اسلام کا احیا اور اکیسویں صدی

انسانی تہذیب کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات

’’آپ کا سخت بدخواہ ہوں گا اگر لاگ لپیٹ کے بغیر آپ کو صاف صاف نہ بتادوں کہ آپ کی زندگی کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ میرے علم میں آپ کا حال اور مستقبل معلق ہے اس سوال پر کہ آپ اُس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں جو آپ کو خدا کے رسولؐ کی معرفت پہنچی ہے، جس کی نسبت سے آپ کو مسلمان کہا جاتا ہے اور جس کے تعلق سے خواہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں بہرحال دنیا میں اسلام کے نمائندے قرار پاتے ہیں۔ اگر آپ اس کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول و عمل سے اس کی شہادت دیں، اور آپ کے اجتماعی کردار میں پورے اسلام کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے، تو آپ دنیا میں سربلند اور آخرت میں سرخرو ہوکر رہیں گے۔ خوف اور حزن، ذلت و مسکنت، مغلوبی اور محکومی کے یہ سیاہ بادل جو آپ پر چھائے ہوئے ہیں چند سال کے اندر چھٹ جائیں گے۔ آپ کی دعوت ِ حق اور سیرتِ صالحہ دلوں اور دماغوں کو مسخر کرتی چلی جائے گی۔ آپ کی ساکھ اور دھاک دنیا پر بیٹھتی چلی جائے گی۔انصاف کی امیدیں آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ بھروسا آپ کی امانت اور دیانت پر کیا جائے گا۔ سند آپ کے قول کی لائی جائے گی۔ بھلائی کی توقعات آپ سے باندھی جائیں گی۔ ائمہ کفر کی کوئی ساکھ آپ کے مقابلے میں باقی نہ رہ جائے گی۔ ان کے تمام فلسفے اور سیاسی و معاشی نظریے آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔ اور وہ طاقتیں جو آج ان کے کیمپ میں نظر آرہی ہیں، ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادّہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی۔ اور یہ آج کا دور صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا۔‘‘
(شہادتِ حق، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ، 30 دسمبر1946ء)
’’اس انتہائی نازک، ہوش ربا اور اضطراب انگیز مرحلے میں تاریخ کے اسٹیج پر اب اسلام اور امتِ مسلمہ کی باری آئی ہے۔ اسلام موجودہ مادی ایجادات کا مخالف نہیں ہے، بلکہ وہ تو مادی ترقی کو انسان کا فرضِ اوّلین قرار دیتا ہے۔ زمین پر نیابتِ الٰہی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد پہلے دن سے ہی اس کو جتادیا گیا تھاکہ مادی ترقی کا حصول اس کا فرضِ اوّلین ہے۔ صرف اسلام ہی وہ ربانی نظام حیات ہے جو انسان کی اعلیٰ ترین خصوصیات کو اوپر ابھار کر لاتا ہے، اور پھر پوری طرح ان کی پرورش کرتا ہے، اور انسانی معاشرے کی تعمیر کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ فروغ دیتا ہے۔ اسلام آج تک اس میدان میں منفرد اور یکتا ہے۔ جو لوگ اس نظام سے منحرف ہوکرکسی اور نظام کے خواہاں ہیں… وہ لوگ بلاشبہ انسان کے دشمن ہیں۔‘‘
(معالم فی الطریق۔ سید قطب شہید، 1964ء)
