سیاسی اخلاقیات کا بحران 

پارلیمان کا ماحول بہتر رکھنے کے لیے سیاسی قائدین پر مشتمل کمیٹی کا قیام

پاکستان کی قومی زندگی کا بنیادی مسئلہ سیاسی اخلاقیات کا بحران بن چکا ہے۔ سیاست میں سب کچھ ہے، اگر نہیں ہے تو اخلاقی پہلو نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے یہاں سیاست بتدریج اپنی اہمیت کھوتی جارہی ہے، اور ایک مشہور مؤرخ کا قول ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ یہ بات پاکستانی سیاست کے کلچر پر برملا کہی جاسکتی ہے کہ کوئی بھی سیاسی قوت، جماعت یا قیادت اپنی ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر اہم مسائل اور بالخصوص الزام تراشیوں، ذاتیات، خاندان، کردارکشی کی بنیاد پر سیاست کی جارہی ہے۔ مسئلہ کسی ایک جماعت حکومت اور حزب اختلاف کا نہیں، بلکہ یہ مجموعی طور پر ہمارا سیاسی مزاج، عدم برداشت اور غیر سیاسی اخلاقیات کا بن گیا ہے۔ اس عمل نے مجموعی طور پر سیاست، جمہوریت اور اخلاقی اصولوں کو پامال کیا ہے، اور لوگ سیاسی نظام سے متنفر ہوئے ہیں، ان کو لگتا ہے کہ سیاست کا مطلب محض طاقت کی لڑائی ہے اور اس سے سماج نہیں بدلے گا۔
انتخابات کے بعد جو نئی پارلیمنٹ بنی ہے اُس میں ابتدا ہی سے سیاسی تقسیم گہری کر دی ہے جس کی واضح شکلیں پارلیمنٹ کی سیاست میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ سیاسی فریقوں میں جو تناؤ ہے اُس نے عملی طور پر اسپیکر کو بھی بے بس کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسپیکر اسد قیصر کو سیاسی اور قومی اسمبلی کا ماحول بہتر رکھنے اور ایوان کی کارروائی خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے پارلیمانی قیادت کی زیر نگرانی 13رکنی نگران کمیٹی قائم کرنا پڑی ہے۔ اس کمیٹی میں وزیراعظم عمران خان، قائدِ حزبِ اختلاف شہبازشریف، پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری، شیخ رشید احمد، طارق بشیر چیمہ، خالد مقبول صدیقی، اختر مینگل، مولانا سعد محمود، خالد حسین مگسی، غوث بخش خان مہر، شاہ زین بگٹی اور امیر حیدر خان شامل ہیں۔
اس کمیٹی کی خاص بات یہ ہے کہ اگرچہ اس کی سربراہی اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کریں گے، لیکن وزیراعظم عمران خان، قائد حزبِ اختلاف شہبازشریف اور پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری ایک میز پر اکٹھے ہوں گے۔ کمیٹی کا بننا کوئی بری بات نہیں، کیونکہ دنیا کے نظام میں پارلیمنٹ کو مؤثر انداز میں چلانے اور ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اس طرز کی نگران کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہاں یہ تجربہ کوئی بہتر نتیجہ دے سکے گا؟
پارلیمنٹ کی سطح پر کمیٹی کا بننا اہم ہے، لیکن یہ کمیٹی ایسے ماحول میں بن رہی ہے جب سب ہی ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آتے ہیں، اور لگتا ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے، اور اس کا مقصد جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بے توقیری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ محض پارلیمنٹ کا ماحو ل ہی گندا نہیں بنتا، بلکہ اس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ یہ جو ہمیں بڑی شدت کے ساتھ نچلی سطح پر عام لوگوں اور سیاسی کارکنوں کے درمیان عدم برداشت اور الزام تراشیوں کا کلچر غالب نظر آتا ہے وہ انہی اہلِ سیاست اور پارلیمان کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ جو ماحول اوپرکی قیادت پارلیمنٹ اور دیگر فورمز پر بناتی ہے، یا جو طرزِعمل اختیار کیا جاتا ہے اُس کا اثر سیاسی ماحول اور سیاسی کارکن کے مجموعی مزاج میں نظر آتا ہے۔ یہ جو ہمارے ٹی وی ٹاک شوز ہیں، ان میں سیاست دان جو کچھ کرتے ہیں یا دکھاتے ہیں، اس سے سیاست کیسے اپنی ساکھ بناسکے گی؟ بعض اوقات سیاسی قیادت خود اپنی زبان بند رکھتی ہے اور دیگر لوگوں کو بدزبانی کے لیے آگے کردیتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت میں قیادت نے کچھ ایسے لوگوں کو اپنے قریب کیا ہوتا ہے جن کا کام مخالفین کو ننگی گالیاں دینا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت عوام کو غیر ضروری معاملات میں الجھاکر اپنی ذاتی سیاست کو طاقت دینا چاہتی ہے۔
