مملکت سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دو روزہ دورے پر 16 فروری کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ اسلام آباد پہنچنے پر حکومتِ پاکستان ان کا مثالی استقبال کرے گی۔ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان عارف الرحمن علوی، وزیراعظم پاکستان عمران خان، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، کابینہ کے ارکان، قائد حزبِ اختلاف شہبازشریف اور پارلیمانی لیڈرز، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے سربراہوں کے علاوہ جائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین،اور پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر یوسف درویش اور ملک کے سیاسی قائدین ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کریں گے۔ شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے دورے کے موقع پر ایک عوامی استقبالیہ سے بھی خطاب کریں گے۔ آج سے بیس سال قبل سعودی عرب کی اعلیٰ ترین حکمران شخصیت شاہ خالد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور لاہور کے شالامار باغ میں عوامی استقبالیہ سے بھی خطاب کیا تھا۔ ان کے بعد اب ولی عہد محمد بن سلمان کا دورۂ پاکستان کسی بھی اعلیٰ سعودی شخصیت کا پہلا دورہ ہے۔ برسوں پہلے شاہ سلمان بھی پاکستان آچکے ہیں، انہوں نے اسلام آباد میں سلطانہ فائونڈیشن کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔
شاہ سلمان کے دورۂ پاکستان کے موقع پر سعودی عرب اور پاکستان کے مابین پاکستان میں فرٹیلائزر کے علاوہ آئل ریفائنری اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے تیس ملین ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔ ان معاہدوں کے بعد سعودی عرب باقاعدہ سی پیک منصوبوں میں پاکستان کا شراکت دار بن جائے گا۔ پاکستان کی حکومت اور عوام ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اس دورے کو پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کے آغاز کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ پاک سعودی عرب تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے ہیں اور دونوں ملکوں کی دوستی آزمائش کی ہر گھڑی میں پوری اتری ہے، پاکستان پر جب بھی مشکل وقت آیا، سعودی عرب کے شاہی خاندان نے پاکستان کی ہر ممکن دل کھول کر مدد کی۔ پاکستان نے جب 1998ء میں چھے ایٹمی دھماکے کیے تو سعودی عرب نے بہت سراہا، اور عالمی اقتصادی پابندیاں لگیں تو پاکستان کو تین سال کے لیے مفت تیل فراہم کیا۔ پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کینٹ میں الخالد ٹینک بنانے میں بھی سعودی عرب نے پاکستان کی بہت مدد کی۔ سعودی فرماں روا شاہ فیصل، شاہ خالد، شاہ فہد کے دور میں بھی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مثالی رہے۔ سقوطِ ڈھاکا ہوا تو شاہ فیصل واحد عالمی رہنما تھے جنہوں نے اس واقعہ کو ذاتی غم کے طور پر لیا۔ سعودی عرب او آئی سی کی جانب سے بنائے گئے کشمیر گروپ کا بھی رکن ملک ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان، شاہ سلمان کے فرماں روا بننے کے بعد مملکت کے ولی عہد مقرر ہوئے۔ اِس وقت وہ ملک کے نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع کے طور پرہی اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اپنے دور میں وہ بہت سی اصلاحات لے کر آئے ہیں، اور ان کے دور میں دفاع کے شعبے میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ ابھی حال ہی میں سعودی عرب نے اپنا پہلا مواصلاتی مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجا ہے۔ سعودی مصنوعی سیارے کے آخری پرزے میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دستخط ثبت ہیں۔ کنگ عبدالعزیز سٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے مواصلاتی مصنوعی سیارہSGA-1 خلا میں کامیابی کے ساتھ بھیجنے کو اہم کامیابی قرار دیا ہے۔ یہ جوایانا ایئربیس سے خلا میں چھوڑا گیا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دورۂ امریکہ کے دوران سعودی مصنوعی سیارے کے آخری پرزے پر دستخط ثبت کرتے ہوئے لکھا تھا ’’بادلوں سے اونچی اڑان‘‘۔ سعودی مصنوعی سیارہ آئندہ 20سال تک کام کرے گا۔ اس سے کمیونی کیشن میں بڑی تبدیلی واقع ہوگی۔ شہزادہ محمد بن سلمان دفاع کے علاوہ دیگرشعبوں میں بھی بہت سی اصلاحات لے کر آئے ہیں، اس کے علاوہ وہ اکنامک اینڈ ڈویلپمنٹ کونسل کے چیئرمین ہیں، ملک کی سیاسی اور سلامتی کونسل اینڈ سیکورٹی کونسل کے بھی سربراہ ہیں۔ ان کی پولیس اصلاحات بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت اور ان کے لیے ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء کا فیصلہ بھی انہی کا ہے۔ خواتین کے لیے اسپورٹس اسٹیڈیم کی تعمیر اور سرکاری اداروں میں ان کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے علاوہ سیاحت کے لیے ای ویزا کی سہولت بھی انہی کے دور میں شروع ہوئی ہے۔ انہوں نے اکنامک اینڈ ڈویلپمنٹ کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے ملک میں اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے نئے مواقع بھی تلاش کیے ہیں اور تیل کے علاوہ بھی دیگر شعبوں پر توجہ دی ہے جنہیں ماضی میں نظرانداز کیا جاتا رہا۔ ولی عہد محمد بن سلمان کی لبرلائزیشن پالیسی پر ملک کے اندر اور بیرون ملک تنقید بھی جاری ہے اور یمن کی جنگ، قطر کے ساتھ تنازعات، لبنان کے ساتھ کشیدگی اور کینیڈا کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات میں سردمہری کے لیے ان کی پالیسیوں کو وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا افسوسناک واقعہ بھی تنقید کا باعث بن رہا ہے، لیکن ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کو اپنے ویژن کے مطابق آگے بڑھا رہے ہیں۔