’’1970ء کی دہائی سے شروع ہونے والی اسلامی علامات، عقائد، اعمال، اداروں، پالیسیوں اور تنظیموں نے مراکش سے انڈونیشیا اور الجزائر سے قازقستان تک پھیلے ہوئے ایک ارب مسلمانوں کی تائید اور وابستگی جیت لی۔ اسلامیت کا رجحان اس طرح رہا کہ یہ پہلے ثقافتی شعبے میں وقوع پذیر ہوئی ہے اور بعد ازاں معاشرتی اور سیاسی شعبوں میں سرایت کرگئی ہے۔ دانش ور اور سیاسی لیڈر خواہ اس کے حامی ہوں یا مخالف، نہ تو اس کو نظرانداز کرسکتے تھے، نہ اس کو ایک یا دوسرے انداز میں اختیار کرنے سے گریز کرسکتے تھے۔ 1995ء میں غالب مسلم آبادی والا ہر ملک پندرہ برس پہلے کے مقابلے میں تہذیبی، سماجی، اور سیاسی حوالے سے زیادہ اسلامی اور اسلام پسند ہوچکا تھا… 1990ء کی دہائی کے شروع سے مصر میں تنظیموں کا جال سا بُن دیا گیا جو کہ صحت، بہبود، تعلیم اور دوسری خدمات کے حوالے سے حکومت کے چھوڑے ہوئے خلاء کو پُرکرتے ہوئے کثیر تعداد میں مصری غریبوں کی امداد کررہی تھیں۔ 1992ء میں قاہرہ میں زلزلے کے بعد اسلامی تنظیمیں چند گھنٹوں کے اندر ہاتھوں میں خوراک اور کمبل لے کر گلیوں میں نکل آئی تھیں، جبکہ حکومتی کوششیں بہت بعد میں شروع ہوئیں۔ اردن میں ’مسلم اخوت‘ معاشرتی اور سماجی اداروں پر مبنی ایک اسلامی جمہوریت کا ڈھانچہ تیار کرنے کی سعی کررہی تھی، اور 1990ء کی دہائی کے آغاز سے چار کروڑ کی آبادی والے اس چھوٹے سے ملک میں ایک بڑا اسپتال، بیس شفا خانے، چالیس اسلامی اسکول، اور ایک سو بیس اسلامی مطالعاتی مراکز چلا رہی تھی۔ ستّر اور اسّی کی دہائی میں سارے انڈونیشیا میں اسلامی تنظیمیں پھیل گئیں۔ ساٹھ لاکھ افراد کی بڑی تنظیم ’محمدی جاہ‘ نے سیکولر ریاست کے اندر مذہبی فلاحی ریاست قائم کی اور اسکولوں، کلینکوں، اسپتالوں اور فلاحی اداروں کے ذریعے پورے ملک کو ’آغوشِ مادر سے قبر تک‘ خدمات فراہم کیں۔ بیشتر انقلابی تحریکوں کی طرح مرکزی عنصر طلبہ اور دانش وروں پر مشتمل ہے۔ بیشتر ملکوں میں بنیاد پرستوں نے طلبہ تنظیموں پر قبضہ جمالیا ہے۔ یہی تنظیمیں سیاسی عمل کا پہلا مرحلہ تھیں۔ مصر، پاکستان، اور افغانستان کی جامعات میں ستّر کی دہائی میں اسلام پسندوں کی کامیابی نے بتدریج دیگر ملکوں کا رخ کیا۔‘‘
(Clash of Civilizations by Samuel Huntington)
’’یہ (سید مودودیؒ) اس عہد کی واحد (مسلم) شخصیت تھی، جو مذہبی اور غیر مذہبی سائنسز (علوم) پر یکساں درک رکھتی تھی۔ (برصغیر کی) وہ واحد ہستی، جس نے مقامی اور نوآبادیاتی صورت حال کے بین بین اپنا مقام متعین کیا تھا، یہی تبدیلی کا سچا محرک ثابت ہوسکتا تھا۔ 1918ء میں فقط پندرہ سال کی عمر میں مودودی نے صحافت اور فکری تحریروں کا سلسلہ شروع کردیا تھا، یہ انتہائی ذہین فرد کا سوچا سمجھا شعوری قدم تھا، جس میں اپنے نکتہ نظرکی ترویج کا بھرپور جذبہ موجود تھا۔ مودودی کے تصورات نہ صرف سید قطب جیسے مفکرین نے قبول کیے جو انقلابی اور جنگجو اسلام پسندوں میں مقبول ہیں، بلکہ انہوں نے اعتدال پسند عالم یوسف القرضاوی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ وہ متواتر مودودی کے تصورِ ’جاہلیت‘ کا استعمال کرتے ہیں… آج مودودی اور سید قطب کا ذکر بھی ان لوگوں کے لیے ضروری نہیں رہا جو اُن کے اسلامی تصورات آزادانہ استعمال کرتے ہیں، اب اس حوالے سے کوئی استثنائی صورت حال نہیں رہی۔ عہدِ حاضر کی مسلم فکر پر مودودی اثرات مسلّم ہیں، ان کی ’جاہلیت‘ کی اصطلاح آج کی مسلم دنیا میں قبولِ عام پاچکی ہے، خواہ ان (مسلمانوں) میں سے بیشتر شاید اس اصطلاح کے ماخذات سے واقف بھی نہ ہوں۔ بالکل اسی طرح، اسلام کا فہم بطور جامع دین اور طرزِ حیات، جو مودودی سے پہلے اس طرح واضح نہیں کیا گیا، انتہائی مختلف روایتوں کے حامل مسلمانوں کے لاشعور میں یکساں طور پرسرایت کرگیا ہے۔ بالخصوص طرزِ حکومت پر خدا کی ’حاکمیتِ کُل‘ کا تصور عالمی سطح پر اسلام پسندوں میں بے حد مقبول ہوا۔‘‘
(A System of Life Mawdudi and the Ideologisation of Islam by Jan-Peter Hartung)
اگلے اقتباس سے پہلے، مذکورہ اقتباس کا مختصر سا سیاق و سباق واضح کرنا ضروری ہے۔ جین پیٹر ہارتنگ یونیورسٹی آف لندن میں مطالعہ اسلام کے سینئرلیکچرر ہیں، جنوبی ایشیا اور افریقا پر بطور مستشرق انہوں نے خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ مولانا مودودیؒ پر ان کی کتاب پندرہ سال کی تحقیق کا نچوڑ ہے۔ تاہم وہ اس تمام عرصے میں ’استشراقیت‘ کے عمومی مرض سے خلاصی حاصل کرنے میں ناکام رہے (مستند اور سنجیدہ محقق ایڈورڈ سعید نے Covering Islam میں اس مرض کی کافی شافی تشخیص وعلاج پیش کیا ہے)۔ یہ مرض ہے اسلام سے تعصب کا۔ اس تعصب کے دو پہلو ہیں، جو آج تک اسلام کے مغربی اور مغرب زدہ ماہرین پرحاوی ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ جو اسلامی تعلیمات قرآن حکیم و احادیث سے ثابت ہیں، وہ اوّل تو قابلِ قبول نہیں، اور اگر قبول کرلی گئی ہیں، تو ان کی تشریح و تفسیر درست نہیں کی گئی، اور اگرکوئی تشریح درست بھی ہے، تو وہ صرف دفاعی اور وعظ وتذکیرسے متعلق ہی ہوسکتی ہے، اور اگر وہ انقلابی وعالمگیرنوعیت کی ہے تو مغرب کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ دوسرا پہلو اسی کا تکملہ ہے کہ مسلمان ’اسلام‘ کی صرف وہ تشریح وتعبیر قبول کریں جو مغرب سمجھا رہا ہے یا سکھا رہا ہے، بصورتِ دیگر مغربی نفرت و حقارت کے لیے خود کو تیار کرلیں۔ بالکل یہی کچھ پیٹر ہارتنگ صاحب نے بھی مولانا مودودی کی تحقیق میں کیا ہے۔ ایک جانب وہ مودودی فکرکو غیر عملی اور ناقابلِ قبول قرار دیتے چلے جارہے ہیں، اور دوسری جانب متواتر یہ اعتراف کررہے ہیں کہ اسلامی دنیا میں مولانا مودودیؒ کے اثرات ہمہ گیر اور گہرے ہیں، اور یہ کہ ’جاہلیت‘ اور ’حاکمیتِ الٰہیہ ‘ کی اصطلاحیں نہ صرف مسلم دنیا میں عام ہوئی ہیں، بلکہ مقبول بھی ہوئی ہیں۔ ہارتنگ سید مودودیؒ کو بیسویں صدی میں اسلامی احیاء کا فکری روحِ رواں قرار دیتے ہیں، مگر ساتھ ساتھ اس فکرکو موجودہ دنیا میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں۔ یہ استشراقیت کا وہ عمومی تضاد ہے جو اسلام پر ہر تحقیق کو تعصب سے آلودہ کرتا رہا ہے۔ درحقیقت مسٹر ہارتنگ اسلامی احیاء کو ’مادہ پرست منہاج ‘ میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں، جو تحقیق سے صریح بددیانتی ہے۔ اگر کوئی محقق ہارتنگ یا کسی اور مغربی دانش ور پر تحقیق کرے اور ’اسلامی منہاج‘ کو کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ بنائے، توظاہر ہے یہ تحقیق کے بنیادی اصول سے انحراف ہی ہوگا۔ چنانچہ پندرہ سال تو کیا، اگر ہارتنگ صاحب روزِ قیامت تک بھی ’جدیدیت کی منہاج‘ پر فکرِ مودودی کی تشریح و تعبیر کرتے رہیں گے، تونہ خود سچائی جان سکیں گے، نہ کسی تک سچائی پہنچا سکیں گے۔ مولانا مودودیؒ نے اسلامی منہاج پر فکری و تحریکی کام کیا، اور حیران کن حد تک نہ صرف علمی بلکہ زمینی حقائق کی دنیا میں بھی بہت تیزی سے انعاماتِ خداوندی سے سرفراز ہوئے۔ یہ کتاب جین ہارتنگ نے 2013ء میں لکھی تھی۔ اگست 2018ء میں اسرائیلی پروفیسر نوح ہراری نے کتاب ’اکیسویں صدی کے اکیس اسباق‘ لکھی، اور پہلے باب کے پہلے پیراگراف میں ہی اس بات کے انجان گواہ بن گئے کہ سید مودودی کی فکرکس قدر زمینی حقائق سے ہم آہنگ تھی۔ وہ لکھتے ہیں: ’’حقائق، شماریات، یا اوسط (equation)کی نسبت انسان قصے کہانیوں کے انداز میں زیادہ سوچتے ہیں، یہ آسان اور بہتر لگتا ہے۔ ہر شخص، گروہ، اور قوم کی اپنی کہانیاں اور دیومالائی داستانیں ہیں۔ مگر بیسویں صدی کے دوران عالمی اشرافیہ نے نیویارک، لندن، برلن، اور ماسکومیں بیٹھ کر تین عالمی کہانیاں وضع کیں، جن میں ماضی کی مکمل وضاحت کا دعویٰ کیا گیا، اور پوری دنیاکے مستقبل کی پیش گوئی کی گئی۔ یہ کہانیاں ہیں: فاشسٹ کہانی،کمیونسٹ کہانی، اور لبرل کہانی۔ دوسری عالمی جنگ نے فاشسٹ کہانی کا خاتمہ کردیا، پھر چالیس کی دہائی کے اواخر سے اسّی کی دہائی کے آخر تک دنیا لبرلزم اور کمیونزم کی دو کہانیوں کا میدانِ جنگ بنی رہی۔ پھرکمیونسٹ کہانی بھی تمام ہوئی، اور صرف لبرل کہانی واحد مقتدر قوت رہ گئی، جو عالمی اشرافیہ کی نظر میں، ماضی کی رہنما اور مستقبل کی اٹل قوت خیال کی گئی تھی۔ تاہم 2008ء کے مالی بحران نے دنیا بھر کے لوگوں میں لبرل کہانی کو مشکوک بنادیا۔ امیگریشن پر پابندیاں لگنے لگیں، تجارتی معاہدے بڑھنے لگے، جمہوری حکومتیں عدالتی نظام کی آزادی پر اثرانداز ہونے لگیں، ذرائع ابلاغ کی آزادی خواب و خیال ہونے لگی، ہرقسم کی بغاوت غداری قرار دی جانے لگی (ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادّہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسیٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی۔ اور یہ آج کا دور صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا۔ شہادت حق، سید مودودی)۔‘‘
(The end of history has been abandoned, 21 Lessons for the 21st Century,Yuval Noah Harari)
یہ ہیں بیسویں صدی میں اسلامی احیاء کے وہ مدارج، مظاہر، اور اثرات… جو نظریے سے عمل اور نتائج تک زمینی حقیقت بن کر ابھرے، اور اکیسویں صدی تک چلے آئے۔ مجددِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ’شہادتِ حق‘ سے پہلے، اور بعد کی اسلامی دنیا میں جو انقلابی تبدیلی رونما ہوئی، وہ ناقابلِ انکار ہے۔ یہ انقلاب عالمی اور معاشرتی سطح پر قاہرہ سے لاہور، اور خرطوم سے بیروت تک محسوس کیا گیا، اور آج بھی کیا جارہا ہے۔ نوگیارہ کی صلیبی مہم جوئی اس صورتِ حال کا فوری اور واضح ردعمل تھی، جو وقت کے ساتھ مسلمان دشمن ہوتی چلی گئی۔ نتائج مگر اسلام دشمن برآمد نہ ہوسکے۔ چنانچہ ایک ایسی دنیا میں جہاں کمیونزم اور سرمایہ دارانہ جمہوریت، اور لبرلزم خس و خاشاک ہورہے ہیں، عالمی اشرافیہ نے روایتی تصورِ انسان کی بیخ کنی کا فیصلہ کیا ہے۔ From killing mosquitos to killing thoughts کے عنوان تلے 21 lessons for the 21st century کے مصنف یوول ہراری لکھتے ہیں کہ ’’لبرل سیاسی نظام صنعتی دور میں وضع کیا گیا تھا، تاکہ اسٹیم انجن، آئل ریفائنریز، اور ٹی وی سیٹ کی دنیا کا انتظام کیا جائے۔ تاہم یہ لبرل سیاسی نظام انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی میں آنے والے انقلابات نہ سمجھ سکا۔ سیاست دان اور ووٹرز جومشکل ہی سے نئی ٹیکنالوجیز کی کوئی سمجھ رکھتے ہیں، وہ کیسے ان کی حیرت انگیز قوتوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں! 1990ء کی دہائی سے انٹرنیٹ نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے، اور یہ انقلاب سیاست دانوں نہیں بلکہ انجینئرز نے برپا کیا۔ کیا آپ نے کبھی انٹرنیٹ کے حق میں کوئی ووٹ دیا ہے؟ جمہوری نظام اب تک یہ سمجھنے کی سعی کررہا ہے کہ کس چیز نے اسے دھچکہ پہنچایا ہے، اور مشکل ہی سے مزید دھچکوں سے نمٹنے کی کوئی تیاری ہے، جیسے کہ آرٹیفشل انٹیلی جنس اور بلاک چین کا انقلاب وغیرہ۔
پہلے ہی کمپیوٹر مالیاتی نظام کو اتنا پیچیدہ بناچکے ہیں جسے کم ہی لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) میں بہتری آرہی ہے، انسان کی مالی معاملات میں سوجھ بوجھ کم ہوتی جارہی ہے۔ پھر یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سیاسی نظام کے ساتھ کیا کچھ نہیں کرے گا؟ کیا آپ ایسی حکومت کا تصور کرسکتے ہیں، جو ٹیکس اصلاحات اور بجٹ کی منظوری کے لیے مؤدبانہ انداز میں ایلگوریتھم (algorithm) کی منظوری کی منتظرہو؟ اور جب بلاک چین (انفوٹیکنالوجی) کے جوڑے نیٹ ورکس کی صورت میں سارا مالیاتی نظام ہی بدل کر رکھ دیں؟ اس سے بھی بہت زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انفوٹیک اور بائیوٹیک کا جڑواں انقلاب معاشیات اور معاشروں کو ازسرنو تعمیر و منظم کرے، یہاں تک کہ ہمارے جسموں اور دماغوں کو بھی! ماضی میں انسانوں نے خارجی دنیا پر حکمرانی کی ہے، لیکن داخلی دنیا پر بہت ہی کم کنٹرول رہا ہے۔ اگر مچھر نیند میں تنگ کریں تو ہم جانتے ہیں کہ کیسے مارنا ہے، مگرکوئی فکر یا خیال نیند اڑا دے، تو ہم میں سے اکثر نہیں جانتے کہ کیسے اس خیال کا خاتمہ کیا جائے۔ بائیوٹیک اور انفوٹیک انقلابات خارجی دنیا کے ساتھ ساتھ داخلی دنیا پر بھی قابو پاسکیں گے۔ ہم انسانی زندگی کو انجینئراور مینوفیکچر کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ ہم جان سکیں گے کہ کس طرح دماغ کو ڈیزائن کرنا ہے، زندگی کی مدت بڑھانی ہے، اور فکر و پریشانی کو کس طرح کچلنا ہے۔‘‘
