بھٹو دور کی تاریخ کا ایک سفاکانہ باب
گزشتہ سے پیوستہ
جیل کے اندر قیدیوں کی اپنی علیحدہ داستانیں ہیں۔ وہ اُن تمام جرائم کا اعتراف اپنے جیل کے ساتھیوں سے کرتے ہیں جس کا عدالتوں میں انکار کرتے ہیں۔ مچھ جیل میں سب سے بڑی عمر کا قیدی عبدالحق تھا، اس کے سر کے بال اور داڑھی سفید ہوچکی تھی، اس سے ایک دو بار جیل کے اندر ملاقاتیں ہوئیں۔ اسے سب قیدی ’چاچا عبدالحق‘ کے نام سے پکارتے تھے اور اس کا بڑا احترام کرتے تھے۔ اس نے بولان جیل کے اندر ایک ڈی ایس پی کو قتل کیا تھا اور اس جرم میں وہ سزا کاٹ رہا تھا۔ اس نے ایک دن خوب ہنستے ہوئے گل خان نصیر سے دلچسپ گفتگو کا بتلایا۔ گل خان نصیر 1972ء میں نیپ کی حکومت میں وزیرتعلیم تھے اور نواب بگٹی نے انہیں جیل میں ڈال دیا تھا۔ گل خان نصیر بلوچی زبان کے ممتاز شاعر تھے اور صاحبِ تحریر بھی تھے۔ انہیں بلوچی زبان کی خدمت کے صلے میں ملک الشعراء کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ گل خان نصیر نے ایک دن کوئٹہ جیل میں دلچسپ بات بتلائی: ایک دفعہ میں ریل کے ذریعے کوئٹہ آرہا تھا تو ایک نوجوان کو ترکی ٹوپی پہنے ہوئے دیکھا، اُس سے پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے، تو اس نے کہا غوث بخش بزنجو۔ اور کہا کہ میں علی گڑھ سے چھٹیاں گزارنے اپنے علاقہ جارہا ہوں۔ خان قلات میر احمد یار خان والیِ قلات اپنے بلوچ نوجوانوں کو اپنے وظائف پر علی گڑھ تعلیم کے لیے بھیجتے تھے۔ اُس وقت بلوچستان میں کوئی معیاری درس گاہ موجود نہ تھی۔ بڑے لوگ اپنے بچوں کو ایچی سن کالج میں بھجواتے تھے، جبکہ عام لوگ اپنے بچوں کو عام اسکولوں اور عام کالجوں میں تعلیم دلاتے تھے۔ 1972ء میں گل خان نصیر اور غوث بخش بزنجو اپنے اپنے حلقہ انتخاب سے الیکشن جیت کر بلوچستان اسمبلی میں پہنچ گئے۔ غوث بخش بزنجو گورنر بلوچستان اور گل خان نصیر وزیر خوراک بنے۔ غوث بخش حیدرآباد جیل میں تھے اور گل خان مچھ جیل میں قید تھے۔ ایک دن انہوں نے کہا کہ میں بہت پریشان ہوں، میری قیدِ تنہائی میرے لیے ایک عذاب بن گئی ہے، سارا دن اپنے احاطے میں گھومتا رہتا ہوں اور کوئی بات کرنے والا ہی نہیں ہے، مجھے جو مشقتی دیا گیا ہے نہ وہ بلوچی زبان جانتا ہے، نہ پنجابی زبان۔ میرے لیے مچھ جیل کے دن بڑی مشکل سے گزرتے ہیں۔ انہیں جب کوئٹہ پیشی کے لیے لایا جاتا تو وہ بہت خوش ہوتے تھے اور خوب مجلس کرتے اور گزرے دنوں کی یادیں تازہ کرتے تھے۔
چاچا عبدالحق سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو انہیں دیکھ کر مجھے ٹالسٹائی کا افسانہ یاد آگیا۔ یہ ایک تاجر کی کہانی تھی۔ اس افسانہ کا نام ’’Long Exile‘‘ تھا، یعنی عمرقید۔ یہ افسانہ اسکول کے زمانے میں ہماری میٹرک کی کتاب میں شامل تھا اور ہمارے انگلش استاد اصغر صاحب تھے جو افغانستان میں استاد رہ چکے تھے۔ اُن کی مونچھیں ہٹلر کٹ تھی، اس لیے وہ ہٹلر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ پڑھانے کا انداز بڑا دلچسپ ہوتا تھا۔ ایک دن تاجر ایکسی نو ایک میلے میں جانے کی تیاری کررہا تھا تو اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ تم اس میلے میں مت جائو۔ خاوند نے پوچھا کیوں؟ تو بیوی نے کہا کہ میں نے رات کو ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے کہ تم بوڑھے ہوگئے ہو اور تمہارے سر کے بال سفید ہوچکے ہیں، میں پریشان ہوں تم مت جائو۔ اس نے کہا: تم عورتوں کے خواب بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں، پریشان مت ہو۔ اور وہ اپنے میلے کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ راستے میں ایک سرائے میں ٹھیرا اور صبح کو روانہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر چلا تھا کہ گھوڑوں پر پولیس نے پکارا کہ رک جائو۔ وہ رک گیا اور پوچھا کہ مجھے کیوں روک رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ والے کمرے میں ایک تاجر قتل ہوگیا ہے اور ہمیں شبہ ہے کہ تم نے قتل کیا ہے۔ اس نے کہا کہ میں بے گناہ ہوں، تلاشی لے لو۔ جب تلاشی لی گئی تو اس کے بیگ سے آلہ قتل برآمد ہوگیا اور اسے گائوں کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ مقدمے اور گرفتاری کی اطلاع اس کی بیوی کو ہوگئی تو وہ بچوں کو لے کر عدالت پہنچ گئی اور مقدمہ شروع ہوگیا۔ جج نے جرم میں عمر قید کی سزا سنا دی۔ بیوی رونے لگی، اور جب تاجر کو پولیس لے جانے لگی تو بیوی نے کہا کہ میں نے تمہیں کتنا منع کیا تھا لیکن تم نہیں مانے اور میرا خواب صحیح ثابت ہوگیا… اور یوں دونوں ایک دوسرے سے گلے ملے اور رخصت ہوگئے۔ اس واقعہ کو اب 14 سال ہونے کو تھے، تو ایک دن ایک اور قیدی جیل میں لایا گیا۔ اس سے پوچھا تو اس نے گائوں کا بتلایا، ایکسی نونے پوچھا کہ تم اس تاجر کو جانتے ہو جس کا نام ؟؟؟ تھا،اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہاں جانتا ہوں، اس کی بیوی زندہ اور بچے جوان ہوگئے ہیں۔ اس نووارد قیدی سے پوچھا کہ تم کس جرم میں آئے ہو؟ اس نے کہا کہ میرا کوئی جرم نہیں تھا، اپنے دوست کا گھوڑا ایک ضروری کام کے لیے لیا اور میں گرفتار ہوگیا، لیکن ایک جرم میں پہلے کرچکا تھا جب میں نے ایک سرائے میں ایک تاجر کو قتل کیا اور آلہ قتل ایک تاجر ایکسی نو کے بیگ میں رکھ دیا۔ وہ میرا اصل جرم تھا۔ یہ سنتے ہی تاجر حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا اور تمام کہانی اس کے ذہن میں آنی شروع ہوگئی اور وہ پریشان ہوگیا۔ اپنے کمرے میں گیا تو ساری رات پریشانی میں گزری۔ جیل میں سب سے عمر رسیدہ قیدی تھا، اس لیے اس کا بڑا احترام تمام قیدی کرتے تھے۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ نووارد قیدی اپنے کمرے میں، بھاگنے کے لیے زمین کھود رہا تھا۔ ایکسی نو نے اسے دیکھ لیا، نووارد قیدی نے کہا کہ اگر تم نے جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو بتایا تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔ ایکسی نو نے بڑے اطمینان سے اسے کہا کہ تم تو مجھے بہت پہلے قتل کرچکے ہو، اب کیا قتل کرو گے! قیدی نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا: تم ایکسی نو ہو؟ اس نے کہا: ہاں میں ایکسی نو ہوں۔ وہ رات کو اس کے کمرے میں گیا اور اس کے پائوں پر گر گیا اور کہا کہ معاف کردو، میں تمہارا مجرم ہوں، کل صبح میں جیل سپرنٹنڈنٹ کو تمام راز بتلادوں گا کہ قتل میں نے کیا تھا، تاجر بے گناہ ہے۔ اس نے کہا کہ اب کیا فائدہ؟ صبح کو وہ قیدی گیا اور اس نے جیل سپرنٹنڈنٹ کے سامنے اعترافِ جرم کرلیا اور جیل سپرنٹنڈنٹ ایکسی نو کی رہائی کا پروانہ جاری کردیا، اور یہ آرڈر لے کر عملہ کے ساتھ اس کے کمرے میں گیا ۔ یہ نووارد تاجر بھی ہمراہ تھا۔ جب اس کے کمرے کا دروازہ کھولا تو اندر ایکسی نو مر چکا تھا۔ یہ کہانی چاچا عبدالحق کو دیکھ کر یاد آگئی۔ ٹالسٹائی کا یہ افسانہ بہت دلچسپ تھا جو کئی سال گزرنے کے بعد مجھے مچھ جیل میں یاد آگیا۔ معلوم نہیں کہ چاچا جیل سے چھوٹا یا نہیں، یا جیل ہی میں اُن کی موت ہوگئی۔
