۔ اس بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ امریکی فوج چاہے تو تیاری کرلے، ہم تو گزشتہ 40 سال سے جہاد میں مصروف ہیں اور ہمیں کسی تیاری کی ضرورت نہیں۔ اس انتباہ کے دو ہی دن بعد طالبان نے صوبہ وردک کے صدر مقام میدان شہر میں افغان حکومت کے خفیہ ادارے (NDS)کے دفتر پر حملہ کرکے سواسو سے زیادہ ایجنٹوں کو ہلاک کردیا۔ حملے میں امریکی فوج سے چھینی گئی ایک بکتربند گاڑی استعمال کی گئی۔
اسی کے ساتھ سینیٹر لنڈسے گراہم کھل کر سامنے آئے۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ طالبان پسپا ہوتی نیٹو فوج کے لیے محفوط راستے کے سوا اور کچھ دینے کو تیار نہیں، وہ نہ تو فوجی اڈوں پر راضی ہورہے ہیں اور نہ ہی امریکہ نواز کابل انتظامیہ سے شرکتِ اقتدار پر۔ طالبان افغان سرزمین کو امریکہ یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت دینے کو تیار ہیں، لیکن اس عہد کی پاسداری کو جانچنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر امریکی فوج غیر مشروط طور پر افغانستان سے لوٹ آئی تو کل کو یہ مولوی تاوانِ جنگ کا دعویٰ بھی کرسکتے ہیں۔ فاضل سینیٹر چاہتے ہیں کہ طالبان پردبائو ڈال کر انھیں کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر مجبور کیا جائے تاکہ ہتھیار ڈالنے کا تاثر نہ پیدا ہو۔ اس سلسلے میں وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے، اور موجودہ معاشی پریشانیوں کے تناظر میں پاکستان سے یہ ’خدمت‘ لی جاسکتی ہے۔ انھیں یہ بھی پتا ہے کہ پاکستانی قیادت تعریف کی خوگر ہے اور قربت کا لارا دے کر بہت سارے کام نکالے جاسکتے ہیں، چنانچہ انھوں نے شیشے میں اتارنے کے لیے جناب عمران خان کے کانوں میں شہد گھولنا شروع کردیا ہے۔ اسلام آباد میں ملاقات کے بعد انھوں نے کہا کہ طالبان سے بات چیت کی بات سب سے پہلے عمران خان نے کی تھی، اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ ایک صائب مشورہ تھا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ افغانستان میں امن کا قیام عمران خان کے دورِ حکومت میں ہی ممکن ہے۔
امریکی سینیٹ میں فوری انخلا کے خلاف تحریک بھی پیش کردی گئی۔ اس سلسلے میں 31 جنوری کو 28 کے مقابلے میں 68 ووٹوں سے ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ داعش اور القاعدہ کی یقینی شکست سے پہلے شام اور افغانستان سے امریکی فوج واپس نہ بلائی جائے۔ فی الحال تو صدر ٹرمپ کے لیے اس قرارداد پر عمل ضروری نہیں کہ یہ صرف مشورہ ہے، لیکن قرارداد کے محرک اور سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے قائد رمچ مک کونل اگلے ہفتے مڈل ایسٹ سیکورٹی پالیسی بل کے عنوان سے ایک مسودۂ قانون پیش کرنا چاہتے ہیں جس میں فوجی انخلا سے پہلے داعش اور القاعدہ کا خاتمہ ضروری قرار دیا جائے گا۔ اس قانوں کے تحت امریکی صدر یہ تصدیق کرنے کا پابند ہوگا کہ ان دونوں قوتوں کا خاتمہ ہوچکا ہے، جس کے بعد ہی امریکی فوجی واپس بلائے جاسکیں گے۔
اس قرارداد کے باوجود صدر ٹرمپ امریکی فوج کے انخلا کے لیے پُرعزم نظر آتے ہیں۔ یکم فروری کو وہائٹ ہائوس میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ طالبان سے انتہائی سنجیدہ مذاکرات جاری ہیں اور 18 سال میں پہلی بار اس جانب شاندار پیش رفت ہوتی نظر آرہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ داعش کو شکست ہوچکی ہے اور افغانستان میں بچی کھچی داعش کو طالبان ٹھکانے لگا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امن کے لیے طالبان کے اخلاص پر شک کی کوئی وجہ نہیں، اور ہم محض ممکنات اور انجانے خوف کی بنا پر اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو ہمیشہ کے لیے میدانِ جنگ میں نہیں چھوڑ سکتے۔
اس ضمن میں 3 فروری کو امریکی صدر نے ایک تازہ ترین شوشہ یہ چھوڑ دیا کہ فوجی انخلا کے بعد بھی امریکہ کے خفیہ ادارے افغانستان میں موجود رہیں گے۔ انھوں یہ وضاحت نہیں کی کہ ان ایجنٹوں کی حفاظت کے لیے امریکی فوج یا نجی گارڈ بھی رکھے جائیں گے، یا ان کی دیکھ بھال طالبان کی ذمہ داری ہوگی۔ یہ افواہ بھی ہے کہ امریکہ بہادر کی انٹیلی جنس چوکی سرحد پر پاکستانی حدود میں بنائی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کے اس نئے شگوفے پر طالبان کا ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن طالبان کے تیور سے ایسا لگتا ہے کہ اُن کے لیے سفارت خانے اور چند قونصل خانوں کے سوا افغان سرزمین پر امریکی موجودگی کا کوئی بھی نشان قابلِ قبول نہیں۔ بہت ممکن ہے کہ امریکی انٹیلی جنس اہلکار اتاشیوں کی شکل میں سفارتی عملے کے ساتھ تعینات کیے جائیں۔
……………
اب آپ مسعود ابدالی کی فیس بک پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comپر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