یہ ہے اکیسویں صدی کا وہ طاغوت، جو نہ صرف اسلام بلکہ تمام مذاہب اور اُن نظریات کو جو انسانی تہذیب سے متعلق ہیں، رد کررہا ہے۔ یہ سرمایہ دار مادہ پرستوں کی وہ بدترین فکری حالت ہے، جس کی جڑیں نظریۂ ارتقاء اور الحاد پرستی میں گہری ہیں۔ یہ مجموعی طور پر تمام انسانوں کی تباہی و بربادی کا وہ سامان ہے جوٹیکنالوجی کی صورت غالب آرہا ہے۔ اس عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی فکری نظام کارآمد نہیں، سوائے اسلام کے۔ عیسائیت اور ہندومت سے بدھ مت، اور یہودیت سے اشتراکیت پسندوں تک، کہیں بھی انسان کی وہ تعظیم و تکریم نہیں، وہ مرتبہ نیابتِ الٰہی نہیں، جو صرف اسلام عطا کرتا ہے۔ ظاہر ہے سائنس پرستوں کا یہ طاغوت انسان کو نہ صرف لاتعلق کرنے کے درپے ہے، بلکہ تقریباً فنا کی خبر دے رہا ہے، انسانی تہذیب کے مستقبل پر سنگین اور سنجیدہ سوال اٹھا رہا ہے۔ جس کا جواب اسلامی تصورِ انسان، اور اسلامی تصورِ جہاں میں ہے۔ گو بیسویں صدی میں اسلامی احیاء کی نوعیت اور ہیئت ’انفو اور بائیوٹیک جدیدیت‘ سے دوچار نہیں ہوئی تھی، اور نہ ہی بعد میں عمومی طور پراس طاغوتی صورت حال کا کوئی شعور سامنے آسکا، مگراسلامی تعلیمات کی ابدی افادیت اور اثر پذیری مسلّم ہے، اور یہی واحد منہاج ہے جو ’سائنس پرست جدیدیت‘ کی منہاج سے متصادم ہوسکتا ہے، اور یہی انسانوں کی تہذیب کا مستقبل محفوظ بناسکتا ہے۔ اس اسلامی منہاج کی شاندار تصریح سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ’اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی‘ کے صفحہ 59 پر یوں کرتے ہیں:
’’کائنات کے متعلق اسلام کا نظریہ، جو نظریے کی حد سے گزر کر ایمان اور یقین کی آخری حد تک پہنچ گیا ہے، یہ ہے کہ وجود کی اس غیر محدود سلطنت کا فرماں روا ایک خدا ہے، اور تمام موجوداتِ عالم اسی کے مطیع، اسی کے تابع فرمان اور اسی کے آگے سربسجود ہیں۔ اسی چیز کا نام اسلام ہے، جس کے معنی ہیں گردن جھکادینے اور تابع فرمان ہوجانے کے… اس نظریے کے مطابق تمام موجواتِ عالم کا، جن میں انسان بھی شامل ہے، فطری نصب العین اور مقصود ومطلوب اور غایت الغایات حضرت حق جل شانہ وہ کی ذات ہے، اور سب کی طبیعت کا رخ اسی مرکز و مرجع کی طرف پھرا ہوا ہے۔ اب انسان کے لیے بحیثیت ایک عقلی وجود کے صرف اتنی کسر رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے اس طبیعی نصب العین کا شعور بھی حاصل کرلے اور عقل وفکر کے ساتھ اس کو سمجھ کر اپنے ارادوں اور اپنی نیتوں اور اپنی سعی وعمل کا رخ بھی اسی کی طرف پھیر دے۔ اس صورت میں اس کا عقلی نصب العین اس کے اور تمام موجودات کے طبیعی نصب العین کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے گا۔ جہاں ہستی کے سارے لشکر اور نظام وجود کے سب کل پرزے اسی مقصود تک پہنچنے میں ان کا ساتھ دیں گے اور وہ اپنے عقلی مرتبے کے لحاظ سے اس عظیم الشان قافلے کا سالار وامام ہوگا۔‘‘
یہی ہے وہ اسلامی منہاج، جس پر اسلامی احیاء کا سفر بیسویں صدی میں شروع ہوا، اور اکیسویں صدی میں داخل ہوا، اور اب انسانوں کی مجموعی تہذیب خطرے میں ہے۔ اور یہ خطرہ انتہائی غیر انسانی ہے، جسمانی اور روحانی دونوں حوالوں سے۔ انسانی تہذیب کی بقاء کا انحصار اب صرف اسلامی منہاج پر ہی ممکن ہے، ہر دوسری صورت صرف تباہی ہے۔