ہمارے کچھ اہلِ دانش یہ دلیل دیتے ہیں کہ دنیا بھر کی پارلیمنٹ میں ایسا ہی ہوتا ہے، بلکہ بعض ملکوں کی پارلیمنٹ کا حال ہم سے بھی برا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں ہونے والی خرابیوں کو جواز بناکر ہم اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں؟ اگر ہم دنیا کی غلطیوں کو جواز بناتے ہیں تو وہاں پارلیمنٹ جو اچھا کام کرتی ہے وہ ہماری پارلیمنٹ میں کیوں نہیں ہوتا؟ اصل میں اس طرح کے جواز کا فائدہ وہی سیاسی قیادتیں اٹھاتی ہیں جن کا کوئی اجتماعی نصب العین نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ یہاں فوجی مداخلتیں بہت رہی ہیں اس لیے ابھی ہمارا سیاسی کلچر پنپ نہیں سکا۔ سوال یہ ہے کہ جن ملکوں میں سیاسی مداخلت نہیں ہے وہاں کی پارلیمانی سیاست میں وہ ساری خرابیاں کیوں ہیں؟ ماضی میں میثاقِ جمہوریت کی بنیاد پر یہ دعویٰ دو بڑی جماعتوں نے کیا تھا کہ انہوں نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے اور اب وہ مستقبل میں سیاسی کلچر کو بہتر کریں گی۔ لیکن پچھلے چند برسوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے کے خلاف جو منفی زبان استعمال کی، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں میثاقِ جمہوریت پر کس حد تک ’’سنجیدہ‘‘ تھیں۔ ابھی حال ہی میں شیخ رشید کے بارے میں جو گفتگو بلاول بھٹو نے کی اُس سے بھی انداز ہوتا ہے کہ ہماری سیاست کس جانب بڑھ رہی ہے، اور لگتا ہے کہ سب ہی بدزبانی کے تالاب میں لنگوٹ کس کر کود پڑے ہیں۔
عمران خان کے سیاسی مخالفین کے بقول یہ سارا گند تحریک انصاف نے ڈالا ہے اور وہی سیاست میں بدتہذیبی کو پھیلانے کی ذمہ دار ہے۔ یقینی طور پر تحریک انصاف کے لوگوں پر بھی تنقید کی جاسکتی ہے، لیکن ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، بالخصوص مسلم لیگ (ن) کا اپنا طرزعمل بھی خاصا مایوس کن ہے جس کے لوگ عورتوں پر کیچڑ اچھالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے سیاسی کارکنوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔ کارکن کو تو چھوڑیں، یہاں جو سیاسی قیادتیں یا ارکانِ اسمبلی ہیں اُن کی اخلاقی تربیت کون کرے گا؟ مسئلہ ایک جماعت کا نہیں، پورے سیاسی نظام کا ہے جو زوال پذیر ہے، اور سب اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں کو ذمہ دار قرار دے کر اپنا دامن بچاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہاں جو سیاسی نظام میں تعطل پیدا ہوتا ہے اورجمہوری بساط کو لپیٹا جاتا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ خود اہلِ سیاست کا باہمی ٹکراؤ بھی ہے۔ اِس وقت بھی ایک پوری سیاسی کھیپ احتساب سے بچنے کے لیے الزام تراشیوں کو بنیاد بنا کر سیاسی ماحول کو خراب کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔اس لیے کمیٹی کا بننا اچھی بات ہے، مگر کیا ہماری سیاسی قیادتیں واقعی سیاسی پختگی کا مظاہر ہ کرسکیں گی ؟جب تک سیاسی قیادتیں خود اپنا منفی رویہ ترک نہیں کریں گی اُن کی اپنی جماعتوں میں موجود منفی سیاست کا خاتمہ ممکن نہیں۔ہمارے اہلِ دانش کو سیاسی پسند و ناپسند سے ہٹ کر ان سب سیاسی فریقین کی حوصلہ شکنی اور مزاحمت کرنی ہوگی جو سیاسی ماحول خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہماری سیاست کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔وگرنہ جو رویہ اِ س وقت اہلِ سیاست کا ہے اُس سے ہم سیاست اور جمہوریت کو سوائے برباد کرنے کے کچھ نہیں کرسکیں گے، اوراس کی ذمہ داری اہلِ سیاست پر عائد ہوگی۔