پاکستان، آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان اور جہاں جہاں، جس، جس ملک میں پاکستانی آباد ہیں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔ یہ سلسلہ تقریباً 30 برس سے جاری ہے جب 1990ء میں اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد مرحوم نے قوم اور حکمرانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ بھارتی قبضے کے خلاف کشمیریوں کی تحریک آزادی کے ساتھ ایک دن متعین کریں اور اس پکار کے بعد سے ہر برس 5؍فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ اس برس یہ اضافہ بھی ہوا کہ برطانوی پارلیمنٹ میں بھی مسئلہ کشمیر پر ایک تقریب منعقد ہوئی اور اس خصوصی تقریب میں بھارتی فوجی مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف مذمتی قراراد بھی منطور کی گئی۔ برطانوی پارلیمان میں منعقد ہونے والی تقریب میں برطانوی پارلیمان کے ارکان کے علاوہ سابق وزیراعظم ناروے بھی شریک ہوئے، پاکستان سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور صدر آزاد کشمیر نے نمائندگی کی۔ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کی آواز دور دور تک پھیل رہی ہے۔ اس کا سہرا کشمیری مسلمانوں کی استقامت اور تسلسل سے مزاحمتی جدوجہد کے اوپر جاتا ہے۔ ماضی میں نہ جانے کتنے مرحلے ایسے آئے جو مایوس کرنے کے لیے کافی تھے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد کشمیری عوام کی مزاحمت نئے انداز میں سامنے آجاتی ہے۔ اس برس بھی پاکستانی عوام کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطانوی پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی مظالم پر عالمی برادری کو اپنی خاموشی ختم کرنا ہوگی اگر ہم بھارتی مظالم پر خاموش رہیں گے تو یہ ہماری غلطی ہوگی۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کا خون بہہ رہا ہے، وادی جل رہی ہے۔ پاکستان جموں وکشمیر تنازعے میں ایک فریق ہے، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا تنازع ہے، بھارت نے کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کیا ہوا ہے، لیکن وہ اس سے مکر گیا ہے۔ وفاقی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کشمیریوں کو یقین دلایا کہ وہ اس جدوجہد میں اکیلے نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر قومی اتفاق رائے اور اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس پر حکومت اور حزب اختلاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اتفاق ہے۔ اس کے باوجود ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قیادت نے مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔ آج اگر کشمیر میں آگ لگی ہوئی ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، پیلٹ گنوں کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو نابینا کیا جارہا ہے تو اس کی وجہ بھی اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی خاموشی ہے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سربراہ نے دورۂ پاکستان میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے پاس اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے کوئی فوجی طاقت موجود نہیں ہے۔ اس بیان کے ذریعے انہوں نے اعتراف کرلیا تھا کہ اقوام متحدہ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی باندی بنی ہوئی ہے۔ امریکہ اور عالمی طاقتوں نے اپنی مصلحتوں کے تحت کشمیر کے مسئلے کو نظر انداز کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے بھی اس مسئلے پر کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ امریکہ اور عالمی طاقتوں نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بھی دہشت گردی سے جوڑ دیں، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ امریکہ اور عالمی برادری بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتی ہے لیکن وہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر عمل کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے جس کے تحت کشمیریوں کی رائے حاصل کی جائے گی کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، لیکن اس قرارداد پر عمل نہیں ہوا۔ گزشتہ 70 برسوں میں بھارت نے طاقت کے بل پر کشمیریوں کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد حالات کی سنگینی میں اور اضافہ ہوگیا۔ بی جے پی کی حکومت اس بات کی پوری کوشش کررہی ہے کہ وہ کشمیر کے زمینی حقائق کو تبدیل کردے۔ اس مقصد کے لیے سابق فوجیوں کی بڑی تعداد کو کشمیر میں آباد کیا گیا تاکہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کم ہو جائے، لیکن اس طرح کی کوششوں سے ہندو مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کرنا آسان نہیں ہے۔ اس سے پہلے ظلم و تشدد اور جبر و استبداد کے ذریعے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے اور مزاحمت کو ختم کرنے کی ناکام کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ یہ کشمیریوں کی تسلسل کے ساتھ سیاسی اور عسکری مزاحمت کا نتیجہ ہے کہ تمام حربے ناکام ہوگئے ہیں۔ اسی مزاحمت کا یہ تحفہ ہے کہ کشمیر، اسلام آباد، لاہور سمیت کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پاکستانی عوام سڑکوں پر امڈ آئے۔ اس صورت حال کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ حکومت پاکستان اس یکجہتی کو ایک رسمی کارروائی سمجھنے کے بجائے اپنا سیاسی اور سفارتی کردار ادا کرے۔ کشمیر کمیٹی کو دوبارہ متحرک کیا جائے اور جیسا کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صرف مسئلہ کشمیر کو جااگر کرنے کے لیے ایک نائب وزیر خارجہ مقرر کیا جائے اور دنیا بھر میں پاکستان کے سفارت خانوں میں علاحدہ کشمیر ڈیسک قائم کی جائے اور ان کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی فوج کے مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ چونکہ مسئلہ کشمیر قومی اتفاق رائے کا عنوان ہے، اس لیے جو بھی حکومت اس مسئلے پر آگے بڑھے گی اسے تمام سیاسی جماعتوں اور قوم کا تعاون حاصل ہوگا۔ اہل کشمیر اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان کے مسلمان ان کی پشت پر کھڑے ہیں، لیکن اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ہمارے حکمراں کشمیر کے ساتھ بھی بے وفائی نہ کر دیں۔