جون کا مہینہ اختتام پذیر تھا کہ ایک دن صبح سویرے جیل کے قیدیوں نے اپنے احاطے کا تالا توڑ دیا اور اس کے بعد جیل کے احاطے کے تمام کمروں کے تالے توڑ ڈالے۔ مچھ جیل، قیدیوں کے نعروں سے گونج رہی تھی اور قیدی اپنے اپنے احاطوں سے نکل کھڑے ہوئے تھے، ان کے ہاتھوں میں سریا اور ڈنڈے تھے۔ جیل کے وارڈن نے جلدی سے ہمارے احاطے میں ایک بڑا سا تالا لگا دیا۔ کچھ دیر بعد یہ قیدی ہمارے احاطے کے دروازے کو زور زور سے پیٹ رہے تھے اور اپنے احاطے کے وارڈن کے خلاف نعرے لگا رہے تھے، گالیاں دے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد جیل کے اندر موجود عملے نے پولیس کو طلب کرلیا۔ اس نے آتے ہی بے دریغ آنسو گیس کے گولے پھینکنا شروع کردیے۔ ہمارے احاطے میں گیس کے گولے گرے تو ہم سب بھاگ کر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ مچھ جیل کا احاطہ آنسو گیس کے شیلوں سے دھواں دھار ہوگیا تھا۔ ہماری آنکھوں نے جلنا شروع کردیا۔ میں جلدی سے کمرے میں گیا، آنکھوں میں پانی ڈالا اور رومال کو گیلا کرکے آنکھوں پر لگادیا۔ جیل میں قیدیوں کی چیخ پکار جاری تھی اور قیدی ان کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔ پولیس بے بس ہوچکی تھی، جیل سپرنٹنڈنٹ نے مچھ میں حکام کو اطلاع کردی کہ جیل میں قیدیوں نے بغاوت کردی ہے اور بے قابو ہوگئے ہیں، اس کا فوری تدارک نہ کیا گیا تو قیدی جیل توڑ کر فرار ہوجائیں گے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد حکام نے فیڈرل سیکورٹی فورس کو طلب کیا۔ ان قیدیوں کی بغاوت کو، جو صبح سے جاری تھی، اب کئی گھنٹے گزر گئے تھے۔ عصر کا وقت تھا کہ جیل کے احاطے میں FSF کے جوان نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے داخل ہونا شروع ہوگئے۔ یاد رہے کہ FSF ان جوانوں پر مشتمل تھی جنہوں نے بنگلادیش میں انڈین فورس کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے، جب یہ بھارت کی قید سے واپس آئے تو انہیں فوج میں نہیں لیا گیا۔ بھٹو نے ان فوجیوں پر مشتمل نئی فورس فیڈرل سیکورٹی فورس بنائی اور اسےبھی این اے کی تحریک میں استعمال کیا۔ اس فورس نے شروع میں آنسو گیس کا استعمال کیا، اس کے بعد نہتے قیدیوں پر زبردست فائرنگ شروع کردی۔ اب پوری جیل فائرنگ سے گونج رہی تھی۔ ایک طرف اندھادھند فائرنگ ہورہی تھی تو دوسری طرف سے گالیاں ساتھ ساتھ قیدیوں کی دل سوز چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ مغرب سے کچھ دیر قبل فائرنگ کا سلسلہ رُک گیا اور پورے احاطے پر سکوتِ مرگ طاری ہوگیا۔ ہم سب حیران تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے اور نہتے قیدیوں پر بے دریغ فائرنگ کیوں کی گئی؟ اور سیکورٹی فورس کے ان سپاہیوں کے نعرۂ تکبیر کی گونج اور قتل عام کے کیا معنی تھے؟ مغرب سے کچھ دیر قبل ہمارے احاطے کا دروازہ کھولا گیا تو وارڈن ہمارے لیے شام کا کھانا لایا۔ میں نے اس سے کھانا تو لے لیا لیکن اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں کھانا نہیں کھائوں گا، دل نہیں چاہ رہا ہے، اگر آپ لوگ کھائیں گے تو آپ آزاد ہیں، کھا سکتے ہیں۔ اُن سب نے کہا کہ ہم بھی کھانا نہیں کھائیں گے اور ہمارا بھی دل نہیں چاہ رہا ہے۔ دوسری صبح آدم خان آیا تو اس سے پوچھا کہ یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ آدم خان نے بتلایا کہ اس احاطے کا ایک وارڈن تھا، جب گوشت آتا تو اس میں سے وہ بوٹیاں نکال لیتا تھا اور خود کھا لیتا تھا، یہ اس کا معمول تھا، بس اس دن قیدیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ جب اس نے گوشت نکال لیا تو بعض قیدیوں نے احتجاج کیا تو اس نے گالیاں دیں، اس پر بعض قیدی بپھر گئے اور انہوں نے اس کو خوب مارا اور اُسے بے لباس کردیا، اس کی اطلاع جیل سپرنٹنڈنٹ کو پہنچی تو انہوں نے آنسو گیس کا استعمال کیا اور اس وارڈن کو ان کے پنجے سے چھڑا لیا۔ اس کے بعد اس احاطہ کو تالا لگادیا گیا، اس کو قیدیوں نے توڑ ڈالا اور بغاوت کردی۔ پولیس اور جیل کا عملہ ناکام ہوگیا تو جیل حکام نے انتظامیہ سے مدد طلب کی اور FSF جیل میں پہنچ گئی۔ آدم خان نے بتلایا کہ جیل کا سب سے مضبوط قیدی جو ان قیدیوں کا لیڈر تھا وہ اس بغاوت کا رہنما تھا اور اس کا نام لکھمیر تھا، وہ بڑا بہادر جوان تھا۔ جب FSF نے جیل کی سلاخوں سے قیدیوں پر گولیاں برسانا شروع کردیں تو لکھمیر نے دروازے کی سلاخوں کو تھام لیا اور چلاّ کر گالیاں دیں، اپنا سینہ تان لیا اور کہا کہ چلائو گولیاں۔ اس پر FSF نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور وہ دروازے کے پاس ہی ڈھیر ہوگیا، اور اس کے ساتھ ہی کئی قیدی مارے گئے۔ اس کے بعد تمام قیدیوں کے کمرے کی تلاشی لی گئی اور اُن کے اس تمام سامان کو لے لیا گیا جس کی جیل میں اجازت نہ تھی۔ کئی دنوں تک جیل میں سناٹا چھایا رہا۔ یہ بھٹو کے دور کا ایک سفاکانہ باب تھا جو مچھ جیل کی تاریخ میں لکھا گیا۔ لکھمیر کی کہانی بڑی دلچسپ اور عبرت ناک ہے۔ اس نوجوان نے ایک قتل کیا تھا، اتفاق سے جب اسے لیاقت روڈ پر ایک زرگر کی دکان پر لایا گیا تو اس وقت میں اسلامی جمعیت طلبہ میں تھا اور لیاقت روڈ پر اپنے دفتر کے نیچے سڑک پر کھڑا تھا۔ اس نوجوان کو وہاں لایا گیا تھا، اس کا نام جب بتلایا تو ذہن میں سارا نقشہ گھوم گیا۔ یہ وہی نوجوان تھا جو مچھ جیل میں 14 سال کی سزا کاٹ رہا تھا اور اب ایک ہفتے بعد اپنی قید کی مدت پوری ہونے کے بعد جیل سے رہا ہونے والا تھا اور اس کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی، شادی کا لباس تیار ہوگیا تھاکہ یہ سانحہ ہوگیا۔ اس کے والدین اپنے بیٹے کو خون آلود کپڑوں میں اپنے گھر لے جارہے تھے۔ دلہن تو سرخ جوڑا نہیں پہن سکی مگر اس کے ہونے والے خاوند نے سرخ خون آلود جوڑا پہن لیا تھا اور اس کے ماں باپ کی تمام حسرتیں اور خوشیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ اس کے پس منظر میں ایک دلچسپ کہانی اور قدرت کے انتقام کا ایک عبرت ناک باب موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نظام اس کارحانہ حیات میں مسلسل چل رہا ہے لیکن انسان بے خبر ہے، وہ جب انتقام لیتا ہے تو ویسا ہی اسٹیج تیار کرتا ہے اور وقت طے کرتا ہے، اور پھر اس کا نظام حرکت پذیر ہوتا ہے اور پردہ اُٹھنا شروع ہوتا ہے اور ڈراما شروع ہوجاتا ہے ، اور جب کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو پردہ گر جاتا ہے اور کہانی مکمل ہوجاتی ہے۔ آگے اس عبرت ناک کہانی کا باب اگلی قسط میں پڑھیں گے۔
(جاری ہے)